سیاستدان کا تعلق اس کی زبان سے بہت زیادہ ہوتاہے،یہی اس کےرابطے ، اظہار،ردعمل کاواحد ذریعہ ہے۔ان کی باتیں کئی بار اتنی سحرانگیز اور معنی خیز ہوتی ہیں کہ سننے والا نہ صرف حیرت زدہ رہ جاتا ہے بلکہ لاجواب بھی ہوجاتا ہے۔
مختلف سیاستدانوں کی آف دی ریکارڈباتیں کئی بار بڑی دلچسپ اور کبھی حیران کن ہوتی ہیں۔
ایک بار بے نظیر بھٹو وزیراعظم نوازشریف کی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کیلئے اسلام آباد میں اپنے گھر سےنکلیں، انہیں پولیس نے آگے بڑھنے سےروکا، وہ کسی نہ کسی طرح پولیس کو چکمہ دے کرمختلف ذیلی سڑکوں سےجارہی تھیں، اس دوران انکی گاڑی خاردار تاروں میں الجھ گئی،اور آگے نہ جاسکی۔ ہم رپورٹنگ کیلئے گاڑی میں انکا تعاقب کررہے تھے، بے نظیر تھوڑی سے مایوس دکھائی دیں، ہم نے پیشکش کی ،ہماری گاڑی میں آگے کا(راولپنڈی، راجہ بازار تک)سفر کرلیں۔ انہوں نے فوری پیشکش قبول کرلی، اور اپنے ساتھی رہنماوں کے ہمراہ گاڑی پر سوار ہوگئیں۔ کچھ دوری پر گئے ہوں گے، ان کی متبادل گاڑی پیچھے آگئی۔ بے نظیر بے ساختہ بچوں کی طرح خوش ہوئیں تالیاں بجانے لگیں، بولیں ہم نے مارشل لاء دور میں رکاوٹیں ختم کیں، میاں صاحب ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتے۔
2007 میں جب نوازشریف وطن واپس آئے ، وہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد منظرنامے کو بے حد اپنے حق میں محسوس کررہے تھے، لیکن انہیں اب بھی شک تھا نشستیں زیادہ نہیں ملیں گی۔
انہوں نے ایک انٹرویو کے دوران بعد میں آف دی ریکارڈ گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ یار!چیف جسٹس کے حق میں تحریک چلادی ہے، میں انہیں کبھی ملا نہیں، نہ جانتا ہوں، انہوں نے تو مجھے ریلیف بھی نہ دیا، جب میرا طیارہ اسلام ائیرپورٹ پر کھڑا رہا۔ خواجہ آصف سپریم کورٹ میں بیٹھے رہے۔ ہم تو اب اس معاملے سے احسن طریقے کے ساتھ نکلنا چاہتے ہیں۔ (یعنی ان سے جان چھڑانا چاہتے ہیں)
انہیں دنوں شہبازشریف نے کہہ دیا کہ میری ذاتی رائے میں جنہوں نے،،اب پی سی او کے تحت حلف اٹھایااگر انہیں نکالا دیا گیا تو پہلے جن ججز نے حلف اٹھائے یعنی چیف جسٹس افتخارچودھری سمیت سبھی کو فارغ کرکے نئی عدلیہ تشکیل دی جائے۔
یہ بڑے رہنماوں کی باتیں تھیں، ان کے نیچے سیاستدان بھی آف دی ریکارڈ اسی طرح کی باتیں کرتے ہیں۔
جیسے پیپلزپارٹی کے وزیراطلاعات نے ایک بار کہہ دیا، ہماری اپوزیشن مسلم لیگ نون نہیں بلکہ چیف جسٹس افتخار چودھری اور ایک بڑا ٹی وی چینل ہے، جنہوں نے ہماری حکومت کے خلاف محاذ کھڑا کیاہوا۔ ہمیں ان کا جواب دینے میں سارا دن گزرجاتا ہے۔
ایسے بے شمار واقعات اور باتیں ہیں، مگرآج ایک آف دی ریکارڈ باتیں اچانک ریکارڈ ہوگئیں۔
مسلم لیگ نون کے رہنماوں کی پریس کانفرنس تھی، اب انہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کس وقت کتنے منٹ پر بولنا ہے، اور سب کچھ لائیو کٹ ہوجاتا ہے، اس کے لیے انہیں کچھ دیر انتظار بھی کرنا پڑتا ہے،
اسی انتظار کے دوران سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ، مریم اورنگزیب، طارق چودھری، اویس لغاری اور دیگر رہنما موجود تھے۔ ان کی بات چیت کچھ یوں تھی۔
مریم کہہ دیں (صحافیوں کو)سوال جواب کوئی نہ ہو، شاہد خاقان
آج رپورٹر ہی کوئی نہیں آیا، مریم اورنگزیب
(پاس بیٹھے ایک لیگی رہنما سے)بارہ کہو دے کیہ حالات نیں، شاہد خاقان
بارہ کہو ٹھیک اے، ہمیں کیس دو ہی آئے تھے، لیگی رہنما کا جواب
تبلیغی جماعت والے بندے فارغ ہوگئے، ٹرگئے، طارق چودھری
ہاں اوہ چلے گئے ،لیگی رہنما
(شاہد خاقان کو مخاطب ہوتے)ابھی تین منٹ ہیں، مریم اورنگزیب
میڈیا میں سے کسی نے کہا،سب ڈرے ڈرے ہیں،
جی ڈرے ڈرے تو، ہیں،شاہدخاقان
شاہدخاقان نے کسی ایک کارکن کی طرف دیکھ کرکہا،تساں ماسک نئیں پایا،جواب دینا پے جائے گا
شاہدخاقان انتظار میں مسلسل بے چینی کے ساتھ ہاتھ میں پنسل پکڑے اسے ہلاتے رہے
لوگ کہتے ہیں آئسولیشن مشکل ہے، میں کہتا ہوں ہمیں پتہ ہی لگ رہا ،ہم تو پہلے ہی آٹھ مہینے سے آئسولیشن میں ہیں
(8 ماہ سے نوازشریف لندن گئے ہیں)
اویس لغاری نے جواب میں کہا،صحیح کہہ رہے ہیں
آپ سوچ نہیں سکتے کہ انٹرنیٹ اور ٹی وی کے بغیر کیسے گزارا ہوتا ہے،اویس لغاری
واقعی حشر ہوجاتا، قسم سے، شاہد خاقان عباسی
مریم!ایہہ رپورٹ (چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ)حکومت آپ ریلیز کیتی یاں میڈیا نیں، پہلاں کیویں آئی، شاہد خاقان
پہلے حکومت نے ریلیز کی پھر میڈیا پر آئی،مریم اورنگزیب
کسے سرکاری بندے آکے ایس رپورٹ نوں ریلیز کیتا، شاہدخاقان
نہیں کسی نے آکر ریلیز نہیں کیا، مریم اورنگزیب
بس ٹھیک اے، شاہدخاقان
پریس کانفرنس سے پہلےشاہدخاقان نے ماسک اتاردیا،
طارق چودھری نے کہا میں بھی اتاردوں۔
تسان ماسک لائی رکھو، تساں ناں لاؤ، شاہدخاقان کامشورہ