Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
اُمید ہے آپ خیریت سے ہوں گے، وبا کے دنوں میں لوگوں کی سوچ کے دھارے ہی بدل گئے ہیں بہت کچھ لکھا جا رہا ہے اور بُہت کچھ سہا جا رہے ہے، لیکن جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے ایسی بہار شاید ہی میری زندگی میں آئی ہو، اتنی حسین، تایا جی ہم نے تو بہار کا ذکر صرف بزرگوں سے سنا تھا، ذرا دیکھیں تو سہی اس کے جوبن کو، پتہ پتہ ڈالی اپنا رنگ بکھیر رہیں ہے۔ اس سے پہلے تو سب کچھ آلودہ ہی جاتا ہے، وہ اسلامباد کی من موہنی سی تنہائیاں جو کبھی اوائل عمری میں دیکھی تھی وہ دوبارہ عود ائی ہیں، سچ پوچھیں تو یہ ہوا کسی میخانے سے کشید معلوم ہوتی ہے، یہ ائے روز حسین بارشیں اندر تک بھگو دیتی ہیں، میں کہاں گھر بیٹھ سکتا ہے جب ساقی بلائے تو کون کمبخت گھر بیٹھے، تارڑ صاحب کہتے ہیں کچھ منظر صرف آوارہ گردوں کے لیے ہوتے ہیں، تایا جی میں بھی اسیر ہوں ایسے مناظر گا، ایسی شراب کا ۔ ۔ ۔ سر شام ہی نکل پڑتا ہوں دور تک کوئی نظر نہیں آتا ہوائیں خوشبو بھی لیے کبھی میرا اور کبھی میں اُن کا طواف کرتا ہوں، سنسان گلیاں مہک گئی ہے لگتا ہے گھروں میں لوگ نہیں روحیں رہ رہی ہیں، وہ جو دوڑ لگی ہوئی تھی نا جس میں کبھی جیت نہ پایا کوئی۔ ۔ ۔ وہ تھم گے
ابو اکثر کہا کرتے
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکا یت ہو گئ
من میں یہ جواب آرہا ہے آج
وہ پوچھتے ہیں کہ غالب کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
حضور! میرے لیے یہ کورونا نعمت بن کر آیا، مہربان دوست بن کر آیا، جس نے مجھے کہیں نا کہیں سے اپنے آپ سے ملوا دیا گئی
وبا کے دنوں میں کس کو ہوش رہتا ہے
کس ہاتھ کو تھامنا ہے، کس کو چھوڑنا ہے
اُمید ہے آپ خیریت سے ہوں گے، وبا کے دنوں میں لوگوں کی سوچ کے دھارے ہی بدل گئے ہیں بہت کچھ لکھا جا رہا ہے اور بُہت کچھ سہا جا رہے ہے، لیکن جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے ایسی بہار شاید ہی میری زندگی میں آئی ہو، اتنی حسین، تایا جی ہم نے تو بہار کا ذکر صرف بزرگوں سے سنا تھا، ذرا دیکھیں تو سہی اس کے جوبن کو، پتہ پتہ ڈالی اپنا رنگ بکھیر رہیں ہے۔ اس سے پہلے تو سب کچھ آلودہ ہی جاتا ہے، وہ اسلامباد کی من موہنی سی تنہائیاں جو کبھی اوائل عمری میں دیکھی تھی وہ دوبارہ عود ائی ہیں، سچ پوچھیں تو یہ ہوا کسی میخانے سے کشید معلوم ہوتی ہے، یہ ائے روز حسین بارشیں اندر تک بھگو دیتی ہیں، میں کہاں گھر بیٹھ سکتا ہے جب ساقی بلائے تو کون کمبخت گھر بیٹھے، تارڑ صاحب کہتے ہیں کچھ منظر صرف آوارہ گردوں کے لیے ہوتے ہیں، تایا جی میں بھی اسیر ہوں ایسے مناظر گا، ایسی شراب کا ۔ ۔ ۔ سر شام ہی نکل پڑتا ہوں دور تک کوئی نظر نہیں آتا ہوائیں خوشبو بھی لیے کبھی میرا اور کبھی میں اُن کا طواف کرتا ہوں، سنسان گلیاں مہک گئی ہے لگتا ہے گھروں میں لوگ نہیں روحیں رہ رہی ہیں، وہ جو دوڑ لگی ہوئی تھی نا جس میں کبھی جیت نہ پایا کوئی۔ ۔ ۔ وہ تھم گے
ابو اکثر کہا کرتے
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکا یت ہو گئ
من میں یہ جواب آرہا ہے آج
وہ پوچھتے ہیں کہ غالب کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
حضور! میرے لیے یہ کورونا نعمت بن کر آیا، مہربان دوست بن کر آیا، جس نے مجھے کہیں نا کہیں سے اپنے آپ سے ملوا دیا گئی
وبا کے دنوں میں کس کو ہوش رہتا ہے
کس ہاتھ کو تھامنا ہے، کس کو چھوڑنا ہے