مصر کے شاہ فاروق کا جھکاؤ بائیں بازو کی طرف تھا. وہ کہا کرتے تھے کہ” اگر سمندر کی تہ میں دو مچھلیاں بھی لڑ پڑیں تو میں کہوں گا کہ اس میں امریکہ کا ہاتھ ہے” اسی طرح ہمارے دوست انیس اکرم بھی اپنے بڑے بھائی حبیب اکرم کی طرح یہی سمجھتے ہیں کہ دنیا میں پیدا ہوئے والے ہر مسئلے کی وجہ حکومت وقت ہے چاہے وہ مسئلہ پچاس برس پرانا ہی کیوں نہ ہو. ہمیں اخبار پڑھے عرصہ ہو گیا. کیوں؟؟؟ تو اس کا جواب پھر کبھی سہی. (ساتھ ہی اس بات کا جواب بھی دےدیا جائے گا کہ گھر میں ٹی وی کیوں نہیں ہے؟) . سو معلومات حاصل کرنے کا واحد ذریعہ سوشل میڈیا یا صحافی دوست ہیں. صحافی دوستوں میں ایک انیس اکرم بھی ہیں. ہر ملاقات میں دنیا بھر کی گھبراہٹ لہجے میں سمو کر بات یوں شروع کریں گے کہ ” طارق بھائی آپ کو پتا ہے؟ ” اور اس کے بعد کوئی ایسا مسئلہ بیان کریں گے کہ جس سے پچھلی صدی کی ساتویں آٹھویں دہانی میں ہر شخص کو واسطہ پڑ چکا ہوتا ہے. . کوئی بھی خبر یوں دیں گے گویا یہ آخری خبر ہے اور اس کے بعد دنیا ختم ہو جائے گی . حکومت وقت میں اول تو کوئی خوبی نظر نہیں آتی اور اگر نظر آ بھی جائے تو اس خوبی سے ہی بے شمار خامیاں برآمد کرلیں گے . دو دن قبل مجھے اطلاع دی کہ حکومت نے کرونا وبا کے دنوں میں غریبوں کی مدد کے لیے خطیر رقم رکھی ہے. عرض کیا کہ یہ تو خوشی کی بات ہے. حکومت وقت کی تعریف کرنا چونکہ بیک وقت پالیسی اور انا کے خلاف تھا سو فوراً اعتراض جڑ دیا کہ ” آخر حکومت یہ رقم حق داروں تک کیسے پہنچانے گی؟ حکومت کے پاس اسے تقسیم کرنے کا کوئی میکانزم موجود ہے؟ ” . یہ سوال قابل غور تھا اور ہم نے ان کے پاس بیٹھ کر ہی سنجیدگی سے اس سوال کے ممکنہ جواب تلاش کیے. موجودہ صورت حال زلزلے یا سیلاب سے مختلف ہے. ان آفات کا اثر تقریباً ہر شخص ہر ایک سا پڑتا ہے. ضرورت مند کو ڈھونڈنا نہیں پڑتا. جو صورت حال اب درپیش ہے اس میں پہلا مرحلہ تو ضرورت مند کی نشاندہی ہے اس کے بعد اس تک ضرورت کا سامان پہنچانا ہے. اس آفت سے وہ لوگ زیادہ متاثر ہوئے ہیں جو ڈیلی ویجز پہ کام کرتے ہیں اور ان کی تعداد بلا شبہ ملینز میں ہے. کاروباری سرگرمیاں معطل ہونے سے یہ طبقہ فاقوں کا شکار ہو سکتا ہے. روز کنواں کھود کر روز پانی نکالنے والا یہ طبقہ بکھرا ہوا ہے. یعنی ان کے علیحدہ سے محلے نہیں ہیں. سو پہلا مشکل کام تو ان کی تلاش ہے. اب دیکھنا ہے کہ وہ کون سا طریقہ ہے جس کی مدد سے ہم اس صورت حال سے نپٹ سکتے ہیں۔
پہلا طریقہ تو یہ نطر آیا کہ اس سلسلے میں افسر شاہی سے مدد لی جائے. مگر یہ بات ہر صاحب نظر جانتا ہے کہ یہ تقسیم اگر افسر شاہی کے ہاتھوں ہونی ہے تو پھر اس سے نہ صرف یہ کے بہت کم لوگ مستفید ہوں گے بلکہ جو ہوں گے ان کی عزت نفس مجروح کرنے کا بھی بندوبست ہوگا. یہ درست ہے کہ چیف سیکرٹری سے لے کر نیچے پٹواری تک انسانی زنجیر موجود ہے جو نہ صرف یہ کہ حق داروں کی نشان دہی کرسکتی ہے بلکہ ان تک رقم یا ضرورت کی اشیا پہنچا بھی سکتی ہے. مگر کیا اس انسانی زنجیر پر اعتبار کیا جاسکتا ہے کہ جس کی امانت و دیانت پر ہمیشہ سوالیہ نشان لگے رہے ہیں. اور اگر انھیں مفروضے کے طور پر ایمان دار تسلیم بھی کرلیا جائے تو اس نظام میں رکاوٹیں اتنی ہیں کہ کسی ہنگامی نوعیت کی سرگرمی اس کے بس کی بات نہیں. فائل ورک، تجاویز، میٹنگز، ایک ایک تجویز پر دس دس دستخط….. ظاہر ہے کوئی بھی ہنگامی صورت حال اس کی متحمل نہیں ہو سکتی. پھر یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے لیے ایک علیحدہ سے محکمہ قائم کیا جائے. اس کے لیے دفاتر بنیں، گاڑیاں خریدی جائیں، ٹی اے، ڈی اے کے نئے نرخ طے ہوں اور یوں امداد کا بڑا حصہ انتظامی امور پر ہی خرچ ہو جائے.
دوسری صورت فوج ہوسکتی ہے. ایسے معاملات میں فوج کی دیانت داری شک و شبہے سے بالا تر ہے مگر فوج کے پاس حق داروں کی نشاندہی کا کوئی نظام موجود نہیں ہے. وہ لوگوں کو مشکل سے نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہے. حق دار تک ضرورت کی شے بھی پہنچا سکتی ہے مگر یہ کہ حق دار ہے کون؟؟ یہ جاننا فوج کے لیے قدرے دشوار ہے. یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ انسانی المیے سے نپٹنے کے تین مرحلے ہیں. بچاؤ، فوری مدد اور از سر نو آباد کاری ( ریسکیو، ریلیف، ری ہیبلیٹیشن، انھیں تھری آرز بھی کہتے ہیں) فوج ریسکیو میں بہت مفید ثابت ہوتی ہے. باقی دو صورتوں میں اس کی صلاحیتوں سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا. اور آج کل ریسکیو سے زیادہ ریلیف کا مرحلہ ہے.
. پھر تیسری صورت ٹائیگر فورس ہوسکتی ہے جو حکومت نے اپنی مدد کے لیے بنائی ہے. یہ رضا کاروں کی تنظیم ہے اور تحریک انصاف کے نوجوان بہت جوش و خروش سے اس میں شامل بھی ہو رہے ہیں. مگر اس المیے سے نپٹنے کے لیے جوش کے ساتھ ساتھ ہوش کی بھی ضرورت ہے. جو لوگ رضا کاروں میں شامل ہورہے ہیں ان کے اخلاص اور دیانت پر شک کرنا ظلم ہوگا مگر ناتجربہ کاری پر تو بات ہوسکتی ہے. یہ جس قدر بڑا انسانی المیہ بتایا جارہا ہے اس کے لیے بہت منطم تجربہ کار لوگوں کی ضرورت ہے. سنا یہ ہے کہ پہلے ان رضا کاروں کو تربیت کے مراحل سے گزارا جائے گا. اگر ایسا ہے تو پھر تاخیر کا خطرہ موجود ہے .
. ایک ممکنہ صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ حکومت الخدمت یا کسی اور مذہبی این جی او سے مدد لے لے. ان تنظیموں کا ماضی کا ریکارڈ نہایت شان دار ہے. جب بھی کسی انسانی المیے نے جنم لیا سب سے پہلے یہی تنظیمیں میدان میں اتریں اور اپنی بساط سے بڑھ کر انسانیت کی خدمت کی. آج کل بھی یہ تنظیمیں میدان عمل میں موجود ہیں اور عوام تک ضرورت کی اشیا پہنچا رہی ہیں. . ان کے پاس نطام بھی ہے اور کارکنان بھی جو اس سارے کام کا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں. یہ چونکہ عوام میں رہتے ہیں اس لیے ان کے پاس حق داروں کی معلومات بھی ہوتی ہیں اور ان تک پہنچنے کے ذرائع بھی مگر اس طرح حکومت کو سیاسی محاذ پر شکست ہو گی اور یہ ایک طرح سے اپنی ناکامی کا اعلان ہوگا. یعنی حکومت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کے پاس وسائل اور صلاحیت نہیں کہ وہ اس صورت حال سے نپٹ سکے. سب کو معلوم ہے کہ ان این جی اوز کا تعلق کسی نہ کسی مذہبی دینی جماعت سے ہے. یہ جماعتیں ملکی سیاست میں فعال کردار ادا کرتی ہیں سو حکومت کے لیے ممکن نہیں ہو گا کہ وہ کسی اور سیاسی جماعت کے آگے ہاتھ پھیلائے اور اپنے سیاسی مخالفین کو مضبوط کرے. پھر کچھ تنظیمیں بین الاقوامی طور پر بھی ناپسندیدہ ہیں. ان کو معاملات میں شامل کرکے حکومت بین الاقوامی سطح پر تنقید کا نشانہ بن سکتی ہے
تو پھر کیا صورت ہو؟؟ انیس اکرم نے تو مشورہ دیا ہے کہ حکومت فوری طور پر بلدیاتی ادارے بحال کر دے. بلدیاتی ادارے ہی یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ وہ اس ذمہ داری کو نبھا سکیں. بلدیاتی نمائندے عوام میں رہتے ہیں. یہ عوام کے مسائل سے براہ راست آگاہ ہوتے ہیں. یہ جانتے ہیں کہ کون حق دار ہے اور کون نہیں. عوام سے براہ راست تعلق کی وجہ سے بدعنوانی کا امکان بھی بہت کم ہے . جمہوریت میں بلدیاتی ادارے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں. ان کا رسوخ ہر گلی محلے تک ہوتا ہے اور تقریباً ہر شخص سے متعارف ہوتے ہیں. اگر ان کو فعال کردیا جائے تو یہی نہیں کہ حکومت کو سیاسی محاذ پر پسپائی کا خطرہ نہیں ہوگا بلکہ ان اداروں کی بحالی سے حکومت کی نیک نامی میں اضافہ ہی ہوگا.( یوں بھی موجودہ حکومت بلدیاتی اداروں کی بہت حامی رہی ہے.) سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی ضرورت ہو تو اپنے رضا کاروں کو بلدیاتی نمائندوں کے ساتھ جوڑ دیں. اس کا یہ فائدہ بھی ہوگا کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کی کچھ تربیت بھی ہوجائے گی. اس صورت حال میں ہمیں بھی سب سے زیادہ قابل عمل یہی تجویز نظر آتی ہے. وقت کی ضرورت ہے کہ عوام کو مشکل سے نکالنے کے لیے نئے بلدیاتی انتخابات تک پرانے منتخب نمائندوں کو بحال کردیا جائے. ان منتخب نمائندوں پر اعتماد کیا جائے. یوں بھی ان اداروں کی عدم موجودگی سے عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں.