سیدہ صفیہ ذیشان شعبہ ابلاغ عامہ، جناح یونیورسٹی کراچی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ان دنوں برطانیہ میں مقیم ہیں۔ مختلف قومی اور بین الاقوامی موضوعات پر ان کی تحریریں انفرادیت کی حامل ہوتی ہیں۔ “آوازہ” کے لیے ان کی یہ پہلی تحریر ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ ان کے قلمی تعاون کا سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔
**************
یوں تو میں ہوں ایک چھوٹا سا جراثیم ہوں لیکن میں نے اس دنیا کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔یہ ترقی یافتہ ملک جو خود کو بہت صاف اور کامیاب سمجھتے ہیں ان کاغرور توڑنے کے لیے میں اکثر اس دنیا میں آجاتا ہوں۔اس بار دنیا میں آکر میں نے شروعات
چین سے کی جس نے میرے بغیر بھی اس دنیا کو تنگ کر رکھا ہے۔اس ملک پر حملہ کرنے کا مقصد یہ تھا کہ دور بیٹھے دوسرے
سارےامیر ملکوں کے لوگوں کو میں کیسے ہلا سکتا ہوں۔ہوا یوں کہ چین کی حالت دیکھتے ہی ان دوسرے امیر ملکوں کی حکومت اور عوام دونوں ہی پریشان ہوگئے یہاں میں یہ سمجھا تھا کہ چلو امیر ملکوں پر زور اس لیے کہ غریب ملک پہلے سے ہی اس دنیا کےدھتکارے ہوے ہیں ان کو اور پریشان کر نے میں وہ مزا نہیں جو ان امیر ملکوں کو پریشان کرنے میں ہے۔ان ملکوں کے لوگوں نے دکان کی دکان خالی کرنا شروع کردیا مطلب جلد سے جلد سامان وہ بھی وافر مقدار میں خرید خرید کر اپنے گھروں میں بھر نا شروع کردیا تاکہ جب میں ان کے ملک میں آؤں تو یہ ڈر کر اپنے گھروں میں گھسے رہیں اور میں ان کا کچھ بھی نہ بگاڑ پاؤں بس جیسے ہی یہ لوگ گھبراۓ میں سمجھ گیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ان ملکوں پر ہلہ بولا جاۓ۔ میں نے چین کے بعد سب سے پہلے امریکہ(super power)،فرانس ،اور اٹلی پر حملہ کیا مگر لپیٹے میں بیچارہ ایران بھی آگیا بس گیہوں کے ساتھ گہن بھی پس گیا۔
یوں تو میرا کسی بھی ملک یا مذ ہب سے کوئ تعلق نہیں مگر جس خالق نے مجھے بنایا ہے،اس سے اور اسکے ماننے والوں
سے ڈر لگتا ہے۔تو یوں امریکہ جو خود کو super power بولتا ہے اور دنیا بھر میں شیطان بنا گھومتا ہے ایک چھوٹے سے چراثیم
سے مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔اپنے لوگوں کو بہترین دوا اور سہولتیں دینے کا دعوی کرنے والا اپنے 12,400لوگوں کو مجھ سے
بچانہ سکا۔کہنے کے لیے ترقی یافتہ مگر اندورونی طور پر اتنا مہنگا کہ عام عوام ڈاکٹر کے پاس جانے سے گھر میں ہی دم توڑنے میں اپنی
عافیت سمجھتے ہیں جبکہ ان کو میرے آنے کا پتہ جنوری میں ہی چل گیا تھا مگر خود کو ہوشیار سمجھتے ہوے کوئ حل نہ نکال سکے۔WHO کے مطابق امریکہ کی آبادی اتنی زیادہ ہے کہ ہزار مریضوں کے لیے ہسپتال میں تین سے زیادہ بستر نہیں اور ان کے یہاں ڈاکٹروں کی تعداد بھی اتنی ہی کم ہے۔۔ ہزار مریضوں پر صرف تین ہی ڈاکٹر میسر ہیں۔اب تو حال یہ ہے کہ حکومت نے صاف لفظوں میں بول دیا ہے کہ ضرورت پڑنے پر وہ صرف میڈیکل اسٹاف ،سیاستدان اور حاملہ عورتوں کو بچائین گے۔ادھر
برطانیہ کا بھی برا حال ہے ،وہاں کی حکومت مجھ سے ایسا ڈری کہ لوگوں کو خود ہی بول دیا کہ گھر میں رہیں ،دوستوں اور رشتے داروں سے نہ ملیں ،ہاتھ بار بار دھو ئیں اور اگر کسی بھی جگہ دوسرے لوگوں سے سامنا ہو جاۓتو دو میٹر کا فاصلہ رکھیں مگر ان سب کے باوجود اپنے ملک کے 9159 لوگوں کو مجھ سے نہ بجا سکے بلکہ خود برطانیہ کے وزیرےعظم بورس جانسن انتہائ
نگہداشت کے یونٹ میں ہیں اور عوام سے دعاوں کی اپیل کر رہے ہیں میں ان ملکوں کو ایسا تنگ کر رہا ہوں جیسے بلی چوہے کو۔ کچھ ایسا ہی حال دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کا بھی ہے جو مجھ سے دور رہنا چاہتے ہوے بھی نہیں رہ پارہے ہیں ۔ہر جگہ میری ہی بات چل رہی ہے ۔جگہ جگہ مجھ سے ہی بچنے کے طریقے سوچے جارہے ہیں اور کسی کے پاس مجھے مارنے کا کوئی حل نہیں ۔
لوگ دعاوں کی درخواست کر رہے ہیں ۔پہلے سب کو لگا میں صرف بوڑھے اور کمزور لوگون کو ہی نقصان پہنچا تا ہوں لیکن پھر آہستہ آہستہ ان سب کو بھی سمجھ میں آنے لگا کہ میرا جس کو نقصان پہنچانے کا دل چاہے گا اس کو پہنچاؤں گا ۔یوں امریکہ (Super power)،برطانیہ ،فرانس، جرمنی اور کئ اور ممالک کے لوگ مجھ سے ڈر کر اپنے اپنے گھروں میں محصور ہوگے ہیں اور میں ان کے شہروں میں بڑی شان سے گھوم رہا ہوں ۔آج شاید ان کو ان معصوم لوگوں کی حالت کا احساس ہو گیا ہوگا جو کشمیر،فلسطین اور شام جیسے شہروں اور ملکوں میں ڈرے بیٹھے ہیں جن کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور اپنے مذہب کو آزادی کے ساتھ اپنانا چاہتے ہیں مگر یہ ترقی یافتہ ممالک ان کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے بلکہ ان کو دہشت گرد بنا کر پوری دنیا کو دکھاتے ہیں ۔یوں تو مسلم اُمّہ بھی کم نہیں ایک ہو کر ان لوگوں کا ساتھ دینے کے بجاۓ ان کا تماشہ دیکھتے رہتے ہیں لہذا مجھ جیسی آفت ان کی اپنی لائ ہوئ ہے۔اب حال یہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں جہاں پردہ کرنا منع تھا،لاؤڈاسپیکر پر اذان دینا منع تھا اب لوگوں سے درخواست کروائ جارہی ہے کہ پردہ کریں مجھ سے بچین اور اذانین دیں اور دعائیں مانگین تاکہ مجھ سے دور رہ سکیں لیکن مجھے پتہ ہے کہ جہاں میں اس دنیا سے گیا وہاں پھر سے پوری دنیا ویسے ہی ہو جاۓ گی مگر میں بھی جاتے جاتے ایسی چھاپ چھوڑ جاؤں گا کہ نہ صرف یہ بلکہ ان کی آنے والی نسلیں بھی مجھے یاد رکھیں گی ۔
یوں تو میں ہر سو سال میں اس دنیا میں آجاتا ہوں مگر ہر دفعہ کسی نئ صورت میں اور نئے نام کے ساتھ یا یوں کہوں کہ ہر دفعہ مجھے لوگ ایک نیا نام دیتے ہیں ۔آخری بار میں اس دنیا میں 1918 میں آیا تھا ۔جس کو کچھ لوگوں نے Spanish flu کسی نےblack death اور کسی نے تو blue death کا نام بھی دیا تھا۔اس وقت بھی میں نے پوری دنیا کو ہلا یا تھا تقریباً 50 ملین کے قریب لوگوں کو عقل نہیں آئی ۔ہر بار میں اس دنیا میں آتا ہوں نقصان پہنچاتا ہوں لوگ مجھے نام دیتے ہیں نقصان اٹھاتے ہیں مگر آج تک یہ میرا کوئی توڑ یا مجھ سے بجنے کی کوئی دوا نہیں بنا پاۓ۔اس دفعہ لوگوں نے میرا نام COVID 19 رکھا ہے۔کہنے کو تو یہ ترقی یافتہ ملک چاند پر پہنچ گۓ ہیں مگر اپنی ہی دنیا کے ایک چراثیم سے لڑ نہیں پاۓ ۔مگر اب میں پھر سے آہستہ آہستہ کمزور ہو رہا ہوں یا آپ لوگوں کی دعائیں مجھے مار رہی ہیں لگتا ہے اب اس دنیا سے جانے کا وقت آگیا ہے مگر میں پھر آونگا اس دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کو آئینہ دیکھانے جب تک کے لیے مجھے یقین ہے کہ آپ مجھے اپنی باتوں میں اور دعاؤں میں یاد رکھیں گے چاہے وہ مجھ سے دور رہنے کی ہی کیوں نہ ہوں۔