Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
میری پیٹھ میں شدید درد اور جلن ہے۔ بائیں طرف کی سامنے کی پسلیوں کا نچلا حصہ بھی دکھ رہا ہے۔ پیٹ کے پٹھے اکڑے ہوئے ہیں۔ گذشتہ تین روز اور تین راتیں اس تکلیف دہ درد کے سبب بہت کٹھن رہے۔ درد دور کرنے کی وہ ادویہ بھی لیں جو بظاہر بے ضرر ہیں اور وہ بھی جو کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی صورت میں نہیں لی جانی چاہییں اور ایسی ادویہ جنہیں Non steroid anti inflammatory drugs یعنی NSAID کہا جاتا ہے اور جن کے لٹریچر پر جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے ” وارننگ، اس دوا سے خون کے جمنے کے سبب دل کی اور امراض کے ساتھ دل کے پٹھوں کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ میں ٹھہرا طب کا طالبعلم چنانچہ لینے سے گریز کرتا رہا مگر دو ڈاکٹر دوستوں کے تسلی دلانے پر خواستہ ناخواستہ لینی پڑیں مگر تھوڑی دیر درد کچھ دور ہونے کے علاوہ ان کا کوئی اثر نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ یہ ادویہ آنکھیں بند کرکے کھا لیتے ہونگے یعنی Voltran, Keflam , Neproxin وغیرہ۔ لا علمی اکثر اوقات سود مند ہوتی ہے اسی لیے کہا گیا ہے کہ الف پہ ہی بس کر دو یار کیونکہ زیادہ جانو گے تو تشکیک میں پڑ جاؤگے۔
ہوا یہ تھا کہ 25 فروری کو جب میں غیر متوقع طور پر لاہور سے ملتان پہنچا تو علی پور گھر میں فون کیا تھا۔ بھتیجی نے بتایا کہ شازی بھائی جان یعنی مرزا شہزاد کو شدید خسرہ نکلا ہوا ہے اور انہیں نمونیہ بھی ہو گیا تھا ویسے اب کچھ ٹھیک ہیں۔ میں نے علی پور پہنچنے سے انکار کر دیا تھا مگر چونکہ 27 کو حیدرآباد سے ملتان پہنچا میرا دوست حسین سومرو اپنی کار پہ واپس جا رہا تھا چنانچہ میں نے اس سے کہا کہ مجھے علی پور ڈراپ کر دینا۔
شہزاد بیچارہ گھر میں اپنے چوبارے میں بند تھا۔ اس کی بہن کرن ماسک پہن کے اسے ضرورت کی اشیاء دے آتی۔ وہ کہیں 4 مارچ کو صحت یاب ہو کر نیچے اترا تھا۔ نہانے کے لیے اس کا صابن بھی علیحدہ تھا البتہ بالٹی ایک تھی جسے میں اچھی طرح دھو کر کے استعمال کرتا یعنی خسرہ، نہیں نہیں، اسے چکن پوکس تھی جس سے متاثر ہونے کا کوئی احتمال نہیں تھا۔
چار روز پہلے گھر میں سوجی کا حلوہ بنا۔ میں نے تھوڑا سا کھایا اور پھر کچھ دیر بعد ظہر کی نماز پڑھنے کھڑا ہوا تو میرے جسم میں اوپر سے نیچے تک ارتعاش کی لہریں دوڑتی محسوس ہوئیں۔ شاید بہت میٹھا تھا حلوہ، کہیں اس وجہ سے نہ ہو مگر یہ بے چین کن ارتعاش جاری رہا۔ اگلے روز میری کمر کےنیچے کی طرف کسی ایک پٹھے میں شدید درد شروع ہو گیا۔ میں نے سمجھا کہ غلط انداز سے لیٹنے کے سبب کوئی پٹھا چڑھ گیا ہوگا۔ درد کے ساتھ کمر کے ایک خاص حصے میں جلن بھی شروع ہو گئی۔ یہ درد اور جلن بڑھ کے بائیں طرف سامنے کی پسلیوں کے ایک حصے میں بھی منتقل ہو گئے۔ سوتے ہوئے جس کروٹ بھی لیٹا، درد اس قدر بے چین کرتا کہ اٹھنا پڑ جاتا۔ تاحتٰی صبح ہو گئی۔ میں نے بڑی بہن سے کہا کہ مجھے کمر پہ ڈکلوران کریم مل دو۔ اس نے مل دی کوئی افاقہ نہ ہوا۔ اس نے ہنگامی طور استری گرم کی کپڑے کی چار تہیں کرکے میرے درد والے حصے پہ رکھ کے سنکائی کر دی۔ کچھ دیر سکون آیا اور میں کچھ دیر کے لیے سو لیا مگر ڈیڑھ گھنٹے بعد ہی درد سے اٹھ بیٹھا۔
اسی روز میری بڑی سے چھوٹی بہن کی طبیعت بہت بگڑ گئی۔ وہ ایک عرصہ سے دل کی بیماری کے سبب ہونے والے دمہ یعنی Cardiac asthma میں مبتلا ہے۔ کورونا کا زمانہ جا رہا ہے۔ 1122 والوں سے تسلی کرکے کہ ان کی ایمبولینس میں کورونا کا شکار لوگ تو نہیں بھیجے گئے، بڑی بہن کو ایمبولینس میں ہی آکسیجن دی گئی۔ اس کی طبیعت کچھ سنبھلی تو ہمارے فیملی ڈاکٹر رانا اسلم خان دیکھنے آئے۔ میں نے گذارش کی کہ میری کمر میں بہت درد ہے۔ انہوں نے یہ کہہ کے ٹال دیا کہ کچھ نہیں، غلط انداز میں لیٹنے کی وجہ سے ہو گیا ہوگا، درد دور کرنے کی عام دوا لے لیں افاقہ ہو جائے گا۔
جب مجھے یہ اندازہ ہوا کہ یہ درد کمر سے ایک لائن میں آگے کی جانب بڑھا ہے تو مجھے شک پڑا کہ ہو نہ ہو یہ Herpes zoster ہے جس کا درد انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ مزیدار بات یہ ہے کہ یہ مرض بھی اسی وائرس سے ہوتا ہے جس سے چکن پوکس ہوتا ہے۔ جب تک مریض کو براہ راست چھوئیں نہ تو یہ قریب کھڑے رہنے سے بھی منتقل نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ شہزاد سے تو لگا نہیں۔
میں نے اس کے بارے میں پڑھنا شروع کیا تو جھنجھناہٹ یعنی ارتعاش اس مرض کا ہرکارہ نکلا۔ اگلے روز بہن کی طبیعت مزید بگڑی، اسے پھر آکسیجن دلوائی گئی۔ ڈاکٹر موصوف پھر تشریف لائے انہیں دیکھنے کو تو میں نے ان سے کہا کہ مجھے تو Herpes zoster ہے، آپ نے دیکھنا ہی مناسب نہیں جانا۔ پھر انہوں نے دیکھا اور کہا کہ دانہ تو کوئی نہیں۔ اگر ہو جائے تو انٹی وائرل دوا لے لیجیے گا۔
کل سے دانے بھی بن گئے۔ درد بھی بڑھ گیا اور تشویش بھی، تشویش اس لیے کہ بڑھاپے میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بہن کو جل بن مچھلی کی مانند سانس لیتے دیکھ کر، مجھے لگا کہ بس انہیں کچھ ہو جائے گا، اگرچہ ابھی انہیں خون کی دوسری بوتل لگی ہوئی ہے اور ان کی حالت بھی کچھ بہتر ہے لیکن ان کی تکلیف نے مجھے اس قدر پریشان کیا کہ ایک ڈیڑھ ماہ سے کورونا کے بارے میں جان جان کر ہوا سٹریس مزید بڑھ گیا، بدنی قوت مزاحمت کم ہوئی تو جسم میں کہیں سالہا سال سے خفتہ دم سادھے پڑے Varicella Zoster Virus نے اپنا کام دکھا دیا۔
اس مرض کا درد بہت اذئت ناک ہوتا ہے۔ جس تن لگیاں سو تن جانے والی بات ہے۔ دو سے چار ہفتوں میں اگر خدانخواستہ کوئی پیچیدگی نہ ہو تو یہ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اتنا درد سہنے کو یہ کچھ کم وقت نہیں۔ درد دور کرنے کی ادویہ، گرم یا سرد ٹکور بس کچھ منٹوں کے لیے تکلیف کم کرتے ہیں، پھر سے وہی اذیت۔ نقاہت بھی ہوتی ہے، بھوک کم ہو جاتی ہے، پیٹ کے پٹھے اکڑنے سے قبض بھی ہو جاتی ہے۔ نیند خراب ہو جاتی ہے۔ دعا کیجیے کہ میں اس تکلیف سے ہمت حوصلے سے نبرد آزما ہو پاؤں۔
وبا سے بچنے کی کوشش میں وائرس کی برادری والے نے اپنا کام دکھا دیا، اللہ البتہ کورونا سے محفوظ رکھے، آمین۔
میری پیٹھ میں شدید درد اور جلن ہے۔ بائیں طرف کی سامنے کی پسلیوں کا نچلا حصہ بھی دکھ رہا ہے۔ پیٹ کے پٹھے اکڑے ہوئے ہیں۔ گذشتہ تین روز اور تین راتیں اس تکلیف دہ درد کے سبب بہت کٹھن رہے۔ درد دور کرنے کی وہ ادویہ بھی لیں جو بظاہر بے ضرر ہیں اور وہ بھی جو کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی صورت میں نہیں لی جانی چاہییں اور ایسی ادویہ جنہیں Non steroid anti inflammatory drugs یعنی NSAID کہا جاتا ہے اور جن کے لٹریچر پر جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے ” وارننگ، اس دوا سے خون کے جمنے کے سبب دل کی اور امراض کے ساتھ دل کے پٹھوں کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ میں ٹھہرا طب کا طالبعلم چنانچہ لینے سے گریز کرتا رہا مگر دو ڈاکٹر دوستوں کے تسلی دلانے پر خواستہ ناخواستہ لینی پڑیں مگر تھوڑی دیر درد کچھ دور ہونے کے علاوہ ان کا کوئی اثر نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ یہ ادویہ آنکھیں بند کرکے کھا لیتے ہونگے یعنی Voltran, Keflam , Neproxin وغیرہ۔ لا علمی اکثر اوقات سود مند ہوتی ہے اسی لیے کہا گیا ہے کہ الف پہ ہی بس کر دو یار کیونکہ زیادہ جانو گے تو تشکیک میں پڑ جاؤگے۔
ہوا یہ تھا کہ 25 فروری کو جب میں غیر متوقع طور پر لاہور سے ملتان پہنچا تو علی پور گھر میں فون کیا تھا۔ بھتیجی نے بتایا کہ شازی بھائی جان یعنی مرزا شہزاد کو شدید خسرہ نکلا ہوا ہے اور انہیں نمونیہ بھی ہو گیا تھا ویسے اب کچھ ٹھیک ہیں۔ میں نے علی پور پہنچنے سے انکار کر دیا تھا مگر چونکہ 27 کو حیدرآباد سے ملتان پہنچا میرا دوست حسین سومرو اپنی کار پہ واپس جا رہا تھا چنانچہ میں نے اس سے کہا کہ مجھے علی پور ڈراپ کر دینا۔
شہزاد بیچارہ گھر میں اپنے چوبارے میں بند تھا۔ اس کی بہن کرن ماسک پہن کے اسے ضرورت کی اشیاء دے آتی۔ وہ کہیں 4 مارچ کو صحت یاب ہو کر نیچے اترا تھا۔ نہانے کے لیے اس کا صابن بھی علیحدہ تھا البتہ بالٹی ایک تھی جسے میں اچھی طرح دھو کر کے استعمال کرتا یعنی خسرہ، نہیں نہیں، اسے چکن پوکس تھی جس سے متاثر ہونے کا کوئی احتمال نہیں تھا۔
چار روز پہلے گھر میں سوجی کا حلوہ بنا۔ میں نے تھوڑا سا کھایا اور پھر کچھ دیر بعد ظہر کی نماز پڑھنے کھڑا ہوا تو میرے جسم میں اوپر سے نیچے تک ارتعاش کی لہریں دوڑتی محسوس ہوئیں۔ شاید بہت میٹھا تھا حلوہ، کہیں اس وجہ سے نہ ہو مگر یہ بے چین کن ارتعاش جاری رہا۔ اگلے روز میری کمر کےنیچے کی طرف کسی ایک پٹھے میں شدید درد شروع ہو گیا۔ میں نے سمجھا کہ غلط انداز سے لیٹنے کے سبب کوئی پٹھا چڑھ گیا ہوگا۔ درد کے ساتھ کمر کے ایک خاص حصے میں جلن بھی شروع ہو گئی۔ یہ درد اور جلن بڑھ کے بائیں طرف سامنے کی پسلیوں کے ایک حصے میں بھی منتقل ہو گئے۔ سوتے ہوئے جس کروٹ بھی لیٹا، درد اس قدر بے چین کرتا کہ اٹھنا پڑ جاتا۔ تاحتٰی صبح ہو گئی۔ میں نے بڑی بہن سے کہا کہ مجھے کمر پہ ڈکلوران کریم مل دو۔ اس نے مل دی کوئی افاقہ نہ ہوا۔ اس نے ہنگامی طور استری گرم کی کپڑے کی چار تہیں کرکے میرے درد والے حصے پہ رکھ کے سنکائی کر دی۔ کچھ دیر سکون آیا اور میں کچھ دیر کے لیے سو لیا مگر ڈیڑھ گھنٹے بعد ہی درد سے اٹھ بیٹھا۔
اسی روز میری بڑی سے چھوٹی بہن کی طبیعت بہت بگڑ گئی۔ وہ ایک عرصہ سے دل کی بیماری کے سبب ہونے والے دمہ یعنی Cardiac asthma میں مبتلا ہے۔ کورونا کا زمانہ جا رہا ہے۔ 1122 والوں سے تسلی کرکے کہ ان کی ایمبولینس میں کورونا کا شکار لوگ تو نہیں بھیجے گئے، بڑی بہن کو ایمبولینس میں ہی آکسیجن دی گئی۔ اس کی طبیعت کچھ سنبھلی تو ہمارے فیملی ڈاکٹر رانا اسلم خان دیکھنے آئے۔ میں نے گذارش کی کہ میری کمر میں بہت درد ہے۔ انہوں نے یہ کہہ کے ٹال دیا کہ کچھ نہیں، غلط انداز میں لیٹنے کی وجہ سے ہو گیا ہوگا، درد دور کرنے کی عام دوا لے لیں افاقہ ہو جائے گا۔
جب مجھے یہ اندازہ ہوا کہ یہ درد کمر سے ایک لائن میں آگے کی جانب بڑھا ہے تو مجھے شک پڑا کہ ہو نہ ہو یہ Herpes zoster ہے جس کا درد انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ مزیدار بات یہ ہے کہ یہ مرض بھی اسی وائرس سے ہوتا ہے جس سے چکن پوکس ہوتا ہے۔ جب تک مریض کو براہ راست چھوئیں نہ تو یہ قریب کھڑے رہنے سے بھی منتقل نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ شہزاد سے تو لگا نہیں۔
میں نے اس کے بارے میں پڑھنا شروع کیا تو جھنجھناہٹ یعنی ارتعاش اس مرض کا ہرکارہ نکلا۔ اگلے روز بہن کی طبیعت مزید بگڑی، اسے پھر آکسیجن دلوائی گئی۔ ڈاکٹر موصوف پھر تشریف لائے انہیں دیکھنے کو تو میں نے ان سے کہا کہ مجھے تو Herpes zoster ہے، آپ نے دیکھنا ہی مناسب نہیں جانا۔ پھر انہوں نے دیکھا اور کہا کہ دانہ تو کوئی نہیں۔ اگر ہو جائے تو انٹی وائرل دوا لے لیجیے گا۔
کل سے دانے بھی بن گئے۔ درد بھی بڑھ گیا اور تشویش بھی، تشویش اس لیے کہ بڑھاپے میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بہن کو جل بن مچھلی کی مانند سانس لیتے دیکھ کر، مجھے لگا کہ بس انہیں کچھ ہو جائے گا، اگرچہ ابھی انہیں خون کی دوسری بوتل لگی ہوئی ہے اور ان کی حالت بھی کچھ بہتر ہے لیکن ان کی تکلیف نے مجھے اس قدر پریشان کیا کہ ایک ڈیڑھ ماہ سے کورونا کے بارے میں جان جان کر ہوا سٹریس مزید بڑھ گیا، بدنی قوت مزاحمت کم ہوئی تو جسم میں کہیں سالہا سال سے خفتہ دم سادھے پڑے Varicella Zoster Virus نے اپنا کام دکھا دیا۔
اس مرض کا درد بہت اذئت ناک ہوتا ہے۔ جس تن لگیاں سو تن جانے والی بات ہے۔ دو سے چار ہفتوں میں اگر خدانخواستہ کوئی پیچیدگی نہ ہو تو یہ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اتنا درد سہنے کو یہ کچھ کم وقت نہیں۔ درد دور کرنے کی ادویہ، گرم یا سرد ٹکور بس کچھ منٹوں کے لیے تکلیف کم کرتے ہیں، پھر سے وہی اذیت۔ نقاہت بھی ہوتی ہے، بھوک کم ہو جاتی ہے، پیٹ کے پٹھے اکڑنے سے قبض بھی ہو جاتی ہے۔ نیند خراب ہو جاتی ہے۔ دعا کیجیے کہ میں اس تکلیف سے ہمت حوصلے سے نبرد آزما ہو پاؤں۔
وبا سے بچنے کی کوشش میں وائرس کی برادری والے نے اپنا کام دکھا دیا، اللہ البتہ کورونا سے محفوظ رکھے، آمین۔
میری پیٹھ میں شدید درد اور جلن ہے۔ بائیں طرف کی سامنے کی پسلیوں کا نچلا حصہ بھی دکھ رہا ہے۔ پیٹ کے پٹھے اکڑے ہوئے ہیں۔ گذشتہ تین روز اور تین راتیں اس تکلیف دہ درد کے سبب بہت کٹھن رہے۔ درد دور کرنے کی وہ ادویہ بھی لیں جو بظاہر بے ضرر ہیں اور وہ بھی جو کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی صورت میں نہیں لی جانی چاہییں اور ایسی ادویہ جنہیں Non steroid anti inflammatory drugs یعنی NSAID کہا جاتا ہے اور جن کے لٹریچر پر جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے ” وارننگ، اس دوا سے خون کے جمنے کے سبب دل کی اور امراض کے ساتھ دل کے پٹھوں کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ میں ٹھہرا طب کا طالبعلم چنانچہ لینے سے گریز کرتا رہا مگر دو ڈاکٹر دوستوں کے تسلی دلانے پر خواستہ ناخواستہ لینی پڑیں مگر تھوڑی دیر درد کچھ دور ہونے کے علاوہ ان کا کوئی اثر نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ یہ ادویہ آنکھیں بند کرکے کھا لیتے ہونگے یعنی Voltran, Keflam , Neproxin وغیرہ۔ لا علمی اکثر اوقات سود مند ہوتی ہے اسی لیے کہا گیا ہے کہ الف پہ ہی بس کر دو یار کیونکہ زیادہ جانو گے تو تشکیک میں پڑ جاؤگے۔
ہوا یہ تھا کہ 25 فروری کو جب میں غیر متوقع طور پر لاہور سے ملتان پہنچا تو علی پور گھر میں فون کیا تھا۔ بھتیجی نے بتایا کہ شازی بھائی جان یعنی مرزا شہزاد کو شدید خسرہ نکلا ہوا ہے اور انہیں نمونیہ بھی ہو گیا تھا ویسے اب کچھ ٹھیک ہیں۔ میں نے علی پور پہنچنے سے انکار کر دیا تھا مگر چونکہ 27 کو حیدرآباد سے ملتان پہنچا میرا دوست حسین سومرو اپنی کار پہ واپس جا رہا تھا چنانچہ میں نے اس سے کہا کہ مجھے علی پور ڈراپ کر دینا۔
شہزاد بیچارہ گھر میں اپنے چوبارے میں بند تھا۔ اس کی بہن کرن ماسک پہن کے اسے ضرورت کی اشیاء دے آتی۔ وہ کہیں 4 مارچ کو صحت یاب ہو کر نیچے اترا تھا۔ نہانے کے لیے اس کا صابن بھی علیحدہ تھا البتہ بالٹی ایک تھی جسے میں اچھی طرح دھو کر کے استعمال کرتا یعنی خسرہ، نہیں نہیں، اسے چکن پوکس تھی جس سے متاثر ہونے کا کوئی احتمال نہیں تھا۔
چار روز پہلے گھر میں سوجی کا حلوہ بنا۔ میں نے تھوڑا سا کھایا اور پھر کچھ دیر بعد ظہر کی نماز پڑھنے کھڑا ہوا تو میرے جسم میں اوپر سے نیچے تک ارتعاش کی لہریں دوڑتی محسوس ہوئیں۔ شاید بہت میٹھا تھا حلوہ، کہیں اس وجہ سے نہ ہو مگر یہ بے چین کن ارتعاش جاری رہا۔ اگلے روز میری کمر کےنیچے کی طرف کسی ایک پٹھے میں شدید درد شروع ہو گیا۔ میں نے سمجھا کہ غلط انداز سے لیٹنے کے سبب کوئی پٹھا چڑھ گیا ہوگا۔ درد کے ساتھ کمر کے ایک خاص حصے میں جلن بھی شروع ہو گئی۔ یہ درد اور جلن بڑھ کے بائیں طرف سامنے کی پسلیوں کے ایک حصے میں بھی منتقل ہو گئے۔ سوتے ہوئے جس کروٹ بھی لیٹا، درد اس قدر بے چین کرتا کہ اٹھنا پڑ جاتا۔ تاحتٰی صبح ہو گئی۔ میں نے بڑی بہن سے کہا کہ مجھے کمر پہ ڈکلوران کریم مل دو۔ اس نے مل دی کوئی افاقہ نہ ہوا۔ اس نے ہنگامی طور استری گرم کی کپڑے کی چار تہیں کرکے میرے درد والے حصے پہ رکھ کے سنکائی کر دی۔ کچھ دیر سکون آیا اور میں کچھ دیر کے لیے سو لیا مگر ڈیڑھ گھنٹے بعد ہی درد سے اٹھ بیٹھا۔
اسی روز میری بڑی سے چھوٹی بہن کی طبیعت بہت بگڑ گئی۔ وہ ایک عرصہ سے دل کی بیماری کے سبب ہونے والے دمہ یعنی Cardiac asthma میں مبتلا ہے۔ کورونا کا زمانہ جا رہا ہے۔ 1122 والوں سے تسلی کرکے کہ ان کی ایمبولینس میں کورونا کا شکار لوگ تو نہیں بھیجے گئے، بڑی بہن کو ایمبولینس میں ہی آکسیجن دی گئی۔ اس کی طبیعت کچھ سنبھلی تو ہمارے فیملی ڈاکٹر رانا اسلم خان دیکھنے آئے۔ میں نے گذارش کی کہ میری کمر میں بہت درد ہے۔ انہوں نے یہ کہہ کے ٹال دیا کہ کچھ نہیں، غلط انداز میں لیٹنے کی وجہ سے ہو گیا ہوگا، درد دور کرنے کی عام دوا لے لیں افاقہ ہو جائے گا۔
جب مجھے یہ اندازہ ہوا کہ یہ درد کمر سے ایک لائن میں آگے کی جانب بڑھا ہے تو مجھے شک پڑا کہ ہو نہ ہو یہ Herpes zoster ہے جس کا درد انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ مزیدار بات یہ ہے کہ یہ مرض بھی اسی وائرس سے ہوتا ہے جس سے چکن پوکس ہوتا ہے۔ جب تک مریض کو براہ راست چھوئیں نہ تو یہ قریب کھڑے رہنے سے بھی منتقل نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ شہزاد سے تو لگا نہیں۔
میں نے اس کے بارے میں پڑھنا شروع کیا تو جھنجھناہٹ یعنی ارتعاش اس مرض کا ہرکارہ نکلا۔ اگلے روز بہن کی طبیعت مزید بگڑی، اسے پھر آکسیجن دلوائی گئی۔ ڈاکٹر موصوف پھر تشریف لائے انہیں دیکھنے کو تو میں نے ان سے کہا کہ مجھے تو Herpes zoster ہے، آپ نے دیکھنا ہی مناسب نہیں جانا۔ پھر انہوں نے دیکھا اور کہا کہ دانہ تو کوئی نہیں۔ اگر ہو جائے تو انٹی وائرل دوا لے لیجیے گا۔
کل سے دانے بھی بن گئے۔ درد بھی بڑھ گیا اور تشویش بھی، تشویش اس لیے کہ بڑھاپے میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بہن کو جل بن مچھلی کی مانند سانس لیتے دیکھ کر، مجھے لگا کہ بس انہیں کچھ ہو جائے گا، اگرچہ ابھی انہیں خون کی دوسری بوتل لگی ہوئی ہے اور ان کی حالت بھی کچھ بہتر ہے لیکن ان کی تکلیف نے مجھے اس قدر پریشان کیا کہ ایک ڈیڑھ ماہ سے کورونا کے بارے میں جان جان کر ہوا سٹریس مزید بڑھ گیا، بدنی قوت مزاحمت کم ہوئی تو جسم میں کہیں سالہا سال سے خفتہ دم سادھے پڑے Varicella Zoster Virus نے اپنا کام دکھا دیا۔
اس مرض کا درد بہت اذئت ناک ہوتا ہے۔ جس تن لگیاں سو تن جانے والی بات ہے۔ دو سے چار ہفتوں میں اگر خدانخواستہ کوئی پیچیدگی نہ ہو تو یہ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اتنا درد سہنے کو یہ کچھ کم وقت نہیں۔ درد دور کرنے کی ادویہ، گرم یا سرد ٹکور بس کچھ منٹوں کے لیے تکلیف کم کرتے ہیں، پھر سے وہی اذیت۔ نقاہت بھی ہوتی ہے، بھوک کم ہو جاتی ہے، پیٹ کے پٹھے اکڑنے سے قبض بھی ہو جاتی ہے۔ نیند خراب ہو جاتی ہے۔ دعا کیجیے کہ میں اس تکلیف سے ہمت حوصلے سے نبرد آزما ہو پاؤں۔
وبا سے بچنے کی کوشش میں وائرس کی برادری والے نے اپنا کام دکھا دیا، اللہ البتہ کورونا سے محفوظ رکھے، آمین۔
میری پیٹھ میں شدید درد اور جلن ہے۔ بائیں طرف کی سامنے کی پسلیوں کا نچلا حصہ بھی دکھ رہا ہے۔ پیٹ کے پٹھے اکڑے ہوئے ہیں۔ گذشتہ تین روز اور تین راتیں اس تکلیف دہ درد کے سبب بہت کٹھن رہے۔ درد دور کرنے کی وہ ادویہ بھی لیں جو بظاہر بے ضرر ہیں اور وہ بھی جو کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی صورت میں نہیں لی جانی چاہییں اور ایسی ادویہ جنہیں Non steroid anti inflammatory drugs یعنی NSAID کہا جاتا ہے اور جن کے لٹریچر پر جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے ” وارننگ، اس دوا سے خون کے جمنے کے سبب دل کی اور امراض کے ساتھ دل کے پٹھوں کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ میں ٹھہرا طب کا طالبعلم چنانچہ لینے سے گریز کرتا رہا مگر دو ڈاکٹر دوستوں کے تسلی دلانے پر خواستہ ناخواستہ لینی پڑیں مگر تھوڑی دیر درد کچھ دور ہونے کے علاوہ ان کا کوئی اثر نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ یہ ادویہ آنکھیں بند کرکے کھا لیتے ہونگے یعنی Voltran, Keflam , Neproxin وغیرہ۔ لا علمی اکثر اوقات سود مند ہوتی ہے اسی لیے کہا گیا ہے کہ الف پہ ہی بس کر دو یار کیونکہ زیادہ جانو گے تو تشکیک میں پڑ جاؤگے۔
ہوا یہ تھا کہ 25 فروری کو جب میں غیر متوقع طور پر لاہور سے ملتان پہنچا تو علی پور گھر میں فون کیا تھا۔ بھتیجی نے بتایا کہ شازی بھائی جان یعنی مرزا شہزاد کو شدید خسرہ نکلا ہوا ہے اور انہیں نمونیہ بھی ہو گیا تھا ویسے اب کچھ ٹھیک ہیں۔ میں نے علی پور پہنچنے سے انکار کر دیا تھا مگر چونکہ 27 کو حیدرآباد سے ملتان پہنچا میرا دوست حسین سومرو اپنی کار پہ واپس جا رہا تھا چنانچہ میں نے اس سے کہا کہ مجھے علی پور ڈراپ کر دینا۔
شہزاد بیچارہ گھر میں اپنے چوبارے میں بند تھا۔ اس کی بہن کرن ماسک پہن کے اسے ضرورت کی اشیاء دے آتی۔ وہ کہیں 4 مارچ کو صحت یاب ہو کر نیچے اترا تھا۔ نہانے کے لیے اس کا صابن بھی علیحدہ تھا البتہ بالٹی ایک تھی جسے میں اچھی طرح دھو کر کے استعمال کرتا یعنی خسرہ، نہیں نہیں، اسے چکن پوکس تھی جس سے متاثر ہونے کا کوئی احتمال نہیں تھا۔
چار روز پہلے گھر میں سوجی کا حلوہ بنا۔ میں نے تھوڑا سا کھایا اور پھر کچھ دیر بعد ظہر کی نماز پڑھنے کھڑا ہوا تو میرے جسم میں اوپر سے نیچے تک ارتعاش کی لہریں دوڑتی محسوس ہوئیں۔ شاید بہت میٹھا تھا حلوہ، کہیں اس وجہ سے نہ ہو مگر یہ بے چین کن ارتعاش جاری رہا۔ اگلے روز میری کمر کےنیچے کی طرف کسی ایک پٹھے میں شدید درد شروع ہو گیا۔ میں نے سمجھا کہ غلط انداز سے لیٹنے کے سبب کوئی پٹھا چڑھ گیا ہوگا۔ درد کے ساتھ کمر کے ایک خاص حصے میں جلن بھی شروع ہو گئی۔ یہ درد اور جلن بڑھ کے بائیں طرف سامنے کی پسلیوں کے ایک حصے میں بھی منتقل ہو گئے۔ سوتے ہوئے جس کروٹ بھی لیٹا، درد اس قدر بے چین کرتا کہ اٹھنا پڑ جاتا۔ تاحتٰی صبح ہو گئی۔ میں نے بڑی بہن سے کہا کہ مجھے کمر پہ ڈکلوران کریم مل دو۔ اس نے مل دی کوئی افاقہ نہ ہوا۔ اس نے ہنگامی طور استری گرم کی کپڑے کی چار تہیں کرکے میرے درد والے حصے پہ رکھ کے سنکائی کر دی۔ کچھ دیر سکون آیا اور میں کچھ دیر کے لیے سو لیا مگر ڈیڑھ گھنٹے بعد ہی درد سے اٹھ بیٹھا۔
اسی روز میری بڑی سے چھوٹی بہن کی طبیعت بہت بگڑ گئی۔ وہ ایک عرصہ سے دل کی بیماری کے سبب ہونے والے دمہ یعنی Cardiac asthma میں مبتلا ہے۔ کورونا کا زمانہ جا رہا ہے۔ 1122 والوں سے تسلی کرکے کہ ان کی ایمبولینس میں کورونا کا شکار لوگ تو نہیں بھیجے گئے، بڑی بہن کو ایمبولینس میں ہی آکسیجن دی گئی۔ اس کی طبیعت کچھ سنبھلی تو ہمارے فیملی ڈاکٹر رانا اسلم خان دیکھنے آئے۔ میں نے گذارش کی کہ میری کمر میں بہت درد ہے۔ انہوں نے یہ کہہ کے ٹال دیا کہ کچھ نہیں، غلط انداز میں لیٹنے کی وجہ سے ہو گیا ہوگا، درد دور کرنے کی عام دوا لے لیں افاقہ ہو جائے گا۔
جب مجھے یہ اندازہ ہوا کہ یہ درد کمر سے ایک لائن میں آگے کی جانب بڑھا ہے تو مجھے شک پڑا کہ ہو نہ ہو یہ Herpes zoster ہے جس کا درد انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ مزیدار بات یہ ہے کہ یہ مرض بھی اسی وائرس سے ہوتا ہے جس سے چکن پوکس ہوتا ہے۔ جب تک مریض کو براہ راست چھوئیں نہ تو یہ قریب کھڑے رہنے سے بھی منتقل نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ شہزاد سے تو لگا نہیں۔
میں نے اس کے بارے میں پڑھنا شروع کیا تو جھنجھناہٹ یعنی ارتعاش اس مرض کا ہرکارہ نکلا۔ اگلے روز بہن کی طبیعت مزید بگڑی، اسے پھر آکسیجن دلوائی گئی۔ ڈاکٹر موصوف پھر تشریف لائے انہیں دیکھنے کو تو میں نے ان سے کہا کہ مجھے تو Herpes zoster ہے، آپ نے دیکھنا ہی مناسب نہیں جانا۔ پھر انہوں نے دیکھا اور کہا کہ دانہ تو کوئی نہیں۔ اگر ہو جائے تو انٹی وائرل دوا لے لیجیے گا۔
کل سے دانے بھی بن گئے۔ درد بھی بڑھ گیا اور تشویش بھی، تشویش اس لیے کہ بڑھاپے میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بہن کو جل بن مچھلی کی مانند سانس لیتے دیکھ کر، مجھے لگا کہ بس انہیں کچھ ہو جائے گا، اگرچہ ابھی انہیں خون کی دوسری بوتل لگی ہوئی ہے اور ان کی حالت بھی کچھ بہتر ہے لیکن ان کی تکلیف نے مجھے اس قدر پریشان کیا کہ ایک ڈیڑھ ماہ سے کورونا کے بارے میں جان جان کر ہوا سٹریس مزید بڑھ گیا، بدنی قوت مزاحمت کم ہوئی تو جسم میں کہیں سالہا سال سے خفتہ دم سادھے پڑے Varicella Zoster Virus نے اپنا کام دکھا دیا۔
اس مرض کا درد بہت اذئت ناک ہوتا ہے۔ جس تن لگیاں سو تن جانے والی بات ہے۔ دو سے چار ہفتوں میں اگر خدانخواستہ کوئی پیچیدگی نہ ہو تو یہ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اتنا درد سہنے کو یہ کچھ کم وقت نہیں۔ درد دور کرنے کی ادویہ، گرم یا سرد ٹکور بس کچھ منٹوں کے لیے تکلیف کم کرتے ہیں، پھر سے وہی اذیت۔ نقاہت بھی ہوتی ہے، بھوک کم ہو جاتی ہے، پیٹ کے پٹھے اکڑنے سے قبض بھی ہو جاتی ہے۔ نیند خراب ہو جاتی ہے۔ دعا کیجیے کہ میں اس تکلیف سے ہمت حوصلے سے نبرد آزما ہو پاؤں۔
وبا سے بچنے کی کوشش میں وائرس کی برادری والے نے اپنا کام دکھا دیا، اللہ البتہ کورونا سے محفوظ رکھے، آمین۔