Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
تبلیغی جماعت کا خاصہ یہ رہا ہے کہ یہ اس پگڈنڈی پر نہیں چلتی تھی جس پر گھاس نہ اگے یہ تبلیغی خاموشی کے ساتھ کسی جھگڑے میں پڑے بغیر دلوں پر دستک دیا کرتے تھے کوئی گالی دے تو ہاتھ اٹھا کر دعائیں دیتے لاٹھی مارے تو دوا لے کر چپ ہو رہتے مساجد سے نکال باہر کرنا ان کا سامان اٹھا کر باہر پھینک دینا یہ تو عام سی باتیں ہیں لیکن انہوں نے کبھی اپنے زخموں کو اشتہار نہیں بنایا ، یہ ہمیشہ ہر قسم کے قضیئے سے دور رہے ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات ہوتے رہے نوزائیدہ بچوں کو چار چار ٹکڑوں میں کاٹ کاٹ کر پھینکا جاتا رہا لیکن “نظام الدین ” نے دعوت کی خاطر اشک پیئے رکھے
تبلیغی جمااعت کا سب سے بڑا اثاثہ شخصیت پرستی کی نفی رہا ہے اس جماعت میں صرف ہادی ء برحق کے قصیدہ گو ملیں گے اسی کے پرستار اور ثناء خواں دکھائی دیں گے اس کے سوا کوئی عبدالوہاب بھی ہوتا ہے تو ہوتا رہے اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے عبدالوہاب صاحب مرحوم و مغفور کو ان کے پاس کون کون نہ پہنچا ، تیل کے کنوؤں کے مالک بلینک چیک لے کر پہنچتے تھے ،چارٹرڈ طیاروں میں اڑانیں بھرنے والے عرب شہزادے دو زانو ہو کر بیٹھتے تھے لیکن کبھی کہیں خبر لگی ؟ کیا کیا افتاد نہ آئیں لیکن مولانا کسی نیوز چینل کو دستیاب نہ ہوئے کبھی کسی چینل پر لائیو نہیں آئے شائد وہ شہرت کے چسکے سے باخبر تھے اس کے مضمرات جانتے تھے خبر تھی کہ شہرت خودپسندی کی سیڑھی پر چڑھاتی ہے اور یہ سیڑھی بظاہر بلندی لیکن درحقیقت پستی میں لے جاتی ہے
تبلیغی جماعت کی ایک اور پہچان حکمرانوں اور حکومت سے فاصلہ تھا یہ فاصلے ان کی ڈھال بھی تھا جو جماعت کو زمانے کے سردو گرم سے بچائے رکھتا تھا اور مولانا طارق جمیل نے یہ ڈھال پھینک دی اب ان پر حملے ہو رہے ہیں تو کیسا اچنبھا؟ وہ اپنے ممدوح حکمران کی طرح بس بول پڑتے ہیں اور پھر معذرتیں کرتے پھرتے ہیں
مولانا غضب کے مقرر ہیں مجمع پر سحر طاری کر لیتے ہییں ان کی اثر پذیری حد سے بڑھنے لگی توجماعت کے اکابر نے مولانا طارق جمیل صاحب کا بیان رائے ونڈ سے ہٹایا دیا کہ ان کے پر اثر انداز بیاں سے لوگ چونک چونک جاتے تھے بیان سے زیادہ بیان کرنے والے کا ذکر ہونے لگتا ہے جو تبلیغی جماعت کی فکر سے متصادم تھا افسوس آج مولانا طارق جمیل صاحب شہرت کی چاٹ میں آگئے پہلے وہ نیوز چینل پر آواز کی حد تک دستیاب تھے پھر باتصویر دستیاب ہونے لگے چالاک سیاستدانوں کو ان کی غیر متنازعہ فالوونگ کا علم تھا وہ اس سے استفادہ کرنے لگے اور ان کی غیر متنازعہ مقبولیت سے “غیر” کا لفظ گھٹتا چلا گیا اب مقبولیت کی جگہ متنازعہ شہرت ہی رہ گئی ہے ، انا للہ وانا الیہ راجعون