اشفاق احمد کاشف کا تعلق فیصل آباد سے ہے، یوں سمجھ لیجئے کہ وہ پیدائشی شاعر ہیں۔ جامعہ پنجاب سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں نمایاں نمبروں سے ماسٹرز کیا۔ ملک کے بڑے چیمبرز آف کامرس میں سے ایک یعنی لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے شعبہ تحقیق و پالیسی کی قیادت کی۔ گزشتہ کئی برس سے امریکا میں ہیں اور شاعری کا سلسلہ جاری ہے۔
اشفاق کا تعلق ایک خالص کاروباری گھرانے سے ہے لیکن وہ شاعر کا دل لے کر پیدا ہوئے۔ 80ء کی دہائی میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں طلبہ تنظیموں کے درمیان اختلافات کے نتیجے میں تشدد نے جنم لیا اور کئی طلب جاں بحق ہو گئے تو اس حساس شاعر نے نوعمری کے زمانے میں ایک ایسا شعر کہا جس میں اس زمانے کی نئی نسل کا گہرا دکھ جھلکتا ہے۔
خون بہا ہے پھر سڑکوں پر
کون ہے جو دیوانے ہوئے ہیں؟
اشفاق احمد کاشف کی زیر نظر شاعری میں بھی اس عہد کے دکھ کا فن کارانہ اظہار بھی ہے اور الفاظ و معنی کی رعنائی بھی۔
***********
موٹی تازی گائے
میرے پاس نہ آئے
تنہا بیٹھی گائے
٭
لمبے ہو گئے سائے
کوئی تو آگے آئے
جو صفحہ الٹائے
***
پی کر کافی چائے
دل میرا گھبرائے
جانے کیا ہو جائے
***
جسے نہ رونا آئے
کو رونا کے باعث
اسے بھی رونا آئے
***
چاندنی خاک اڑائے
لہر بھی شور مچائے
کشتی الٹ نہ جائے
***
کو رونا کے آنے سے کیا فرق پڑا ہے
اپنے بیچ میں یہ دوری تو پہلے بھی تھی
***
کو رونا پر اس کا مت الزام لگاؤ
پہلے ہی سے اپنے بیچ میں یہ دوری تھی
***
گھرا ہوں چار دیواری میں کاشف
کوئی رستہ مرے آگے نہ پیچھے
***
اور کاموں کے ساتھ ساتھ مجھے
پیار بھی کرتے رہنا چاہیے تھا
***
مجھ کو ڈر لگتا ہے کو رونا سے
تم مرے خواب میں نہ آیا کرو
***