آج کل دنیا میں کرونا کے سوا کوئی خبر نہیں ہے، گزشتہ عرصے کئی کالم اسی موضوع پر لکھ چکا ہوں چاہتا تھا کچھ اور لکھوں مگر یقین جانیں ذھن میں کرونا کے سوا کچھ بھی نہیں، ویسے یہ کوئی چھوٹا موضوع ہے بھی نہیں، کرونا کے ہمہ جہت اثرات دنیا دیر تک محسوس کریگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موذی وبا نے پوری دنیا کا ہلا کر رکھ دیا ہے، کرونا کے بعد دنیا ایک نئے روپ میں سامنے آئیگی، یہ بحران مجھے اور آپکو کو بھی بہت کچھ سکھا رہا ہے، اسی طرح دنیا بھی بہت کچھ سیکھ اور سمجھ رہی ہے، بقول ساحر لدھیانوی
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے لوٹا رہا ہوں میں
مگر اب دنیا کی باری ہے، اس بحران کے بعد دنیا ہمیں بہت کچھ لوٹائے گی، عالمی معاشرہ، ثقافت، رواج و روایات، تجارت، ملکوں کے تعلقات، اتحاد، روابط شاید بہت کچھ بدل جائیگا۔ نائن الیون کے بعد دنیا تبدیل ہوئی تھی اب شاید ہم اس سے بھی بہت بڑی تبدیلی کی طرف جا رہے ہیں۔ مغربی ممالک کے نظام، نیو ورلڈ آرڈر کی گرفت، چین اور روس کی ممکنہ قربت، طاقت کا توازن، بین الاقوامی قوانین میں تبدیلی سمیت دنیا ڈھیر سارے تجربات و حوادث لوٹانے والی ہے۔ کرونا کے معاملے پر کوسوو میں حکومت تبدیل ہو گئی، دو ماہ قبل حلف اٹھانے والے وزیر اعظم البن کرتی کے خلاف اپوزیشن کے عدم اعتماد نہ صرف کامیاب ہوئی بلکہ اتحادیوں نے بھی کرونا کے خلاف ناکافی اقدامات پر انکے خلاف ووٹ دیا۔ کوسوو کرونا کا پہلا نشانہ بنا مگر شاید ابھی اور بھی بہت ساری حکومتیں عوام کے قہر کا نشانہ بنیں گی۔ جرمن ریاست ہیسے کے وزیر مالیات تھامس شیفر نے کرونا بحران کی پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث خودکشی کر لی، انکا خیال تھا کہ مالی مدد کے حوالے سے عوام کی توقعات پر پورا اترنا ناممکن ہو گا، جلد یا بدیر یہی عذاب دنیا کی بیشتر حکومتوں کو جھیلنا ہو گا، کرونا کے بعد معاشی بحران ہر ملک کی حکومت کیلئے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہو گا۔
دنیا 1929 اور 2008 کے اقتصادی بحران جھیل چکی ہے مگر شاید اس سے بڑا بحران ہمارے سامنے ہے، دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹ شدید گراوٹ کا شکار ہیں، ترقی یافتہ ممالک شرح سود میں کمی پر مجبور ہیں، سعودی عرب اور روس کی چپلقش کے باعث تیل کی قیمتیں کم ترین سطح پر ہیں۔ عالمی اقتصادی منظر نامہ بری طرح متاثر نظر آتا ہے اور ابھی یہ سلسلہ جاری رہیگا، صنعت و تجارت، نقل و حمل، پیداور میں کمی، طلب و رسد کا بگڑتا توازن عالمی معشیت کیلئے شدید دھچکہ ثابت ہو گا، بہت ممکن ہے کساد بازاری کئی حکومتوں کو نگل جائے، امریکہ اور یورپ جیسے مضبوط معاشی نظام شکست و ریخت سے دوچار ہوں۔ اٹلی جو یورپ کی تیسری بڑی معشیت ہے شدید بحران کا شکار ہو گی، فرانس، اسپین، برطانیہ اور جرمنی بھی شدید متاثر ہیں۔ یورپی یونین نے بحران سے دوچار اٹلی کیلئے صرف 25 بلین یورو کا فنڈ قائم کیا ہے جس پر اٹلی کو شدید اعتراض ہے، اس وقت ہر ملک اپنے مسائل کا شکار ہے تو بہت ممکن ہے کرونا بحران یورپی یونین اتحاد میں دراڑیں ڈال جائے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا اعتماد بھی جواب دیتا نظر آتا ہے، اس سے پہلے دعویٰ کرتے رہے امریکہ محفوظ رہیگا پھر کرونا وائرس ایجاد کرنے کا الزام چین پر لگایا اور اب شدید متاثرہ ممالک میں شامل ہو چکا ہے۔ یورپی اور امریکی نظام میں صحت مکمل طور پر حکومت کی ذمہ داری ہے، کرونا کا طوفان تھمے گا تو احتساب کا قہر آلود بگولہ حکومتوں کو گھیر لے گا۔ سیاسی، معاشی، سماجی اور ثقافتی شعبوں کی کارکردگی کو اس خوفناک وبا نے بے نقاب کر دیا ہے، ترقی یافتہ ممالک کے عوام پورے نظام پر نظر ثانی کا مطالبہ کرینگے، دنیا پر کرونا کے اثرات دیرپا ثابت ہونگے۔ ابھی تک کرونا نے روس کو زیادہ متاثر نہیں کیا ہے اگرچہ سلسلہ چین سے شروع ہوا تھا مگر حیرت انگیز طور پر چین نے کرونا پر جلد قابو پا کر معاملات کو سنبھال لیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین اور روس کی معیشت کو بھی دھچکہ لگا ہے مگر امریکہ اور یورپ کے مقابلے میں صورتحال بہتر ہے، ویسے بھی دونوں ممالک میں موجود سیاسی نظام حکومتوں کو عتاب سے محفوط رکھے گا۔ یہ تو تھی ترقی یافتہ دنیا کی صورتحال، ترقی پذیر ممالک بھی اقتصادی بحران کی زد میں آئینگے اور غریب ممالک کے دیوالیہ ہونے کے خدشات حقیقت ثابت ہو سکتے ہیں۔ دنیا کے پانچوں بڑی طاقتوں کے کردار کی دوبارہ وضاحت، امریکہ کی کمزوری اور علاقائی طاقتوں کیساتھ چین کا نیا کردار عالمی منظر نامے کا اہم حصہ ثابت ہو گا۔
مستقبل قریب میں عالمی منظر نامہ انقلاب کی تصویر نظر آئیگا، نائن الیون کے بعد دنیا میں بہت کچھ بدل گیا، دہشتگردی کے خلاف قوانین، قومی سلامتی، سرحدوں کی دیکھ بھال، سیکورٹی معاملات نے دنیا کو ایک نئے نظام سے روشناس کروایا تھا۔ موجودہ صورتحال کے باعث عالمی سطح پر تحفظاتی رجحانات میں شدت آ رہی ہے، دنیا کرونا کے بعد نائن الیون سے بڑی تبدیلیوں سے گزرے گی، بین الاقوامی قوانین اور عالمی معاہدوں میں بڑی تبدیلیاں قرین قیاس ہیں، بہت ممکن ہے آج کی سفری پابندیاں تجارتی بندش میں ڈھل جائیں، عوام کی حفاظت کیلئے قومی خود مختاری اور بین الاقوامی سرحدوں کے تصور کو مزید پابند کیا جائے۔ اسی طرح گلوبلائزیشن یا عالمگیریت کا نظریہ بھی کرونا کا شکار بنے گا، سماجی دوری کے بعد ممکن ہے کہ دنیا اسے الوداع کہہ دے۔ معاشی بدحالی کے نتیجے میں شدید بیروزگاری کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے، خدمات کا شعبہ بھی بری طرح متاثر ہو گا، آجر گھر سے کام کرنے پر زور دینگے، افراط زر، تنخواہوں اور سہولیات میں کمی عوامی بغاوت کو جنم دیگی، حکمران بڑے پیمانے پر بیروزگاری کے باعث خطرے میں ہونگے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موزی وبا نے عالمگیریت اور سرمایہ دارانہ نظام کی کمزوریوں کا عیاں کر دیا۔ سرمایہ دارانہ نظام کی کمزوریوں کو عرصہ دراز سے قرض کے بلبلے میں محفوظ رکھا گیا تھا سو عالمی قرضوں کا یہ بلبلہ کبھی تو پھوٹنا ہی تھا۔ اگرچہ معاشی بحران کا الزام کرونا پر ڈال کر جان چھڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر یہ حادثہ تو اونٹ پر آخری تنکہ ثو ثابت ہو رہا مگر بنیادی وجہ نہیں، یہ ضرور ہے کہ عالمگیر وبا نے سرمایہ درانہ نظام کے تضادات کو پول کھول دیا ہے۔ دنیا بہت کچھ سیکھنے اور لوٹانے پر تیار ہے مگر یاد رکھیں بنی نوع انسان دنیا کی ذھین ترین مخلوق ہے، رب کائنات نے انسان کو چیلنجز سے نمنٹنے کی عظیم صلاحیتوں سے نوازا ہے، انسانیت کی بقا کیلئے کرہ ارض کا انسان متحد ہو کر کامیابی کی ایک اور داستان رقم کریگا۔
سوال یہ ہے کہ کیا عالمی قیادت بحران کا رخ موڑنے یا دنیا کو بحران سے نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ کیا یہ تجربہ منافقت اور عداوت کے بجائے اتحاد و یگانگت کو فروغ دیگا، کیا عالمی معاشرہ کچھ سیکھ رہا ہے، کیا دنیا ایک چھوٹی جنگیں چھوڑ کر بڑی جنگ لڑنے کیلئے تیار ہے؟ بڑے بڑے سوال منہ پھاڑے سامنے کھڑے ہیں، جواب میرے آپ کے پاس نہیں، امریکہ، یورپ یا شاید کسی کے بھی پاس نہیں، اسکا جواب وقت دیگا