آج جس موضوع پر قلم اٹھا رہا ہوں، اس کا خیال آتے ہی تن بدن کانپ رہا ہے، امید ہے جیسے جیسے آپ پڑھیں گے آپ کے رونگٹے بھی کھڑے ہوجائیں گے کیونکہ کل آدھی رات کو گلی میں شور سن کر میری آنکھ کھلی۔ باہر نکل کر محلے والوں سے پوچھا اتنا شور کیوں؟ انہوں نے کہا: خبردار رہنا محلے کے پانی میں زہر آگیا ہے۔ یہ سن کر واپس گھر آیا تو پھپھو نے پوچھا؛ باہر کیا ہوا ہے؟ میں نے بھی تسلی سے کہا, باہر سب ٹھیک ہے, آپ پانی پی کر سو جائیں. اگلے دن پھپھو کی طبیعت خراب ہوئی، تو ڈاکٹر نے رپورٹس دیکھ کر بتایا: آپ کی پھپھو بس دو دن کے مہمان ہیں، آئی ایم سوری۔ مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے کہا “اس میں سوری کی کیا بات ہے نکال لیں گے یہ دو دن بھی جیسے تیسے کرکے”.
آپ لوگ حیران ہو رہے ہوں گے۔ میں اتنی محبت اور شفیق ہستی کے متعلق کیسی باتیں کر رہا ہوں۔ پر آپ یقین کریں صرف 90 فیصد لگائی بجھائی والی پھوپھیوں کی وجہ سے باقی پھوپھیاں بد نام ہیں اور غلطی دنیا کی واحد ایسی چیز ہے جو پھوپھو سے نہیں ہوتی۔ ویسے بھی کوئی عورت اچھی پھپھو بن سکے یا نہ پھپے کٹنی ضرور بن جاتی ہے۔ سوچ سمجھ رکھنے والے جانتے ہیں، پاکستان میں پھپھو اور بارش کے فائدے کم اور اور نقصانات زیادہ ہیں۔ آپ کو لگ رہا ہو گا، عورت مظلوم ذات تو میں یاد کرادوں، اللہ نے مرد کو طاقت اور پھوپھو کو زبان دے کر حساب برابر کر دیا ہے۔ ویسے بھی یہ نعمت کیا کم ہے؟ لڑکی شادی کرے یا نہ کرے گھر بیٹھے پھوپھو بن جاتی ہے۔
پھپھو کسی کی بات تو سنتی نہیں، ہاں سنا دیتی ہیں وہ بھی کھری کھری۔ اور عین اپنے مطلب کی بات پر منہ میں پان رکھ کر، اس طرح بات کرتی ہیں کہ سنتے ہوئے دوسرے کو جو موت پڑنی ہے، ا سے پان کے مزے سے دوبالا کرتی ہیں۔ ویسے بھی موت تو یوں ہی بد نام ہے، تکلیف تو پھوپھو کی باتیں دیتی ہیں۔ اوپر سے مزے کی بات سمجھدار پھپھو بحث نہیں کرتی، بس تیلی لگا کر سائیڈ پے ہو جاتی ہے۔ پھپھو کو جہاں اپنی دال گلتی نظر نہ آئے، وہاں آگ تیز کرکے دال ہی جلا دیتی ہیں۔ اس لیے کہا جاتا ہے تین چیزوں کو مت چھیڑو، کتے کو، ریاضی کے ٹیچر کو اور خاموش بیٹھی پھپھو کو۔ ویسے بھی پاکستانی جنازوں میں دیکھا گیا ہے، جب بھی جنازہ اٹھایا گیا، کوئی نہ کوئی چیخ کر بول دیتا ہے ابھی تو پھپھو نے آنا ہے۔ اور وہی پھپھو جو زندگی میں بات کرنا بھی پسند نہیں کرتی، مرنے کے بعد منجی ہلا ہلا کے کہتی ہیں “وے تو بولدا کیوں نہیں”۔ ہر پھوپھو کو بچپن میں کام کرنے کا بڑا شوق ہوتا ہے, بچپن ختم شوق ختم۔ اس لئے اکثر پھپھو برقعہ اس لئے بھی پہنتی ہیں، کیونکہ انھیں کپڑے استری کرتے موت پڑتی ہے۔ ایسی پھوپھو کو شادی پہ اگر نہ بلایا جائے تو برات والے دن چھت پے کھڑے ہوکر نعرہ لگا رہی ہوتی ہیں ‘دلہا نشئی اے۔’
بات کہاں سے کہاں جا نکلی، بتانا تو یہ تھا کہ تن بدن کیوں کانپ رہا ہے، تو بات دراصل یہ ہے کہ ابھی ابھی ڈاکٹر کا فون آیا ہے اور انھوں نے یہ قیامت خیز خبر دی ہے، کہ جو رپورٹ پڑھ کے انہوں نے پھوپھو کو دو دن کا بتایا تھا، وہ کسی اور کی تھی۔ یہ خبر سن کر میری پھوپھو کا رویہ میرے ساتھ اچانک بدل گیا ہے۔ اور وہ مترنم آواز میں یہ گانا گا رہی ہیں، آگ ایسی لگائی مزہ آگیا ۔
میرا تو اللہ ہی حافظ، پر آپ سب کو مشورہ ہے، اگر آپ بھی اپنی پھوپھو سے تنگ ہیں، تو ایک گلاس گاجروں کے جوس میں املی کا پانی ڈال کر پی لیں، کم از کم اس سے کلیجے کو ٹھنڈ پڑے گی۔ کیونکہ پھپھو اس بلا کا نام ہے جو صدقے سے بھی نہیں ٹلتی۔ اور تو اور کتا پال لو، بلی پال لو، شیر پال لو، لیکن یہ غلط فہمی کبھی نہ پالنا کہ پھپھو تم سے اچھے طریقے سے بات کریں گی۔
______________
حسن نصیر سندھو یونیورسٹی آف گجرات سے ایم فل کرنے کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ سماجی مسائل کو اچھوتے انداز میں اپنی تحریروں میں بیان کرنا ان کا خاصا ہے۔