Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
کیا انسان فطرت کے لحاظ سے اجتماعی نوعیت کے ساتھ پیدا ہوا ہے یعنی اس کے وجود میں کُل سے ملحق ہونے کا فطری رحجان رکھا گیا ہے یا پھر اس کی تخلیق اجتماعی نوعیت کی نہیں بیرونی جبر اور اضطرار نے اسے اجتماعی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے یا انسان کی عقل اور محاسبہ کی قوت نے تمدن کو تشکیل دیا یہ ایک نہایت اہم اور غور طلب مسئلہ ہے مگر اس مسئلہ کے بیچ ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا آج کا انسان تنہا زندگی گزار سکتا ہے ؟ جب دنیا ایک گلوبل ویلج کی صورت اختیار کر چکی ہے یا کسی دور میں انسان نے تنہا زندگی گزاری ہے جب ہم مذکورہ بالا مفروضات کی طرف توجہ دیتے ہیں تو آج کے انسان کی ترجیحات اور بنیادی ضروریات سامنے آ جاتی ہیں
انسان کی اجتماعی زندگی فطری ہے ؟ اضطراری ہے ؟ یا انتخابی ؟ اس کے لیے ہمیں تخلیق آدم اور نسلِ انسانی کی افزائش کی طرف رجوع کرنا پڑے گا جب آدم و حوا کو زمین پر اتارا گیا تو دونوں الگ الگ مقامات پر اترے تھے مگر زمین پر آتے ہی ایک دوسرے کی تلاش میں سرگرداں رہے یہ ایک دوسرے کی طرف مائلیت اور ملحق ہونے کا رحجان فطری تھا جو تخلیق کے وقت آدم و حوا کے اندر ودیعت کیا گیا تھا اس کی مثال مرد اور عورت کی گھریلو زندگی کی طرح ہے معاشرے سے الگ مرد اور عورت ایک دوسرے کی طرف پیار، محبت اور جنسی میلان رکھتے ہیں یہی الحاق کا فطری رحجان تھا جس نے نسل آدم کو آگے بڑھایا یہ فطری مائلیت اور الحاق تقریباً ہر ذی روح میں ودیعت کی گئی ہے
دوسرے نظریے کے مطابق انسان کا ایک گھر سے ایک قبیلے کی طرف سفر ہے مگر اور اس کو فطری مائلیت کے ساتھ ساتھ اضطراری اجتماعی نوعیت بھی کہا جا سکتا ہے جیسے جانوروں کے ریوڑ اور پرندوں کے غول صحرائی علاقوں میں ریوڑ اور غول ایک دوسرے کے ساتھ چرتے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ خوراک اور تحفظ کی غرض سے ہجرت بھی کرتے ہیں مگر معاشرت کی تشکیل نہیں کر پاتے اپنے سے طاقت ور دشمن سے بچنے کے لیے ایک سمجھوتا کر لیتے ہیں انسان نے اس اضطراری کیفیت کے تحت بھی اجتماعی زندگی کی ضرورت محسوس کی لہذا خوف اور بھوک نے بھی افراد کو ایک دوسرے سے منسلک کیا اس کی ایک اور مثال دو قبائل کا آپس میں مشترک دشمن کے سامنے خود کو ناتواں سمجھ کر ایک حفاظتی معاہدہ جیسی ہے
تیسرے نظریے کے مطابق افراد کے اجتماع کی نوعیت انتخابی ہے یعنی انسان نے عقل اور قوتِ محاسبہ کی بدولت اجتماعی زندگی کی طرف رغبت اختیار کی اور اس کے پیشِ نظر مادی ارتقاء اور ترقی رہی ہے جیسے سرمایہ داروں کی دو کمپنیاں جو مل کر کوئی تجارتی، زرعی یا صنعتی فرم کھولتی ہیں
پہلے مفروضے کے مطابق انسان کی اجتماعی زندگی کا سبب اس کی اندرونی طبیعت اور فطری میلان ہے دوسرے مفروضے کے مطابق انسانی وجود سے باہر ایک عمل ہوا جس نے اجتماع کی بنیاد رکھی اور تیسرے مفروضے کے مطابق اجتماعی زندگی کا سبب ذہنی قوت اور محاسبہ کی صلاحیت ہے یوں کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو کہ انسان فطری حادثاتی و اتفاقی اور فکری اسباب کی بدولت اجتماعی زندگی گزار رہا ہے فطری اور حادثاتی اجتماعی نوعیتیں دونوں بنیادی ہیں جب کہ اسباب کی بدولت سرمایہ داری کا صنعتی، تجارتی اجتماع ثانوی حیثیت کا حامل ہے اس کرونائی دور میں ایک طرف تنہائی کا احساس بڑھ رہا اور دوسری طرف مشترک دشمن کرونا وائرس کا سامنا ہے گویا دونوں اجتماعی نوعتیں فطری اور اضطراری مسائل کا شکار ہیں اور اس وقت یہی نوعتیں زیادہ توجہ کی حامل ہیں مگر ملکی سطح پر اور کسی حد تک عالمی سطح پر ثانوی حیثیت پر مشتمل نوعیت کا زیادہ سوگ منایا جا رہا ہے کیا ہو گا اگر کچھ دن میکڈونلڈ، کے ایف سی اور ریستورانوں پر نہ گئے تو چھے فٹ کے فاصلے پر بیٹھ کر محبوبہ کے ساتھ برگر کھانے سے کہیں بہتر ہے کہ ایک چنگیر پر بیٹھ کر گندم خشک روٹی کھائی جائے جس کے دوران نہ کرونا کا خوف ہو گا نہ جسمانی فاصلے ہوں گے یہ مسئلہ انتہائی نازک ہے اگر تجارتی مراکز کھول دیے گئے اور معاشی گتھیاں سلجھانے لگ گئے تو ہماری فطری اجتماعیت غیر معمولی حد تک متاثر ہو گی اور یہ ثانوی اجتماعیت فاصلوں کے ساتھ چلتی رہے گی لوگ تنہائی اور اکلاپے کا شکار ہو کر رہ جائیں گے اور یہ پندرہ روزہ فرنطینہ پوری پوری زندگیوں کے دورانیے پر مشتمل ہو جائے گا حکومت کو چاہیے کہ ہوش کے ناخن لے اور یہ کرونا کا پیک سیشن ہے اس دوران لاک ڈاون کو مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے ورنہ انسان بڑے پیمانے پر غیر فطری زندگیاں گزارنے پر مجبور ہو جائیں گے ایک طرف حساسیت بڑھے گی اور دوسری طرف خود غرضی گوشت نوچے گی پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر کینسر سے لڑنے والی ایک خاتون اور اس کے شوہر کی تحریر کے ساتھ فوٹو وائرل تھی جب کینسر سے لڑنے والی خاتون نے کرونا کے ڈر سے، کیموتھراپی کے تکلیف دہ عمل سے گزرنے کے لیے ہسپتال اکیلے جانا چاہا تو فکرمند شوہر اس کے کمرے کے عین سامنے ہسپتال سے کئی فٹ کی دوری پر اپنی بہادر بیوی کی دلجوئی کے لیے، اس خوبصورت تحریر کے ہمراہ بیٹھا نظر آیا:
“میں تمہارے ساتھ نہیں تو کیا، میں اپنی محبتوں کے ہمراہ یہیں تمہارے پاس ہی موجود ہوں۔
ایک طرف رشتوں کی حساسیت کی یہ صورت ہو گی جو انسانوں کے مافی الضمیر میں بہت کچھ محرومیاں جنم دے گی اور دوسری طرف افراد بے حسی کا بھی شکار ہوں گے جو نہ صرف تقافتی سماجی اور گھریلو سطح پر باہمی انسلاک کو تباہ کر کے رکھ دے گی ہماری سماجی روایات منہدم ہو جائیں گی رشتوں کے نئے مفاہیم پیدا ہوں گے افراد کے مابین جسمانی کے ساتھ ساتھ ذہنی فاصلے بھی بڑھ جائیں گے جس سے نہ صرف سماجی مسائل جنم لیں گے بلکہ نفسیاتی بحران بھی پوری قوم کو لپٹ میں لے گا جس کے نتائج انتہائی گھناونے ہوں گے
کیا انسان فطرت کے لحاظ سے اجتماعی نوعیت کے ساتھ پیدا ہوا ہے یعنی اس کے وجود میں کُل سے ملحق ہونے کا فطری رحجان رکھا گیا ہے یا پھر اس کی تخلیق اجتماعی نوعیت کی نہیں بیرونی جبر اور اضطرار نے اسے اجتماعی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے یا انسان کی عقل اور محاسبہ کی قوت نے تمدن کو تشکیل دیا یہ ایک نہایت اہم اور غور طلب مسئلہ ہے مگر اس مسئلہ کے بیچ ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا آج کا انسان تنہا زندگی گزار سکتا ہے ؟ جب دنیا ایک گلوبل ویلج کی صورت اختیار کر چکی ہے یا کسی دور میں انسان نے تنہا زندگی گزاری ہے جب ہم مذکورہ بالا مفروضات کی طرف توجہ دیتے ہیں تو آج کے انسان کی ترجیحات اور بنیادی ضروریات سامنے آ جاتی ہیں
انسان کی اجتماعی زندگی فطری ہے ؟ اضطراری ہے ؟ یا انتخابی ؟ اس کے لیے ہمیں تخلیق آدم اور نسلِ انسانی کی افزائش کی طرف رجوع کرنا پڑے گا جب آدم و حوا کو زمین پر اتارا گیا تو دونوں الگ الگ مقامات پر اترے تھے مگر زمین پر آتے ہی ایک دوسرے کی تلاش میں سرگرداں رہے یہ ایک دوسرے کی طرف مائلیت اور ملحق ہونے کا رحجان فطری تھا جو تخلیق کے وقت آدم و حوا کے اندر ودیعت کیا گیا تھا اس کی مثال مرد اور عورت کی گھریلو زندگی کی طرح ہے معاشرے سے الگ مرد اور عورت ایک دوسرے کی طرف پیار، محبت اور جنسی میلان رکھتے ہیں یہی الحاق کا فطری رحجان تھا جس نے نسل آدم کو آگے بڑھایا یہ فطری مائلیت اور الحاق تقریباً ہر ذی روح میں ودیعت کی گئی ہے
دوسرے نظریے کے مطابق انسان کا ایک گھر سے ایک قبیلے کی طرف سفر ہے مگر اور اس کو فطری مائلیت کے ساتھ ساتھ اضطراری اجتماعی نوعیت بھی کہا جا سکتا ہے جیسے جانوروں کے ریوڑ اور پرندوں کے غول صحرائی علاقوں میں ریوڑ اور غول ایک دوسرے کے ساتھ چرتے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ خوراک اور تحفظ کی غرض سے ہجرت بھی کرتے ہیں مگر معاشرت کی تشکیل نہیں کر پاتے اپنے سے طاقت ور دشمن سے بچنے کے لیے ایک سمجھوتا کر لیتے ہیں انسان نے اس اضطراری کیفیت کے تحت بھی اجتماعی زندگی کی ضرورت محسوس کی لہذا خوف اور بھوک نے بھی افراد کو ایک دوسرے سے منسلک کیا اس کی ایک اور مثال دو قبائل کا آپس میں مشترک دشمن کے سامنے خود کو ناتواں سمجھ کر ایک حفاظتی معاہدہ جیسی ہے
تیسرے نظریے کے مطابق افراد کے اجتماع کی نوعیت انتخابی ہے یعنی انسان نے عقل اور قوتِ محاسبہ کی بدولت اجتماعی زندگی کی طرف رغبت اختیار کی اور اس کے پیشِ نظر مادی ارتقاء اور ترقی رہی ہے جیسے سرمایہ داروں کی دو کمپنیاں جو مل کر کوئی تجارتی، زرعی یا صنعتی فرم کھولتی ہیں
پہلے مفروضے کے مطابق انسان کی اجتماعی زندگی کا سبب اس کی اندرونی طبیعت اور فطری میلان ہے دوسرے مفروضے کے مطابق انسانی وجود سے باہر ایک عمل ہوا جس نے اجتماع کی بنیاد رکھی اور تیسرے مفروضے کے مطابق اجتماعی زندگی کا سبب ذہنی قوت اور محاسبہ کی صلاحیت ہے یوں کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو کہ انسان فطری حادثاتی و اتفاقی اور فکری اسباب کی بدولت اجتماعی زندگی گزار رہا ہے فطری اور حادثاتی اجتماعی نوعیتیں دونوں بنیادی ہیں جب کہ اسباب کی بدولت سرمایہ داری کا صنعتی، تجارتی اجتماع ثانوی حیثیت کا حامل ہے اس کرونائی دور میں ایک طرف تنہائی کا احساس بڑھ رہا اور دوسری طرف مشترک دشمن کرونا وائرس کا سامنا ہے گویا دونوں اجتماعی نوعتیں فطری اور اضطراری مسائل کا شکار ہیں اور اس وقت یہی نوعتیں زیادہ توجہ کی حامل ہیں مگر ملکی سطح پر اور کسی حد تک عالمی سطح پر ثانوی حیثیت پر مشتمل نوعیت کا زیادہ سوگ منایا جا رہا ہے کیا ہو گا اگر کچھ دن میکڈونلڈ، کے ایف سی اور ریستورانوں پر نہ گئے تو چھے فٹ کے فاصلے پر بیٹھ کر محبوبہ کے ساتھ برگر کھانے سے کہیں بہتر ہے کہ ایک چنگیر پر بیٹھ کر گندم خشک روٹی کھائی جائے جس کے دوران نہ کرونا کا خوف ہو گا نہ جسمانی فاصلے ہوں گے یہ مسئلہ انتہائی نازک ہے اگر تجارتی مراکز کھول دیے گئے اور معاشی گتھیاں سلجھانے لگ گئے تو ہماری فطری اجتماعیت غیر معمولی حد تک متاثر ہو گی اور یہ ثانوی اجتماعیت فاصلوں کے ساتھ چلتی رہے گی لوگ تنہائی اور اکلاپے کا شکار ہو کر رہ جائیں گے اور یہ پندرہ روزہ فرنطینہ پوری پوری زندگیوں کے دورانیے پر مشتمل ہو جائے گا حکومت کو چاہیے کہ ہوش کے ناخن لے اور یہ کرونا کا پیک سیشن ہے اس دوران لاک ڈاون کو مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے ورنہ انسان بڑے پیمانے پر غیر فطری زندگیاں گزارنے پر مجبور ہو جائیں گے ایک طرف حساسیت بڑھے گی اور دوسری طرف خود غرضی گوشت نوچے گی پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر کینسر سے لڑنے والی ایک خاتون اور اس کے شوہر کی تحریر کے ساتھ فوٹو وائرل تھی جب کینسر سے لڑنے والی خاتون نے کرونا کے ڈر سے، کیموتھراپی کے تکلیف دہ عمل سے گزرنے کے لیے ہسپتال اکیلے جانا چاہا تو فکرمند شوہر اس کے کمرے کے عین سامنے ہسپتال سے کئی فٹ کی دوری پر اپنی بہادر بیوی کی دلجوئی کے لیے، اس خوبصورت تحریر کے ہمراہ بیٹھا نظر آیا:
“میں تمہارے ساتھ نہیں تو کیا، میں اپنی محبتوں کے ہمراہ یہیں تمہارے پاس ہی موجود ہوں۔
ایک طرف رشتوں کی حساسیت کی یہ صورت ہو گی جو انسانوں کے مافی الضمیر میں بہت کچھ محرومیاں جنم دے گی اور دوسری طرف افراد بے حسی کا بھی شکار ہوں گے جو نہ صرف تقافتی سماجی اور گھریلو سطح پر باہمی انسلاک کو تباہ کر کے رکھ دے گی ہماری سماجی روایات منہدم ہو جائیں گی رشتوں کے نئے مفاہیم پیدا ہوں گے افراد کے مابین جسمانی کے ساتھ ساتھ ذہنی فاصلے بھی بڑھ جائیں گے جس سے نہ صرف سماجی مسائل جنم لیں گے بلکہ نفسیاتی بحران بھی پوری قوم کو لپٹ میں لے گا جس کے نتائج انتہائی گھناونے ہوں گے