Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
معلومات کے حصول کا ذریعہ صرف ریڈیوپاکستان تھا یاپی ٹی وی ۔ ریڈیوتوپھر بھی عام تھا لیکن ٹی وی تک رسائی پورے محلے میں ایک دو گھروں کو ہی تھی ۔ میڈیا اتنا طاقت ورنہ تھا کہ ہر ہر پل کی خبر ہر شخص تک پہنچاتااور پھر گھنٹوں اس کے مضمرات پر بحث کرواتا۔ ٹی وی پر خبر آتی کہ فلاں محاذ پر حملہ ہوگیاتوکسی کواس خبر کی تصدیق کی ضرورت بھی محسوس نہ ہوتی ۔ جوان لڑنے اور فوج کی مدد کے لیے نکل پڑتے ۔ مائیں بہنیں سروں پہ دودھ اورروٹیاںاٹھا اٹھاکر پہنچنے لگتیں۔خوف نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔نہ کسی کو معیشت کے ڈوبنے کا خطرہ تھا نہ بھوکے سونے کاڈر۔ اک سائرن بجتا نہ صرف دوکانیں اورکاروبار بند بلکہ جلتے چولہے تک بجھ جاتے ۔ادھر محاذ پہ اپنے فوجی بھائیوں کی مدد کے لیے پہنچنے والوں کو اس بات کا بھی خیال نہ تھا گولی لگی یا زخم آیا توقریب کوئی ہسپتال بھی ہے یانہیں ۔اک جذبہ تھا کہ دشمن نے حملہ کیا ہے ۔رات کے اندھیرے میں کیا ہے ۔ اب کوئی چارہ نہیں ۔ خود رہیں نہ رہیں اس وطن کوبچانا ہے ۔اس کی ماﺅں کے دوپٹے سلامت رکھنے ہیں ۔کسی کو خیال تھا توصرف وطن کا۔ سربراہ مملکت اک بار کہتاہے “اللہ کانام بلند کرتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑو” تو کسی نے یہ نہ سوچا کہ فوج کو کہاہے ۔ ہر کسی نے یہی سمجھا کہ میں ہی مخاطب ہوں۔اس سب کے پیچھے نہ کاروبار تھانہ جان تھی ۔صرف ایک جذبہ تھا۔ اس جذبے کے سامنے سارے سوالات بے معنی ہوگئے تھے ۔”کیوں“کا لفظ اپنی وقعت کھو بیٹھاتھا۔ اورپھر اقوام ِ عالم نے مشاہدہ کیا ، سترہ دن بعد ہی دشمن کی عقل ٹھکانے آگئی ۔ ذرا سوچیے ۔ اک وہ کام جو بظاہر ناممکن نظرآرہاتھا۔نصرت الٰہیہ اور سچے جذبے سے نہ صرف ممکن بن گیا بلکہ اپنی دھاک بٹھا گیا۔اس وقت نہ ہمارے پاس اتنی ٹیکنالوجی تھی نہ اطلاعات کا ایسا نظام تھاکہ اپنی قوم کو ہر پل خطرے سے باخبر رکھ سکیں۔ اس کے باوجود میری قوم باخبر رہی ۔ اس کے بعد بھی کئی مواقع آئے جب ملک کوقوم کی ضرورت پڑی تو قوم سامنے آکھڑی ہوئی ۔ سیلاب آئے، زلزلے آئے لیکن کسی موقع پربھی اس قوم نے اپنے وطن کومایوس نہ کیا ۔
سیاسی اختلافات جمہوریت کاحسن ہیں تونظریاتی اختلافات عقائدونظریات کی تفہیم کا ایک ذریعہ ۔ اس قوم نے ان مواقع پہ سیاست کو ایک طرف رکھا۔ نظریاتی اختلافات کو پس پشت ڈالا۔اورخودمیدان میں نکلی۔کسی نے یہ جاننے کی ضرورت محسوس نہ کی کہ حکمران کون ہے ۔ کیا کہتاہے ۔ بس یہی دیکھنے میں آیاکہ جوحکمران کے منہ سے نکلا قوم نے لبیک کہا۔ دوسری طرف سیاست کودیکھیے ۔ ہم نے جنگیں لڑیں۔ ہم نے سیلاب دیکھے ۔ ہم نے زلزلے کی تباہ کاریاں بھگتیں،جو بھی بحران آیاکسی نے دوسرے پہ نہ کیچڑاچھالا نہ الزامات کی بوچھاڑ کی ( بعد میں بے شک جو بھی ایک دوسرے کو کہتے رہے ہوںلیکن بحران کے دنوں میںسب ”اچھے بچے“ ہی بنے رہے )۔ حکومت او راپوزیشن کے درمیان بحرانوںمیں ہم آہنگی ملی توقوم بھی ایک بنی ۔قوم ایک بنی توبحران سے نکلنے میںدیر نہ لگی ۔اس دوران کسی کے ذہن میں یہ سوال تک نہ آیا تھا کہ کاروبار کیوں بندہیں؟ کب کھلیں گے ۔ گھروں میں بھوکے سونے والوں کوبھی یہ شکایت نہ ہوتی تھی کہ انھیں راشن کب ملے گا۔ نہ کہیں احتجاج تھا نہ کوئی رولا رپا۔
پچھلے چند ماہ سے اس ملک عزیز پر ایک اوردشمن نے حملہ کیا ہواہے۔ایک اورآفت ٹوٹی ہوئی ہے ۔وہی بحران ہے ۔کاروبار بندہیں۔تعلیمی ادارے بندہیں۔گھروںمیںلو گ محصورہیں تو میڈیا پر حکومت او راپوزیشن باہم دست و گریباں۔ایک طرف ایک ایک پل کی رپورٹ مل رہی ہے کہ کورونا اتنی تیزی سے پھیل رہاہے۔اتنے لقمہ اجل بنتے جارہے ۔ گھروںمیں رہیں تو دوسری طرف عوام کے کانوں پر جوںتک نہیں رینگ رہی ۔ کسی کویہ فکر نہیں کہ قوم کا کیابنے گا۔ ملک کاکیابنے گا۔اگرفکرہے تویہی کہ کاروبار کیسے کریں۔ ادھر پولیس کی وین گرزی ادھر دوکان کا شٹر اوپر چڑھ گیا۔کہاںوہ دور کہ کوئی خبر دینے والابھی نہیں تھا اس کے باوجود ایک سائرن پہ سب کچھ بند ہوجاتاتھااوراس وقت تک بند رہتاتھا جب تک رکھنا ہوتاتھااورکہاں آج کی حالت کہ صاحب اقتدار ہاتھ جوڑ کرکہتاہے تو پھر بھی مانی نہیں جارہی ۔ کیوں ، آخر کیوں؟ کیوں ہم اس قدر بے حس ہوچکے ہیں؟
وہ دورجس کاذکر کالم کے شروع میں کیاگیااس میں جو جذبہ تھا اپنے اور دوسروں کے لیے کچھ کر گزرنے کا کیاآج وہ ہم میں موجود ہے ؟ ہم نے سترہ دن جنگ جھیلی ،بغیر وسائل کے ہم لڑے اور جیتے لیکن ہم نے یہ سوال تک نہ کیا کہ ہمارے کاروبار کیوں بندہیں؟ہمیں گھروں میں راشن کیوں نہیں مل رہا؟آج ایسی صورت حال کیوں ہے ؟آج وہ جذبہ کدھر گیا؟وہ کون سے ایسے عناصر ہیں جنھوں نے اس جذبے کودلوں سے کھرچ کرنکال پھینکا ہے ۔کیا ہم نے پہلے کبھی بحرانوں میں سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کی کوشش کی ؟ اگر نہیں تواب کیوں؟ (خاکم بدہن)کیا یہ وقت سدا رہناہے ؟کیا سیاست کرنے کے دن آئندہ نہیں آئیں گے ۔ہم ٹی وی پر روزبھاشن دیں کہ قوم بن کرابھرواو رقوم کے سامنے ایک دوسرے کونیچادکھانے کی کوشش کریں گے تو قوم خاک ابھرے گی۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ وہ قوم اور اس کے لیڈر جنھوں نے جنگ میں جانوں کی پرواہ نہ کی اب وقت پڑاتو چندروپوں کے ماسک کے لیے ایک دوسرے کوٹی وی پہ آکر الزامات دیے جارہے ہیں۔بند کردویہ سب ڈرامے ۔بہت ہوگیا۔زندہ رہے توبہت کرلیں گے بعد میں بھی۔ ابھی اس جذبے کو جگاﺅ جو جنگ ستمبر میں جاگا تھا۔ جو دہشت گردی کے عفریت کامقابلہ کرتے ہوئے جاگا تھا۔ جو زلزلے اور سیلاب کے دوران جاگا تھا۔ابھی اس قوم کوسیاست نہ سکھاﺅ ابھی اس قوم کوقوم بناﺅ۔اس بحران سے نکلنے کا یہی راستہ ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ ہمیں یہ بھی دیکھناہوگا کہ اس قوم کو قوم بننے سے روکنے والے عناصر کہاں پنپ رہے ہیں ۔وہ کہا ں سے اپنا کاری وار کررہے ہیں ۔ آج ہر کوئی ٹی وی پہ دانشور بنا یہ کہہ رہاہے کہ کورونا نے ہمارے وسائل کے حوالے سے اندازے غلط ثابت کردیے ۔ہمین معیشت کی بحالی کے لیے یہ کرناہے وہ کرنا ہے ۔ہمیں صحت کے شعبے کومزید بہتر بنانا ہے ۔فلاں فلاں فلاں۔میرے عزیزو۔ضرور اس بارے سوچو ۔ لیکن یہ مت بھولوکہ کورونا نے ہمارے معاشی اور طبعی اندازے ہی غلط ثابت نہیں کیے ہمار ابہت سی غلط فہمیوں کو دور کردیاہے ۔ ہمیں معیشت ہی نہیں بحال کرنی ہمیں اپنے نوجوانوں کی ذہن سازی بھی نئے سرے سے کرنی ہے ۔ہمیں اپنے سماج کے ان عناصر کو بھی دیکھنا ہے جو اس قوم کو ایک مقصد پر آنے کی بجائے ذاتی مفاد کے طرف لیے جارہی ہے ۔ہمیں اپنے نظام تعلیم کو بھی دیکھناہے جس سے پروان چڑھنے والی نسل قوم کی بجائے ریوڑ بنتی جارہی ہے ۔ ہمیں اپنے نظام سیاست کو بھی دیکھنا ہے کہ بحران کے دوران اتحاد و اتفاق والا جذبہ کیسے واپس آئے ۔ ہمیں اور بھی بہت کچھ دیکھنا ہے ۔معیشت کے ساتھ ساتھ ہمیں اخلاقیات، سماجیات اوراقدار کوبھی بحال کرناہے ۔اس کے لیے سیاست دان سے لے کر عام فرد ہر ایک کو ذاتی مفاد کے بجائے قومی اور ملی مفاد کوترجیح دینا ہوگی ۔محض ٹیکنالوجی کی ترقی سے جنگ جیتنا آج کے دور میں دیوانے کی بڑ کے سوا کچھ بھی نہیں۔یہ کورونا نے بھی بتا دیاہے۔
معلومات کے حصول کا ذریعہ صرف ریڈیوپاکستان تھا یاپی ٹی وی ۔ ریڈیوتوپھر بھی عام تھا لیکن ٹی وی تک رسائی پورے محلے میں ایک دو گھروں کو ہی تھی ۔ میڈیا اتنا طاقت ورنہ تھا کہ ہر ہر پل کی خبر ہر شخص تک پہنچاتااور پھر گھنٹوں اس کے مضمرات پر بحث کرواتا۔ ٹی وی پر خبر آتی کہ فلاں محاذ پر حملہ ہوگیاتوکسی کواس خبر کی تصدیق کی ضرورت بھی محسوس نہ ہوتی ۔ جوان لڑنے اور فوج کی مدد کے لیے نکل پڑتے ۔ مائیں بہنیں سروں پہ دودھ اورروٹیاںاٹھا اٹھاکر پہنچنے لگتیں۔خوف نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔نہ کسی کو معیشت کے ڈوبنے کا خطرہ تھا نہ بھوکے سونے کاڈر۔ اک سائرن بجتا نہ صرف دوکانیں اورکاروبار بند بلکہ جلتے چولہے تک بجھ جاتے ۔ادھر محاذ پہ اپنے فوجی بھائیوں کی مدد کے لیے پہنچنے والوں کو اس بات کا بھی خیال نہ تھا گولی لگی یا زخم آیا توقریب کوئی ہسپتال بھی ہے یانہیں ۔اک جذبہ تھا کہ دشمن نے حملہ کیا ہے ۔رات کے اندھیرے میں کیا ہے ۔ اب کوئی چارہ نہیں ۔ خود رہیں نہ رہیں اس وطن کوبچانا ہے ۔اس کی ماﺅں کے دوپٹے سلامت رکھنے ہیں ۔کسی کو خیال تھا توصرف وطن کا۔ سربراہ مملکت اک بار کہتاہے “اللہ کانام بلند کرتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑو” تو کسی نے یہ نہ سوچا کہ فوج کو کہاہے ۔ ہر کسی نے یہی سمجھا کہ میں ہی مخاطب ہوں۔اس سب کے پیچھے نہ کاروبار تھانہ جان تھی ۔صرف ایک جذبہ تھا۔ اس جذبے کے سامنے سارے سوالات بے معنی ہوگئے تھے ۔”کیوں“کا لفظ اپنی وقعت کھو بیٹھاتھا۔ اورپھر اقوام ِ عالم نے مشاہدہ کیا ، سترہ دن بعد ہی دشمن کی عقل ٹھکانے آگئی ۔ ذرا سوچیے ۔ اک وہ کام جو بظاہر ناممکن نظرآرہاتھا۔نصرت الٰہیہ اور سچے جذبے سے نہ صرف ممکن بن گیا بلکہ اپنی دھاک بٹھا گیا۔اس وقت نہ ہمارے پاس اتنی ٹیکنالوجی تھی نہ اطلاعات کا ایسا نظام تھاکہ اپنی قوم کو ہر پل خطرے سے باخبر رکھ سکیں۔ اس کے باوجود میری قوم باخبر رہی ۔ اس کے بعد بھی کئی مواقع آئے جب ملک کوقوم کی ضرورت پڑی تو قوم سامنے آکھڑی ہوئی ۔ سیلاب آئے، زلزلے آئے لیکن کسی موقع پربھی اس قوم نے اپنے وطن کومایوس نہ کیا ۔
سیاسی اختلافات جمہوریت کاحسن ہیں تونظریاتی اختلافات عقائدونظریات کی تفہیم کا ایک ذریعہ ۔ اس قوم نے ان مواقع پہ سیاست کو ایک طرف رکھا۔ نظریاتی اختلافات کو پس پشت ڈالا۔اورخودمیدان میں نکلی۔کسی نے یہ جاننے کی ضرورت محسوس نہ کی کہ حکمران کون ہے ۔ کیا کہتاہے ۔ بس یہی دیکھنے میں آیاکہ جوحکمران کے منہ سے نکلا قوم نے لبیک کہا۔ دوسری طرف سیاست کودیکھیے ۔ ہم نے جنگیں لڑیں۔ ہم نے سیلاب دیکھے ۔ ہم نے زلزلے کی تباہ کاریاں بھگتیں،جو بھی بحران آیاکسی نے دوسرے پہ نہ کیچڑاچھالا نہ الزامات کی بوچھاڑ کی ( بعد میں بے شک جو بھی ایک دوسرے کو کہتے رہے ہوںلیکن بحران کے دنوں میںسب ”اچھے بچے“ ہی بنے رہے )۔ حکومت او راپوزیشن کے درمیان بحرانوںمیں ہم آہنگی ملی توقوم بھی ایک بنی ۔قوم ایک بنی توبحران سے نکلنے میںدیر نہ لگی ۔اس دوران کسی کے ذہن میں یہ سوال تک نہ آیا تھا کہ کاروبار کیوں بندہیں؟ کب کھلیں گے ۔ گھروں میں بھوکے سونے والوں کوبھی یہ شکایت نہ ہوتی تھی کہ انھیں راشن کب ملے گا۔ نہ کہیں احتجاج تھا نہ کوئی رولا رپا۔
پچھلے چند ماہ سے اس ملک عزیز پر ایک اوردشمن نے حملہ کیا ہواہے۔ایک اورآفت ٹوٹی ہوئی ہے ۔وہی بحران ہے ۔کاروبار بندہیں۔تعلیمی ادارے بندہیں۔گھروںمیںلو گ محصورہیں تو میڈیا پر حکومت او راپوزیشن باہم دست و گریباں۔ایک طرف ایک ایک پل کی رپورٹ مل رہی ہے کہ کورونا اتنی تیزی سے پھیل رہاہے۔اتنے لقمہ اجل بنتے جارہے ۔ گھروںمیں رہیں تو دوسری طرف عوام کے کانوں پر جوںتک نہیں رینگ رہی ۔ کسی کویہ فکر نہیں کہ قوم کا کیابنے گا۔ ملک کاکیابنے گا۔اگرفکرہے تویہی کہ کاروبار کیسے کریں۔ ادھر پولیس کی وین گرزی ادھر دوکان کا شٹر اوپر چڑھ گیا۔کہاںوہ دور کہ کوئی خبر دینے والابھی نہیں تھا اس کے باوجود ایک سائرن پہ سب کچھ بند ہوجاتاتھااوراس وقت تک بند رہتاتھا جب تک رکھنا ہوتاتھااورکہاں آج کی حالت کہ صاحب اقتدار ہاتھ جوڑ کرکہتاہے تو پھر بھی مانی نہیں جارہی ۔ کیوں ، آخر کیوں؟ کیوں ہم اس قدر بے حس ہوچکے ہیں؟
وہ دورجس کاذکر کالم کے شروع میں کیاگیااس میں جو جذبہ تھا اپنے اور دوسروں کے لیے کچھ کر گزرنے کا کیاآج وہ ہم میں موجود ہے ؟ ہم نے سترہ دن جنگ جھیلی ،بغیر وسائل کے ہم لڑے اور جیتے لیکن ہم نے یہ سوال تک نہ کیا کہ ہمارے کاروبار کیوں بندہیں؟ہمیں گھروں میں راشن کیوں نہیں مل رہا؟آج ایسی صورت حال کیوں ہے ؟آج وہ جذبہ کدھر گیا؟وہ کون سے ایسے عناصر ہیں جنھوں نے اس جذبے کودلوں سے کھرچ کرنکال پھینکا ہے ۔کیا ہم نے پہلے کبھی بحرانوں میں سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کی کوشش کی ؟ اگر نہیں تواب کیوں؟ (خاکم بدہن)کیا یہ وقت سدا رہناہے ؟کیا سیاست کرنے کے دن آئندہ نہیں آئیں گے ۔ہم ٹی وی پر روزبھاشن دیں کہ قوم بن کرابھرواو رقوم کے سامنے ایک دوسرے کونیچادکھانے کی کوشش کریں گے تو قوم خاک ابھرے گی۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ وہ قوم اور اس کے لیڈر جنھوں نے جنگ میں جانوں کی پرواہ نہ کی اب وقت پڑاتو چندروپوں کے ماسک کے لیے ایک دوسرے کوٹی وی پہ آکر الزامات دیے جارہے ہیں۔بند کردویہ سب ڈرامے ۔بہت ہوگیا۔زندہ رہے توبہت کرلیں گے بعد میں بھی۔ ابھی اس جذبے کو جگاﺅ جو جنگ ستمبر میں جاگا تھا۔ جو دہشت گردی کے عفریت کامقابلہ کرتے ہوئے جاگا تھا۔ جو زلزلے اور سیلاب کے دوران جاگا تھا۔ابھی اس قوم کوسیاست نہ سکھاﺅ ابھی اس قوم کوقوم بناﺅ۔اس بحران سے نکلنے کا یہی راستہ ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ ہمیں یہ بھی دیکھناہوگا کہ اس قوم کو قوم بننے سے روکنے والے عناصر کہاں پنپ رہے ہیں ۔وہ کہا ں سے اپنا کاری وار کررہے ہیں ۔ آج ہر کوئی ٹی وی پہ دانشور بنا یہ کہہ رہاہے کہ کورونا نے ہمارے وسائل کے حوالے سے اندازے غلط ثابت کردیے ۔ہمین معیشت کی بحالی کے لیے یہ کرناہے وہ کرنا ہے ۔ہمیں صحت کے شعبے کومزید بہتر بنانا ہے ۔فلاں فلاں فلاں۔میرے عزیزو۔ضرور اس بارے سوچو ۔ لیکن یہ مت بھولوکہ کورونا نے ہمارے معاشی اور طبعی اندازے ہی غلط ثابت نہیں کیے ہمار ابہت سی غلط فہمیوں کو دور کردیاہے ۔ ہمیں معیشت ہی نہیں بحال کرنی ہمیں اپنے نوجوانوں کی ذہن سازی بھی نئے سرے سے کرنی ہے ۔ہمیں اپنے سماج کے ان عناصر کو بھی دیکھنا ہے جو اس قوم کو ایک مقصد پر آنے کی بجائے ذاتی مفاد کے طرف لیے جارہی ہے ۔ہمیں اپنے نظام تعلیم کو بھی دیکھناہے جس سے پروان چڑھنے والی نسل قوم کی بجائے ریوڑ بنتی جارہی ہے ۔ ہمیں اپنے نظام سیاست کو بھی دیکھنا ہے کہ بحران کے دوران اتحاد و اتفاق والا جذبہ کیسے واپس آئے ۔ ہمیں اور بھی بہت کچھ دیکھنا ہے ۔معیشت کے ساتھ ساتھ ہمیں اخلاقیات، سماجیات اوراقدار کوبھی بحال کرناہے ۔اس کے لیے سیاست دان سے لے کر عام فرد ہر ایک کو ذاتی مفاد کے بجائے قومی اور ملی مفاد کوترجیح دینا ہوگی ۔محض ٹیکنالوجی کی ترقی سے جنگ جیتنا آج کے دور میں دیوانے کی بڑ کے سوا کچھ بھی نہیں۔یہ کورونا نے بھی بتا دیاہے۔
معلومات کے حصول کا ذریعہ صرف ریڈیوپاکستان تھا یاپی ٹی وی ۔ ریڈیوتوپھر بھی عام تھا لیکن ٹی وی تک رسائی پورے محلے میں ایک دو گھروں کو ہی تھی ۔ میڈیا اتنا طاقت ورنہ تھا کہ ہر ہر پل کی خبر ہر شخص تک پہنچاتااور پھر گھنٹوں اس کے مضمرات پر بحث کرواتا۔ ٹی وی پر خبر آتی کہ فلاں محاذ پر حملہ ہوگیاتوکسی کواس خبر کی تصدیق کی ضرورت بھی محسوس نہ ہوتی ۔ جوان لڑنے اور فوج کی مدد کے لیے نکل پڑتے ۔ مائیں بہنیں سروں پہ دودھ اورروٹیاںاٹھا اٹھاکر پہنچنے لگتیں۔خوف نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔نہ کسی کو معیشت کے ڈوبنے کا خطرہ تھا نہ بھوکے سونے کاڈر۔ اک سائرن بجتا نہ صرف دوکانیں اورکاروبار بند بلکہ جلتے چولہے تک بجھ جاتے ۔ادھر محاذ پہ اپنے فوجی بھائیوں کی مدد کے لیے پہنچنے والوں کو اس بات کا بھی خیال نہ تھا گولی لگی یا زخم آیا توقریب کوئی ہسپتال بھی ہے یانہیں ۔اک جذبہ تھا کہ دشمن نے حملہ کیا ہے ۔رات کے اندھیرے میں کیا ہے ۔ اب کوئی چارہ نہیں ۔ خود رہیں نہ رہیں اس وطن کوبچانا ہے ۔اس کی ماﺅں کے دوپٹے سلامت رکھنے ہیں ۔کسی کو خیال تھا توصرف وطن کا۔ سربراہ مملکت اک بار کہتاہے “اللہ کانام بلند کرتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑو” تو کسی نے یہ نہ سوچا کہ فوج کو کہاہے ۔ ہر کسی نے یہی سمجھا کہ میں ہی مخاطب ہوں۔اس سب کے پیچھے نہ کاروبار تھانہ جان تھی ۔صرف ایک جذبہ تھا۔ اس جذبے کے سامنے سارے سوالات بے معنی ہوگئے تھے ۔”کیوں“کا لفظ اپنی وقعت کھو بیٹھاتھا۔ اورپھر اقوام ِ عالم نے مشاہدہ کیا ، سترہ دن بعد ہی دشمن کی عقل ٹھکانے آگئی ۔ ذرا سوچیے ۔ اک وہ کام جو بظاہر ناممکن نظرآرہاتھا۔نصرت الٰہیہ اور سچے جذبے سے نہ صرف ممکن بن گیا بلکہ اپنی دھاک بٹھا گیا۔اس وقت نہ ہمارے پاس اتنی ٹیکنالوجی تھی نہ اطلاعات کا ایسا نظام تھاکہ اپنی قوم کو ہر پل خطرے سے باخبر رکھ سکیں۔ اس کے باوجود میری قوم باخبر رہی ۔ اس کے بعد بھی کئی مواقع آئے جب ملک کوقوم کی ضرورت پڑی تو قوم سامنے آکھڑی ہوئی ۔ سیلاب آئے، زلزلے آئے لیکن کسی موقع پربھی اس قوم نے اپنے وطن کومایوس نہ کیا ۔
سیاسی اختلافات جمہوریت کاحسن ہیں تونظریاتی اختلافات عقائدونظریات کی تفہیم کا ایک ذریعہ ۔ اس قوم نے ان مواقع پہ سیاست کو ایک طرف رکھا۔ نظریاتی اختلافات کو پس پشت ڈالا۔اورخودمیدان میں نکلی۔کسی نے یہ جاننے کی ضرورت محسوس نہ کی کہ حکمران کون ہے ۔ کیا کہتاہے ۔ بس یہی دیکھنے میں آیاکہ جوحکمران کے منہ سے نکلا قوم نے لبیک کہا۔ دوسری طرف سیاست کودیکھیے ۔ ہم نے جنگیں لڑیں۔ ہم نے سیلاب دیکھے ۔ ہم نے زلزلے کی تباہ کاریاں بھگتیں،جو بھی بحران آیاکسی نے دوسرے پہ نہ کیچڑاچھالا نہ الزامات کی بوچھاڑ کی ( بعد میں بے شک جو بھی ایک دوسرے کو کہتے رہے ہوںلیکن بحران کے دنوں میںسب ”اچھے بچے“ ہی بنے رہے )۔ حکومت او راپوزیشن کے درمیان بحرانوںمیں ہم آہنگی ملی توقوم بھی ایک بنی ۔قوم ایک بنی توبحران سے نکلنے میںدیر نہ لگی ۔اس دوران کسی کے ذہن میں یہ سوال تک نہ آیا تھا کہ کاروبار کیوں بندہیں؟ کب کھلیں گے ۔ گھروں میں بھوکے سونے والوں کوبھی یہ شکایت نہ ہوتی تھی کہ انھیں راشن کب ملے گا۔ نہ کہیں احتجاج تھا نہ کوئی رولا رپا۔
پچھلے چند ماہ سے اس ملک عزیز پر ایک اوردشمن نے حملہ کیا ہواہے۔ایک اورآفت ٹوٹی ہوئی ہے ۔وہی بحران ہے ۔کاروبار بندہیں۔تعلیمی ادارے بندہیں۔گھروںمیںلو گ محصورہیں تو میڈیا پر حکومت او راپوزیشن باہم دست و گریباں۔ایک طرف ایک ایک پل کی رپورٹ مل رہی ہے کہ کورونا اتنی تیزی سے پھیل رہاہے۔اتنے لقمہ اجل بنتے جارہے ۔ گھروںمیں رہیں تو دوسری طرف عوام کے کانوں پر جوںتک نہیں رینگ رہی ۔ کسی کویہ فکر نہیں کہ قوم کا کیابنے گا۔ ملک کاکیابنے گا۔اگرفکرہے تویہی کہ کاروبار کیسے کریں۔ ادھر پولیس کی وین گرزی ادھر دوکان کا شٹر اوپر چڑھ گیا۔کہاںوہ دور کہ کوئی خبر دینے والابھی نہیں تھا اس کے باوجود ایک سائرن پہ سب کچھ بند ہوجاتاتھااوراس وقت تک بند رہتاتھا جب تک رکھنا ہوتاتھااورکہاں آج کی حالت کہ صاحب اقتدار ہاتھ جوڑ کرکہتاہے تو پھر بھی مانی نہیں جارہی ۔ کیوں ، آخر کیوں؟ کیوں ہم اس قدر بے حس ہوچکے ہیں؟
وہ دورجس کاذکر کالم کے شروع میں کیاگیااس میں جو جذبہ تھا اپنے اور دوسروں کے لیے کچھ کر گزرنے کا کیاآج وہ ہم میں موجود ہے ؟ ہم نے سترہ دن جنگ جھیلی ،بغیر وسائل کے ہم لڑے اور جیتے لیکن ہم نے یہ سوال تک نہ کیا کہ ہمارے کاروبار کیوں بندہیں؟ہمیں گھروں میں راشن کیوں نہیں مل رہا؟آج ایسی صورت حال کیوں ہے ؟آج وہ جذبہ کدھر گیا؟وہ کون سے ایسے عناصر ہیں جنھوں نے اس جذبے کودلوں سے کھرچ کرنکال پھینکا ہے ۔کیا ہم نے پہلے کبھی بحرانوں میں سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کی کوشش کی ؟ اگر نہیں تواب کیوں؟ (خاکم بدہن)کیا یہ وقت سدا رہناہے ؟کیا سیاست کرنے کے دن آئندہ نہیں آئیں گے ۔ہم ٹی وی پر روزبھاشن دیں کہ قوم بن کرابھرواو رقوم کے سامنے ایک دوسرے کونیچادکھانے کی کوشش کریں گے تو قوم خاک ابھرے گی۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ وہ قوم اور اس کے لیڈر جنھوں نے جنگ میں جانوں کی پرواہ نہ کی اب وقت پڑاتو چندروپوں کے ماسک کے لیے ایک دوسرے کوٹی وی پہ آکر الزامات دیے جارہے ہیں۔بند کردویہ سب ڈرامے ۔بہت ہوگیا۔زندہ رہے توبہت کرلیں گے بعد میں بھی۔ ابھی اس جذبے کو جگاﺅ جو جنگ ستمبر میں جاگا تھا۔ جو دہشت گردی کے عفریت کامقابلہ کرتے ہوئے جاگا تھا۔ جو زلزلے اور سیلاب کے دوران جاگا تھا۔ابھی اس قوم کوسیاست نہ سکھاﺅ ابھی اس قوم کوقوم بناﺅ۔اس بحران سے نکلنے کا یہی راستہ ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ ہمیں یہ بھی دیکھناہوگا کہ اس قوم کو قوم بننے سے روکنے والے عناصر کہاں پنپ رہے ہیں ۔وہ کہا ں سے اپنا کاری وار کررہے ہیں ۔ آج ہر کوئی ٹی وی پہ دانشور بنا یہ کہہ رہاہے کہ کورونا نے ہمارے وسائل کے حوالے سے اندازے غلط ثابت کردیے ۔ہمین معیشت کی بحالی کے لیے یہ کرناہے وہ کرنا ہے ۔ہمیں صحت کے شعبے کومزید بہتر بنانا ہے ۔فلاں فلاں فلاں۔میرے عزیزو۔ضرور اس بارے سوچو ۔ لیکن یہ مت بھولوکہ کورونا نے ہمارے معاشی اور طبعی اندازے ہی غلط ثابت نہیں کیے ہمار ابہت سی غلط فہمیوں کو دور کردیاہے ۔ ہمیں معیشت ہی نہیں بحال کرنی ہمیں اپنے نوجوانوں کی ذہن سازی بھی نئے سرے سے کرنی ہے ۔ہمیں اپنے سماج کے ان عناصر کو بھی دیکھنا ہے جو اس قوم کو ایک مقصد پر آنے کی بجائے ذاتی مفاد کے طرف لیے جارہی ہے ۔ہمیں اپنے نظام تعلیم کو بھی دیکھناہے جس سے پروان چڑھنے والی نسل قوم کی بجائے ریوڑ بنتی جارہی ہے ۔ ہمیں اپنے نظام سیاست کو بھی دیکھنا ہے کہ بحران کے دوران اتحاد و اتفاق والا جذبہ کیسے واپس آئے ۔ ہمیں اور بھی بہت کچھ دیکھنا ہے ۔معیشت کے ساتھ ساتھ ہمیں اخلاقیات، سماجیات اوراقدار کوبھی بحال کرناہے ۔اس کے لیے سیاست دان سے لے کر عام فرد ہر ایک کو ذاتی مفاد کے بجائے قومی اور ملی مفاد کوترجیح دینا ہوگی ۔محض ٹیکنالوجی کی ترقی سے جنگ جیتنا آج کے دور میں دیوانے کی بڑ کے سوا کچھ بھی نہیں۔یہ کورونا نے بھی بتا دیاہے۔
معلومات کے حصول کا ذریعہ صرف ریڈیوپاکستان تھا یاپی ٹی وی ۔ ریڈیوتوپھر بھی عام تھا لیکن ٹی وی تک رسائی پورے محلے میں ایک دو گھروں کو ہی تھی ۔ میڈیا اتنا طاقت ورنہ تھا کہ ہر ہر پل کی خبر ہر شخص تک پہنچاتااور پھر گھنٹوں اس کے مضمرات پر بحث کرواتا۔ ٹی وی پر خبر آتی کہ فلاں محاذ پر حملہ ہوگیاتوکسی کواس خبر کی تصدیق کی ضرورت بھی محسوس نہ ہوتی ۔ جوان لڑنے اور فوج کی مدد کے لیے نکل پڑتے ۔ مائیں بہنیں سروں پہ دودھ اورروٹیاںاٹھا اٹھاکر پہنچنے لگتیں۔خوف نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔نہ کسی کو معیشت کے ڈوبنے کا خطرہ تھا نہ بھوکے سونے کاڈر۔ اک سائرن بجتا نہ صرف دوکانیں اورکاروبار بند بلکہ جلتے چولہے تک بجھ جاتے ۔ادھر محاذ پہ اپنے فوجی بھائیوں کی مدد کے لیے پہنچنے والوں کو اس بات کا بھی خیال نہ تھا گولی لگی یا زخم آیا توقریب کوئی ہسپتال بھی ہے یانہیں ۔اک جذبہ تھا کہ دشمن نے حملہ کیا ہے ۔رات کے اندھیرے میں کیا ہے ۔ اب کوئی چارہ نہیں ۔ خود رہیں نہ رہیں اس وطن کوبچانا ہے ۔اس کی ماﺅں کے دوپٹے سلامت رکھنے ہیں ۔کسی کو خیال تھا توصرف وطن کا۔ سربراہ مملکت اک بار کہتاہے “اللہ کانام بلند کرتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑو” تو کسی نے یہ نہ سوچا کہ فوج کو کہاہے ۔ ہر کسی نے یہی سمجھا کہ میں ہی مخاطب ہوں۔اس سب کے پیچھے نہ کاروبار تھانہ جان تھی ۔صرف ایک جذبہ تھا۔ اس جذبے کے سامنے سارے سوالات بے معنی ہوگئے تھے ۔”کیوں“کا لفظ اپنی وقعت کھو بیٹھاتھا۔ اورپھر اقوام ِ عالم نے مشاہدہ کیا ، سترہ دن بعد ہی دشمن کی عقل ٹھکانے آگئی ۔ ذرا سوچیے ۔ اک وہ کام جو بظاہر ناممکن نظرآرہاتھا۔نصرت الٰہیہ اور سچے جذبے سے نہ صرف ممکن بن گیا بلکہ اپنی دھاک بٹھا گیا۔اس وقت نہ ہمارے پاس اتنی ٹیکنالوجی تھی نہ اطلاعات کا ایسا نظام تھاکہ اپنی قوم کو ہر پل خطرے سے باخبر رکھ سکیں۔ اس کے باوجود میری قوم باخبر رہی ۔ اس کے بعد بھی کئی مواقع آئے جب ملک کوقوم کی ضرورت پڑی تو قوم سامنے آکھڑی ہوئی ۔ سیلاب آئے، زلزلے آئے لیکن کسی موقع پربھی اس قوم نے اپنے وطن کومایوس نہ کیا ۔
سیاسی اختلافات جمہوریت کاحسن ہیں تونظریاتی اختلافات عقائدونظریات کی تفہیم کا ایک ذریعہ ۔ اس قوم نے ان مواقع پہ سیاست کو ایک طرف رکھا۔ نظریاتی اختلافات کو پس پشت ڈالا۔اورخودمیدان میں نکلی۔کسی نے یہ جاننے کی ضرورت محسوس نہ کی کہ حکمران کون ہے ۔ کیا کہتاہے ۔ بس یہی دیکھنے میں آیاکہ جوحکمران کے منہ سے نکلا قوم نے لبیک کہا۔ دوسری طرف سیاست کودیکھیے ۔ ہم نے جنگیں لڑیں۔ ہم نے سیلاب دیکھے ۔ ہم نے زلزلے کی تباہ کاریاں بھگتیں،جو بھی بحران آیاکسی نے دوسرے پہ نہ کیچڑاچھالا نہ الزامات کی بوچھاڑ کی ( بعد میں بے شک جو بھی ایک دوسرے کو کہتے رہے ہوںلیکن بحران کے دنوں میںسب ”اچھے بچے“ ہی بنے رہے )۔ حکومت او راپوزیشن کے درمیان بحرانوںمیں ہم آہنگی ملی توقوم بھی ایک بنی ۔قوم ایک بنی توبحران سے نکلنے میںدیر نہ لگی ۔اس دوران کسی کے ذہن میں یہ سوال تک نہ آیا تھا کہ کاروبار کیوں بندہیں؟ کب کھلیں گے ۔ گھروں میں بھوکے سونے والوں کوبھی یہ شکایت نہ ہوتی تھی کہ انھیں راشن کب ملے گا۔ نہ کہیں احتجاج تھا نہ کوئی رولا رپا۔
پچھلے چند ماہ سے اس ملک عزیز پر ایک اوردشمن نے حملہ کیا ہواہے۔ایک اورآفت ٹوٹی ہوئی ہے ۔وہی بحران ہے ۔کاروبار بندہیں۔تعلیمی ادارے بندہیں۔گھروںمیںلو گ محصورہیں تو میڈیا پر حکومت او راپوزیشن باہم دست و گریباں۔ایک طرف ایک ایک پل کی رپورٹ مل رہی ہے کہ کورونا اتنی تیزی سے پھیل رہاہے۔اتنے لقمہ اجل بنتے جارہے ۔ گھروںمیں رہیں تو دوسری طرف عوام کے کانوں پر جوںتک نہیں رینگ رہی ۔ کسی کویہ فکر نہیں کہ قوم کا کیابنے گا۔ ملک کاکیابنے گا۔اگرفکرہے تویہی کہ کاروبار کیسے کریں۔ ادھر پولیس کی وین گرزی ادھر دوکان کا شٹر اوپر چڑھ گیا۔کہاںوہ دور کہ کوئی خبر دینے والابھی نہیں تھا اس کے باوجود ایک سائرن پہ سب کچھ بند ہوجاتاتھااوراس وقت تک بند رہتاتھا جب تک رکھنا ہوتاتھااورکہاں آج کی حالت کہ صاحب اقتدار ہاتھ جوڑ کرکہتاہے تو پھر بھی مانی نہیں جارہی ۔ کیوں ، آخر کیوں؟ کیوں ہم اس قدر بے حس ہوچکے ہیں؟
وہ دورجس کاذکر کالم کے شروع میں کیاگیااس میں جو جذبہ تھا اپنے اور دوسروں کے لیے کچھ کر گزرنے کا کیاآج وہ ہم میں موجود ہے ؟ ہم نے سترہ دن جنگ جھیلی ،بغیر وسائل کے ہم لڑے اور جیتے لیکن ہم نے یہ سوال تک نہ کیا کہ ہمارے کاروبار کیوں بندہیں؟ہمیں گھروں میں راشن کیوں نہیں مل رہا؟آج ایسی صورت حال کیوں ہے ؟آج وہ جذبہ کدھر گیا؟وہ کون سے ایسے عناصر ہیں جنھوں نے اس جذبے کودلوں سے کھرچ کرنکال پھینکا ہے ۔کیا ہم نے پہلے کبھی بحرانوں میں سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کی کوشش کی ؟ اگر نہیں تواب کیوں؟ (خاکم بدہن)کیا یہ وقت سدا رہناہے ؟کیا سیاست کرنے کے دن آئندہ نہیں آئیں گے ۔ہم ٹی وی پر روزبھاشن دیں کہ قوم بن کرابھرواو رقوم کے سامنے ایک دوسرے کونیچادکھانے کی کوشش کریں گے تو قوم خاک ابھرے گی۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ وہ قوم اور اس کے لیڈر جنھوں نے جنگ میں جانوں کی پرواہ نہ کی اب وقت پڑاتو چندروپوں کے ماسک کے لیے ایک دوسرے کوٹی وی پہ آکر الزامات دیے جارہے ہیں۔بند کردویہ سب ڈرامے ۔بہت ہوگیا۔زندہ رہے توبہت کرلیں گے بعد میں بھی۔ ابھی اس جذبے کو جگاﺅ جو جنگ ستمبر میں جاگا تھا۔ جو دہشت گردی کے عفریت کامقابلہ کرتے ہوئے جاگا تھا۔ جو زلزلے اور سیلاب کے دوران جاگا تھا۔ابھی اس قوم کوسیاست نہ سکھاﺅ ابھی اس قوم کوقوم بناﺅ۔اس بحران سے نکلنے کا یہی راستہ ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ ہمیں یہ بھی دیکھناہوگا کہ اس قوم کو قوم بننے سے روکنے والے عناصر کہاں پنپ رہے ہیں ۔وہ کہا ں سے اپنا کاری وار کررہے ہیں ۔ آج ہر کوئی ٹی وی پہ دانشور بنا یہ کہہ رہاہے کہ کورونا نے ہمارے وسائل کے حوالے سے اندازے غلط ثابت کردیے ۔ہمین معیشت کی بحالی کے لیے یہ کرناہے وہ کرنا ہے ۔ہمیں صحت کے شعبے کومزید بہتر بنانا ہے ۔فلاں فلاں فلاں۔میرے عزیزو۔ضرور اس بارے سوچو ۔ لیکن یہ مت بھولوکہ کورونا نے ہمارے معاشی اور طبعی اندازے ہی غلط ثابت نہیں کیے ہمار ابہت سی غلط فہمیوں کو دور کردیاہے ۔ ہمیں معیشت ہی نہیں بحال کرنی ہمیں اپنے نوجوانوں کی ذہن سازی بھی نئے سرے سے کرنی ہے ۔ہمیں اپنے سماج کے ان عناصر کو بھی دیکھنا ہے جو اس قوم کو ایک مقصد پر آنے کی بجائے ذاتی مفاد کے طرف لیے جارہی ہے ۔ہمیں اپنے نظام تعلیم کو بھی دیکھناہے جس سے پروان چڑھنے والی نسل قوم کی بجائے ریوڑ بنتی جارہی ہے ۔ ہمیں اپنے نظام سیاست کو بھی دیکھنا ہے کہ بحران کے دوران اتحاد و اتفاق والا جذبہ کیسے واپس آئے ۔ ہمیں اور بھی بہت کچھ دیکھنا ہے ۔معیشت کے ساتھ ساتھ ہمیں اخلاقیات، سماجیات اوراقدار کوبھی بحال کرناہے ۔اس کے لیے سیاست دان سے لے کر عام فرد ہر ایک کو ذاتی مفاد کے بجائے قومی اور ملی مفاد کوترجیح دینا ہوگی ۔محض ٹیکنالوجی کی ترقی سے جنگ جیتنا آج کے دور میں دیوانے کی بڑ کے سوا کچھ بھی نہیں۔یہ کورونا نے بھی بتا دیاہے۔