یہ 1975 کی بات ہے ویسے ایک سال پہلے لاہور میں منعقد کی گئی اسلامی سربراہی کانفرنس کے دوران بھی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو دیکھنے کا اتفاق ہوچکاتھا جس میں اسلامی دنیا کی شخصیات شریک ہوئیں۔ اس بار شہنشاہ ایران اوران کی اہلیہ لاہور آئے۔ بھٹو صاحب انہیں لے کر شالیمار باغ پہنچے مہمان لاہوریوں کی مہمانداری پر بے حد خوش تھے۔ بھٹو پڑوس سے آنے والے مہمانوں کے ہاتھ میں ڈال کر بڑی طاقتوں کو پیغام دے رہے تھے۔ مسلم امہ کی قیادت کو اکٹھا کرنا بھی غیرمعمولی کارنامہ تھا۔
بھٹو کو بھی ملک میں مذہبی حلقوں کی ویسی باتیں سننا پڑیں جو قائداعظم کے حصے آئیں۔ یہ لوگ ہمیشہ سامراج کے ہتھے چڑھ کر کسی کے بھی خلاف محاذ بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
بھٹو اسلامی دنیا کو امہ بنانے کا عزم کرچکے تھے۔ لیکن ملک میں اسلام نام لیوا سبھی نے ٹھان لیا تھا کہ اس سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔ وہ جیت گئے۔ بظاہر انہوں نے بھٹو کو شکست دیدی۔ بعد میں آنے والے بھی ان قوتوں کو اپنے حق میں استعمال کرتے رہے
مگر اسلامی دنیا بکھرا شیرازہ کوئی نہ سمیٹ سکا۔
ہم یہ بھی نہ سمجھ پائے کہ اپنا کیا نقصان کر بیٹھے ہیں۔ پاکستان نے جس مقام کو پالیا تھا وہاں سے بہت زیادہ پستی میں جاگرا۔
لیکن وہ لوگ خوش تھے جیت کا نشہ نہ جانے آنے والی نسل کو کس راہ پر لےگیا۔ اس ضد میں ابھرنے والی سوچ کتنی تکلیف دہ ہے۔
آج اگر بھٹو سے کوئی نفرت کرتا ہے تو اس کی بات سننے والوں کی تعداد بھی حوصلہ افزا نہیں۔ اس جیت نے ملک اور اسلام کی کتنی خدمت کی۔
بھٹو کی مخالفت کیا قوم کے مفاد میں تھی؟ اس سوال کا جواب نئی نسل خود تلاش کرلے گی۔ وہ کوئی دشمن نہیں تھا کسی کا بھیجا ہوانہیں تھا نہ جانے کیوں اسے انجان بنادیا گیا۔