خامہ فرسائی کرتے ہوئے پچاس برس پورے ہونے کو ہیں۔ اس اثنا میں مختلف انداز ہائے تحریر نظر سے گذرے۔ پہلے زیادہ وہی تحریریں پڑھی جاتی تھیں جن میں عمق اور گیرائی ہوتی تھی۔ عمق کے بنا گیرائی کی حامل تحریر نعرے دہرانے یعنی Rhetorics بن کر کے رہ جاتی ہے۔ کچھ عرصہ بعد اس میں یکسانیت جگہ پا لیتی ہے۔ بہت سے پسندیدہ لکھنے والے اگر ناپسندیدہ نہیں تو ایسے ضرور بن جاتے ہیں جن کی دس منٹ میں پڑھی جانے والی تحریر کو سیکنڈوں میں سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ عمق برقرار نہیں رہتا اور گیرائی کمزور پڑ چکی ہوتی ہے۔ جیسے کچھ اگر طنز کو شعار بناتے ہیں تو اس پر ٹک کر کے رہ جاتے ہیں، اگر معلومات عامہ کا ذکر کرکے اس سے کچھ اخذ کرتے ہیں تو یہی معلومات عامہ جگالی بن کر رہ جاتی ہیں یا اگر کوئی پاکستان کی مختصر تاریخ سے کچھ ثابت کرنے پر جتا ہے تو اس پر جم کر رہ جاتا ہے باقی لفظوں کی سحر انگاری ہوتی ہے۔
مگر آج کی تیزی سے تبدیل ہوتی دنیا میں سوشل میڈیا کے دیوانوں کی اکثریت کو بار بار دہرائی جانے والی باتیں اور ایسی باتیں جو معاشرے میں موجود قدروں، غلط یا درست کے ساتھ متصادم ہوں، اچھی لگتی ہیں۔ ایک تو آبادی میں نوجوانوں کی شرح ساٹھ فیصد سے زیادہ ہے جو معاشرتی تبدیلی میں عجلت کے خوگر ہیں، دوسرے وہ حکام اور زعماء سے نالاں ہیں، چاہتے ہیں کہ ملک میں یورپ اور امریکہ کی طرز کے حکمران ہوں۔ ان کے ہاں جیسی سہولیات ہوں اور کم و بیش ان جیسی ہی آزادی حاصل ہو۔ باہر بیٹھ کر لکھنے والے کچھ لوگ بھی وہاں کی ایسی تصویر کشی کرتے ہیں جیسے ان کی تحاریر سے ہی پاکستان میں بھی جلد لوگوں کی نفسیات وہاں کے لوگوں جیسی ہو جائے گی اور طبی و تعلیمی سہولتیں بھی لوگوں کو ویسے ہی ملنے لگیں گی جیسے جہاں وہ مقیم ہیں وہاں کے لوگوں کو حاصل ہیں۔
ہر صاحب فکر یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ معاشرے کا پہلے ڈھانچہ بدلنا ہوتا ہے جس کے بعد اس کی بنت کا عمل شروع ہوتا ہے۔ ڈھانچہ اور کچھ نہیں معیشت ہوا کرتی ہے۔ اگر آپ کے ہاں کی معیشت مناسب نہیں، اگر آپ کے ہاں صنعتی ترقی نہیں، اگر آپ بنیادی سہولتوں سے عاری ہیں، اگر آپ کی آبادی کا ساٹھ پینسٹھ فیصد زرعی ہے، اگر آپ کے ہاں دو ڈھائی کروڑ لوگوں کو رفع حاجت کی مناسب جگہ میسر نہیں، اگر آپ کی آبادی کا معتد بہ حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے تو آپ کے تمام خوش نما مشورے وہ جھنڈیاں ثابت ہوتی ہیں جنہیں بنا سیڑھی کی رسی میں چپکائے اور ارد گرد کیل گاڑے جانے کی جگہوں کے بغیر ہوا میں لگایا جا رہا ہو۔ سادہ لفظوں میں ڈھانچہ موجود نہیں اور آپ ہوا میں تزئین کاری کرنے کے مسلسل عمل میں مبتلا ہونے کو اپنی کامیابی کا راستہ سمجھ رہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ میرا ان کو ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھ رہنے کا مشورہ ہے۔ وہ جو کر رہے ہیں، جیسا لکھ رہے ہیں، ضرور کریں اور ضرور لکھیں لیکن اس سے کسی تبدیلی کی امید رکھے جانا عبث ہے۔
ہمارے بظاہر روشن خیال دوست جن بیچاروں کا خود کے لیے اختیار کردہ لفظ “لبرل” جو ان کے سیاسی و سماجی اطوار کا اظہار ہے، ان کے لیے طعنہ بلکہ گالی بن چکا ہے، عوام میں جائے بغیر “بند کلب” کی طرح اپنے تئیں اچھی اچھی باتیں لکھ کر خوش گمانی رکھتے ہیں کہ وہ کچھ کر رہے ہیں جو بہتری لانے میں ممد ہوگا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ میدان میں وہ لوگ زیادہ بلکہ بہت زیادہ ہیں جو ان کی کہی اچھی اچھی باتوں کے شدید مخالف ہیں۔ وہ ان کی کہی باتوں کا جواب دینے کی بجائے ان کا ٹھٹھا اڑانے پر اکتفا کرتے ہیں۔ ایک دو ویب سائٹس پہ کی جانے والی اچھی تحریری گفتگوئیں ، پورے میں سٹریم میڈیا، جن میں اخبارات بھی ہیں، جرائد بھی اور الیکٹرونک میڈیا بھی، رجعتی حلقے بھی، سوچ کو گرفت میں رکھنے والی سیاسی پارٹیاں بھی، کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔
پھر ایسی تحریروں کے قارئین میں بقول ایک معروف دانشور اور ایڈیٹر کے بین الاقوامی تناظر میں لکھی جانے والی تحریریں پڑھ کر متبادل نقطہ نظر جاننے کے خواہاں افراد بہت کم ہیں یہی وجہ ہے کہ مشرق وسطٰی، روس سے متعلق یا امریکہ برطانیہ کے علاوہ دیگر ملکوں کے بارے میں لکھی تحریروں کو انہیں کالم کی بجائے “بلاگ” کے خانے میں دھرنا پڑتا ہے۔ کالم میں انہی کی تحریریں ہونگی جو مین سٹریم میں لکھتے، بولتے ہیں یا وہ تحریریں جو پاکستانی معاشرے کا کسی نہ کسی حوالے سے امریکہ، برطانیہ، کینیڈا وغیرہ سے تقابل کرتی ہوں۔ بین الاقوامی معلومات میں دلچسپی کا فقدان بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ پڑھنے والوں کی اکثریت مقامی Rhetorics کو پسند کرتی ہے۔