Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
مغربی ممالک میں ایک عرصہ تک حاکمیت کے تمام تر اختیارات بادشاہ،جاگیردار اور مذہبی پیشواؤں کے درمیان دائر رہے ہیں اور عوام صدیوں تک اس جابرانہ تکون کی چکی میں پستے رہے اس جابرانہ تکون سے نجات حاصل کرنے کے لیے 1215ء میں برطانوی عوام نے رنی میڈ کے مقام پر اپنے بادشاہ کنگ جان اور جاگیرداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا ایک معاہدہ طے کیا جسے مغربی تاریخ میں میگنا کارٹا کا نام دیا گیا مغرب میں میگنا کارٹا کو انسانی حقوق کی پہلی باقاعدہ دستاویز کی حیثیت حاصل ہے اس کے بعد 1684ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے بل آف رائٹس منظور کیا جو انسانی حقوق کی دستاویزات میں ایک اہم پیشِ رفت تھی ادھر تھامس جیفرسن نے برطانوی استعمار کے تسلط سے امریکہ کی مکمل آذادی کا اعلان کیا اور 1789ء میں امریکی کانگرس سے اس دستور میں ترامیم کر کے عوامی حقوق کو دستور کا حصہ بنایا اس کے بعد فرانس میں ریاستی معاملات میں چرچ کی مداخلت کو مسترد کرتے ہوئے شہری حقوق کا قانون ڈیکلیریشن آف رائٹس آف مین منظور کیا جس نے فرانس میں پورے سیاسی و سماجی نظام کی کایا پلٹ دی تاریخ میں اسے انقلابِ فرانس سے یاد کیا جاتا ہے
بیسوی صدی کے دوسرے عشرے میں برطانیہ اور جرمنی کے درمیان جنگِ عظیم اول کی صورت میں پوری دنیا متاثر ہوئی اس جنگ میں عالمِ اسلام کی نمایندہ حکومت خلافتِ عثمانیہ نے جرمنی کا ساتھ دیا چنانچہ جرمنی کے ساتھ خلافتِ عثمانیہ بھی شکست سے دوچار ہوئی جنگِ عظیم اول میں لاکھوں انسانوں کا قتلِ عام ہوا جس کے بعد بین الاقوامی تنظیم لیگ آف نیشنز قائم کی گئی جس کا مقصد ممالک کے درمیان تنازعات کو حل کرنا اور جنگی صورتِ حال سے دور رکھنا تھا لیکن لیگ آف نیشنز اپنے مقاصد میں ناکام ہوئی اور بیسوی صدی کے چوتھے اور پانچویں عشرے کے درمیان پھر سے جنگ شروع ہوئی جس میں جرمنی اور جاپان ایک طرف برطانیہ فرانس اور روس دوسری طرف تھے اس جنگ میں پہلے سے زیادہ قتل و غارت ہوئی اس جنگ کو دوسری جنگِ عظیم کہا گیا جنگ کے آخری مراحل میں امریکہ نے اتحادیوں کی حمایت میں جنگ میں شریک ہو کر جاپان کے دو بڑے شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرا کر جاپان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا
اس کے بعد ایک اور عالمی تنظیم اقوامِ متحدہ کے نام سے وجود میں آئی جو نہ صرف اب تک قائم ہے بلکہ پوری عالمی برادری کے مسائل بھی کنٹرول کرنے کا دعوی کرتی ہے اسی تناظر میں 10 دسمبر 1948ء کو اقوامِ متحدہ کے عالمی فورم پر 30 دفعات پر مشتمل انسانی حقوق کا عالمی منشور کے نام سے منشور پاس ہوا جسے آج کی دنیا انسانیت کا معیار قرار دے کر تشہیر کرتی ہے
ذیل میں عالمی منشور برائے انسانی حقوق اور ففتھ جنریشن وار فئیر کی صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے گا عالمی منشور برائے انسانی حقوق کی تمہید میں یہ بات درج ہے کہ عام انسانوں کی بلند ترین آرزو یہ رہی ہے کہ ایسی دنیا وجود میں آئے جس میں تمام انسانوں کو اپنے عقیدے پر رہنے کی مکمل آزادی حاصل ہو اور خوف اور احتیاج سے محفوظ رہیں دفعہ نمبر 03 میں یہ بات واضح ہے کہ تمام انسان بلاتفریق رنگ، نسل، زبان، مذہب، وطن،کلچر اور دیگر نظریات میں آزاد ہیں اور ان سے یکساں سلوک کیا جائے گا اور انھیں اپنے ضمیر اور عقل کے مطابق آزادی حاصل ہو گی دفعہ نمبر 12 میں کسی بھی شخص کی نجی زندگی گھریلو معاملات اور ذاتی خط و کتابت میں مداخلت نہیں کی جائے گی اور نہ ہی عزت و عصمت پر حملہ کیا جائے گا دفعہ نمبر 30 میں کہ کسی بھی ملک کو ایسی سرگرمی کی اجازت نہیں دی جائے گی جس کی غرض ان حقوق اور آزادیوں کی تخریب ہو جو عالمی منشور برائے انسانی حقوق میں شامل ہیں ان دفعات کا تذکرہ کرنا یہ مقصود ہے کہ موجودہ عالمی اور ملکوں کی اندرونی صورتِ حال میں ففتھ جنریشن وار مسلط کر کے تخریب اور انحراف کی صورتیں زیادہ واضح ہیں یہ ففتھ جنریشن وار فئیر کی اصطلاح بہت عام ہے اور ہر کوئی اس کے مفہوم سے واقف ہے کہ جنگوں کے مختلف ادوار گزرے ہیں پوری دنیا فرسٹ جنریشن وار فئیر سے ففتھ جنریشن وار فئیر تک پہنچ چکی ہے ففتھ وار جنریشن دراصل نان اسٹیٹ ایکٹرز، مخالف ممالک اور عوامی سہولت کاروں کے ذریعے ایک غیر اعلانیہ جنگی ماڈل ہے جس میں عوام کے اندر ذہنی خلفشار، فکری تضادات، لسانی جھگڑے، کنفیوژن،مسلکی اور صوبائی تعصبات کو ہوا دے کر ملک کی سالمیت کو سبوتاژ کرنے کے مختلف پروپیگنڈے کیے جاتے ہیں امریکہ نے صدام حسین کو ظالم ظاہر کر کے عوام میں نفرت پھیلائی اس کے علاوہ اسلام میں دہشت گرد عناصر کو شامل کر کے ایک فکری پروپیگنڈا تشکیل دیا سعودی عرب اور ایران کے درمیان تنازعات وغیرہ ادبیات میں مابعد جدید نظریات معانی کا التوا میں رہنا ردتشکیلات اور بیانیہ کی غیر حتمیت جیسی تھیوریز کو فروغ دیا سوشل میڈیا کے ذریعے ایسی فلمیں اور ڈرامے نشر کیے جس سے ہر فرد ذہنی خلفشار کا شکار ہو رہا ہے پورن سائٹس کو اربوں کی فنڈنگ دے کر نفسیاتی مفلوجیت کا سامان اکٹھا کیا اخلاقی بیانیوں کو سبوتاژ کیا اور خانگی زندگی میں جنسی تنازعات کو فروغ دے کر تقافت اور سماج میں خلیج پیدا کی دوسری جانب ملکوں کے اندر ریاستی اداروں میں اختلافات اور پھر ان اختلافات کو میڈیا کے ذریعے عوام کے ذہنوں تک پہچایا فوج، حکومت اور عدلیہ کے درمیان باہمی معاونی لہر کو متاثر کیا جس کا شکار عمومی طور پر تیسری دنیا کے ممالک ہیں پاکستان میں پشتون تحفظ موومنٹ، بلوچ لبریشن آرمی اور صوبوں کی علیحدگی کی فضا یہ سب ففتھ جنریشن وار کا نتیجہ ہے ففتھ جبریشن وار کا سب سے بڑا ہتھیار سوشل میڈیا ہے مختلف ویب سائٹس، ایپ اور انٹرنیٹ پر ڈیخیٹل فراڈیوں کی ایک باقاعدہ تنظیم موجود ہے جو جھوٹی خبروں کی اشاعت سے لے کر متضاد صورتِ حال کی تشکیل تک کام کر رہے ہیں لبرل علماء کی غلطیاں تلاش کرکے علماء بیزاری کے رویوں کی تشہیر کر رہے ہیں اور علماء لبرل افراد کے خلاف صف آرا ہیں ففتھ جنریشن وار کو سائبر وار یا ڈس انفارمیشن وار بھی کہا جا سکتا ہے
کیا یہ صرف اتفاق ہے یا ایک باقاعدہ منظم لائحہ عمل ہے کہ ففتھ جنریشن وار کا شکار عمومی طور پر تیسری دنیا کے ممالک ہیں اور نفسیاتی طور تیسری دنیا کی اصطلاح بذاتِ خود عالمی منشور برائے انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی ہے کیا لیگ آف نیشن کی طرح اقوامِ متحدہ بھی ناکام ہو چکی ہے یا اقوامِ متحدہ خود عالمی منشور برائے انسانی حقوق کو پامال کر رہی ہے اور انسانی ضمیر ذہن اور آزادی کو اپنے معاشی مفاد کے لیے استعمال کر رہی ہے کیونکہ عالمی ادارے اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں کام کر رہے ہیں اور انھیں کے مطابق معلومات نشر کرتے ہیں تیسری دنیا کے ممالک میں اپنی مرضی کی لیڈرشب لانا، اپنی مرضی کا نظامِ تعلیم اور نظریات کو فروغ دینا ملکی اور سماجی بیانیوں کو کمزور کرنا اور پھر عوام کو اپنے مفاد میں سہولت کار بنانا ہے اور یہ سارا کام مکمل پلاننگ سے کیا جاتا ہے کشمیر کی موجود صورتِ حال فلسطین پر اسرائیلی غاصبیت پر اقوامِ متحدہ کی غیر سنجیدگی ملٹی نیشنل کمپنیز کے ذریعے انسانی صحت اور جانوں سے کھلواڑ اور میڈیائی پروپیگنڈا ایک طرف فاسٹ فوڈر کے اشتہارات اور دوسری جانب تیزابیت کی ادویات کی تجارت یہ سب میڈیا کے ذریعے جسم سے لے کر ذہنوں تک رحجان سازی کی جارہی ہے اور اقوام متحدہ کے تشکیل کردہ عالمی منشور برائے انسانی حقوق کی سراسر خلاف ورزی کی جا رہی ہے کیا انسانی حقوق کے نئے عالمی منشور کی ضرورت ہے یا ترقی یافتہ ممالک نے یہ منشور صرف تشکیل دیا ہے اور اس کے جھانسے میں خود تخریب کاری کا ارتکاب کرتے ہوئے ففتھ جنریشن وار مسلط کی ہوئی ہے اس پر ایک بہت سنجیدہ مکالمے کی ضرورت ہے جو عالمی سطح پر انعقاد پذیر ہونا چاہیے کیونکہ ویب سائٹس، ایپس اور سوشل میڈیا کے دیگر ہتھکنڈوں سے عوام کی ذہنی قوت کو مفلوج کرنے کا سلسلہ تیز تر ہوتا جا رہا ہے ہمیں چاہیے کی خبروں کی تصدیق کریں معاملات کو حقائق کے سیاق میں دیکھیں ملکی بیانیے کو مضبوط کریں اور سوشل میڈیا پر گہری نگاہ رکھیں جھوٹی خبریں پھیلانے والی فیک آئیڈیز پر کڑی نگاہ رکھیں تاکہ اس ففتھ جنریشن وار یعنی سائبر وار کے نقصانات سے بچا جا سکے