آج ہندوستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے صاحب طرز اور بے مثال شاعر عرفان صدیقی کی برسی ہے.
عرفان صدیقی جنوری 1939 میں اترپردیش کے شہر بدایوں میں پیدا ہوئے تھے ۔ وہ ایم اے تک کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1962 میں انڈین انفارمیشن سروس میں شامل ہوئے ۔ 1997 میں وہ اس ملازمت سے ریٹائر ہوئے اور پھر عملی صحافت سے وابستہ ہو گئے ۔
عرفان صدیقی کے والد سلمان احمد ہلالی بھی اردو کے خوش گو شعرا میں شمار ہوتے تھے جبکہ نیاز بدایونی ان کے بڑے بھائی اور محشر بدایونی اور دلاورفگار ان کے قریبی اعزّا میں شامل تھے ۔
عرفان صدیقی کی شاعری کے پانچ مجموعے: کینوس، شب درمیاں، سات سماوات، عشق نامہ اور ہوائے دشت ماریہ کے نام سے شائع ہوئے تھے ۔
چند برس پہلے ان کی شاعری کی کلیات ’دریا‘ کے نام سے پاکستان میں اشاعت پذیر ہوئی تھی۔بعد ازاں ان کی دو اور کلیات بھارت سے شہر ملال کے نام سے اور پاکستان سے سخن آباد شائع ہوئیں.
عرفان صدیقی ایک اچھے مترجم بھی تھے ۔ انہوں نے کالی داس کی ایک طویل نظم ’رت سنگھار‘ اور کالی داس کے ڈرامے ’مالویکا اگنی متر‘ کا ترجمہ براہ راست سنسکرت سے اردو میں کیا تھا۔
اس کے علاوہ انہوں نے مراکش کے ادیب محمد شکری کے سوانحی ناول کا ترجمہ بھی کیا تھا۔ وہ ابلاغیات کے موضوع پر تین کتابوں کے مصنف بھی تھے ۔
انہوں نے 1100ء سے 1850 ء تک کے اردو ادب کا ایک جامع انتخاب بھی کیا تھا۔ جو ساہتیہ اکیڈمی سے اشاعت پذیر ہوا تھا۔ 1998 میں عرفان صدیقی کو اترپردیش کی حکومت نے میر اکادمی کا اعزاز عطا کیا تھا۔ عرفان صدیقی کا انتقال 15 اپریل 2004 کو لکھنؤ میں ھوا۔۔۔۔۔۔