• Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home تبادلہ خیال

عورت کو ہراساں نہیں دیکھا

وسعت نظر: ڈاکٹر مجاہد مرزا

آوازہ ڈیسک by آوازہ ڈیسک
April 22, 2020
in تبادلہ خیال
0
Mujahid Mirza
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
Ad (2024-01-27 16:32:21)

مردوں کی طرف سے جنس مخالف کو تنگ کرکے پریشان کرنے کو لغت سے ہٹ کے ” جنسی ہراسانی ” کہا جانے لگا ہے۔ خیر زبان تو بنتی بگڑتی رہتی ہے، میں کونسا لغت نویس یا زبان کی اصلاح کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہوں کہ تصحیح کراتا پھروں مگر جنس مخالف کو تنگ کرکے پریشان کرنے والوں کی جو جو حرکات بیان کیے جانے کے قابل ہیں اور مضامین یا ژذروں میں لکھ کر بیان کی جا رہی ہیں وہ سب کی سب حرکتیں بیہودہ پن کے سوا کچھ نہیں۔ جیسے موٹر سائکل پر بیٹھے کسی خاتون کے بدن کو چھو لینا یا بدن کے کسی حصے پر ہاتھ پھیر دینا، آنکھ مارنا، عورت کو دیکھ کر مسکرانا اور اگر دیکھنے والے کی مونچھیں ہوں تو ساتھ ساتھ ان کو بل دینا، فحش یا غیر فحش فقرے کسنا، عورت کے سامنے بیٹھے مرد کا اپنے جسم کے کسی حصے کو بالخصوص ٹانگوں کے بیچ حصے کو کھجلانا یا سہلانا، ساتھ ہی معنی خیز انداز میں ٹکٹکی باندھے رکھنا، غرض ایسی اور بہت سی باتیں جو ایسے مردوں کے خیال میں عورتوں کو راغب کرنے کا موجب بن سکتی ہیں یا وہ اپنے تئیں سمجھتے ہیں کہ ان حرکتوں سے ان کی اپنی جنسی تشنگی میں کمی یا اضافہ ہو سکتا ہے۔ بیہودہ پن تعلیم کی کمی اور تربیت کے فقدان یا نامناسب تربیت پانے کا شاخسانہ ہوتا ہے۔
جس طرح ہراساں کیے جانے کا ذکر مغرب سے مستعار لفظ “ہراسمنٹ ” کی نسبت سے ہے، اس میں جاہل معاشروں کی یہ بیہودہ حرکات تو خیر شامل ہی نہیں ہوتیں کیونکہ مغرب میں اس قسم کی گری ہوئی حرکات کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی حرکتیں غیر متمدن ملکوں کے غیر متمدن لوگ ہی کرتے ہیں مثال کے طور پر ایک ایسا ہی کم پڑھا لکھا نوجوان ایک مغربی ملک پہنچا تو وہ ٹرانسپورٹ میں موجود عورتوں کو چپکے چپکے چھوتا تھا۔ ایسا کیے جانے پر عورتیں عموما” اس پر نگاہ غلط انداز ڈال کر درگذر کرتیں یا منہ ہی منہ میں اجڈ کہہ دیتیں۔ دوستوں نے اس شخص کو بہت سمجھایا کہ یہاں ایسی حرکت کرنا بے حد معیوب خیال کیا جاتا ہے مگر وہ باز نہیں آ سکتا تھا نہ آیا۔ بالآخر ایک روز ایک باہمت خاتون نے پلٹ کر اس سے کہا،” بس، کیا تمہیں یہی کرنا آتا ہے۔ اس سے آگے تو بڑھو”۔ وہ اسے جنسی پیشرفت کی ترغیب نہیں دے رہی تھی بلکہ اس کا طنز کاٹ دار تھا کہ مرد تو خاتون کو راغب کرنے کے لیے مہذب طریقے استعمال کرتے ہیں، جیسے متعارف ہونا، تھیٹر یا ریستوران جانے کے لیے مدعو کرنا وغیرہ اور تم خواتین کو پریشان کر رہے ہو۔ ہراساں کیے جانے میں درحقیقت پیشرفت یا دست درازی سے عورت کے انکار یا پریشان ہونے کا ذکر ہے۔
عارضی محبت کے اظہار یعنی فلرٹیشن اور ہراسمنٹ میں اگر کوئی فرق ہے تو اس عمل سے عورت کی بے چینی، اکتاہٹ یا تنفر کی کیفیت کا فرق ہے۔ کیونکہ مغربی معاشرے میں عورت سے متعارف ہونے، اسے مدعو کرنے، پھر جسمانی طور پر نزدیک ہونے میں کوئی امر مانع نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس پاکستان اور اس جیسے معاشروں میں یہ سب اعمال بہت حد تک قابل اعتراض حرکات کے زمرے میں آئیں گے۔ دیکھیے دوسرے ملکوں میں ریستوران لے جانے کی دعوت قبول کیے جانا مرد کو عورت کا اشارہ ہوتا ہے کہ اب قریب آنے پر اسے اعتراض نہیں ہوگا، بصورت دیگر خاتون ایسی دعوت قبول ہی نہیں کرتی یا مناسب بہانہ بنا کر مرد کو شرمسار ہونے سے بچا لیتی ہے۔ مگر پاکستان میں ریستوران لے جانے کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہوتا کہ مدعو کرنے والا مدعو کی گئی خاتون کو خلوت میں چلنے کو بھی کہے۔ پھر کتنے ہونگے جو دعوت دیتے ہونگے اور کتنی ہونگی جو یہ دعوت قبول کر لیتی ہونگی۔
ہراساں کیے جانے کا معاملہ تب آتا ہے اگر مرد غلط فہمی کا شکار ہو کر کوئی پیش رفت کرے یا ہلکی پھلکی دست درازی سے کام لے اور دوسرے فریق کے معترض یا انکاری ہونے کے باوجود باز نہ آئے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ خاتون چونکہ اپنی مرضی سے ایک حد تک اس مرد کے قریب آئی ہوتی ہے اور بعض صورتوں میں تو اس نے اس مرد کے ساتھ بڑھتی ہوئی اپنی دوستی پر اعتراض کرنے والوں کو بھی مسترد کیا ہوتا ہے، چنانچہ معاملہ گلے میں پھنسی چھپکلی کا سا ہو جاتا ہے کہ نہ نگلی جائے نہ اگلی جائے۔ ایسی صورت حالات میں بہت بے کلی ہوتی ہے، بہت پریشانی لاحق ہوتی ہے اور جب تک کوئی “محرم راز” میسر نہ آئے ایسی بات کہے نہیں بنتی۔ معاملے کو برسرعام کرنا بے حد پریشانی اور بڑی ہمت دونوں کا ہی رہین منت ہو سکتا ہے۔
مرد کی سرشت اور ہے عورت کی سرشت اور۔ عورت کسبی بھی ہو تو پہل کرنے سے گریزاں رہے گی اور مرد متقی بھی ہو تو اس کے ذہن میں کلبلاہٹ ہوگی کہ بات کسی نہ کسی طور بڑھانی چاہیے۔ میں ایک بات کہتے ہوئے گھبرا رہا ہوں کہ میرے “ریڈیکل فیمینسٹ” دوست کہیں مجھ کو فورا” ” میسوگائنسٹ ” قرار نہ دے ڈالیں، ویسے وہ جو کہتے ہیں کہ ہر شخص میں تھوڑا سا شاونسٹ، تھوڑا سا میسوکسٹ، تھوڑا سا ساڈسٹ ہوتا ہے تو اسی طرح ہر فیمنسٹ مرد میں تھوڑا سا میسوگائنسٹ اور ہر میزوگائنسٹ مرد تھوڑا سا فیمنسٹ بھی ہوتا ہے، ریڈیکل ہونا تو ریڈیکل ہونا ہوتا ہے باعقیدہ شخص کے مصداق، تو وہ بات کیا ہے جو کہتے ہوئے میں گھبرا رہا ہوں؟ درحقیقت وہ بات میری کہی نہیں ہے بلکہ ایک روسی عوامی محاورہ ہے جو مردوں کی بجائے عام طور پر عورتیں بولتی ہیں، وہ یہ کہ ” اگر کتیا نہ چاہے تو ( جنس زدہ) کتا کچھ بھی نہیں کر سکتا “۔ یہ بات عموما” تب کہی جاتی ہے جب کوئی عورت کسی مرد پر الزام لگاتی ہے کہ اس نے اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا تھا۔ بات یہ ہے کہ ناپسندیدہ معاملے سے انکار بہر طور کیا جا سکتا ہے۔
پر پاکستان جیسے ملک میں عورت کے انکار کی اول تو کوئی حیثیت نہیں ہوتی دوسرے عورت مارے شرم کے کسی مرد کی جانب سے تنگ کیے جانے، دست درازی کرنے اور بیہودہ حرکات سے پریشان کیے جانے سے متعلق کسی سے کہہ بھی نہیں سکتی کیونکہ اگر وہ کوئی نزدیکی شخص ہوا جیسے رشتہ دار یا کنبے کا دوست تو اس کی بات پر شاید اعتبار نہ کیا جائے اور الٹا وہی بری بنے۔ اگر کوئی باہر کا شخص تنگ کر رہا ہے تو وہ ڈرتی ہے کہ بات بڑھ نہ جائے۔ اس کا باپ، بھائی، شوہر اس شخص کو گزند پہنچا دے یا مار دے تو خود مصیبت میں پھنس جائے گا یا وہ شخص ہی اس کے باپ، بھائی یا شوہر کو گذند نہ پہنچا دے یا مار ڈالے۔ اس لیے عام طور پر ہراساں ہونے والی عورتیں دکھائی نہیں پڑتیں۔
اس کے برعکس ایک اور طرح کی خواتین ہیں جو ہراساں کیے جانے کو زود یا بدیر قبول کرکے اس کی قیمت لگا دیتی ہیں جو کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ ایک بار پھر “ریڈیکل فیمنسٹ” دوستوں سے استدعا ہے کہ تنک مزاجی سے گریز کریں کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے اور کم نہیں بہت زیادہ ہوتا ہے۔ جی ہاں آپ کے ملک میں ہی ہوتا ہے۔ ہراساں کیے جانے کا عمل ایسے میں ڈھلتا کبھی دکھائی نہیں دیتا اگرچہ اس کی ابتدا ہوتی ہراساں کیے جانے سے ہوتی ہے۔ اگر مرد مطالبہ نہ مانے تو ہراساں کیے جانے کا الزام کسی بھی وقت طشت از بام کیا جا سکتا ہے یا کم از کم وہ مرد خائف رہتا ہے کہ کہیں بات عام نہ ہو جائے۔ ہے یہ معیوب بات ہے مگر ایسا بھی ہوتا ہے۔ ایسے میں بھی ہراساں کیے جانا ظاہر نہیں ہو پاتا یا شاید ہی ظاہر ہوتا ہے۔ بات دبا دی جاتی ہے کیونکہ ہراساں کرنے والا عموما” کسی بھی لحاظ سے بالادست ہوتا ہے اور ہراساں کیے جانے والی کسی نہ کسی لحاظ سے زیردست۔

Ad (2024-01-27 16:31:23)
Screenshot 2024-02-07 at 2.46.36 AM
Tags: ڈاکٹر مجاہد مرزاعورت اور مرد کی سرشتعورت کی ہراسانیوسعت نظر
Previous Post

استقبال رمضان : نبی کریم ﷺ کا خطبہ

Next Post

اب ہمیں کرنا کیا ہے؟

آوازہ ڈیسک

آوازہ ڈیسک

Next Post
Arif Siddiq

اب ہمیں کرنا کیا ہے؟

ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

[contact-form-7 id=”415″ title=”Contact form 1″]

Categories

  • Aawaza
  • Ads
  • آج کی شخصیت
  • اہم خبریں
  • تاریخ
  • تبادلہ خیال
  • تصوف , روحانیت
  • تصویر وطن
  • ٹیکنالوجی
  • خطاطی
  • زراعت
  • زندگی
  • سیاحت
  • شوبز
  • صراط مستقیم
  • عالم تمام
  • فاروق عادل کے خاکے
  • فاروق عادل کے سفر نامے
  • فکر و خیال
  • کتاب اور صاحب کتاب
  • کھانا پینا
  • کھیل
  • کھیل
  • کیمرے کی آنکھ سے
  • لٹریچر
  • محشر خیال
  • مخزن ادب
  • مصوری
  • معیشت
  • مو قلم

About Us

اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

No Result
View All Result
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions