روزہ جسے عربی زبان میں صوم اور سنسکرت میں ورت کہتے ہیں اس کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی انسانی تاریخ قدیم ہے تاریخی روایات کے مطابق کرہ ارض پر پہلا روزہ حضرت آدم سے منسوب ہے مورخین نے اسے صیامِ توبہ سے موسوم کیا ہے علاوہ ازیں ایامِ بیض کے دنوں میں بھی حضرت آدم کے روزوں کی روایت ملتی ہے مفسرین اور مورخین کے مطابق تقریباً ہر پیغمبر اور ان کی شریعتوں میں کسی نہ کسی روپ میں روزہ رکھنے کا تصور موجود ہے جن کا تذکرہ متعدد اسلامی کتب، احادیث، تفاسیر اور تواریخ میں تذکرہ ہے قدیم تہذیبوں میں نینوا و بابل کی تہذیب، مصری تہذیب، یونانی تہذیب، ایرانی اور ہندوستانی بہت اہم نام ہیں نینوا و بابل تہذیب کے بارے صحیفہ یونس سے روایت ہے کہ یہاں آشوری قوم آباد تھی حضرت یونس کی بعثت کے وقت اس قوم نے ابتدا میں انھیں جھٹلایا اور پھر ایمان لائے ” تب نینوا کے باشندوں نے خدا پر ایمان لا کر منادی کی اور ادنیٰ و اعلیٰ سب نے ٹاٹ اوڑھا اور بادشاہ اور اس کے ارکانِ دولت کے فرمان سے نینوا میں اعلان ہوا کہ کوئی انسان یا حیوان گلہ یا رمہ کچھ نہ چکھے نہ کھائے پیے” گویا کہ یہ ایک توبہ کا انداز تھا جو روزے کی صورت میں سامنے آتا ہے یونیانیوں کے مطابق خوراک سے شیطانی قوتوں میں اضافہ ہوتا ہے لہذا یونانی روحانی ترفع کے لیے روزے کا اہتمام کرتے تھے ایک روایت کے مطابق یونانی عورتیں تھسموفریا کی تیسری تاریخ کو روزہ رکھتی تھی سید سلیمان ندوی کے مطابق قدیم مصریوں کے مذہبی تہوار شمول میں روزے کا رواج رہا ہے ایران میں پارسی زرتشت کے پیروکار تھے اور ان کی تہذیب چھے سو سال قبل ازمسیح سے ہے ان کی مقدس کتاب اوستا میں روحانی روزہ کا تذکرہ ملتا ہے ہندوستانی تہذیب میں بعض تہوار روزہ کے لیے مخصوص ہیں ان میں سب سے زیادہ مشہور تہوار ویکنتاایکاویشی جو وشنو کی طرف منسوب ہے اور ہندو مذہب میں رائج ہے اس دوران ہندو صرف روزہ ہی نہیں رکھتے بلکہ راتوں کو پوجا کرتے ہیں اور مذہبی کتابوں کی تلاوت کرتے ہیں اس کے علاوہ مہینے کی گیارہ اور بارہ تاریخ کو برہمنوں پر اکاوشی کا روزہ لازم ہے الغرض پوری اقوامِ عالم کی تہذیبوں میں روزے کا کوئی نہ کوئی روپ ملتا ہے یہ الگ بات ہے کہ روزے کے ایام کو مخصوص کرنے اور دیگر لوازمات،طریقہ کار اور میتھالوجی کے اعتبار سے بہت سارا تنوع پایا جاتا ہے مگر ایک چیز ہر تہذیب میں مشترک ہے جسم اور روح کی پاکیزگی ہے یہودیت میں ایک رواج یہ بھی ہے کہ دولہا اور دلہن پاکیزہ زندگی کے لیے شادی کے دن روزہ رکھتے ہیں
اسلام میں سن دو ہجری میں روزہ کا حکم ہوا اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو قرآنِ حکیم نے بڑے واضح انداز میں بتادیا کہ روزے صرف تم پر فرض نہیں بلکہ تم سے پہلی قوموں کے لیے بھی روزے فرض تھے اور ان کا مقصد بھی تقویٰ تھا گویا کہ روزہ کا قرآنی دلیل کے مطابق ایک ہی مقصد ہے اور وہ تقویٰ ہے باقی تمام اعمال و افعال تقویٰ کے دائرہ میں شامل ہیں قرآن میں روزہ کے لیے لفظ صوم استعمال ہوا ہے اور صوم و تقوی میں معنوی قربت بھی موجود ہے روزہ عربی لفظ صوم کے کا متبادل ہے جس کے لغوی معانی کسی امر سے رک جانا کے ہیں لفظ صوم کے بارے شیخ ابوالقاسم الحسنین بن محمد لکھتے ہیں قبل از اسلام عرب لوگ اپنے گھوڑوں کو تیز رو اور جفاکش بنانے کے لیے فاقہ دیتے اور ایسے گھوڑوں کو فرسِ صائم یعنی روزہ دار گھوڑا کہتے تھے روزہ کا اصطلاحی مفہوم صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک اپنی اہم ترین خواہشات جن سے تقویٰ ٹوٹنے کا خدشہ ہو بالخصوص بھوک،پیاس اور جنسی ملاپ سے اجتناب کرنا کے ہیں لفظ تقوی کا مادہ و ق یٰ ہے جس کے معانی بچانا کے ہیں جیسے وقنا عذاب النار اے اللہ جہنم کے عذاب سے بچا اسی سے لفظ اتقا اور تقویٰ ماخوذ ہے جس کے معانی خود کو بچانا کے ہیں عام لفظوں میں سیلف کنٹرول کہہ سکتے ہیں صوم اور تقویٰ میں یہی معنوی مشابہت بھی ہے کہ روزہ کی حالت میں ہر اس امر سے رک جانا جو غضبِ الہی کا باعث ہو گویا خود کو اللہ کے غصہ و غضب سے بچا لینا ہے
روزہ دراصل ضبطِ نفس کی ایک مشق ہے جس کے ذریعے انسان اپنی نفسانی خواہشات پر ایک اخلاقی ضابطے کو غالب کرتا ہے تاکہ وہ حیوانی جبلت سے بالاتر ہو کر اپنے human status یعنی اشرف المخلوقات پر فائز ہو سکے روزہ کے مقصد کے بارے امام عزالی لکھتے ہیں کہ “روزہ کا مقصد یہ ہے کہ آدمی اخلاقِ الہیہ میں سے ایک اخلاق کا پرتو اپنے اندر پیدا کرے جس کو صمدیت کہتے ہیں” اور روزہ ایک ایسا فعل ہے جس کے ذریعے نفس کے منہ زور گھوڑے کو لگام لگانے کی عملی تربیت ملتی ہے انسان اور حیوان میں جبلی خواہشات مشترک ہیں جیسے بھوک لگنے پر پیٹ بھرنا، پیاس لگنے پر پانی پینا اور شہوت کی آگ بجھانا انسان اور حیوان میں بنیادی فرق یہ ہے کہ انسان کی یہ جبلی خواہشات ایک اخلاقی نظام کے تابع ہیں جب کہ حیوان حلال اور حرام میں تمیز نہیں کر سکتے اگر انسان میں بھی یہ نفسانی اور جبلی خواہشات ایک خاص نظم اور ضابطے میں نہ ہوں تو وہ بھی حلال اور حرام کی تمیز چھوڑ جاتا ہے مولانا روم سے ایک ظالم شخص نے پوچھا تم اچھے ہو یا میرا یہ کتا اچھا ہے تو مولانا روم نے فرمایا اگر میرا نفس اخلاق کے ضابطے میں ہے تو میں اچھا ہوں ورنہ یہ کتا اچھا ہے انسان اور حیوان کی زندگی میں یہی بنیادی فرق ہے کہ جیوان کی نفسانی خواہشات بغیر کسی نظام کے ہیں جب کہ انسان کی نفسانی کے لیے ایک باقاعدہ اخلاقی نظام ہیں اور انسان کے تمام تر گناہ اور برائیاں ان تین جبلتوں کے بے لگام ہونے کا نتیجہ ہیں اور یہ تین جبلتیں بھوک، پیاس اور جنسی ملاپ ہیں جھوٹ، دھوکہ، قتل و غارت غلام بنانا ذخیرہ اندوزی اور دیگر برائیوں کا سبب یہی تین جبلتیں ہیں اور روزہ انھیں تین جبلتوں سے لڑنے کی ایک عملی مشق ہے تاکہ تم خود کو اللہ کی طرف سے حرام کردہ چیزوں میں ملوث ہونے سے بچا لو، خود کو اللہ کے غضب اور جہنم سے بچا لو اور یہی تقوی کے معانی بھی ہیں الغرض روزہ ایک ایسی مشق یا ریہرسل ہے جس کے دوران ان چیزوں کی بھی ممانعت ہے جو ایام صیام کے بعد حلال اور جائز ہیں تاکہ نفسانی خواہشات پر قابو پایا جائے اور حیوانی جبلت میں اعتدال قائم ہو
یہ اتنی طویل تمہید اس لیے باندھی ہے کہ روزہ کا اصل مقصود اور فلسفہ صوم واضح ہو جائے اب اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں کہ ماہِ صیام میں عام دنوں کی نسبت مہنگائی کیوں بڑھ جاتی ہے؟ لیموں جو ایک دن پہلے 120 روپے فی کلو تھا رمضان آتے ہی پانچ سو روپے فی کلو تک نرخ بڑھ گئے ہیں اسی طرح دالیں ،سبزیاں پھل اور دیگر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہوا جب کہ ماہِ صیام تو بھوک پیاس برداشت کرنے اور اگر یوں کہہ لیں تو بے جا نہیں کہ صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک فاقہ کرنے کا مہینہ ہے اس میں اشیائے خوردونوش کی فروانی کی بجائے قلت کیوں پیدا ہو جاتی ہے اس کا ایک سبب تو رسد اور طلب میں عدم توازن ہے طبقہ اشرافیہ کی ذخیرہ اندوزی گراں فروشی متعلقہ حکومتی اداروں کی نااہلی مگر ان تمام کو پسِ پشت ڈال کر اشرافیہ کے سحری اور افطاری کے دسترخوان سب سے بڑی وجہ ہیں اشرافیہ کے نزدیک ماہِ صیام ایک ریاضت یا مشقت بھری مشق نہیں ہے جس کے ذریعے تقوی اختیار ہو بلکہ اشرافیہ کے نزدیک ماہِ صیام انٹرٹینمنٹ پر مشتمل ایک تہوار ہے جس میں پہلے سے زیادہ اخراجات اور کھانے پینے کا اہتمام کیا جاتا ہے ماہِ صیام سے پہلے اشیائے خوردونوش کو کثیر تعداد میں خرید کر گھروں میں جمع کر لیتے ہیں جس سے مارکیٹ میں ایک دم قلت پیدا ہوتی ہے اور اسی حساب سے نرخ بھی بڑھ جاتے ہیں دوسری جانب ماہِ صیام میں متوسط طبقے میں بھی کھانے پینے کی اشیاء کی مقدار بڑھ جاتی ہے جہاں ہم عام معمول میں سادہ پانی پیتے ہیں وہاں ماہِ صیام میں طرح طرح کے مشروبات بنائے جاتے ہیں اشرافیہ کی سحری دیکھ کر آدمی حیرت سے دنگ رہ جاتا ہے کہ یہ نفسانی خواہش پر سیلف کنٹرول ہو رہا ہے یا خواہشات کو اور مزید بھڑکایا جا رہا ہے افطاری کے دسترخوان پر کھانوں کا تعدد اور تلون دیکھ کر بنی اسرائیل کی قوم یاد آنے لگتی ہے اس بار تو کرونا کی وجہ سے ریستورانوں پر پابندی ہے مگر معمول میں ریستورانوں پر افطار بوفے سینکڑوں ڈشز پر مشتمل ہوتے ہیں اور بڑی بے رحمی سے تقوی کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ماہِ صیام میں نفسانی خواہشات پر قابو پانے کی بجائے اسے اور رنگین کرنے کا بھرپور انتظام کیا جاتا ہے ایک متوسط گھرانے سے لے کر اشرافیہ تک ماہِ صیام کا بجٹ غیر معمولی بڑھ جاتا ہے ہر گھر میں دودھ دہی گھی سبزیاں پھل اور دیگر اشیا سے لے کر بجلی اور سوئی گیس کے بلوں تک غیر معمولی اضافہ کس بات کی طرف اشارہ ہے اب آپ کو میری طویل تمہید کی سمجھ آ رہی ہو گی کہ روزہ کا حقیقی فلسفہ کیا ہے اور ہم کس نوعیت اور کس طرز کا روزہ رکھتے ہیں روزہ جو ایک طرف روحانی ترفع اور نفسانی خواہشات پر مبنی امور کو روکنا ہے تو دوسری جانب بھوک اور پیاس کے تجربے سے گزار کر ایک احساس پیدا کرنا ہے استطاعت اور قدرت ہونے کے باوجود پھل مشروبات اور رنگ برنگے کھانوں سے رک جانے کی مشق ہے تاکہ ان افراد کا احساس پیدا ہو جن کے لباس ہی نہیں افلاس سے تن بھی پھٹے ہوئے ہیں طرح طرح کے مشروبات اور رنگ برنگے کھانوں فروٹ چاٹ ہر طرح کے پھلوں مہنگی مہنگی کھجوروں اور مٹن اور روسٹ سے بھرے دسترخوان ماہِ صیام میں مہنگائی کا باعث بنتے ہیں اور یہ طبقہ اشرافیہ ہی ہے ورنہ غریب تو پہلے بھی دو وقت کی بمشکل روٹی کھاتا ہے اور ماہِ صیام میں تو اور مشکل ہو جاتی ہے اور اس غریب کی بیٹیاں اور بیٹے نمک سے روزہ افطار کرتے ہیں اور سادہ پانی پی کر شکرِ خداوند بجا لاتے ہیں روزہ جو صبر،قناعت اور فاقہ کا درس دیتا ہے اور خواہشاتِ نفسانی پر قابو پانے ایک اخلاقی نظام کے تابع کرنے بھوک اوت پیاس کا تجربہ دے کر افلاس کے ماروں اور دائمی فاقہ کشوں کا سوز پیدا کرنے کی ایک مشق ہے ہم اس مشق کی حقیقی روح کو فراموش کر چکے ہیں اور کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمیں بھوک اور پیاس کے سوا کچھ نہیں حاصل ہو گا