اپنی پچھلی تحریر میں اپنے صحافی دوست انیس اکرم کا ذکر کیا اور آج کے کالم میں بھی ذکر کرنا پڑ رہا ہے. انیس اکرم چند روز
قبل کیمرا مین کے ساتھ اپنے چینل کے لیے رپورٹنگ کررہے تھے کہ وہاں سے سرگودھا پولیس کی کپتان عمارہ اطہر کا گزر ہوا. دبنگ پولیس افسر بننے کی شوقین عمارہ اطہر نامی اس کپتان کو اپنی سلطنت میں ایک صحافی کا یوں رپورٹنگ کرنا ناگوار گزرا. فوری طور پر گاڑی رکوائی اور ہمارے اس دوست کو اپنے حضور طلب کیا. مستعد پولیس اہل کار اپنی کپتان کے حکم پر ہمارے دوست کو نہایت بد تہذیبی سے پکڑ کر کپتان کے گشتی دربار میں میں لے گئے. کیمرے اور موبائل فون سے بنائی گئی متحرک تصاویر کو کھرچ کر صاف کیا گیا. موبائل فون اور موٹرسائیکل ضبط کر کے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہوئے موصوفہ نہایت طمطراق سے رخصت ہو گئیں
انگریز نے برصغیر میں اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیےجو ادارے قائم کیے ان میں پولیس کا محکمہ بھی ہے. یہ محکمہ یوں تو پورے برصغیر میں ہی اپنی سخت گیری کی وجہ سے مشہور تھا مگر پنجاب پولیس کی بات ہی کچھ اور تھی. پنجاب انگریز استعمار کا بازوئے شمشیر زن تھا اور انگریز اس پر خصوصی توجہ دیتے . اس کو زیر نگیں رکھنے کے لیے علیحدہ سے برتاؤ کیا جاتا. شورش کاشمیری تو کہتے ہیں کہ پنجاب کو باقی ہند سے ہٹ کر چار تحفے عطا کیے گئے یعنی جعلی نبی، جعلی پیر، جاگیردار اور پولیس. پنجاب پولیس کو بے پناہ اختیارات سونپے گئے . بیسویں صدی کی پہلی دہائیوں سے متعلق تاریخی کتب پر ان کی سفاکی کی داستانیں بکھری پڑی ہیں. زیادہ نہیں تو شورش کاشمیری کی آپ بیتی ” بوئے گل نالہ دل دودچراغ محفل” یا ” پس دیوار زنداں دیکھ لیں.
انگریز کے جانے کے بعد بھی پنجاب پولیس کے ذہن سے دبدبے کی وہ خواہش نہیں نکلی جو استعماری دور میں میسر تھا . خود ہماری کئی بوڑھے پولیس والوں سے ملاقات ہوئی جو حسرت سے کہا کرتے کہ ” یہ کوئی پولیس ہے. پولیس تو انگریز دور کی تھی کہ جب ایک سپاہی کے آنے پر گاؤں کے سب مردوزن قطار میں کھڑے ہو جاتے تھے” ایک دور تو وہ بھی تھا کہ پنجاب کے لوگوں کو حکم تھا کہ انگریز یا پولیس والا نظر آئے تو گھٹنوں کے بل جانوروں کی طرح چل کر اس کے پاس سے گزریں. انگریز کا بنایا یہ محکمہ نہ تو جرائم کو روکنے کے لیے تھا نہ اس کے مقاصد میں عوامی خدمت تھی. اس کا مقصد صرف اور صرف حکومت کا رعب و دبدبہ قائم رکھنا تھا. انگریز کے جانے کے بعد بھی یہ وہی فرائض سرانجام دیتا رہا یہ الگ بات کہ اب حکومت سے زیادہ یہ اپنا رعب ودبدبہ قائم رکھنے کی جدوجہد میں مصروف نظر آتا ہے
پنجاب پولیس سے عوام کو ہمیشہ شکایت رہی. اہل نظر کہتے ہیں کہ انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تو خود یہ پولیس ہے. دنیا جب عقل کے استعمال سے نئے نئے انتظامی گر سیکھ رہی ہے، سماجیات، نفسیاتِ انسانی اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے جرائم کو ختم کرنے کے نئے سے نئے طریقے دریافت کررہی ہے اس وقت بھی ہمارے یہاں جرائم کو روکنے کے لیے استعماری دور کا جسمانی تشدد ہی واحد مستعمل حربہ ہے
یہ درست ہے کہ جو شخص بھی شعوری طور پر پولیس کے محکمے کا انتخاب کرتا ہے اس کے پیچھے احساس کمتری کے علاوہ اور کوئی جذبہ نہیں ہوتا. یہ احساس کمتری اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے اردگرد کے لوگوں پر رعب ڈالنے کے لیے کسی طرح اس محکمے کا حصہ بن جائے
. طاقت کے اظہار کی خواہش انسان سے الٹے سیدھے کام کرواتی ہے. چونکہ اس محکمے کا انتخاب اعلا آدرشوں کی بجائے محض طاقت اور اختیارات کی ہوس کی بنا پر ہوتا ہے اس لیے یہ لوگ غیر ضروری طور پر اپنے اختیارات کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں. طاقت کا مسئلہ یہ ہے کہ دوسرے کو اس کا علم اس وقت ہوتا ہے جب اس کا اظہار ہو. اس لیے پولیس میں بھرتی ہونے والے اس لیے بھی ناجائز کام کرتے ہیں کہ لوگوں کو اختیارات کا علم ہوسکے اور لوگوں کو بتایا جاسکے کہ ہم قانون سے بالاتر مخلوق ہیں اور ہمارے سامنے قانون موم کی ناک ہے . ایسے طاقت کے پجاری کبھی تو خواہ مخواہ بے گناہوں کو سزا دلواتے ہیں اور کبھی گناہ گاروں کو چھوڑ دیتے ہیں ، صرف اس لیے کہ لوگ باگ ان کی طاقت کو سراہیں .
پولیس اپنے رویے کی وجہ سے نفرت کا نشانہ بنتی رہتی ہے، لوگوں میں نفرت کے جذبات ابھارتی ہے. سچی بات ہے کہ اگر کبھی کوئی پولیس والا خود عوام کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بن رہا ہو تو کوئی اس کی مدد کو نہیں آتا. پچھلے دنوں کرونا لاک ڈاؤن کے دوران میں ہی شیخوپورہ میں ایک نوجوان نے دو پولیس والوں کو قتل کر دیا. وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ پولیس نے اس نوجوان اور اس کے باپ کو سرعام مرغا بننے کا کہا. نوجوان نے منت سماجت کی کہ باپ کو رہنے دو، وہ خود یہ ذلت برداشت کرنے کو تیار ہے مگر رعب قائم رکھنے کے شوقین پولیس آفیسرز (یاد رہے کہ پولیس کا ہر ملازم آفیسر ہوتا ہے) نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا. جس پر مشتعل ہو کر اس نوجوان نے دو پولیس والوں کو قتل کر دیا. ممکن ہے محکمہ پولیس ان دو پولیس والوں کو رتبہ شہادت پر فائز کردے مگر عوام کی تمام تر ہمدردیاں اس نوجوان کے ساتھ ہیں اور تادم تحریر کوئی شخص ایسا نہیں ملا جس نے نوجوان کے اس “سفاکانہ” عمل کی مذمت کی ہو .
پہلے بھی عرض کیا کہ دنیا جرائم کی بیخ کنی کے لیے جدید علوم سے مدد لے رہی ہے مگر ہمارے یہاں وہی روایتی حربے استعمال کیے جاتے ہیں. آج کل کرونا کی وبا سے لوگ پریشان ہیں. حکومت اور حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو حوصلہ دیں . انھیں احساس دلائیں کہ وہ لاوارث نہیں. حکومت اور حکومتی ادارے اس مشکل گھڑی میں ان کے ساتھ کھڑے ہوں . مگر ایسا نہیں ہو رہا. پولیس اپنے روایتی ہتھکنڈوں سے باز نہیں آرہی. کبھی بلاوجہ سرعام تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور شرفا کو مرغا بننے پر مجبور کیا جاتا ہے. اب تو صورت حال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ سرگودھا شہر میں دو دنوں میں پانچ صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا. (انیس اکرم کا ذکر تو پہلے کردیا ہے) ایک غریب کیمرہ مین کا تو بازو ہی توڑ ڈالا. میری معلومات کے مطابق تشدد کا نشانہ بننے والے تمام صحافی اچھی شہرت کے حامل ہیں. انھیں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری کا احساس ہے. بروقت درست خبر عوام تک پہنچانے کی خواہش میں مبتلا ہیں. جب کوئی شخص کوئی بھی کام پیشہ ورانہ ذمہ داری سے کرے تو وہ عام طور پر کسی کا رعب برداشت نہیں کرتا اور یہی ہمارے دوستوں کی غلطی تھی. انھیں زعم تھا کہ وہ دیانت داری سے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں تو انھیں کسی سے ڈرنے کی کیا ضرورت؟ حیرت ہے کہ سارا دن خبروں کی تلاش میں پھرنے والوں کو یہ علم نہیں کہ وہ پنجاب میں رہتے ہیں، وہ پنجاب جسے پولیس سٹیٹ کہا جاتا ہے. ہمیں تو ساری غلطی اپنے دوستوں کی ہی نظر آتی ہے کہ انھوں نے پولیس کو دیکھنے کے باوجود نہ صرف یہ کہ اپنا کام جاری رکھا بلکہ گستاخ انیس اکرم کو تو جب کپتان کے حضور پیش کیا گیا اس نے براہ راست ان کے روئے منور کو نہ صرف یہ کہ نظر بھر کے دیکھا بلکہ عینی شاہدین کے مطابق آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا ناقابل معافی جرم بھی کیا. سچی بات ہے ہم پر تو یہ سن کر ہی خوف سے لرزہ طاری ہو گیا. اگر ان کی جگہ ہم ہوتے تو ملکہ عالیہ کی سواری باد بہاری دیکھتے ہی کسی کونے کھدرے میں چھپ جاتے. اگر یہ ممکن نہ ہوتا تو گھٹنیوں چلنا شروع کردیتے . یا کم از کم کورنش بجا لاتے. اور رہی خبر تو وہ پولیس کا محکمہ اطلاعات عامہ جاری کرہی دیتا ہے . اسے جوں کا توں آگے بھیج دیتے .
خیر ہماری خوش بختی کہ ہم وہاں موجود نہیں تھے لیکن اسے کیا کہیے کہ رہنا تو پنجاب میں ہی ہے اور یہاں رہنے والے کا، نہ چاہتے ہوئے بھی واسطہ پولیس سے پڑتا رہتا ہے سو ہم حفظ ما تقدم کے طور پر سب کو گواہ بنا کر بقائمی ہوش و حواس پنجاب پولیس کی مستعدی کو سلام پیش کرتے ہیں کہ جس نے کرونا سے نپٹتے نپٹتے گستاخ صحافیوں کو بھی نپٹا دیا .
پوری دنیا کی طرح وطن عزیز میں بھی کرونا کے خطرات منڈلا رہے ہیں. بتایا جارہا ہے کہ اس ننھے سے جرثومے نے اس سیارے پر انسان کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا ہے. . عامتہ الناس ان دیکھے خوف میں مبتلا ہیں. غیر یقینی کم صورت حال ہے اور ہر شخص کو اپنے مستقبل کی فکر دامن گیر ہے . ان حالات میں ضروری ہے کہ ریاست کے تمام ادارے یک جان ہو کر جدوجہد کریں. اگر لوگوں کو گھروں میں رکھنا ضروری ہی ہے تو اس کے لیے کوئی مہذب طریقہ استعمال میں لایا جائے. موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ہر ادارہ اپنی ذمہ داری ادا کرے . انتظامیہ کی طرح صحافت بھی ریاست کا ستون تصور ہوتی ہے. ان دونوں کے تعلقات میں کشیدگی کرونا کے خلاف چلنے والی مہم کو ہی نہیں بلکہ پولیس کے امیج کو بھی متاثر کرے گی. سرگودھا پولیس کی خاتون کپتان سے بھی ہماری استدعا ہے کہ آپ بڑے پن کا مظاہرہ کریں. یہ چند آئیڈئیلزم کے مارے، راست گوئی کے مرض میں مبتلا صحافی ہیں جن کو آپ کے اختیارات کا علم نہیں. یونیورسٹی کے اساتذہ نے صحافتی اصول اور نظریات پڑھا پڑھا کر ان کا دماغ خراب کررکھا ہے. وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی اسی ماحول میں ڈھل کر آداب غلامی سیکھ جائیں گے. اور پھر یہ بھی ہم جیسوں کے سامنے بیٹھ کر فخر سے بتایا کریں گے فلاں تھانیدار ہمارا واقف ہے. اور یہ کہ آج کپتان صاحبہ جب فلاں سڑک سے گزریں تو ہم نے چھپ کر ان کی زیارت کی تھی. باقی یہ کہ دوست بابا عبیر ابو ذری کی نظم پڑھیں خاص طور پر یہ بند.
پلس نو آکھاں رشوت خور تے فیدہ کی
پچھوں کردا پھراں ٹکور تے فیدہ کی
جھاڑو نال بناون مور تے فیدہ کی
بوتھی ہوئے ہور دی ہور تے فیدہ کی