پاکستان کے ٹینس اسٹار اعصام الحق 122 ملین ڈالر کے اثاثے رکھتے ہیں۔ ان کو اللہ نے صرف ٹینس بال سے نہیں بلکہ درد مند
دلوں سے کھیلنے کے ہنر سے بھی خوب نوازا ہے۔ اب دیکھیے ناں، وبا کے اس کڑے وقت میں وہ بارہ سو راشن بیگز کے ساتھ بڑی شان سے تصویریں کھنچوا رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ رمضان تک مزید ایک ہزار بیگز بھی غربا میں تقسیم کرنے کا مصمم ارادہ ظاہر کر چکے ہیں۔
انسان دوستی کے اس تاریخ ساز لمحے میں ان کی زبان سے ادا ہونے والے Stop war , Start Tennisکے الفاظ سنہری مثال بن کر جگمگاتے رہیں گے۔ اس کڑے وقت میں بارہ سو راشن بیگز کے ساتھ ساتھ اس نادر قول کی بھی قوم کو اشد ضرورت ہے۔ ظاہر ہے کورونا کے خلاف اس بڑی جنگ میں فتح حاصل ہوگی تو ہی ٹینس کا کھیل دوبارہ شروع ہوگا۔ ٹینس کا کھیل دوبارہ شروع ہوگا تب ہی تو اعصام الحق کی جیب سے نکلے بارہ سو راشن بیگز کا خرچہ پورا ہوگا ناں۔ایسا ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ آگے خدانخواستہ کوئی بھی ناخوش گوار وقت قوم پر پڑے تو اس سے نمٹنے کے لیے اعصام الحق کا انسان دوستی کا یہ جذبہ ماند نہ پڑ جائے اور وہ اسی جوش اور جذبے کے ساتھ بھلائی کے کاموں میں پیش پیش رہیں۔
شاہد آفریدی، جنہیں ہم پیار سے بوم بوم آفریدی بھی کہتے ہیں، 47ملین ڈالر کے اثاثوں کے مالک ہیں۔ ان کا شاہانہ طرزِزندگی
سوشل میڈیا پر آئے دن دل تھامنے پر مجبور کردیتا ہے۔ لیکن ابھی ذرا اور دل تھامیے۔ قوم پر آئے اس کڑے وقت نے تو شاہد آفریدی کی گویا نیندیں اُڑ ا دی ہیں۔ جذبات کا ایک طوفان ہے جو ان کے اندر سے امڈا چلا آرہا ہے۔ ان کا کہنا ہے” پاکستان نے مجھے بہت دیا ہے اب وقت ہے کہ میں وہ لوٹاﺅں۔” لیکن یہ کیا کہ 47 ملین ڈالر کے اثاثوں کے مالک اپنی جیب سے کچھ لوٹانے کا ارادہ ہی نہیں رکھتے۔ انہوں نے اس عظیم خدمت کے لیے اپنے بینک اکاؤنٹ پر انحصار کم اور کشکول پر زیادہ کر رکھا ہے۔ وہ لوگوں سے لے کر لوگوں پر لگانے کی ” تحریک ” پورے ”انصاف” سے چلارہے ہیں۔ ہر فورم پر عوام سے فنڈ کی اپیل کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ وہ شاہد خان آفریدی ہیں جن کا شمار نہ صرف کرکٹ کی دنیا بلکہ پاکستان کے بھی امیر ترین افراد میں کیا جاتا ہے۔ ” ڈونیٹ کرو ناں” کا ہیش ٹیگ آفریدی فاﺅنڈیشن کی ویب سائٹ پر سب سے نمایاں نظر آرہا ہے۔ یعنی پیسہ قوم کا اور نام آفریدی کا۔ انسان دوستی کی ایسی اعلٰی مثال بھلا اور کہاں نظر آئے گی۔ اور ہاں یہ بھی تو بتانا ہے کہ ایک ایک کے دل پر راج کرنے والے بوم بوم آفریدی نے قوم کی بے لوث محبت کا صدقہ اب تک نو ہزار خاندانوں میں راشن بیگ تقسیم کرکے اتارا ہے۔ سادگی کی انتہا دیکھیے، ان کا کہنا ہے” انسانیت کی خدمت ہی ان کے لیے سب سے بڑا محرک ہے، لیکن یہ کام لوگوں کی مدد کے بنا ہو ہی نہیں سکتا۔ ” ان کا مزید کہنا ہے کہ یہ وقت سیاست کا نہیں۔ اپنے اثاثے محفوظ رکھتے ہوئے قومی خدمت کے نام پر” ڈونیٹ کرو ناں ” کی جو چال انہوں نے چلی ہے شاید اسے سیاست نہیں کھیل کہتے ہیں۔
جب سالوں سے کُھل کر کھیلنے والے کھلاڑی اتنے کُھلے دل اور اعلٰی ظرفی کا مظاہرہ کر رہے ہوں تو رومن رئیس تو ابھی اس میدان میں بچہ ہے اور ان گھاگ کھلاڑیوں کے مقابلے میں بے حد غریب بھی۔ لیکن انسانی ہم دردی کا ایک سمندر ان کی سینے میں بھی موجیں ماررہا ہے سو یہ اپنا بلا اور ٹی شرٹ نیلام کرنے کے لیے اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے ہیں۔ اور مسکرا مسکرا کر اپیل کر رہے ہیں کہ ہے کوئی اللہ کا بندہ اور ان کا جگری فین یہ سامان خریدلے تاکہ و وہ اس رقم سے وبا کے اس دور میں ناداروں کی کچھ مدد کرسکیں۔ لیکن یہ تصویر دیکھ کر میرے پلے یہ نہیں پڑ رہا کہ جو فین نما بندہ اس عظیم مقصد کے لیے ان کا یہ سامان خریدے گا وہ اس رقم سے اگر براہ راست غریبوں کی مدد کردے، تو کیا انسانیت کی معراج سے پھسل کر گرجائے گا؟ بہرحال ان کے علاوہ 63 سونے کے اور 24 چاندی کے تمغے اپنے نام کروانے والی اسکواش کی کھلاڑی نورینہ شمس ایک ہزار خاندانوں میں اور کرکٹر عظیم گھمن سترہ سو خاندانوں میں راشن تقسیم کرنے کا اعلان کرتے نظر آرہے ہیں۔
حیرت انگیز طور پر25 ملین ڈالر کے اثاثوں کے مالک شعیب ملک، 23 ملین ڈالر کے مالک محمد حفیظ اور دیگر کھیلوں سے تعلق رکھنے والے امیر ترین کھلاڑی یوں سکون سے بیٹھے ہیں گویا ان کے چند ساتھیوں کی طرف سے بانٹے گئے یہ راشن بیگ زندہ لوگوں کا پڑھا گیا جنازہ ہوں کہ چند نے پڑھ کر باقیوں کا فرض بھی ادا کردیا۔
اسی بارے میں پڑھتے پڑھتے میں نے ذرا اور کھنگالا کہ پتا تو چلے دیگر ممالک میں سپراسٹار کھلاڑی کورونا کی اس وبا میں کتنے ظرف اور کُھلے دل کا مظاہر کررہے ہیں تو یقین جانیے اس کھوج نے مجھے تو اچھا خاصا شرمندہ کر ڈالا۔ آپ بھی ملاحظہ کیجیے۔ معروف سوئس ٹینس اسٹار روجر فیڈرر اور ان کی بیگم نے ایک ملین سوئس فرانک وبا سے مقابلے کے لیے
عطیہ کیے ہیں۔ ارجنٹینا کے مشہور فٹ بالر لیونل میسی نے ایک ملین یورو، بارسلونا کے ایک اسپتال کو عطیہ کیے جہاں کورونا کے مریض زیرعلاج ہیں، پرتگالی فٹ بالر کرسٹینو رونالڈو نے بھی ایک ملین یورو عطیہ کیے جن سے جان بچانے کا سامان خرید کر پرتگال کے اسپتالوں میں پہنچایا گیا۔ اس کے علاوہ دنیا بھر سے بیس مختلف کھیلوں سے تعلق رکھنے والے سو سے زیادہ ایتھلیٹس نے اپنی یادداشتوں پر مبنی دستخط شدہ سامان، ایتھلیٹس فار کورونا وائرس فنڈ کو عطیہ کردیا تاکہ اس کی مشترکہ نیلامی سے حاصل ہونے والی بڑی رقم کو کورونا کے خلاف لڑنے کے لیے کسی بڑے محاذ پر لگایا جاسکے۔ ساتھ ہی امریکی باسکٹ بال ٹیم The Golden State Warriors نے کورونا ریلیف فنڈ میں ایک ملین ڈالر عطیہ کیے ہیں۔ بنگلادیشی کرکٹرز اپنی اپنی نے ماہانہ تنخواہ میں سے نصف رقم جو تقریباً تیس لاکھ ڈالر بنتی ہے، کورونا فنڈ کے لیے عطیہ کرچکے ہیں۔
حیرت انگیز طور پر دنیا کے کسی حصے میں مجھے کوئی کھلاڑی بھی انفرادی طور پرکھانا یا راشن بانٹتا نظر نہیں آیا، جب کہ کئی ممالک میں مہینوں تک مکمل کرفیو یا لاک ڈاﺅن کا نفاذ بھی رہا۔ بچپن میں اتفاق کی برکت کے عنوان پر بے شمار کہانیاں پڑھی تھیں، سب کا نتیجہ آخر میں بس یہی نکلتا کہ مل جل کر رہنے میں بڑی برکت ہے۔ ایسی کہانیاں اب بھی پاکستان میں تقریباً ہر درسی کتاب میں بچوں کو پڑھائی جاتی ہیں۔ لیکن جب قوم کسی نازک مرحلے سے گزر ہی ہوتی ہے تو یہاں کے ناقص نظام ِ تعلیم کی بھی قلعی کھل جاتی ہے جو سبق رٹواتا تو ہے لیکن عمل کرنا نہیں سکھاتا۔ وبا کے دور میں جب ایک ایک پیسہ قیمتی ہے ایسے میں انفرادی طور پر نام بنانے کی خواہش میں راشن کے ڈھیر لگا کر قوم کا ایک بڑا سرمایہ ضایع کیا گیا ہے۔ ضرورت کے نام پر بہت سے لوگ راشن جمع کر کرکے دکانوں پر بیچتے بھی نظر آئے۔ دوسری طرف المیہ رہا کہ اسپتالوں میں مریض نامکمل سہولیات کی وجہ سے ایڑیاں رگڑتے رہے۔ طبی عملے کی زندگیاں حفاظتی سامان نہ ہونے کی وجہ سے داﺅ پر لگی رہیں، متوسط طبقے کے سفید پوش لوگ اپنا بھرم قائم رکھنے کو مانگ بھی نہ سکے اور کما کر بچوں کو کھلا بھی نہ سکے، جب کہ غریب طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت کے یہاں کئی کئی مہینوں کا راشن جمع ہوگیا جن میں سے زیادہ تر سامان شاید مہینے بھر بعد ان کے لیے قابل استعمال بھی نہ رہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ ساری رقم سرکاری فنڈ میں عطیہ کردی جاتی۔ قطرہ قطرہ مل کر دریا بن جاتا اور بلا تخصیص سب اس سے سیراب ہوتے۔ لیکن کیسا عجیب اتفاق ہے کہ کتابوں کی دنیا سے باہر نکل کر سب مل جاتا ہے بس اتفاق ہی نہیں ملتا۔