Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25

پروفیسر جہانگیر احمد ( ڈی پی آئی کالجز پنجاب) ایک متنوع الصفات شخصیت کے مالک ہیں ان کی تمام تر خوبیاں بیان کرنے لگوں تو شاید تحریر بہت طویل ہو جائے پروفیسر جہانگیر احمد کا تعلق پنجاب کے ضلع چنیوٹ سے ہے اور زیادہ تر ملازمت چنیوٹ اور چناب نگر میں ہی گزری ہے وہ شعبہ فزکس کے ایک بہترین استاد، علم و ادب ،موسیقی اور دیگر فنونِ لطیفہ سے گہرا لگاؤ رکھتے ہیں جس کے لیے کالج میں ادبی اور کھیلوں کی سرگرمیوں پر بہت توجہ دیتے تھے ایک بہترین استاد ہونے کے علاوہ قابل منتظم اور ایک اچھے افسر تھے گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ تعلیم الاسلام کالج چناب نگر اور گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ اسلامیہ کالج چنیوٹ کے پرنسپل بھی رہ چکے ہیں جن دنوں گورنمنٹ ٹی آئی کالج چناب نگر میں پرنسپل کے عہدے پر فائز تھے تو کالج کی املاک کا مسئلہ پیدا ہوا کالج کی تقریباً 65 ایکڑ زرعی زمیں جماعتِ احمدیہ ربوہ کے قبضہ میں تھے جس کے بارے کبھی کسی پرنسپل نے نہ سوچا اور نہ واپسی کی کوشش کی کیونکہ جماعت احمدیہ کے ملکی انتظامیہ میں اثررسوخ بہت زیادہ تھے مگر پروفیسر جہانگیر نے پرنسپل شپ کا عہدہ سنبھالتے ہی کالج کی املاک کو جماعتِ احمدیہ کے قبضہ پر سوال اٹھایا اور چند سالوں میں ساری زرعی زمین کالج کو واپس دلوادی اور ان کا یہ کارنامہ جماعتِ احمدیہ کو ایک آنکھ نہ بھایا انھوں نے پروفیسر جہانگیر کے خلاف ریشہ دوانیاں اور پروپیگنڈے شروع کر دیے جس کے بہت سے برے اثرات برداشت کرنا پڑے اس کے علاوہ چناب نگر کی اندرونی آبادی میں مسلمانوں کے لیے کوئی جامع مسجد نہیں تھی انھوں نے مخیر حضرات سے تعاون کی اپیل کی اور کالج کے اندر ایک نہایت خوب صورت اور وسیع مسجد تعمیر کی اور ہمیشہ باجماعت نماز اور جمعہ کا اہتمام کرتے تھے کالج کے لیے نئی عمارت کی منظوری لی اور ایک بہت بڑا ہال تعمیر ہوا اگر اختصار سے بات کروں تو ٹی آئی کالج کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں تھے 2015 میں بطور ایڈیشنل ڈی پی آئی کالجز پنجاب کے عہدہ پر لاہور ہجرت کر گئے جس پر انھیں بہت سا مالی نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ چنیوٹ میں ان کے دو کالجز اور دو سکول تھے جن کی نگرانی ان کی بیگم ریحانہ جہانگیر کے ذمہ تھی ان کے جانے کے بعد سکول اور کالجز کا بہت نقصان ہوا اکثر نجی محفلوں میں اس امر کا ذکر ہوتا تو کہتے خدا کو یہی منظور کہ مجھ سے یہاں کام لے رہا ہے
پروفیسر جہانگیر صاحب ایک نہایت نفیس،خوش لباس،خوش گفتار اور خوش خوراک انسان ہیں اس پر مستزاد دوستوں کا شیدائی، مہمان نواز، اور اعلیٰ ظرف کے مالک ہیں ان کی شخصیت کا اگر جائزہ لیا جائے تو زیادہ تر مثبت پہلو نمایاں ہوتے ہیں بشری عیوب ہر شخص میں پائے جاتے ہیں اس لیے انھیں فرشتہ کسی صورت نہیں کہہ سکتا ان کی کوشش ہوتی کہ ہر آدمی کا دل جیت پاوں مگر ایسا ممکن نہیں رہا اس لیے کچھ لوگ ان سے نالاں بھی رہے مگر یہ تو ہر صورت ہونا ہی تھا اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ سینئر جونیر کی تفریق کے بغیر ہر اس شخص کو عزت دیتے جو کام کرتا یہ بات چند احباب کو بری لگتی تھی جس سے وہ ناراض ہو جاتے
بدعنوان اور بد اخلاق لوگوں سے ہمیشہ چپکلش رہی مگر بہت سے لوگ دوست بن کر انھیں استعمال بھی کر جاتے تھے اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ جانتے نہیں تھے بلکہ دوستی کا رشتہ غالب آ جاتا اور برداشت کر جاتے
ان کی شخصیت میں ایک بہت عمدہ خوبی یہ ہے کہ جس کے ساتھ تعلق ہو عمر بھر نبھاتے ہیں اور ملاقات میں ہمیشہ پہل کرتے اور دورانِ گفت گو زندگی کو زیرِ بحث رکھتے شراب سیگریٹ اور دیگر نشہ کے بہت خلاف تھے یاسر عرفات اور میں سیگریٹ کے عادی تھےمگر ان کے سامنے کبھی بھی سیگریٹ نہیں سلگایا کالج میں کچھ دیر ہم الگ ہو جاتے تو نائب قاصد کو کہتے خالد عثمان اور یاسر کو ڈھونڈو کہیں سوٹے لگا رہے ہوں گے ایک بار ہم جہانگیر صاحب کے ساتھ سفر میں شریک تھے صبح سے لے دوپہر تین بجے تک سیگریٹ نہ پی سکے ہم اس انتظار میں کہ کب علیحدہ ہوتے اور ہم سیگریٹ لگائیں لیکن ہمیں موقع نہ ملا واپسی پر جہانگیر صاحب کہتے میری داڑھ میں درد ہو رہا میں نے کہا سر گاڑی روکیں میں دوائی لے آتا کہتے یہاں سے کہاں ملے گی میں نے کہا پیچھے ایک فارمیسی دیکھی گاڑی روک کر کہتے جائیں لے آئیں میں تھوڑی دور جا کر ایک نکڑ کی آڑ میں سیگریٹ پینے لگا اور یاسر کو میسج آیا آجاو وہ گاڑی سے نکلنے لگا تو کہتے تم کدھر جارہے یاسر عرفات کہتے عثمان کو ڈھونڈنے چھوٹا ہے کہیں گم نہ ہو جائے ہم دونوں نے بڑے سکون سے اوپر تلے دو سیگریٹ لگائے اور واپس گاڑی میں آ کر کہا کہ فارمیسی نہیں ملی پھر جہانگیر صاحب درد کی حالت میں ہی ڈرائیونگ کرتے رہے اور ہم گھر پہنچ گئے
راتوں کو دیر تک محفل ہوا کرتی جس میں شعرو شاعری اور گائیگی کے علاوہ ڈھولے ماہیے اور لطیفے چلتے قہقہے اور مسکراہٹیں فضاوں میں رقص کرتی
ایک بار جب انھیں ہارٹ اٹیک ہوا مجھے آپی ریحانہ نے فون پر بتایا میں ہسپتال پہنچ گیا ان کی سٹنٹنگ کے وقت ریحانہ جہانگیر ان کے بچے اور میں موجود تھے جیسے ہی سٹریچر تھیٹر سے باہر آیا ہم سامنے تھے عملے نے روکا کچھ دیر بات نہیں کرنا لیکن جہانگیر صاحب دیکھتے ہی کہتے عثمان سنا ٹھیک ہو میں ہونٹوں ہر انگلی رکھ کر خاموش ہونے کا اشارہ کیا کہتے کچھ نہیں ہوتا اب بندہ بات بھی نہ کرے جب وارڈ میں منتقل ہو گئے تو میں ساتھ اسسٹنٹ کے طور پر تھا جہانگیر صاحب بولتے میں چپ کرواتا اچانک کہتے یہ بھی تو ایک موت ہی ہے کہ دونوں اکٹھے بیٹھ کر باتیں نہ کریں میں نے انھیں روکا اور موبائل پر دھیمی آواز میں طاہرہ سید کا گیت چلا دیا
گھریلو معاملات میں بہت اچھے تھے اپنے پرائیویٹ اداروں کی تمام تر آمدن ان کی بیگم کے پاس ہوتی اور بیگم سے کہتے میری تنخواہ کا نہ پوچھیے وہ میری اور میرے دوستوں کے لیے ہے ایک بار ان کی بیگم ریحانہ جہانگیر نے زیورات کا گلہ دیا کہ آپ نے مجھے زیور نہیں لے دیا اسی وقت کہتے چلو فیصل آباد اور اسی دن پچیس لاکھ کا زیور خرید کر تحفہ کردیا ان دنوں سونے کی قیمت غالباً 47 ہزار فی تولہ تھی اس قدر بڑے دل اور وسیع ظرف کے مالک تھے بچوں کو تمام مضامین خود پڑھاتے اور بچوں کے ساتھ دوستی تھی بچے جو بھی خواہش کرتے اسی وقت پوری کرتے
دفتری امور میں جہاں تک میرا مشاہدہ ہے کبھی کسی کو مایوس نہیں کیا اور ہر ممکن حد تک تعاون کرتے میں بلاخوفِ تردید کہہ سکتا کہ آج تک میرا کوئی ذاتی کام نہیں کیا البتہ جس دوست کے کام کے لیے فون کیا جائز حد تک مکمل تعاون کیا اور آفس میں عزت دی آج ان کی مدت ملازمت پوری ہو رہی ہے وہ اپنے کیرئیر کی ایک شانداز اننگ کھیل چکے ہیں ایک لیکچرار سے ڈی پی آئی پنجاب تک کامیابیوں کا سفر طے کیا ہے اس دوران بہت سے نشیب و فراز آئے مگر ڈگمگائے نہیں ہمت اور حوصلے کا ساتھ نہیں چھوڑا آج جہاں ان کی کامیاب سروس پر خوشی ہے وہاں ایک اعلی افسر سے محروم ہونے کا ملال بھی ہے اللہ تعالی انھیں سلامت رکھے اور ان سے مزید اچھے کام لے
سانس در سانس ہجر کی دستک
کتنا مشکل ہے الوداع کہنا

پروفیسر جہانگیر احمد ( ڈی پی آئی کالجز پنجاب) ایک متنوع الصفات شخصیت کے مالک ہیں ان کی تمام تر خوبیاں بیان کرنے لگوں تو شاید تحریر بہت طویل ہو جائے پروفیسر جہانگیر احمد کا تعلق پنجاب کے ضلع چنیوٹ سے ہے اور زیادہ تر ملازمت چنیوٹ اور چناب نگر میں ہی گزری ہے وہ شعبہ فزکس کے ایک بہترین استاد، علم و ادب ،موسیقی اور دیگر فنونِ لطیفہ سے گہرا لگاؤ رکھتے ہیں جس کے لیے کالج میں ادبی اور کھیلوں کی سرگرمیوں پر بہت توجہ دیتے تھے ایک بہترین استاد ہونے کے علاوہ قابل منتظم اور ایک اچھے افسر تھے گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ تعلیم الاسلام کالج چناب نگر اور گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ اسلامیہ کالج چنیوٹ کے پرنسپل بھی رہ چکے ہیں جن دنوں گورنمنٹ ٹی آئی کالج چناب نگر میں پرنسپل کے عہدے پر فائز تھے تو کالج کی املاک کا مسئلہ پیدا ہوا کالج کی تقریباً 65 ایکڑ زرعی زمیں جماعتِ احمدیہ ربوہ کے قبضہ میں تھے جس کے بارے کبھی کسی پرنسپل نے نہ سوچا اور نہ واپسی کی کوشش کی کیونکہ جماعت احمدیہ کے ملکی انتظامیہ میں اثررسوخ بہت زیادہ تھے مگر پروفیسر جہانگیر نے پرنسپل شپ کا عہدہ سنبھالتے ہی کالج کی املاک کو جماعتِ احمدیہ کے قبضہ پر سوال اٹھایا اور چند سالوں میں ساری زرعی زمین کالج کو واپس دلوادی اور ان کا یہ کارنامہ جماعتِ احمدیہ کو ایک آنکھ نہ بھایا انھوں نے پروفیسر جہانگیر کے خلاف ریشہ دوانیاں اور پروپیگنڈے شروع کر دیے جس کے بہت سے برے اثرات برداشت کرنا پڑے اس کے علاوہ چناب نگر کی اندرونی آبادی میں مسلمانوں کے لیے کوئی جامع مسجد نہیں تھی انھوں نے مخیر حضرات سے تعاون کی اپیل کی اور کالج کے اندر ایک نہایت خوب صورت اور وسیع مسجد تعمیر کی اور ہمیشہ باجماعت نماز اور جمعہ کا اہتمام کرتے تھے کالج کے لیے نئی عمارت کی منظوری لی اور ایک بہت بڑا ہال تعمیر ہوا اگر اختصار سے بات کروں تو ٹی آئی کالج کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں تھے 2015 میں بطور ایڈیشنل ڈی پی آئی کالجز پنجاب کے عہدہ پر لاہور ہجرت کر گئے جس پر انھیں بہت سا مالی نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ چنیوٹ میں ان کے دو کالجز اور دو سکول تھے جن کی نگرانی ان کی بیگم ریحانہ جہانگیر کے ذمہ تھی ان کے جانے کے بعد سکول اور کالجز کا بہت نقصان ہوا اکثر نجی محفلوں میں اس امر کا ذکر ہوتا تو کہتے خدا کو یہی منظور کہ مجھ سے یہاں کام لے رہا ہے
پروفیسر جہانگیر صاحب ایک نہایت نفیس،خوش لباس،خوش گفتار اور خوش خوراک انسان ہیں اس پر مستزاد دوستوں کا شیدائی، مہمان نواز، اور اعلیٰ ظرف کے مالک ہیں ان کی شخصیت کا اگر جائزہ لیا جائے تو زیادہ تر مثبت پہلو نمایاں ہوتے ہیں بشری عیوب ہر شخص میں پائے جاتے ہیں اس لیے انھیں فرشتہ کسی صورت نہیں کہہ سکتا ان کی کوشش ہوتی کہ ہر آدمی کا دل جیت پاوں مگر ایسا ممکن نہیں رہا اس لیے کچھ لوگ ان سے نالاں بھی رہے مگر یہ تو ہر صورت ہونا ہی تھا اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ سینئر جونیر کی تفریق کے بغیر ہر اس شخص کو عزت دیتے جو کام کرتا یہ بات چند احباب کو بری لگتی تھی جس سے وہ ناراض ہو جاتے
بدعنوان اور بد اخلاق لوگوں سے ہمیشہ چپکلش رہی مگر بہت سے لوگ دوست بن کر انھیں استعمال بھی کر جاتے تھے اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ جانتے نہیں تھے بلکہ دوستی کا رشتہ غالب آ جاتا اور برداشت کر جاتے
ان کی شخصیت میں ایک بہت عمدہ خوبی یہ ہے کہ جس کے ساتھ تعلق ہو عمر بھر نبھاتے ہیں اور ملاقات میں ہمیشہ پہل کرتے اور دورانِ گفت گو زندگی کو زیرِ بحث رکھتے شراب سیگریٹ اور دیگر نشہ کے بہت خلاف تھے یاسر عرفات اور میں سیگریٹ کے عادی تھےمگر ان کے سامنے کبھی بھی سیگریٹ نہیں سلگایا کالج میں کچھ دیر ہم الگ ہو جاتے تو نائب قاصد کو کہتے خالد عثمان اور یاسر کو ڈھونڈو کہیں سوٹے لگا رہے ہوں گے ایک بار ہم جہانگیر صاحب کے ساتھ سفر میں شریک تھے صبح سے لے دوپہر تین بجے تک سیگریٹ نہ پی سکے ہم اس انتظار میں کہ کب علیحدہ ہوتے اور ہم سیگریٹ لگائیں لیکن ہمیں موقع نہ ملا واپسی پر جہانگیر صاحب کہتے میری داڑھ میں درد ہو رہا میں نے کہا سر گاڑی روکیں میں دوائی لے آتا کہتے یہاں سے کہاں ملے گی میں نے کہا پیچھے ایک فارمیسی دیکھی گاڑی روک کر کہتے جائیں لے آئیں میں تھوڑی دور جا کر ایک نکڑ کی آڑ میں سیگریٹ پینے لگا اور یاسر کو میسج آیا آجاو وہ گاڑی سے نکلنے لگا تو کہتے تم کدھر جارہے یاسر عرفات کہتے عثمان کو ڈھونڈنے چھوٹا ہے کہیں گم نہ ہو جائے ہم دونوں نے بڑے سکون سے اوپر تلے دو سیگریٹ لگائے اور واپس گاڑی میں آ کر کہا کہ فارمیسی نہیں ملی پھر جہانگیر صاحب درد کی حالت میں ہی ڈرائیونگ کرتے رہے اور ہم گھر پہنچ گئے
راتوں کو دیر تک محفل ہوا کرتی جس میں شعرو شاعری اور گائیگی کے علاوہ ڈھولے ماہیے اور لطیفے چلتے قہقہے اور مسکراہٹیں فضاوں میں رقص کرتی
ایک بار جب انھیں ہارٹ اٹیک ہوا مجھے آپی ریحانہ نے فون پر بتایا میں ہسپتال پہنچ گیا ان کی سٹنٹنگ کے وقت ریحانہ جہانگیر ان کے بچے اور میں موجود تھے جیسے ہی سٹریچر تھیٹر سے باہر آیا ہم سامنے تھے عملے نے روکا کچھ دیر بات نہیں کرنا لیکن جہانگیر صاحب دیکھتے ہی کہتے عثمان سنا ٹھیک ہو میں ہونٹوں ہر انگلی رکھ کر خاموش ہونے کا اشارہ کیا کہتے کچھ نہیں ہوتا اب بندہ بات بھی نہ کرے جب وارڈ میں منتقل ہو گئے تو میں ساتھ اسسٹنٹ کے طور پر تھا جہانگیر صاحب بولتے میں چپ کرواتا اچانک کہتے یہ بھی تو ایک موت ہی ہے کہ دونوں اکٹھے بیٹھ کر باتیں نہ کریں میں نے انھیں روکا اور موبائل پر دھیمی آواز میں طاہرہ سید کا گیت چلا دیا
گھریلو معاملات میں بہت اچھے تھے اپنے پرائیویٹ اداروں کی تمام تر آمدن ان کی بیگم کے پاس ہوتی اور بیگم سے کہتے میری تنخواہ کا نہ پوچھیے وہ میری اور میرے دوستوں کے لیے ہے ایک بار ان کی بیگم ریحانہ جہانگیر نے زیورات کا گلہ دیا کہ آپ نے مجھے زیور نہیں لے دیا اسی وقت کہتے چلو فیصل آباد اور اسی دن پچیس لاکھ کا زیور خرید کر تحفہ کردیا ان دنوں سونے کی قیمت غالباً 47 ہزار فی تولہ تھی اس قدر بڑے دل اور وسیع ظرف کے مالک تھے بچوں کو تمام مضامین خود پڑھاتے اور بچوں کے ساتھ دوستی تھی بچے جو بھی خواہش کرتے اسی وقت پوری کرتے
دفتری امور میں جہاں تک میرا مشاہدہ ہے کبھی کسی کو مایوس نہیں کیا اور ہر ممکن حد تک تعاون کرتے میں بلاخوفِ تردید کہہ سکتا کہ آج تک میرا کوئی ذاتی کام نہیں کیا البتہ جس دوست کے کام کے لیے فون کیا جائز حد تک مکمل تعاون کیا اور آفس میں عزت دی آج ان کی مدت ملازمت پوری ہو رہی ہے وہ اپنے کیرئیر کی ایک شانداز اننگ کھیل چکے ہیں ایک لیکچرار سے ڈی پی آئی پنجاب تک کامیابیوں کا سفر طے کیا ہے اس دوران بہت سے نشیب و فراز آئے مگر ڈگمگائے نہیں ہمت اور حوصلے کا ساتھ نہیں چھوڑا آج جہاں ان کی کامیاب سروس پر خوشی ہے وہاں ایک اعلی افسر سے محروم ہونے کا ملال بھی ہے اللہ تعالی انھیں سلامت رکھے اور ان سے مزید اچھے کام لے
سانس در سانس ہجر کی دستک
کتنا مشکل ہے الوداع کہنا

پروفیسر جہانگیر احمد ( ڈی پی آئی کالجز پنجاب) ایک متنوع الصفات شخصیت کے مالک ہیں ان کی تمام تر خوبیاں بیان کرنے لگوں تو شاید تحریر بہت طویل ہو جائے پروفیسر جہانگیر احمد کا تعلق پنجاب کے ضلع چنیوٹ سے ہے اور زیادہ تر ملازمت چنیوٹ اور چناب نگر میں ہی گزری ہے وہ شعبہ فزکس کے ایک بہترین استاد، علم و ادب ،موسیقی اور دیگر فنونِ لطیفہ سے گہرا لگاؤ رکھتے ہیں جس کے لیے کالج میں ادبی اور کھیلوں کی سرگرمیوں پر بہت توجہ دیتے تھے ایک بہترین استاد ہونے کے علاوہ قابل منتظم اور ایک اچھے افسر تھے گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ تعلیم الاسلام کالج چناب نگر اور گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ اسلامیہ کالج چنیوٹ کے پرنسپل بھی رہ چکے ہیں جن دنوں گورنمنٹ ٹی آئی کالج چناب نگر میں پرنسپل کے عہدے پر فائز تھے تو کالج کی املاک کا مسئلہ پیدا ہوا کالج کی تقریباً 65 ایکڑ زرعی زمیں جماعتِ احمدیہ ربوہ کے قبضہ میں تھے جس کے بارے کبھی کسی پرنسپل نے نہ سوچا اور نہ واپسی کی کوشش کی کیونکہ جماعت احمدیہ کے ملکی انتظامیہ میں اثررسوخ بہت زیادہ تھے مگر پروفیسر جہانگیر نے پرنسپل شپ کا عہدہ سنبھالتے ہی کالج کی املاک کو جماعتِ احمدیہ کے قبضہ پر سوال اٹھایا اور چند سالوں میں ساری زرعی زمین کالج کو واپس دلوادی اور ان کا یہ کارنامہ جماعتِ احمدیہ کو ایک آنکھ نہ بھایا انھوں نے پروفیسر جہانگیر کے خلاف ریشہ دوانیاں اور پروپیگنڈے شروع کر دیے جس کے بہت سے برے اثرات برداشت کرنا پڑے اس کے علاوہ چناب نگر کی اندرونی آبادی میں مسلمانوں کے لیے کوئی جامع مسجد نہیں تھی انھوں نے مخیر حضرات سے تعاون کی اپیل کی اور کالج کے اندر ایک نہایت خوب صورت اور وسیع مسجد تعمیر کی اور ہمیشہ باجماعت نماز اور جمعہ کا اہتمام کرتے تھے کالج کے لیے نئی عمارت کی منظوری لی اور ایک بہت بڑا ہال تعمیر ہوا اگر اختصار سے بات کروں تو ٹی آئی کالج کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں تھے 2015 میں بطور ایڈیشنل ڈی پی آئی کالجز پنجاب کے عہدہ پر لاہور ہجرت کر گئے جس پر انھیں بہت سا مالی نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ چنیوٹ میں ان کے دو کالجز اور دو سکول تھے جن کی نگرانی ان کی بیگم ریحانہ جہانگیر کے ذمہ تھی ان کے جانے کے بعد سکول اور کالجز کا بہت نقصان ہوا اکثر نجی محفلوں میں اس امر کا ذکر ہوتا تو کہتے خدا کو یہی منظور کہ مجھ سے یہاں کام لے رہا ہے
پروفیسر جہانگیر صاحب ایک نہایت نفیس،خوش لباس،خوش گفتار اور خوش خوراک انسان ہیں اس پر مستزاد دوستوں کا شیدائی، مہمان نواز، اور اعلیٰ ظرف کے مالک ہیں ان کی شخصیت کا اگر جائزہ لیا جائے تو زیادہ تر مثبت پہلو نمایاں ہوتے ہیں بشری عیوب ہر شخص میں پائے جاتے ہیں اس لیے انھیں فرشتہ کسی صورت نہیں کہہ سکتا ان کی کوشش ہوتی کہ ہر آدمی کا دل جیت پاوں مگر ایسا ممکن نہیں رہا اس لیے کچھ لوگ ان سے نالاں بھی رہے مگر یہ تو ہر صورت ہونا ہی تھا اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ سینئر جونیر کی تفریق کے بغیر ہر اس شخص کو عزت دیتے جو کام کرتا یہ بات چند احباب کو بری لگتی تھی جس سے وہ ناراض ہو جاتے
بدعنوان اور بد اخلاق لوگوں سے ہمیشہ چپکلش رہی مگر بہت سے لوگ دوست بن کر انھیں استعمال بھی کر جاتے تھے اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ جانتے نہیں تھے بلکہ دوستی کا رشتہ غالب آ جاتا اور برداشت کر جاتے
ان کی شخصیت میں ایک بہت عمدہ خوبی یہ ہے کہ جس کے ساتھ تعلق ہو عمر بھر نبھاتے ہیں اور ملاقات میں ہمیشہ پہل کرتے اور دورانِ گفت گو زندگی کو زیرِ بحث رکھتے شراب سیگریٹ اور دیگر نشہ کے بہت خلاف تھے یاسر عرفات اور میں سیگریٹ کے عادی تھےمگر ان کے سامنے کبھی بھی سیگریٹ نہیں سلگایا کالج میں کچھ دیر ہم الگ ہو جاتے تو نائب قاصد کو کہتے خالد عثمان اور یاسر کو ڈھونڈو کہیں سوٹے لگا رہے ہوں گے ایک بار ہم جہانگیر صاحب کے ساتھ سفر میں شریک تھے صبح سے لے دوپہر تین بجے تک سیگریٹ نہ پی سکے ہم اس انتظار میں کہ کب علیحدہ ہوتے اور ہم سیگریٹ لگائیں لیکن ہمیں موقع نہ ملا واپسی پر جہانگیر صاحب کہتے میری داڑھ میں درد ہو رہا میں نے کہا سر گاڑی روکیں میں دوائی لے آتا کہتے یہاں سے کہاں ملے گی میں نے کہا پیچھے ایک فارمیسی دیکھی گاڑی روک کر کہتے جائیں لے آئیں میں تھوڑی دور جا کر ایک نکڑ کی آڑ میں سیگریٹ پینے لگا اور یاسر کو میسج آیا آجاو وہ گاڑی سے نکلنے لگا تو کہتے تم کدھر جارہے یاسر عرفات کہتے عثمان کو ڈھونڈنے چھوٹا ہے کہیں گم نہ ہو جائے ہم دونوں نے بڑے سکون سے اوپر تلے دو سیگریٹ لگائے اور واپس گاڑی میں آ کر کہا کہ فارمیسی نہیں ملی پھر جہانگیر صاحب درد کی حالت میں ہی ڈرائیونگ کرتے رہے اور ہم گھر پہنچ گئے
راتوں کو دیر تک محفل ہوا کرتی جس میں شعرو شاعری اور گائیگی کے علاوہ ڈھولے ماہیے اور لطیفے چلتے قہقہے اور مسکراہٹیں فضاوں میں رقص کرتی
ایک بار جب انھیں ہارٹ اٹیک ہوا مجھے آپی ریحانہ نے فون پر بتایا میں ہسپتال پہنچ گیا ان کی سٹنٹنگ کے وقت ریحانہ جہانگیر ان کے بچے اور میں موجود تھے جیسے ہی سٹریچر تھیٹر سے باہر آیا ہم سامنے تھے عملے نے روکا کچھ دیر بات نہیں کرنا لیکن جہانگیر صاحب دیکھتے ہی کہتے عثمان سنا ٹھیک ہو میں ہونٹوں ہر انگلی رکھ کر خاموش ہونے کا اشارہ کیا کہتے کچھ نہیں ہوتا اب بندہ بات بھی نہ کرے جب وارڈ میں منتقل ہو گئے تو میں ساتھ اسسٹنٹ کے طور پر تھا جہانگیر صاحب بولتے میں چپ کرواتا اچانک کہتے یہ بھی تو ایک موت ہی ہے کہ دونوں اکٹھے بیٹھ کر باتیں نہ کریں میں نے انھیں روکا اور موبائل پر دھیمی آواز میں طاہرہ سید کا گیت چلا دیا
گھریلو معاملات میں بہت اچھے تھے اپنے پرائیویٹ اداروں کی تمام تر آمدن ان کی بیگم کے پاس ہوتی اور بیگم سے کہتے میری تنخواہ کا نہ پوچھیے وہ میری اور میرے دوستوں کے لیے ہے ایک بار ان کی بیگم ریحانہ جہانگیر نے زیورات کا گلہ دیا کہ آپ نے مجھے زیور نہیں لے دیا اسی وقت کہتے چلو فیصل آباد اور اسی دن پچیس لاکھ کا زیور خرید کر تحفہ کردیا ان دنوں سونے کی قیمت غالباً 47 ہزار فی تولہ تھی اس قدر بڑے دل اور وسیع ظرف کے مالک تھے بچوں کو تمام مضامین خود پڑھاتے اور بچوں کے ساتھ دوستی تھی بچے جو بھی خواہش کرتے اسی وقت پوری کرتے
دفتری امور میں جہاں تک میرا مشاہدہ ہے کبھی کسی کو مایوس نہیں کیا اور ہر ممکن حد تک تعاون کرتے میں بلاخوفِ تردید کہہ سکتا کہ آج تک میرا کوئی ذاتی کام نہیں کیا البتہ جس دوست کے کام کے لیے فون کیا جائز حد تک مکمل تعاون کیا اور آفس میں عزت دی آج ان کی مدت ملازمت پوری ہو رہی ہے وہ اپنے کیرئیر کی ایک شانداز اننگ کھیل چکے ہیں ایک لیکچرار سے ڈی پی آئی پنجاب تک کامیابیوں کا سفر طے کیا ہے اس دوران بہت سے نشیب و فراز آئے مگر ڈگمگائے نہیں ہمت اور حوصلے کا ساتھ نہیں چھوڑا آج جہاں ان کی کامیاب سروس پر خوشی ہے وہاں ایک اعلی افسر سے محروم ہونے کا ملال بھی ہے اللہ تعالی انھیں سلامت رکھے اور ان سے مزید اچھے کام لے
سانس در سانس ہجر کی دستک
کتنا مشکل ہے الوداع کہنا

پروفیسر جہانگیر احمد ( ڈی پی آئی کالجز پنجاب) ایک متنوع الصفات شخصیت کے مالک ہیں ان کی تمام تر خوبیاں بیان کرنے لگوں تو شاید تحریر بہت طویل ہو جائے پروفیسر جہانگیر احمد کا تعلق پنجاب کے ضلع چنیوٹ سے ہے اور زیادہ تر ملازمت چنیوٹ اور چناب نگر میں ہی گزری ہے وہ شعبہ فزکس کے ایک بہترین استاد، علم و ادب ،موسیقی اور دیگر فنونِ لطیفہ سے گہرا لگاؤ رکھتے ہیں جس کے لیے کالج میں ادبی اور کھیلوں کی سرگرمیوں پر بہت توجہ دیتے تھے ایک بہترین استاد ہونے کے علاوہ قابل منتظم اور ایک اچھے افسر تھے گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ تعلیم الاسلام کالج چناب نگر اور گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ اسلامیہ کالج چنیوٹ کے پرنسپل بھی رہ چکے ہیں جن دنوں گورنمنٹ ٹی آئی کالج چناب نگر میں پرنسپل کے عہدے پر فائز تھے تو کالج کی املاک کا مسئلہ پیدا ہوا کالج کی تقریباً 65 ایکڑ زرعی زمیں جماعتِ احمدیہ ربوہ کے قبضہ میں تھے جس کے بارے کبھی کسی پرنسپل نے نہ سوچا اور نہ واپسی کی کوشش کی کیونکہ جماعت احمدیہ کے ملکی انتظامیہ میں اثررسوخ بہت زیادہ تھے مگر پروفیسر جہانگیر نے پرنسپل شپ کا عہدہ سنبھالتے ہی کالج کی املاک کو جماعتِ احمدیہ کے قبضہ پر سوال اٹھایا اور چند سالوں میں ساری زرعی زمین کالج کو واپس دلوادی اور ان کا یہ کارنامہ جماعتِ احمدیہ کو ایک آنکھ نہ بھایا انھوں نے پروفیسر جہانگیر کے خلاف ریشہ دوانیاں اور پروپیگنڈے شروع کر دیے جس کے بہت سے برے اثرات برداشت کرنا پڑے اس کے علاوہ چناب نگر کی اندرونی آبادی میں مسلمانوں کے لیے کوئی جامع مسجد نہیں تھی انھوں نے مخیر حضرات سے تعاون کی اپیل کی اور کالج کے اندر ایک نہایت خوب صورت اور وسیع مسجد تعمیر کی اور ہمیشہ باجماعت نماز اور جمعہ کا اہتمام کرتے تھے کالج کے لیے نئی عمارت کی منظوری لی اور ایک بہت بڑا ہال تعمیر ہوا اگر اختصار سے بات کروں تو ٹی آئی کالج کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں تھے 2015 میں بطور ایڈیشنل ڈی پی آئی کالجز پنجاب کے عہدہ پر لاہور ہجرت کر گئے جس پر انھیں بہت سا مالی نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ چنیوٹ میں ان کے دو کالجز اور دو سکول تھے جن کی نگرانی ان کی بیگم ریحانہ جہانگیر کے ذمہ تھی ان کے جانے کے بعد سکول اور کالجز کا بہت نقصان ہوا اکثر نجی محفلوں میں اس امر کا ذکر ہوتا تو کہتے خدا کو یہی منظور کہ مجھ سے یہاں کام لے رہا ہے
پروفیسر جہانگیر صاحب ایک نہایت نفیس،خوش لباس،خوش گفتار اور خوش خوراک انسان ہیں اس پر مستزاد دوستوں کا شیدائی، مہمان نواز، اور اعلیٰ ظرف کے مالک ہیں ان کی شخصیت کا اگر جائزہ لیا جائے تو زیادہ تر مثبت پہلو نمایاں ہوتے ہیں بشری عیوب ہر شخص میں پائے جاتے ہیں اس لیے انھیں فرشتہ کسی صورت نہیں کہہ سکتا ان کی کوشش ہوتی کہ ہر آدمی کا دل جیت پاوں مگر ایسا ممکن نہیں رہا اس لیے کچھ لوگ ان سے نالاں بھی رہے مگر یہ تو ہر صورت ہونا ہی تھا اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ سینئر جونیر کی تفریق کے بغیر ہر اس شخص کو عزت دیتے جو کام کرتا یہ بات چند احباب کو بری لگتی تھی جس سے وہ ناراض ہو جاتے
بدعنوان اور بد اخلاق لوگوں سے ہمیشہ چپکلش رہی مگر بہت سے لوگ دوست بن کر انھیں استعمال بھی کر جاتے تھے اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ جانتے نہیں تھے بلکہ دوستی کا رشتہ غالب آ جاتا اور برداشت کر جاتے
ان کی شخصیت میں ایک بہت عمدہ خوبی یہ ہے کہ جس کے ساتھ تعلق ہو عمر بھر نبھاتے ہیں اور ملاقات میں ہمیشہ پہل کرتے اور دورانِ گفت گو زندگی کو زیرِ بحث رکھتے شراب سیگریٹ اور دیگر نشہ کے بہت خلاف تھے یاسر عرفات اور میں سیگریٹ کے عادی تھےمگر ان کے سامنے کبھی بھی سیگریٹ نہیں سلگایا کالج میں کچھ دیر ہم الگ ہو جاتے تو نائب قاصد کو کہتے خالد عثمان اور یاسر کو ڈھونڈو کہیں سوٹے لگا رہے ہوں گے ایک بار ہم جہانگیر صاحب کے ساتھ سفر میں شریک تھے صبح سے لے دوپہر تین بجے تک سیگریٹ نہ پی سکے ہم اس انتظار میں کہ کب علیحدہ ہوتے اور ہم سیگریٹ لگائیں لیکن ہمیں موقع نہ ملا واپسی پر جہانگیر صاحب کہتے میری داڑھ میں درد ہو رہا میں نے کہا سر گاڑی روکیں میں دوائی لے آتا کہتے یہاں سے کہاں ملے گی میں نے کہا پیچھے ایک فارمیسی دیکھی گاڑی روک کر کہتے جائیں لے آئیں میں تھوڑی دور جا کر ایک نکڑ کی آڑ میں سیگریٹ پینے لگا اور یاسر کو میسج آیا آجاو وہ گاڑی سے نکلنے لگا تو کہتے تم کدھر جارہے یاسر عرفات کہتے عثمان کو ڈھونڈنے چھوٹا ہے کہیں گم نہ ہو جائے ہم دونوں نے بڑے سکون سے اوپر تلے دو سیگریٹ لگائے اور واپس گاڑی میں آ کر کہا کہ فارمیسی نہیں ملی پھر جہانگیر صاحب درد کی حالت میں ہی ڈرائیونگ کرتے رہے اور ہم گھر پہنچ گئے
راتوں کو دیر تک محفل ہوا کرتی جس میں شعرو شاعری اور گائیگی کے علاوہ ڈھولے ماہیے اور لطیفے چلتے قہقہے اور مسکراہٹیں فضاوں میں رقص کرتی
ایک بار جب انھیں ہارٹ اٹیک ہوا مجھے آپی ریحانہ نے فون پر بتایا میں ہسپتال پہنچ گیا ان کی سٹنٹنگ کے وقت ریحانہ جہانگیر ان کے بچے اور میں موجود تھے جیسے ہی سٹریچر تھیٹر سے باہر آیا ہم سامنے تھے عملے نے روکا کچھ دیر بات نہیں کرنا لیکن جہانگیر صاحب دیکھتے ہی کہتے عثمان سنا ٹھیک ہو میں ہونٹوں ہر انگلی رکھ کر خاموش ہونے کا اشارہ کیا کہتے کچھ نہیں ہوتا اب بندہ بات بھی نہ کرے جب وارڈ میں منتقل ہو گئے تو میں ساتھ اسسٹنٹ کے طور پر تھا جہانگیر صاحب بولتے میں چپ کرواتا اچانک کہتے یہ بھی تو ایک موت ہی ہے کہ دونوں اکٹھے بیٹھ کر باتیں نہ کریں میں نے انھیں روکا اور موبائل پر دھیمی آواز میں طاہرہ سید کا گیت چلا دیا
گھریلو معاملات میں بہت اچھے تھے اپنے پرائیویٹ اداروں کی تمام تر آمدن ان کی بیگم کے پاس ہوتی اور بیگم سے کہتے میری تنخواہ کا نہ پوچھیے وہ میری اور میرے دوستوں کے لیے ہے ایک بار ان کی بیگم ریحانہ جہانگیر نے زیورات کا گلہ دیا کہ آپ نے مجھے زیور نہیں لے دیا اسی وقت کہتے چلو فیصل آباد اور اسی دن پچیس لاکھ کا زیور خرید کر تحفہ کردیا ان دنوں سونے کی قیمت غالباً 47 ہزار فی تولہ تھی اس قدر بڑے دل اور وسیع ظرف کے مالک تھے بچوں کو تمام مضامین خود پڑھاتے اور بچوں کے ساتھ دوستی تھی بچے جو بھی خواہش کرتے اسی وقت پوری کرتے
دفتری امور میں جہاں تک میرا مشاہدہ ہے کبھی کسی کو مایوس نہیں کیا اور ہر ممکن حد تک تعاون کرتے میں بلاخوفِ تردید کہہ سکتا کہ آج تک میرا کوئی ذاتی کام نہیں کیا البتہ جس دوست کے کام کے لیے فون کیا جائز حد تک مکمل تعاون کیا اور آفس میں عزت دی آج ان کی مدت ملازمت پوری ہو رہی ہے وہ اپنے کیرئیر کی ایک شانداز اننگ کھیل چکے ہیں ایک لیکچرار سے ڈی پی آئی پنجاب تک کامیابیوں کا سفر طے کیا ہے اس دوران بہت سے نشیب و فراز آئے مگر ڈگمگائے نہیں ہمت اور حوصلے کا ساتھ نہیں چھوڑا آج جہاں ان کی کامیاب سروس پر خوشی ہے وہاں ایک اعلی افسر سے محروم ہونے کا ملال بھی ہے اللہ تعالی انھیں سلامت رکھے اور ان سے مزید اچھے کام لے
سانس در سانس ہجر کی دستک
کتنا مشکل ہے الوداع کہنا