احمدرضاوٹوسےمکالمہ:
پنجابی قومیت سے جڑے سوالات، درپیش چینلجز اور مختلف سیاسی پارٹیوں کی غیر پنجابی لیڈرشپ کے روئیےپراگلےروزپنجابی پرچارکےچیئرمین احمدرضاوٹوسےمیری طویل ٹیلیفونک بات چیت ہوئی جس میں اورباتوں کے علاوہ پنجابی قوم پرستوں کےمابین اختلافات اوربہاولپورصوبہ بارےن لیگ کےموقف کاجائزہ لیاگیا،چونکہ ساری گفتگوپنجاب کےگردگھومتی ہےلہذامناسب سمجھتاہوں کہ پنجابی قومپرستوں کوبھی اس بارےاعتماد میں لیاجائےکہ وہ آزادانہ رائےدےسکیں اورخودتنقیدی کے عمل سے گذرتےہوئےمشاورت کے زریعےپنجابی نیشنلزم کے مستقبل کےلئےبہتر سٹریٹجی بنائی جاسکے،
احمدرضاوٹو اس وقت بہاولنگرمیں تھے،پرسکون فضامیں ٹھہرےہوئےلہجےمیں تمام باتوں کاتحمل سےجوابدیابلکہ یہ بات سن کر خوشگوارحیرت ہوئی کہ وٹو فیملی، خاندان ، قبیلہ یہاں نو سوسال سے ابادہےاوروہ سیٹلرنہیں بلکہ مقامی ہیں جیساکہ نام نہاد سرائیکی فاشسٹ یہ بے تُکا دعوا کرتے ہیں کہ مقامی لوگ صرف سرائیکی ہیں اور پنجابی لاہور یا مشرقی پنجاب سے آکر آباد ہونے والے ہیں ، احمدرضاوٹو نے بتایا کہ بہاولنگر سے حاصل پور اور ستلج کے پار پاکپٹن کی طرف وٹو اور جوئیہ قبیلے ابادہیں اور وہ خودکو سرائیکی نہیں پنجابی کہتے ہیں جبکہ ہمیں تیز رفتار سڑکوں کی وجہ سے ملتان دور اور لاہورقریب پڑتاہے،میں نےاضافہ کیاکہ انتہائی مشرق میں انڈو پاک بارڈر پر واقع بہاولنگرکے باشندے کی ٹانک یا میانوالی کے علاقے سے کیا قومیتی یالسانی سانجھ ہوسکتی ہے اگر بیچ میں سے پورےپنجاب کی نفی کردی جائے، برسبیل تذکرہ مجھے نذیر کہوٹ کی بات یاد آئی کہ وہ شاہ پور کا کہوٹ جٹ ہے اورراجہ پورس کے زمانے سے اس کا قبیلہ یہاں آباد ہے اور پچاس سال پہلے سرکاری خرچے پر بننے والی سرائیکی تحریک آج خود کو ہمارے علاقے کا مالک بنانے کا دعوا کس منہ سے کرتی ہے ،میں سمجھتا ہوں کہ پنجابیوں کو حکومتی پروپگنڈے کامنہ توڑ جواب دینےکےلئےمہم چلانی چاہئئے۔
میں نےسوال اٹھایاکہ پنجابی تحریک لاہورتک محدودکیوں ؟ کیاجن علاقوں میں خطرہ ہے وہاں تحریک کی ضرورت نہیں تواحمد رضانے جزوی اختلاف کرتےہوئےلاہورکی مرکزی اہمیت بیان کی کہ یہ شہر ہی پنجاب اور پاکستان کی سیاسی تحریکوں کامرکزرہاہےتاہم انہوں نےوضاحت کی کہ جلدہی ملتان میں حرکت میں آنے والے ہیں ،جھنگ والے دوست بہت اچھاکام کررہے ہیں اوروہاں سرائیکی تحریک دم توڑ چکی ہے،رحیم یارخاںُ شہر میں میاں آصف اور عنصر جمیل کی زیرسرکردگی تین ہزار پر مشتمل پنجابی ریلی ایک اہم اقدام ہے ۔
میرااستدلال یہ تھاکہ جنوبی پنجاب میں پنجابی بولنے والوں کا تناسب چالیس فیصد ہے اور کراچی شہر میں بھی اردو سپیکنگ کا تناسب چالیس فیصد ہے لیکن اس کم تناسب کے باوجود سیاسی مہارت سے ایم کیو ایم نے نہ صرف کراچی کا کنٹرول حاصل کیا بلکہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو بھی تگنی کا ناچ نچائے رکھا تو جنوبی پنجاب کے پنجابی کو سیاسی شعور کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
سرائیکی تحریک کازور توڑنے میں ن لیگ کی سیاسی چالوں پر ہم دونوں کا اتفاق تھا کہ آج اس وجہ سے کوئی سیاسی پارٹی بھی سرائیکی صوبے کا نام نہیں لیتی بلکہ جنوبی پنجاب کہتی ہے یعنی جس لفظ پنجاب سے انھیں نفرت ہےوہی ان کے گلے پڑے ہوا ہے،
ہم دونوں میں اس بات پر اتفاق تھا کہ اگر صوبے بنانا ہیں تو بہاولپورصوبہ لازمی بنایا جائے کیونکہ یہ اصل میں پنجابی صوبہ ہی ہوگا اور سرائیکی نیشنلزم کمزور ہوجائے گا، احمدرضاکا موقف یہ تھاکہ اگر بہاولپور صوبہ نہیں بنتا اور جنوبی پنجاب ہی بننا ہے تو ضلع بہاولنگرکوساہیوال ڈویژن میں شامل کیاجائے،ایک تو ساہیوال ہمارے نزدیک اور دوسرے ہم سرائیکی نہیں پنجابی ہیں ،
پنجابی نیشنلسٹوں میں پائے جانے والے اختلافات پر وٹو صاب کو افسوس تھا ، انہوں نے اختلافات طے کرنے کےلئے اپنے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔