Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
پاکستان کے ممتازکارٹونسٹ مظہرشہزادخان نےکوروناکےتعلقسےایک اور کارٹون بنایا ہے جس میں لوگوں کو اس موذی وبا سے لڑنے کے لیے صاف ستھرا رہنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
مظہر شہزاد خان ہمہ جہت شخصیت ہیں، وہ صرف مصور اور کارٹونسٹ نہیں، شاعر، افسانہ نگار اور اداکار بھی ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی سے پاکستان ٹیلی ویژن سے وابستہ ہیں جہاں وہ روزانہ پاکستان کے مقبول ترین پروگرام خبر کے ساتھ ساتھ میں “فی البدیہہ” کارٹون بنا کر حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے ہیں۔
ان کا ایک حوالہ مجلس آرائی اور تقریبات کا انعقاد بھی ہے۔ انھوں نے “کسب کمال” کے نام سے ادیبوں، شاعروں اور مصوروں کی ایک تنظیم بھی بنا رکھی ہے۔ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس نے اسلام آباد اور راول پنڈی کے ادیبوں اور شاعروں کو ایکبے تکلف پلیٹ فارم فراہم کردیا ہے۔
حال ہی میں انھوں نے کورونا کے اثرات اور ان اثرات کے نتیجے میں ماحولیاتی بہتری پر ایک دلچسپ نظم کہی ہے جس کی دھوم پاکستان اور بیرون پاکستان بھی مچی ہوئی ہے۔
ان کی یہ نظم اور زیر نظر کارٹون ایک ہی سلسلے کی کڑی ہیں، نظم ملاحظہ فرمائیے:
ھَوا میں سرسراھٹ ھے
مگر ویران ھیں گلیاں
عجب سی خامشی ھے
جاں کَنی ھے
سبھی بازار بھی سوکھے پڑے ھیں
کوئی بٌو باس تک آتی نہیں ھے
سبھی اک دوسرے سے ڈر رھے ھیں
مر رھے ھیں
گھروں کے قید خانوں میں
بہت سہمے ھوۓ دن گن رھے ھیں
مگر فطرت دھائیوں کی تھکن کے بوجھ کے نیچے سسکتی جا رھی تھی کہ
وبا اسکی مدد کو آن پہنچی تھی
مشینیں چپ ھوئیں یکدم
سبھی سڑکوں پہ چلتے دوڑتے پہئیے
سلنسر اور چمنی سے نکلتا زھر بھی
تھم سا گیا تھا
پرندوں اور درختوں نے
مکمل ایک صدی کے غلاظت سے بھرے جو دن گزارے تھے
اچانک کِھل کھلا اٹھے
فلک بھی جگمگا اٹھا
خلا کا زخم بھی بھرنے لگا تھا
مگر انساں بہت سہما
بہت ھی خوف کا مارا
لکیریں کھینچ کر بٹنے لگا تھا
محبت بس فقط آواز تک رھنے لگی تھی
وصالِ روزوشب بس خواب سے ھونے لگے تھے
محبت فاصلوں میں بٹ رھی تھی
مگر یہ بیسویں اکیسویں صدیوں کے قصے ھیں
مرے ھمزاد میں تجھ کو یہ تنبیہہ دے رھاھوں کہ
نئے غنچوں نئے پھولوں کو آلودہ ھواؤں سے بچا لینا
پاکستان کے ممتازکارٹونسٹ مظہرشہزادخان نےکوروناکےتعلقسےایک اور کارٹون بنایا ہے جس میں لوگوں کو اس موذی وبا سے لڑنے کے لیے صاف ستھرا رہنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
مظہر شہزاد خان ہمہ جہت شخصیت ہیں، وہ صرف مصور اور کارٹونسٹ نہیں، شاعر، افسانہ نگار اور اداکار بھی ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی سے پاکستان ٹیلی ویژن سے وابستہ ہیں جہاں وہ روزانہ پاکستان کے مقبول ترین پروگرام خبر کے ساتھ ساتھ میں “فی البدیہہ” کارٹون بنا کر حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے ہیں۔
ان کا ایک حوالہ مجلس آرائی اور تقریبات کا انعقاد بھی ہے۔ انھوں نے “کسب کمال” کے نام سے ادیبوں، شاعروں اور مصوروں کی ایک تنظیم بھی بنا رکھی ہے۔ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس نے اسلام آباد اور راول پنڈی کے ادیبوں اور شاعروں کو ایکبے تکلف پلیٹ فارم فراہم کردیا ہے۔
حال ہی میں انھوں نے کورونا کے اثرات اور ان اثرات کے نتیجے میں ماحولیاتی بہتری پر ایک دلچسپ نظم کہی ہے جس کی دھوم پاکستان اور بیرون پاکستان بھی مچی ہوئی ہے۔
ان کی یہ نظم اور زیر نظر کارٹون ایک ہی سلسلے کی کڑی ہیں، نظم ملاحظہ فرمائیے:
ھَوا میں سرسراھٹ ھے
مگر ویران ھیں گلیاں
عجب سی خامشی ھے
جاں کَنی ھے
سبھی بازار بھی سوکھے پڑے ھیں
کوئی بٌو باس تک آتی نہیں ھے
سبھی اک دوسرے سے ڈر رھے ھیں
مر رھے ھیں
گھروں کے قید خانوں میں
بہت سہمے ھوۓ دن گن رھے ھیں
مگر فطرت دھائیوں کی تھکن کے بوجھ کے نیچے سسکتی جا رھی تھی کہ
وبا اسکی مدد کو آن پہنچی تھی
مشینیں چپ ھوئیں یکدم
سبھی سڑکوں پہ چلتے دوڑتے پہئیے
سلنسر اور چمنی سے نکلتا زھر بھی
تھم سا گیا تھا
پرندوں اور درختوں نے
مکمل ایک صدی کے غلاظت سے بھرے جو دن گزارے تھے
اچانک کِھل کھلا اٹھے
فلک بھی جگمگا اٹھا
خلا کا زخم بھی بھرنے لگا تھا
مگر انساں بہت سہما
بہت ھی خوف کا مارا
لکیریں کھینچ کر بٹنے لگا تھا
محبت بس فقط آواز تک رھنے لگی تھی
وصالِ روزوشب بس خواب سے ھونے لگے تھے
محبت فاصلوں میں بٹ رھی تھی
مگر یہ بیسویں اکیسویں صدیوں کے قصے ھیں
مرے ھمزاد میں تجھ کو یہ تنبیہہ دے رھاھوں کہ
نئے غنچوں نئے پھولوں کو آلودہ ھواؤں سے بچا لینا
پاکستان کے ممتازکارٹونسٹ مظہرشہزادخان نےکوروناکےتعلقسےایک اور کارٹون بنایا ہے جس میں لوگوں کو اس موذی وبا سے لڑنے کے لیے صاف ستھرا رہنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
مظہر شہزاد خان ہمہ جہت شخصیت ہیں، وہ صرف مصور اور کارٹونسٹ نہیں، شاعر، افسانہ نگار اور اداکار بھی ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی سے پاکستان ٹیلی ویژن سے وابستہ ہیں جہاں وہ روزانہ پاکستان کے مقبول ترین پروگرام خبر کے ساتھ ساتھ میں “فی البدیہہ” کارٹون بنا کر حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے ہیں۔
ان کا ایک حوالہ مجلس آرائی اور تقریبات کا انعقاد بھی ہے۔ انھوں نے “کسب کمال” کے نام سے ادیبوں، شاعروں اور مصوروں کی ایک تنظیم بھی بنا رکھی ہے۔ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس نے اسلام آباد اور راول پنڈی کے ادیبوں اور شاعروں کو ایکبے تکلف پلیٹ فارم فراہم کردیا ہے۔
حال ہی میں انھوں نے کورونا کے اثرات اور ان اثرات کے نتیجے میں ماحولیاتی بہتری پر ایک دلچسپ نظم کہی ہے جس کی دھوم پاکستان اور بیرون پاکستان بھی مچی ہوئی ہے۔
ان کی یہ نظم اور زیر نظر کارٹون ایک ہی سلسلے کی کڑی ہیں، نظم ملاحظہ فرمائیے:
ھَوا میں سرسراھٹ ھے
مگر ویران ھیں گلیاں
عجب سی خامشی ھے
جاں کَنی ھے
سبھی بازار بھی سوکھے پڑے ھیں
کوئی بٌو باس تک آتی نہیں ھے
سبھی اک دوسرے سے ڈر رھے ھیں
مر رھے ھیں
گھروں کے قید خانوں میں
بہت سہمے ھوۓ دن گن رھے ھیں
مگر فطرت دھائیوں کی تھکن کے بوجھ کے نیچے سسکتی جا رھی تھی کہ
وبا اسکی مدد کو آن پہنچی تھی
مشینیں چپ ھوئیں یکدم
سبھی سڑکوں پہ چلتے دوڑتے پہئیے
سلنسر اور چمنی سے نکلتا زھر بھی
تھم سا گیا تھا
پرندوں اور درختوں نے
مکمل ایک صدی کے غلاظت سے بھرے جو دن گزارے تھے
اچانک کِھل کھلا اٹھے
فلک بھی جگمگا اٹھا
خلا کا زخم بھی بھرنے لگا تھا
مگر انساں بہت سہما
بہت ھی خوف کا مارا
لکیریں کھینچ کر بٹنے لگا تھا
محبت بس فقط آواز تک رھنے لگی تھی
وصالِ روزوشب بس خواب سے ھونے لگے تھے
محبت فاصلوں میں بٹ رھی تھی
مگر یہ بیسویں اکیسویں صدیوں کے قصے ھیں
مرے ھمزاد میں تجھ کو یہ تنبیہہ دے رھاھوں کہ
نئے غنچوں نئے پھولوں کو آلودہ ھواؤں سے بچا لینا
پاکستان کے ممتازکارٹونسٹ مظہرشہزادخان نےکوروناکےتعلقسےایک اور کارٹون بنایا ہے جس میں لوگوں کو اس موذی وبا سے لڑنے کے لیے صاف ستھرا رہنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
مظہر شہزاد خان ہمہ جہت شخصیت ہیں، وہ صرف مصور اور کارٹونسٹ نہیں، شاعر، افسانہ نگار اور اداکار بھی ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی سے پاکستان ٹیلی ویژن سے وابستہ ہیں جہاں وہ روزانہ پاکستان کے مقبول ترین پروگرام خبر کے ساتھ ساتھ میں “فی البدیہہ” کارٹون بنا کر حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے ہیں۔
ان کا ایک حوالہ مجلس آرائی اور تقریبات کا انعقاد بھی ہے۔ انھوں نے “کسب کمال” کے نام سے ادیبوں، شاعروں اور مصوروں کی ایک تنظیم بھی بنا رکھی ہے۔ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس نے اسلام آباد اور راول پنڈی کے ادیبوں اور شاعروں کو ایکبے تکلف پلیٹ فارم فراہم کردیا ہے۔
حال ہی میں انھوں نے کورونا کے اثرات اور ان اثرات کے نتیجے میں ماحولیاتی بہتری پر ایک دلچسپ نظم کہی ہے جس کی دھوم پاکستان اور بیرون پاکستان بھی مچی ہوئی ہے۔
ان کی یہ نظم اور زیر نظر کارٹون ایک ہی سلسلے کی کڑی ہیں، نظم ملاحظہ فرمائیے:
ھَوا میں سرسراھٹ ھے
مگر ویران ھیں گلیاں
عجب سی خامشی ھے
جاں کَنی ھے
سبھی بازار بھی سوکھے پڑے ھیں
کوئی بٌو باس تک آتی نہیں ھے
سبھی اک دوسرے سے ڈر رھے ھیں
مر رھے ھیں
گھروں کے قید خانوں میں
بہت سہمے ھوۓ دن گن رھے ھیں
مگر فطرت دھائیوں کی تھکن کے بوجھ کے نیچے سسکتی جا رھی تھی کہ
وبا اسکی مدد کو آن پہنچی تھی
مشینیں چپ ھوئیں یکدم
سبھی سڑکوں پہ چلتے دوڑتے پہئیے
سلنسر اور چمنی سے نکلتا زھر بھی
تھم سا گیا تھا
پرندوں اور درختوں نے
مکمل ایک صدی کے غلاظت سے بھرے جو دن گزارے تھے
اچانک کِھل کھلا اٹھے
فلک بھی جگمگا اٹھا
خلا کا زخم بھی بھرنے لگا تھا
مگر انساں بہت سہما
بہت ھی خوف کا مارا
لکیریں کھینچ کر بٹنے لگا تھا
محبت بس فقط آواز تک رھنے لگی تھی
وصالِ روزوشب بس خواب سے ھونے لگے تھے
محبت فاصلوں میں بٹ رھی تھی
مگر یہ بیسویں اکیسویں صدیوں کے قصے ھیں
مرے ھمزاد میں تجھ کو یہ تنبیہہ دے رھاھوں کہ
نئے غنچوں نئے پھولوں کو آلودہ ھواؤں سے بچا لینا