Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
ویسے تو سارا قرآن ہی سرچشمہ ہدایت و نور ہے لیکن سورہ رحمان میں جمال و جلال کا تذکرہ کیا ہی خوب ہے. فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ,میں اللہ گروہ جن و انس کو اپنی نعمتوں کی یاددہانی کروائی ہے.
آیت میں کیا نغمگی اور حسن ہے کہ پڑھتے اور سنتے سمے سرور, وجد اور سرشاری کا تقدس سرتاپا ڈھانپ لیتا ہے اور خالق ارض و سماء کی نعمتیں ایک فلمی ریل کی طرح پردہ دماغ پر چلنی شروع ہوجاتی ہیں.
یہ کالم نگار انعامات الہیہ کے معاملے میں جتنا بھی شکر کرے کم ہے, جہاں رنگ ہا رنگ نعمتیں حاصل ہیں وہاں کیا خوش قسمتی ہے کہ علم و ادب کے شناورہا کی مجلسوں میں بیٹھنے کا موقع بھی ملتا رہتا ہے, جو ہاری ساری کے نصیب میں کم ہی آتا ہے.
ابصار عبدالعلی ایسی ہی شخصیت تھے جن پر زمین ناز کرتی ہے اور آسماں رشک کرتا ہے .آپ لکھنوی تہذیب کی جیتی جاگتی تصویر تھے, بات کرتے تو پھول جھڑتے, سکوت فرماتے تو سراپا وقار ٹھہرتے.
ہیچ مداں کو ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا شرف حاصل ہے, ان کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھی ہی تھیں کہ داعی اجل کا ہرکارہ آ پہنچا اور دوستی اور احترام کی یہ پتنگ آدھ آسمان ہی ٹوٹ گئی.
وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ جو بندہ کسی قوم کے ادب و ثقافت سے آگاہی نہیں رکھتا, اسے اس قوم پر حکومت یا اس کے انتظامی امور میں حصہ لینے کا کوئی حق نہیں, کیونکہ وہ بندہ اس قوم کے مزاج, رویے, اقدار اور حسن و قبح سے نابلد ہے.
چند دن پہلے لیجنڈری سٹیج آرٹسٹ مستانہ کی برسی تھی, مستانہ لاہور میں سٹیج پر پرفارم کررہے تھے, پولیس پارٹی ڈرامہ بند کروانے پہنچی, ایک پولیس کے شیرجوان نے مستانہ کے تھپڑ مارا, مستانہ نے آگے سے اپنا تعارف کروانا چاہا کہ میں…… مستانہ,,,,,, پولیس کا جوان کوثر و تسنیم میں دھلی زبان میں گویا ہوا….. تیرے مستانے دی بھین نوں……….
مستانہ نے نہ جانے زندگی میں کیا کیا کرب اٹھائے ہوں گے لیکن یہ کرب وہ نہ سہار سکا اور چولستان کے صحراؤں میں کہیں گم ہوگیا.
رقم کردہ بحث کی رو سے آپ سے سوال کرتا ہوں اور وہی سوال آپ اپنے آپ سے کریں کہ ,آیا کہ وہ پولیس والا واقف ادب و ثقافت ہوتا تو پھر بھی مستانہ کے ساتھ اس کا یہی طرز معاملہ ہوتا ؟ جی تو جواب یقینی طور پر نفی میں ہی آئے گا.
ایک پولیس والا وہ تھا جس کا آج کوئی نام بھی نہیں جانتا بس وہ ایک لعنتیں سمیٹنے والے کردار کی صورت زندہ بلکہ شرمندہ ہے.
مجھے مگر آج ایک ایسے پولیس والے کا ذکر مقصود ہے, جو نہ صرف اپنی ادب و ثقافت سے آگاہ ہے بلکہ اپنی رہتل, وسیب اور طرز زندگی کی تجسیم اور حفاظت میں سرگرداں ہے,عاصم ناسٹلجیا کا اسیر ہے اور یہ اسیری اسے ہر آن اکساتی ہے کہ وہ مٹتی رہتل کی تصویریں اپنی شاعری سے بناکر محفوظ کرتا جاتا ہے.
اسے اپنے پنجاب کی مٹتے نقوش کا ہمیشہ قلق رہتا ہے.
نہ جانے کونسا سعد وقت تھا جب عاصم پڈھیار کے مو قلم سے نظم وجود میں آئی, وہ نظم پنجابی زبان و ادب کے استاد خاور سعید بھٹہ کی نگاہ کامل میں اس طور معتبر ٹھہری کہ بھٹہ صاحب نے شاعر کے لیے نظم کے علاوہ کچھ لکھنے پر روک ہی لگا دی, تب سے عاصم پڈھیار نظمیں لکھ رہا ہے یا شاید نظمیں اسے لکھ رہی ہیں.
عاصم پڈھیار میرے خوبصورت شہر ننکانہ صاحب سے تعلق رکھتے ہیں, ننکانہ کی زمین شعر و ادب کے لیے بہت زرخیز ہے اور کیوں نہ ہو, جو دھرتی ایک شاعر, دانشور, صوفی اور گورو بابا نانک سے موسوم ہو وہاں شعر و ادب کی آبیاری ہونا اچھنبے کی بات نہیں.
عاصم پنجاب پولیس کا گھبرو جوان ہے ,اس کی پنجابی نظموں کے دو مجموعے,, کوئی تے ہووے اور,, کرونبلاں,, ادبی ثقافتی حلقوں سے شاباشی پاچکے ہیں, اس بات کا اندازہ ان کی نو شائع کتاب,, کرونبلاں,, کی پذیرائی سے ہوجاتا ہے. کرونبلاں پنجابی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب کونپلیں ہیں, ان کی شاعر مٹتے نقوش کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے کونپل کا کردار ادا کرے گی.
عاصم کے استاد جناب نصیر خان بلوچ, جن سے انہوں شاعر کی گڑھتی لی تھی وہ کہتے ہیں, کہ خاکم بدہن اگر پورا پنجاب مٹ جائے تو وارث شاہ کی ہیر پڑھ کر ہو بہو پنجاب بنایا جاسکتا ہے, اسی طرح عاصم کی شاعری سے اگر پورا نہیں تو آدھا پنجاب دوبارہ قائم کیا جاسکتا ہے.
عاصم پنجابی رہتل کا عاشق ہے,رہتل میں بے جوڑ اسے کسی طور قبول نہیں, یہ بدلاؤ چاہے رویوں میں ہو یا طرز معاشرت میں, اسے یہ بدلاؤ دکھ دیتا ہے, وہ اس دکھ کو نظموں کی صورت بیان کرتے ہیں.
وہ زندگی کے پرتو اور پرچھائیوں سے نظمیں تراشتے ہیں.
مناظر اور مظاہر کی صورت گری انتہائی سلیقے اور مہارت سے کرتے ہیں کہ قاری اور سامع کا دل چوٹ کھائے بغیر نہیں رہ سکتا.
اپنی دھرتی میں جذب ہوئے اور روایت کی طرح جڑے دکھ اور اندوہ کو وہ تند میل سے تشبیہ دیتے ہیں جو کپڑے کے تارپور کا حصہ بن جایا کرتی ہے اور کسی بلیچ, واشنگ پاؤڈر,ڈٹرجنٹ ,مشین یا دھوبی کو نہیں مانتی. لکھتے ہیں
دھرتی اتے دھوڑاں اڈیاں
امبر وی گھس میلا جاپے
جیون میلا میلا جاپے
بڈھیاں روحاں گھٹ لنگوٹے
مار چھڈے نیں حیلے ہوٹے
اگاں بالن کھار ابالن
جھمن چھٹن رج تھبوکن
ہنجواں ہاواں تے ڈسکارے
ایس وسیب دے ہڈیں رچ گئے
تند میل دے وانگوں
ناکردہ گناہوں کی سزا میں جلتے ہیں تو یوں لب کشائی کرتے ہیں
نہ مرضی دا آون میرا
نہ مرضی دا جاون
نہ میں ہتھی لیکھ بنائے
نہ ہتھیں تقدیراں
مڑ وی دھرتی نہریاں ویکھے
امبر بھریا پیتا
خورے میں کی کیتا
حداں دے وچ بدھا جیون
جیواں ادھ پڑدھا جیون
حد نئیں ہوگئی
حالات کا دھارا اگر موافقت چھوڑ بیٹھے, شاعر پھر بھی دھارے کی عدم موافقت سے نہ گھبرانے کی صلاح دیتا ہے .
میں تینوں آکھیا ہاہ نا
ہنیری رات نئیں راہندی
سویرا ہو ای جاندا اے
جے ککڑ بانگ نہ دیوے
فجر مڑ وی تے ہوندی اے
عاصم کی ہر نظم اپنے اندر حکمت اور تہذیب کا ایک گونہ جہان لیے ہوئے ہے اور اس قابل ہے کہ اس پر بات کی جائے لیکن ہر چیز کی ایک حد اور یہ کالم اتنی سی ہی بساط رکھتا ہے, سو دعا کرتا ہوں کہ عاصم کی لگائیں کونپلیں بار آور ثابت ہوں.
ویسے تو سارا قرآن ہی سرچشمہ ہدایت و نور ہے لیکن سورہ رحمان میں جمال و جلال کا تذکرہ کیا ہی خوب ہے. فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ,میں اللہ گروہ جن و انس کو اپنی نعمتوں کی یاددہانی کروائی ہے.
آیت میں کیا نغمگی اور حسن ہے کہ پڑھتے اور سنتے سمے سرور, وجد اور سرشاری کا تقدس سرتاپا ڈھانپ لیتا ہے اور خالق ارض و سماء کی نعمتیں ایک فلمی ریل کی طرح پردہ دماغ پر چلنی شروع ہوجاتی ہیں.
یہ کالم نگار انعامات الہیہ کے معاملے میں جتنا بھی شکر کرے کم ہے, جہاں رنگ ہا رنگ نعمتیں حاصل ہیں وہاں کیا خوش قسمتی ہے کہ علم و ادب کے شناورہا کی مجلسوں میں بیٹھنے کا موقع بھی ملتا رہتا ہے, جو ہاری ساری کے نصیب میں کم ہی آتا ہے.
ابصار عبدالعلی ایسی ہی شخصیت تھے جن پر زمین ناز کرتی ہے اور آسماں رشک کرتا ہے .آپ لکھنوی تہذیب کی جیتی جاگتی تصویر تھے, بات کرتے تو پھول جھڑتے, سکوت فرماتے تو سراپا وقار ٹھہرتے.
ہیچ مداں کو ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا شرف حاصل ہے, ان کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھی ہی تھیں کہ داعی اجل کا ہرکارہ آ پہنچا اور دوستی اور احترام کی یہ پتنگ آدھ آسمان ہی ٹوٹ گئی.
وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ جو بندہ کسی قوم کے ادب و ثقافت سے آگاہی نہیں رکھتا, اسے اس قوم پر حکومت یا اس کے انتظامی امور میں حصہ لینے کا کوئی حق نہیں, کیونکہ وہ بندہ اس قوم کے مزاج, رویے, اقدار اور حسن و قبح سے نابلد ہے.
چند دن پہلے لیجنڈری سٹیج آرٹسٹ مستانہ کی برسی تھی, مستانہ لاہور میں سٹیج پر پرفارم کررہے تھے, پولیس پارٹی ڈرامہ بند کروانے پہنچی, ایک پولیس کے شیرجوان نے مستانہ کے تھپڑ مارا, مستانہ نے آگے سے اپنا تعارف کروانا چاہا کہ میں…… مستانہ,,,,,, پولیس کا جوان کوثر و تسنیم میں دھلی زبان میں گویا ہوا….. تیرے مستانے دی بھین نوں……….
مستانہ نے نہ جانے زندگی میں کیا کیا کرب اٹھائے ہوں گے لیکن یہ کرب وہ نہ سہار سکا اور چولستان کے صحراؤں میں کہیں گم ہوگیا.
رقم کردہ بحث کی رو سے آپ سے سوال کرتا ہوں اور وہی سوال آپ اپنے آپ سے کریں کہ ,آیا کہ وہ پولیس والا واقف ادب و ثقافت ہوتا تو پھر بھی مستانہ کے ساتھ اس کا یہی طرز معاملہ ہوتا ؟ جی تو جواب یقینی طور پر نفی میں ہی آئے گا.
ایک پولیس والا وہ تھا جس کا آج کوئی نام بھی نہیں جانتا بس وہ ایک لعنتیں سمیٹنے والے کردار کی صورت زندہ بلکہ شرمندہ ہے.
مجھے مگر آج ایک ایسے پولیس والے کا ذکر مقصود ہے, جو نہ صرف اپنی ادب و ثقافت سے آگاہ ہے بلکہ اپنی رہتل, وسیب اور طرز زندگی کی تجسیم اور حفاظت میں سرگرداں ہے,عاصم ناسٹلجیا کا اسیر ہے اور یہ اسیری اسے ہر آن اکساتی ہے کہ وہ مٹتی رہتل کی تصویریں اپنی شاعری سے بناکر محفوظ کرتا جاتا ہے.
اسے اپنے پنجاب کی مٹتے نقوش کا ہمیشہ قلق رہتا ہے.
نہ جانے کونسا سعد وقت تھا جب عاصم پڈھیار کے مو قلم سے نظم وجود میں آئی, وہ نظم پنجابی زبان و ادب کے استاد خاور سعید بھٹہ کی نگاہ کامل میں اس طور معتبر ٹھہری کہ بھٹہ صاحب نے شاعر کے لیے نظم کے علاوہ کچھ لکھنے پر روک ہی لگا دی, تب سے عاصم پڈھیار نظمیں لکھ رہا ہے یا شاید نظمیں اسے لکھ رہی ہیں.
عاصم پڈھیار میرے خوبصورت شہر ننکانہ صاحب سے تعلق رکھتے ہیں, ننکانہ کی زمین شعر و ادب کے لیے بہت زرخیز ہے اور کیوں نہ ہو, جو دھرتی ایک شاعر, دانشور, صوفی اور گورو بابا نانک سے موسوم ہو وہاں شعر و ادب کی آبیاری ہونا اچھنبے کی بات نہیں.
عاصم پنجاب پولیس کا گھبرو جوان ہے ,اس کی پنجابی نظموں کے دو مجموعے,, کوئی تے ہووے اور,, کرونبلاں,, ادبی ثقافتی حلقوں سے شاباشی پاچکے ہیں, اس بات کا اندازہ ان کی نو شائع کتاب,, کرونبلاں,, کی پذیرائی سے ہوجاتا ہے. کرونبلاں پنجابی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب کونپلیں ہیں, ان کی شاعر مٹتے نقوش کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے کونپل کا کردار ادا کرے گی.
عاصم کے استاد جناب نصیر خان بلوچ, جن سے انہوں شاعر کی گڑھتی لی تھی وہ کہتے ہیں, کہ خاکم بدہن اگر پورا پنجاب مٹ جائے تو وارث شاہ کی ہیر پڑھ کر ہو بہو پنجاب بنایا جاسکتا ہے, اسی طرح عاصم کی شاعری سے اگر پورا نہیں تو آدھا پنجاب دوبارہ قائم کیا جاسکتا ہے.
عاصم پنجابی رہتل کا عاشق ہے,رہتل میں بے جوڑ اسے کسی طور قبول نہیں, یہ بدلاؤ چاہے رویوں میں ہو یا طرز معاشرت میں, اسے یہ بدلاؤ دکھ دیتا ہے, وہ اس دکھ کو نظموں کی صورت بیان کرتے ہیں.
وہ زندگی کے پرتو اور پرچھائیوں سے نظمیں تراشتے ہیں.
مناظر اور مظاہر کی صورت گری انتہائی سلیقے اور مہارت سے کرتے ہیں کہ قاری اور سامع کا دل چوٹ کھائے بغیر نہیں رہ سکتا.
اپنی دھرتی میں جذب ہوئے اور روایت کی طرح جڑے دکھ اور اندوہ کو وہ تند میل سے تشبیہ دیتے ہیں جو کپڑے کے تارپور کا حصہ بن جایا کرتی ہے اور کسی بلیچ, واشنگ پاؤڈر,ڈٹرجنٹ ,مشین یا دھوبی کو نہیں مانتی. لکھتے ہیں
دھرتی اتے دھوڑاں اڈیاں
امبر وی گھس میلا جاپے
جیون میلا میلا جاپے
بڈھیاں روحاں گھٹ لنگوٹے
مار چھڈے نیں حیلے ہوٹے
اگاں بالن کھار ابالن
جھمن چھٹن رج تھبوکن
ہنجواں ہاواں تے ڈسکارے
ایس وسیب دے ہڈیں رچ گئے
تند میل دے وانگوں
ناکردہ گناہوں کی سزا میں جلتے ہیں تو یوں لب کشائی کرتے ہیں
نہ مرضی دا آون میرا
نہ مرضی دا جاون
نہ میں ہتھی لیکھ بنائے
نہ ہتھیں تقدیراں
مڑ وی دھرتی نہریاں ویکھے
امبر بھریا پیتا
خورے میں کی کیتا
حداں دے وچ بدھا جیون
جیواں ادھ پڑدھا جیون
حد نئیں ہوگئی
حالات کا دھارا اگر موافقت چھوڑ بیٹھے, شاعر پھر بھی دھارے کی عدم موافقت سے نہ گھبرانے کی صلاح دیتا ہے .
میں تینوں آکھیا ہاہ نا
ہنیری رات نئیں راہندی
سویرا ہو ای جاندا اے
جے ککڑ بانگ نہ دیوے
فجر مڑ وی تے ہوندی اے
عاصم کی ہر نظم اپنے اندر حکمت اور تہذیب کا ایک گونہ جہان لیے ہوئے ہے اور اس قابل ہے کہ اس پر بات کی جائے لیکن ہر چیز کی ایک حد اور یہ کالم اتنی سی ہی بساط رکھتا ہے, سو دعا کرتا ہوں کہ عاصم کی لگائیں کونپلیں بار آور ثابت ہوں.
ویسے تو سارا قرآن ہی سرچشمہ ہدایت و نور ہے لیکن سورہ رحمان میں جمال و جلال کا تذکرہ کیا ہی خوب ہے. فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ,میں اللہ گروہ جن و انس کو اپنی نعمتوں کی یاددہانی کروائی ہے.
آیت میں کیا نغمگی اور حسن ہے کہ پڑھتے اور سنتے سمے سرور, وجد اور سرشاری کا تقدس سرتاپا ڈھانپ لیتا ہے اور خالق ارض و سماء کی نعمتیں ایک فلمی ریل کی طرح پردہ دماغ پر چلنی شروع ہوجاتی ہیں.
یہ کالم نگار انعامات الہیہ کے معاملے میں جتنا بھی شکر کرے کم ہے, جہاں رنگ ہا رنگ نعمتیں حاصل ہیں وہاں کیا خوش قسمتی ہے کہ علم و ادب کے شناورہا کی مجلسوں میں بیٹھنے کا موقع بھی ملتا رہتا ہے, جو ہاری ساری کے نصیب میں کم ہی آتا ہے.
ابصار عبدالعلی ایسی ہی شخصیت تھے جن پر زمین ناز کرتی ہے اور آسماں رشک کرتا ہے .آپ لکھنوی تہذیب کی جیتی جاگتی تصویر تھے, بات کرتے تو پھول جھڑتے, سکوت فرماتے تو سراپا وقار ٹھہرتے.
ہیچ مداں کو ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا شرف حاصل ہے, ان کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھی ہی تھیں کہ داعی اجل کا ہرکارہ آ پہنچا اور دوستی اور احترام کی یہ پتنگ آدھ آسمان ہی ٹوٹ گئی.
وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ جو بندہ کسی قوم کے ادب و ثقافت سے آگاہی نہیں رکھتا, اسے اس قوم پر حکومت یا اس کے انتظامی امور میں حصہ لینے کا کوئی حق نہیں, کیونکہ وہ بندہ اس قوم کے مزاج, رویے, اقدار اور حسن و قبح سے نابلد ہے.
چند دن پہلے لیجنڈری سٹیج آرٹسٹ مستانہ کی برسی تھی, مستانہ لاہور میں سٹیج پر پرفارم کررہے تھے, پولیس پارٹی ڈرامہ بند کروانے پہنچی, ایک پولیس کے شیرجوان نے مستانہ کے تھپڑ مارا, مستانہ نے آگے سے اپنا تعارف کروانا چاہا کہ میں…… مستانہ,,,,,, پولیس کا جوان کوثر و تسنیم میں دھلی زبان میں گویا ہوا….. تیرے مستانے دی بھین نوں……….
مستانہ نے نہ جانے زندگی میں کیا کیا کرب اٹھائے ہوں گے لیکن یہ کرب وہ نہ سہار سکا اور چولستان کے صحراؤں میں کہیں گم ہوگیا.
رقم کردہ بحث کی رو سے آپ سے سوال کرتا ہوں اور وہی سوال آپ اپنے آپ سے کریں کہ ,آیا کہ وہ پولیس والا واقف ادب و ثقافت ہوتا تو پھر بھی مستانہ کے ساتھ اس کا یہی طرز معاملہ ہوتا ؟ جی تو جواب یقینی طور پر نفی میں ہی آئے گا.
ایک پولیس والا وہ تھا جس کا آج کوئی نام بھی نہیں جانتا بس وہ ایک لعنتیں سمیٹنے والے کردار کی صورت زندہ بلکہ شرمندہ ہے.
مجھے مگر آج ایک ایسے پولیس والے کا ذکر مقصود ہے, جو نہ صرف اپنی ادب و ثقافت سے آگاہ ہے بلکہ اپنی رہتل, وسیب اور طرز زندگی کی تجسیم اور حفاظت میں سرگرداں ہے,عاصم ناسٹلجیا کا اسیر ہے اور یہ اسیری اسے ہر آن اکساتی ہے کہ وہ مٹتی رہتل کی تصویریں اپنی شاعری سے بناکر محفوظ کرتا جاتا ہے.
اسے اپنے پنجاب کی مٹتے نقوش کا ہمیشہ قلق رہتا ہے.
نہ جانے کونسا سعد وقت تھا جب عاصم پڈھیار کے مو قلم سے نظم وجود میں آئی, وہ نظم پنجابی زبان و ادب کے استاد خاور سعید بھٹہ کی نگاہ کامل میں اس طور معتبر ٹھہری کہ بھٹہ صاحب نے شاعر کے لیے نظم کے علاوہ کچھ لکھنے پر روک ہی لگا دی, تب سے عاصم پڈھیار نظمیں لکھ رہا ہے یا شاید نظمیں اسے لکھ رہی ہیں.
عاصم پڈھیار میرے خوبصورت شہر ننکانہ صاحب سے تعلق رکھتے ہیں, ننکانہ کی زمین شعر و ادب کے لیے بہت زرخیز ہے اور کیوں نہ ہو, جو دھرتی ایک شاعر, دانشور, صوفی اور گورو بابا نانک سے موسوم ہو وہاں شعر و ادب کی آبیاری ہونا اچھنبے کی بات نہیں.
عاصم پنجاب پولیس کا گھبرو جوان ہے ,اس کی پنجابی نظموں کے دو مجموعے,, کوئی تے ہووے اور,, کرونبلاں,, ادبی ثقافتی حلقوں سے شاباشی پاچکے ہیں, اس بات کا اندازہ ان کی نو شائع کتاب,, کرونبلاں,, کی پذیرائی سے ہوجاتا ہے. کرونبلاں پنجابی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب کونپلیں ہیں, ان کی شاعر مٹتے نقوش کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے کونپل کا کردار ادا کرے گی.
عاصم کے استاد جناب نصیر خان بلوچ, جن سے انہوں شاعر کی گڑھتی لی تھی وہ کہتے ہیں, کہ خاکم بدہن اگر پورا پنجاب مٹ جائے تو وارث شاہ کی ہیر پڑھ کر ہو بہو پنجاب بنایا جاسکتا ہے, اسی طرح عاصم کی شاعری سے اگر پورا نہیں تو آدھا پنجاب دوبارہ قائم کیا جاسکتا ہے.
عاصم پنجابی رہتل کا عاشق ہے,رہتل میں بے جوڑ اسے کسی طور قبول نہیں, یہ بدلاؤ چاہے رویوں میں ہو یا طرز معاشرت میں, اسے یہ بدلاؤ دکھ دیتا ہے, وہ اس دکھ کو نظموں کی صورت بیان کرتے ہیں.
وہ زندگی کے پرتو اور پرچھائیوں سے نظمیں تراشتے ہیں.
مناظر اور مظاہر کی صورت گری انتہائی سلیقے اور مہارت سے کرتے ہیں کہ قاری اور سامع کا دل چوٹ کھائے بغیر نہیں رہ سکتا.
اپنی دھرتی میں جذب ہوئے اور روایت کی طرح جڑے دکھ اور اندوہ کو وہ تند میل سے تشبیہ دیتے ہیں جو کپڑے کے تارپور کا حصہ بن جایا کرتی ہے اور کسی بلیچ, واشنگ پاؤڈر,ڈٹرجنٹ ,مشین یا دھوبی کو نہیں مانتی. لکھتے ہیں
دھرتی اتے دھوڑاں اڈیاں
امبر وی گھس میلا جاپے
جیون میلا میلا جاپے
بڈھیاں روحاں گھٹ لنگوٹے
مار چھڈے نیں حیلے ہوٹے
اگاں بالن کھار ابالن
جھمن چھٹن رج تھبوکن
ہنجواں ہاواں تے ڈسکارے
ایس وسیب دے ہڈیں رچ گئے
تند میل دے وانگوں
ناکردہ گناہوں کی سزا میں جلتے ہیں تو یوں لب کشائی کرتے ہیں
نہ مرضی دا آون میرا
نہ مرضی دا جاون
نہ میں ہتھی لیکھ بنائے
نہ ہتھیں تقدیراں
مڑ وی دھرتی نہریاں ویکھے
امبر بھریا پیتا
خورے میں کی کیتا
حداں دے وچ بدھا جیون
جیواں ادھ پڑدھا جیون
حد نئیں ہوگئی
حالات کا دھارا اگر موافقت چھوڑ بیٹھے, شاعر پھر بھی دھارے کی عدم موافقت سے نہ گھبرانے کی صلاح دیتا ہے .
میں تینوں آکھیا ہاہ نا
ہنیری رات نئیں راہندی
سویرا ہو ای جاندا اے
جے ککڑ بانگ نہ دیوے
فجر مڑ وی تے ہوندی اے
عاصم کی ہر نظم اپنے اندر حکمت اور تہذیب کا ایک گونہ جہان لیے ہوئے ہے اور اس قابل ہے کہ اس پر بات کی جائے لیکن ہر چیز کی ایک حد اور یہ کالم اتنی سی ہی بساط رکھتا ہے, سو دعا کرتا ہوں کہ عاصم کی لگائیں کونپلیں بار آور ثابت ہوں.
ویسے تو سارا قرآن ہی سرچشمہ ہدایت و نور ہے لیکن سورہ رحمان میں جمال و جلال کا تذکرہ کیا ہی خوب ہے. فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ,میں اللہ گروہ جن و انس کو اپنی نعمتوں کی یاددہانی کروائی ہے.
آیت میں کیا نغمگی اور حسن ہے کہ پڑھتے اور سنتے سمے سرور, وجد اور سرشاری کا تقدس سرتاپا ڈھانپ لیتا ہے اور خالق ارض و سماء کی نعمتیں ایک فلمی ریل کی طرح پردہ دماغ پر چلنی شروع ہوجاتی ہیں.
یہ کالم نگار انعامات الہیہ کے معاملے میں جتنا بھی شکر کرے کم ہے, جہاں رنگ ہا رنگ نعمتیں حاصل ہیں وہاں کیا خوش قسمتی ہے کہ علم و ادب کے شناورہا کی مجلسوں میں بیٹھنے کا موقع بھی ملتا رہتا ہے, جو ہاری ساری کے نصیب میں کم ہی آتا ہے.
ابصار عبدالعلی ایسی ہی شخصیت تھے جن پر زمین ناز کرتی ہے اور آسماں رشک کرتا ہے .آپ لکھنوی تہذیب کی جیتی جاگتی تصویر تھے, بات کرتے تو پھول جھڑتے, سکوت فرماتے تو سراپا وقار ٹھہرتے.
ہیچ مداں کو ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا شرف حاصل ہے, ان کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھی ہی تھیں کہ داعی اجل کا ہرکارہ آ پہنچا اور دوستی اور احترام کی یہ پتنگ آدھ آسمان ہی ٹوٹ گئی.
وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ جو بندہ کسی قوم کے ادب و ثقافت سے آگاہی نہیں رکھتا, اسے اس قوم پر حکومت یا اس کے انتظامی امور میں حصہ لینے کا کوئی حق نہیں, کیونکہ وہ بندہ اس قوم کے مزاج, رویے, اقدار اور حسن و قبح سے نابلد ہے.
چند دن پہلے لیجنڈری سٹیج آرٹسٹ مستانہ کی برسی تھی, مستانہ لاہور میں سٹیج پر پرفارم کررہے تھے, پولیس پارٹی ڈرامہ بند کروانے پہنچی, ایک پولیس کے شیرجوان نے مستانہ کے تھپڑ مارا, مستانہ نے آگے سے اپنا تعارف کروانا چاہا کہ میں…… مستانہ,,,,,, پولیس کا جوان کوثر و تسنیم میں دھلی زبان میں گویا ہوا….. تیرے مستانے دی بھین نوں……….
مستانہ نے نہ جانے زندگی میں کیا کیا کرب اٹھائے ہوں گے لیکن یہ کرب وہ نہ سہار سکا اور چولستان کے صحراؤں میں کہیں گم ہوگیا.
رقم کردہ بحث کی رو سے آپ سے سوال کرتا ہوں اور وہی سوال آپ اپنے آپ سے کریں کہ ,آیا کہ وہ پولیس والا واقف ادب و ثقافت ہوتا تو پھر بھی مستانہ کے ساتھ اس کا یہی طرز معاملہ ہوتا ؟ جی تو جواب یقینی طور پر نفی میں ہی آئے گا.
ایک پولیس والا وہ تھا جس کا آج کوئی نام بھی نہیں جانتا بس وہ ایک لعنتیں سمیٹنے والے کردار کی صورت زندہ بلکہ شرمندہ ہے.
مجھے مگر آج ایک ایسے پولیس والے کا ذکر مقصود ہے, جو نہ صرف اپنی ادب و ثقافت سے آگاہ ہے بلکہ اپنی رہتل, وسیب اور طرز زندگی کی تجسیم اور حفاظت میں سرگرداں ہے,عاصم ناسٹلجیا کا اسیر ہے اور یہ اسیری اسے ہر آن اکساتی ہے کہ وہ مٹتی رہتل کی تصویریں اپنی شاعری سے بناکر محفوظ کرتا جاتا ہے.
اسے اپنے پنجاب کی مٹتے نقوش کا ہمیشہ قلق رہتا ہے.
نہ جانے کونسا سعد وقت تھا جب عاصم پڈھیار کے مو قلم سے نظم وجود میں آئی, وہ نظم پنجابی زبان و ادب کے استاد خاور سعید بھٹہ کی نگاہ کامل میں اس طور معتبر ٹھہری کہ بھٹہ صاحب نے شاعر کے لیے نظم کے علاوہ کچھ لکھنے پر روک ہی لگا دی, تب سے عاصم پڈھیار نظمیں لکھ رہا ہے یا شاید نظمیں اسے لکھ رہی ہیں.
عاصم پڈھیار میرے خوبصورت شہر ننکانہ صاحب سے تعلق رکھتے ہیں, ننکانہ کی زمین شعر و ادب کے لیے بہت زرخیز ہے اور کیوں نہ ہو, جو دھرتی ایک شاعر, دانشور, صوفی اور گورو بابا نانک سے موسوم ہو وہاں شعر و ادب کی آبیاری ہونا اچھنبے کی بات نہیں.
عاصم پنجاب پولیس کا گھبرو جوان ہے ,اس کی پنجابی نظموں کے دو مجموعے,, کوئی تے ہووے اور,, کرونبلاں,, ادبی ثقافتی حلقوں سے شاباشی پاچکے ہیں, اس بات کا اندازہ ان کی نو شائع کتاب,, کرونبلاں,, کی پذیرائی سے ہوجاتا ہے. کرونبلاں پنجابی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب کونپلیں ہیں, ان کی شاعر مٹتے نقوش کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے کونپل کا کردار ادا کرے گی.
عاصم کے استاد جناب نصیر خان بلوچ, جن سے انہوں شاعر کی گڑھتی لی تھی وہ کہتے ہیں, کہ خاکم بدہن اگر پورا پنجاب مٹ جائے تو وارث شاہ کی ہیر پڑھ کر ہو بہو پنجاب بنایا جاسکتا ہے, اسی طرح عاصم کی شاعری سے اگر پورا نہیں تو آدھا پنجاب دوبارہ قائم کیا جاسکتا ہے.
عاصم پنجابی رہتل کا عاشق ہے,رہتل میں بے جوڑ اسے کسی طور قبول نہیں, یہ بدلاؤ چاہے رویوں میں ہو یا طرز معاشرت میں, اسے یہ بدلاؤ دکھ دیتا ہے, وہ اس دکھ کو نظموں کی صورت بیان کرتے ہیں.
وہ زندگی کے پرتو اور پرچھائیوں سے نظمیں تراشتے ہیں.
مناظر اور مظاہر کی صورت گری انتہائی سلیقے اور مہارت سے کرتے ہیں کہ قاری اور سامع کا دل چوٹ کھائے بغیر نہیں رہ سکتا.
اپنی دھرتی میں جذب ہوئے اور روایت کی طرح جڑے دکھ اور اندوہ کو وہ تند میل سے تشبیہ دیتے ہیں جو کپڑے کے تارپور کا حصہ بن جایا کرتی ہے اور کسی بلیچ, واشنگ پاؤڈر,ڈٹرجنٹ ,مشین یا دھوبی کو نہیں مانتی. لکھتے ہیں
دھرتی اتے دھوڑاں اڈیاں
امبر وی گھس میلا جاپے
جیون میلا میلا جاپے
بڈھیاں روحاں گھٹ لنگوٹے
مار چھڈے نیں حیلے ہوٹے
اگاں بالن کھار ابالن
جھمن چھٹن رج تھبوکن
ہنجواں ہاواں تے ڈسکارے
ایس وسیب دے ہڈیں رچ گئے
تند میل دے وانگوں
ناکردہ گناہوں کی سزا میں جلتے ہیں تو یوں لب کشائی کرتے ہیں
نہ مرضی دا آون میرا
نہ مرضی دا جاون
نہ میں ہتھی لیکھ بنائے
نہ ہتھیں تقدیراں
مڑ وی دھرتی نہریاں ویکھے
امبر بھریا پیتا
خورے میں کی کیتا
حداں دے وچ بدھا جیون
جیواں ادھ پڑدھا جیون
حد نئیں ہوگئی
حالات کا دھارا اگر موافقت چھوڑ بیٹھے, شاعر پھر بھی دھارے کی عدم موافقت سے نہ گھبرانے کی صلاح دیتا ہے .
میں تینوں آکھیا ہاہ نا
ہنیری رات نئیں راہندی
سویرا ہو ای جاندا اے
جے ککڑ بانگ نہ دیوے
فجر مڑ وی تے ہوندی اے
عاصم کی ہر نظم اپنے اندر حکمت اور تہذیب کا ایک گونہ جہان لیے ہوئے ہے اور اس قابل ہے کہ اس پر بات کی جائے لیکن ہر چیز کی ایک حد اور یہ کالم اتنی سی ہی بساط رکھتا ہے, سو دعا کرتا ہوں کہ عاصم کی لگائیں کونپلیں بار آور ثابت ہوں.