ADVERTISEMENT
زندگی بڑی تیزی سے بھاگ رہی تھی ـ یقین جانیئے دن اور ہفتے سے بات نکل کر مہینے تک آپہنچی تھی ـ پہلے جس تیزی سے دن گذرتا اسی تیزی سے ہفتے نے پلٹنا شروع کیاـ پھر مہینے کا پتہ نہ چلتا کل پہلی تاریخ ہوتی اور پرسوں خالی جیب آخری تاریخ کی خبر دے رہی ہوتی ـ ہم سمجھتے تھے وقت تیزی سے گذر رہا ہے لیکن وقت وہیں کا وہیں تھا ہماری رفتار بڑھ گئی تھی ـ خصوصاً انٹرنیٹ اور پھر سوشل میڈیا کے آنے کے بعد تو وقت بھاگنے کے بجائے لمبی چھلانگیں مارنا شروع ہو گیا تھاـ پہلے تھوڑے پر صبر شکر لیا جاتا لیکن اب صبح کلاس تو شام کو جاب، دن کو جاب تو شام کو پارٹ ٹائم جاب،نہ ورزش کا وقت نہ بچوں کیلئے وقت،نہ والدین کی وہ قدر نہ دوستوں سے وہ محبت، الغرض محشر سے پہلے نفسا نفسی کا عالم تھا. جب کرونا آیا پہلے تو یہی خوش فہمی تھی کہ چین ہی کنٹرول کر لے گا اور ہم بچ جائیں گے لیکن اب ایک نظر نہ آنے والے وائرس صحیح معنوں میں آج کل کی دنیا کا سپر پاور بن چکا ہے ـ اور ہر کوئی بھاگ کر چھپ جانے کو مقابلہ کہہ رہا ہے ـ اس وبا نے جہاں سوائے طب کے زندگی کے ہر شعبے کی بریک لگا دی وہیں ہمیں کچھ سبق بھی سکھا دیئےـ سوشل میڈیا پر بیٹھے جوانوں میں کسی نے اپنے گھر کی سیڑھیاں گننا شروع کردیں تو کسی ایک کلو میں چاول کے دانے، کسی کو فرش کی ٹائلیں گن ڈالیں تو کوئی پنکھے کے بٹن بند ہونے سے رکنے تک کا وقفہ گننے لگاـ لیکن بحثیت طالب علم جب میں گھر میں محصور ہوا تو اس خود ساختہ زندان میں میرے مشاہدے میں بھی کچھ چیزیں آئیں ـ پہلی تو قیدیوں کے احساسات کا ادراک سا ہونے لگا ـ جو کسی دوسرے انسان کے ہاتھوں محکوم ہو جاتے ہیں ـ کھانا، پینا، سونا جاگنا سب کسی اور کی مرضی سے ہوتا ہے ـ کوئی آپ جیسا انسان ہی طے کرتا ہے کہ آپ نے یہاں کتنے دن رہنا ہے اور سخت گرمی،سردی کے مقابلے کے لیئے آپ کو کیا سہولیات ملنی ہیں لیکن خوشیوں کے تہواروں پر آپ نے خود سے طے کرنا ہوتا ہے کہ دل پر پتھر کیسے رکھنا ہے ـ اور ان انسانوں جن کے ساتھ آپ دس منٹ نہیں گذار سکتے آپ نے سال کیسے گذارنے ہیں ـ کرونا نے قیدیوں کے احساسات سے بخوبی آگاہ کردیاـ اور جرم کرنے سے نفرت او ڈر اور بڑھ گیاـ کبھی زندگی اس قدر رکی نہیں تھی کہ پرندوں کو بے خوف گھونسلہ بناتے اور بچوں کو کھلاتے پلاتے دیکھ لیتے ایسے ہی ہم نے کبھی رک کر غور نہیں کیا کہ خواتین صبح نماز کے بعد سے لے کر ناشتے کی تیاری تک کیا کرتی ہیں؟ اسکے بعد روتے بچوں کو نہلانا اور انہیں کھلانا، پھر گھر کے کاموں کے ساتھ بچوں کا خیال رکھنا، دوپہر سے شام اور رات تک تمام کام ایسے سرانجام دینا جس میں نمک کی کمی جیسی کوتاہی بھی برداشت نہیں ہوتی ـ اور اگر تھوڑی دیر آپ ماسک میں گھوم لیں تو یہ اندازہ بھی ہو جائے گا کہ گرمی اور حبس میں صرف منہ چھپانا کس قدر مشکل ہوجاتا ہے لیکن ہم سے نازک اشرف المخلوقات حجاب اور برقعے میں پوری زندگی گذار دیتی ہے لیکن شکایت نہیں کرتی ـ لیکن معاشرہ سمجھتا ہے کہ یہ سب اس کے فرائض میں شامل ہے جو اس نے آخری سانس تک سرانجام دینے ہیں ـ کچھ چیزوں پر ہم نے دھیان دینا چھوڑ دیا تھاـ جیسے رک کر تسلی اذان سننا، صبح نماز کے بعد سورج طلوع ہونے تک کے منظر کا مشاہدہ، اس وقت پرندوں کی وہ جو ہم بچپن میں سکول جاتے ہوئے سنتے تھے ـ موبایل ایک طرف رکھ کر اپنے دوستوں کا تفصیلی حال و احوال پوچھنا، اپنے پیاروں کی پسند نا پسند پہ توجہ دینا یہ سب یقیناً ہم نظر انداز کرچکے تھےـ وہ پیسے جو چائے، بریانی،پیزا اور برگر دستوں کے ساتھ کھاتے ہوئے خرچ ہو جاتے لیکن گھر میں یہی چیزیں جب دیسی انداز میں بنیں تو اندازہ ہوا کہ بازار جیسی چمک دمک اور میعار تو نہیں لیکن گھر والوں کے ساتھ کھانے میں لطف بہت ہے ـ اور کھانے کے دوران اور بعد کی مسرت ناقابل بیاں ہے ـ پہلے ہم اس مغالطے میں تھے کہ اگر ایک دن دفتر نہ گئے، اگر دوکان بند رہی ـ اگر کالج ہا یونیورسٹی نہ گئے تو ہماری تو زندگی الٹ جائے گی ـ ہمارے ساتھ والا آگے نکل جائے گاـ بالکل جیسے کئی لوگوں کو گھمنڈ ہوتا ہے کہ میرے جینے سے نظام زندگی چل رہا ہے اگر میں نہ ہوا تو میرے بچے بھوکے مر جائیں گے ـ میرے دشمن میرے دوست و احباب کی ناک میں دم کردیں گے ـ لیکن ان کے مرنے کے بعد بھی نظام زندگی ویسا ہی چلتا ہے اور کچھ نہیں بدلتا ـ کیا ہی اچھا موقع ہے ان مشاہدات کے ساتھ اس بات پہ بھی نظر ثانی کر لی جائے کہ دنیا کی زندگی جہاں ہم سینکڑوں سالوں کی پلاننگ کیے بیٹھے ہیں, یہ کرونا سے نہیں تو کسی اور حادثے سے رک جائے گی ـ اپنے معاملات کا از سرنو جائزہ لے لیں کہ کہیں میرے ارادے کسی کی جڑیں کاٹنے کے تو نہیں؟ ہم کہیں خیانت کا مرتکب تو نہیں ہو رہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ میں وہاں برائی کر رہا ہوں جہاں میں اچھائی بھی کرسکتا تھا؟ اور سب سے بڑھ کر میں صرف انہیں دنوں میں آدھی رات کو اذانیں دے رہا ہوں اور استغفار کے میسج آگے بھیج رہا ہوں اس وبا سے پہلے میں کیسا تھا اور اگر وبا ختم ہو گئی تو میں کیسا ہو جاؤں گا؟ زندگی رکی ہوئی ہےـ ان چیزوں کا مشاہدہ کریں جن کا پہلے آپ نہیں کرسکے تھےـ اور کرکٹ میں جیسے بلے باز کو ریویو ملتا ہے ایسے ہی زندگی آپ کو ایک موقع دے رہی ہے ـ ایک نظر ثانی کرلیجئے