امجد حسین امجد سماجی کارکن ہیں، سیاسی نظریہ ساز ہیں یا شاعر، یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں لیکن جب انھیں محفل میں دیکھیں تو ان کے بر محل جملے محفل کو زعفران زار بنادیتے ہیں۔ لاہور کی ایک محفل میں احباب بزرگ ادیبوں اور شاعروں کے لیے ٹایٹل سوچ رہے تھے، ڈاکٹر وزیر آغا پر پر بات آکر ٹھہر گئی۔ امجد حسین نے دائیں بائیں دیکھا، چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور انھوں نے مخصوص انداز میں جلدی جلدی کہا، ہم تو انھیں وزیر زراعت سمجھے تھے لیکن وہ تو اچھے بھلے ادیب نکلے۔ ایک اخباری کے ادبی صفحے کے مدیر بھی وہاں موجود تھے، یہ جملہ سن کر پھڑک اٹھے، آئندہ ہفتے کے سرورق پر یہ پھڑپھڑاتا ہوا جملہ امجد کی جملے بازی کی سند کے طور پر موجود تھے۔
امجد فقط جملے باز نہیں بلکہ حساس شاعر بھی ہیں، ابتدا میں انھوں نے پنجابی میں شعر کہنے شروع کیے اور بزرگ شاعر نادر جارجوی مرحوم سے اصلاح لی۔ آج کل پنجابی اور اردو دونوں میں رواں ہیں۔ “آوازہ” کے لیے انھوں نے چند اشعار عطا کیے ہیں جو اس عہد کے احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے۔
شہرِ دل میں جیسےھوا ھے بم دھماکہ
بکھرے پڑے ہیں لاشے میرے تخیّلات کے
— – – — – – – – – – – – —
خس و خاشاک نہیں ھوں مجھے بہنا نہیں آتا
پانی کی طرح رستہ اپنا خود بناتا ھوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھو نہ جائےسحر کہیں ان ظلمتوں کے سائے میں
ھے رہگذر حریفِ پا مسافتیں طویل ہیں
حیات تارِ عنکبوت سمجھ اسے نا پائیدار
پسارتے ھو پاؤں کیوں ساعتیں قلیل ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوچا تھا آزمالیں ظرف اھلِ شہر کا
لوگوں نے سنگ زنی کو پیشہ بنا لیا
رھبر کا روپ دھارے رھزن ملے ھمیں
ھم نے سراغِ منزل امجد خود پا لیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نبھاتے ہیں یہ ساتھ عمر بھر امجد
اس لیے پالے ہیں دکھ بچوں کی طرح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔