جب سے worldometer نام کے ویب سائٹ نے دنیا بھر میں نوول کورونا وائرس کے حملوں اور تباہ کاریوں سے متعلق بروقت ہر خبر دینا شروع کی تو میں اس کا مسلسل مشاہدہ کار بن کر رہ گیا تھا۔ دیکھتا تھا کہ کس ملک میں کتنے نئے مریض آئے؟ معمولی مریض کتنے رہے؟ ایسے مریض کتنے تھے جن کو ہسپتالوں میں داخل کرنا پڑا؟ کہاں کتنی اموات ہوئیں؟ کہاں کتنے بہت حد تک مریض یا نازک حالت میں مریض ہیں؟ ہسپتال میں داخل ہونے والے مریضوں میں صحت یاب کتنے ہوئے، کتنوں کی موت ہوئی؟ انہیں جنہیں فعال یعنی Active مریض کہا جاتا ہے، ان میں صحت یاب ہونے اور مرنے والوں کا تناسب کیا ہے؟ یہ تناسب شروع میں 90 اور 10 فیصد کا تھا جس کے 10 فیصد میں روزانہ ایک فیصد کا اضافہ ہوتا چلا گیا اور گیارہ روز میں یہ 21 فیصد کی شرح پر آ کر مستحکم ہو گیا۔ جیسے آج 20 اپریل 2019 کو یہ شرح یوں ہے : صحت یاب ہونے والے 629,390 (79%) / موت کے منہ میں جانے والے 165,153 (21%)۔۔۔۔۔ لیکن ہمیں یہی بتایا جاتا رہا کہ 98 % کو تو بس نزلہ زکام ہوتا ہے اور ٹھیک ہو جاتے ہیں، یہ نہیں بتایا جاتا کہ نزلہ زکام ہو کے ٹھیک ہو جانے والے بھی کورونا وائرس اسی طرح پھیلا سکتے ہیں جیسے بہت زیادہ بیمار ہونے والے یا ایسے لوگ بھی جن میں مرض کی کوئی علامت نہیں ہوتی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ معمولی مریضوں اور زیادہ مریض ہو جانے والوں کی شرح 97 اور 3 فیصد ہے۔ ایک لاکھ کی تین فیصد 3000 ہوتی ہے اور دس لاکھ کی 30000 اور ایک کروڑ کی 300000 جن میں سے 21% مر جاتے ہیں اور جو 79% ٹھیک ہوتے ہیں ماہرین کے مطابق ان کے پھیپھڑے ہمیشہ کے لیے متاثر ہو جاتے ہیں۔
ایسا نہیں کہ صرف ہماری حکومت ہی ہمیں تسلی دیتی ہو ، ہمارے کئی پڑھے لکھے مہربان بھی ایسے ہیں جو ووہان میں مرنے والوں کی تعداد کی سارے چین کی آبادی میں سے شرح نکال کر کہتے ہیں صرف اعشاریہ 007 فیصد ہوئی یوں ہماری تشویش کا ٹھٹھہ اڑاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک صاحب کیلیفورنیا میں بیٹھے محفوظ ہیں، اسی طرح کی باتیں کرتے ہیں ، انہیں یہ بالکل دکھائی نہیں دیتا کہ نیویارک شہر میں روزانہ ہزار ڈیڑھ ہزار افراد مر رہے ہیں۔
مجھے بھی امریکہ جا کے ایک برس رہنے کا اتفاق ہو چکا ہے اور میں نے اخذ کیا تھا کہ امریکیوں کی اکثریت کو خوشحال ہونے کا گمان ہے۔ جس روز ایک ماہ کے لیے ملازمت گئی نہیں کہ کریڈٹ کارڈوں پر خود کو خوشحال سمجھتے امریکی اپنے بل ادا نہ کرسکے اور کریڈٹ کارڈز کا قرض ادا نہ کر سکے تو ان کی چیں بول جائے گی اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔
امریکیوں پر ہی کیا جائیے، میرے ساتھ خود یہ ہوا کہ کورونا کی روش کا بغور جائزہ لیتے لیتے کہیں میرے جسم کی مدافعتی قوت میں لغزش کیا آئی کہ کورونا وائرس کا ہی بھائی بند Varicella Zoster Virus یعنی VZV جو میرے ہی جسم میں مخفی تھا۔ جی ہاں یہ وہی وائرس ہے جو چھوٹے بچوں کو کاکڑا یعنی Chicken Pox کرتا ہے اور پھر ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ اعصاب کے دانوں یعنی Ganglia میں بیٹھ کر دم سادھ لیتا ہے اور عشرے گذرنے کے بعد نہ معلوم کیسے بیدار ہوکر کسی عصب کو انتہائی تکلیف میں مبتلا کر دیتا ہے جو اس نے کیا اور میری کمر میں سب سے نچلی دو پسلیوں کے درمیان کے عصب کو کمر سے پیٹ تک تلملا بلکہ دہلا کے رکھ دیا۔ یہ تو تھا میرے اندر سے وائرس کا حملہ جو مجھے باوجود ہفتے تک وائرس مخالف دوا لینے اور ہفتوں درد دور کرنے والی سخت ادویہ لینے، نجات نہیں دے گا لیکن یہی وائرس باہر سے بھی مجھ پر حملہ آور ہوا جو کسی اور سے آیا تھا اور اس نے مجھے کاکڑا کر دیا۔
مجھے یاد ہے کہ دنیا میں کورونا سے مرنے والوں کی ساٹھ ہزار تعداد تو میں نے صبح اٹھ کر گھر کے عقبی باغیچے میں سیر کے دوران بڑے بھائی کو ہر روز کی طرح بتائی۔ اس کے بعد میں اپنی تکلیف میں بھول گیا کہ کون مرتا ہے کون جیتا ہے۔ ایسا نہیں کہ میں ورلڈومیٹر سائٹ نہیں دیکھتا، روز تین بار ضرور دیکھتا ہوں کیونکہ تیم مختلف اوقات میں مختلف ملکوں کے کورونا کے مریضوں سے متعلق اعداد و شمار درج کیے جاتے ہیں لیکن اپنی تکلیف میں دوسروں کی تکلیف کوئی اتنی زیادہ تکلیف نہیں لگتی۔ یہ بھی ہے کہ جب روز ہزاروں لوگ مر رہے ہوں تو انسان سوچ لیتا ہے کہ بھئی مرنے تو ہیں جیسے آج بھی دنیا میں کورونا کے 54216 مریض یا تو بہت مریض ہیں یا ان کی حالت نازک ہے اور ان میں سے 21% یا زیادہ لامحالہ مریں گے۔
پاکستان نہ سعودیہ ہے نہ اردن، نہ تیونس ہے نہ ترکی۔ نہ یہاں بادشاہت ہے اور نہ چج کی جمہوریت۔ غربت ہے تو حدوں کو چھوتی ہوئی، مذہبی جذباتی پن ہے تو اتنا فضوں تر کیا ہوا کہ دھرنا دینے والوں کو لفافوں میں ہزار ہزار روپے ڈال کر یہ کہتے ہوئے کہ کیا ہم آپ میں سے نہیں دیے گئے تھے۔ اب جب بے دلی سے کیا گیا نیم پختہ نام نہاد لاک ڈاؤن توڑ کے طرح طرح کے کاروبار کرنے والوں کو کام کرنے کی اجازت دی گئی تو آپ مقدس مہینے میں تراویح و اعتکاف سے کیسے روک سکتے تھے کیونکہ نہ سعودیہ کی سی بادشاہت ہے نا ترکی کی سی سخت گیر جمہوریت۔
سو بیس نکات گھڑ کے کہہ دیا کہ پڑھ لو بھئی باجماعت نمازیں اور نماز تراویح بھی۔ ہم جنہوں نے فیصلہ کیا ہے، ہم تو سب پچاس سے اوپر کے ہیں، ہم تو گھر پر ہی رہیں گے۔ حکومت کرے تو کیا کرے؟ شروع سے ہی یہ غول کی جسمانی مدافعت کو ابھارنے یعنی Herd Immunity پیدا کرنے کے درپے تھی سو کر رہی ہے۔ کل 19 اپریل کی رات صحافی سلیم صافی کے شو جرگہ میں قومی تباہی سے نمٹنے کی ایجنسی یعنی National Disaster Management Agency کے سربراہ نے بتایا کہ زیادہ مریض ہونے کی اگلی لہر اگر آئی تو وہ 15 مئی سے 25 مئی تک آئے گی۔ یعنی نماز تراویح شروع ہونے کے 21 روز بعد۔
انہوں نے پھر بتایا کہ انہوں نے ملا جلا کے کوئی 200000 بیڈ تیار کر رکھے ہیں جن میں ہزاروں ICU کے بیڈ ہیں اور کئی ہزاروں آئسولیشن کے۔ چار ہزار وینٹی لیٹر ہیں۔ اللہ نہ کرے ضرورت پڑی تو مئی میں بھی بک ہیں۔ جون میں بھی اور جولائی میں بھی بک ہیں۔ اس کے بعد ایک بار پھر تسلی دی کہ اللہ نے رحم کیا ہے اور رحم کرے گا۔
غول کی قوت مدافعت یوں ہوتی ہے جیسے 100 ہاتھیوں کا غول ہو یا 1000 بھیڑوں کا گلہ۔ وائرس حملہ آور ہو تو 80 ہاتھی متاثر ہوں گے یا 800 بھیڑیں، 72 ہاتھی اور 750 بھیڑیں معمولی بیمار ہو کے اینٹی باڈیز پیدا کرلیں گے۔ 8 ہاتھیوں میں سے تین مر جائیں گے پانچ میں مضبوط اینٹی باڈیز بن جائیں گی۔ 50 بھیڑوں میں سے 18 مر جائیں گی اور 32 مضبوط اینٹی باڈیز پیدا کر لیں گے۔ باقی ماندہ 20 ہاتھی اپنے وائرس مخالف ہوئے مضبوط غول میں وائرس کی پکڑ میں ہی نہیں آئیں گے اسی طرح بقیہ 200 بھیڑیں بھی اپنی محافظ بھیڑوں کی وجہ سے بچی رہیں گی۔ اتنے میں وائرس ماند پڑ جائے گا۔ اگلی دفعہ اگر وائرس آئے گا، اول تو یہ کہ وہ اتنا پھیلنے والا یا اتنا مہلک نہ ہوگا دوسرے یہ کہ ہر صورت نقصان کم کرے گا۔ تیسری بار آئے گا تو بس معمولی بیمار کر سکے گا جیسے کورونا کی صورت میں نزلہ زکام۔
ہم کیا سمجھیں کہ پاکستان میں عوام انسان ہیں یا ہاتھیوں کا غول یا بھیڑوں کا گلّہ؟