ابوبکر قدوسی ۔۔۔
کتاب ” خوارج ” کے سبب ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر سے تعارف ہوا ، اسی کتاب سے ادارہ قرطاس سے ۔۔۔۔۔
کل اپنی لائبریری میں ان کی ایک کتاب پر نظر پڑی تو اسے اٹھا لیا اور پڑھنا شروع کیا – کیا شان دار کتاب ہے – یہ ڈاکٹر صاحبہ کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے اور بلاشبہ بہترین تحقیقی کام ہے – جب میں نے کتاب کھولی تو ایک خوش گوارحیرت میری منتظر تھی – اندرونی سرورق کے اگلے صفحے پر صرف ایک شعر درج تھا ، متنبی کا شعر جو مجھے بہت پسند ہے –
فالخیل و الیل و البیداء تعرفنی
والسیف و الرمح و القرطاس و القلم
حیرت کا سبب یہ رہا کہ غالبا تین برس گزرے میں نے بھی ایک کتاب لکھی ، چونکہ خود ہی پبلشر تھا سو سارے شوق پورے کیے ، پبلشر اس معانی میں نہیں کہ کتاب محض اپنے پیسوں سے چھاپ لی اور بس ۔۔۔ پبلشر ہو گیا بلکہ اس معنی میں ، کہ میرا ذریعہ روزگار یہی کتاب فروشی ہے – اردو بازار میں مکتبہ قدوسیہ کو چلانا اللہ نے میرے ذمے لگا رکھا اور یوں کتاب ” سازی ” سے کتاب فروشی سب چلتی ہے – سو ناشر ہونے کی اس رعایت سے اپنی کتاب پر سارے ارمان نکالے – درآمدی کاغذ استعمال کیا ، شروع میں چوبیس صفحات آرٹ پیپر کے رنگین ۔۔۔یعنی کسی ارمان کو حسرت نہیں رہنے دیا ۔۔شروع کے انہی رنگین صفحات میں ایک صفحے پر یہی شعر درج کیا ۔۔۔..میں تو صاحب علم نہیں سو من چاہا ، خوب آزاد ، ترجمہ کیا ۔۔جی چاہ رہا ہے سو اپنی کتاب کے اس صفحے کی تصویر بھی ہدیہ قارئین کر رہا ہوں اس تصور کے ساتھ کہ :
مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے
ہاں ترجمہ بھی دیکھ لیجئے ۔۔۔۔۔۔
وحشی گھوڑے ہوں
یا سیاہ رات
(صحرا ہوں ) یا جنگل
نیزہ و شمشیر ہوں
یا قلم و قرطاس
سبھی مجھے جانتے ہیں
( کہ میں صاحب رزم و بزم ہوں )
آج جب ڈاکٹر صاحبہ کی کتاب پر یہی شعر اور اسی صورت و ترتیب سے دیکھا تو خوش گوار حیرت ہوئی اور اجنبیت جیسے ایک دم دور سی ہو گئی – یوں جیسے مرزا رسواء کی کوئی امراؤ جان مدتوں بعد بھولی بھٹکی اپنی گلی میں آ گئ ہو ۔۔۔
..کتاب فروشی کے پیشے کو آپ “علم فروشی ” بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ مجھے اس سبب ایک واقعہ یاد آ گیا ، شائد پچیس برس گزرے ایک بزرگ مکتبے میں داخل ہوئے اور پوچھا قران کریم ہے ؟ گو ہمارے مکتبے پر قران کریم بہت بہت کم ہوتے ہیں لیکن کچھ نہ کچھ رکھتے ہیں …وہ بزرگ اس استفسار کے بعد اور قران کی موجودگی کی “تسلی ” کر کے مجھ پر چڑھ دوڑے کہ :
” قران اللہ کی کتاب ہے ، اس کو بیچ کھا رہے ہو ، حیاء نہیں آتی ؟”
خیر حیاء کیا آنی تھی ، جب ساری امت مسلمہ ہی دین بیچ کھا رہی ہے ۔۔ لیکن اس روز معلوم ہوا کہ ہم کتاب فروش نہیں بلکہ “قران بیچ کھانے” والے ہیں …آپ بھی ہمیں “علم فروش ” کہہ سکتے ہیں –
شروع کیا تھا کتاب پر لکھنا اور اپنی کتھا لے کے بیٹھ گیا –
کل کتاب ” عرب اور موالی ” اٹھائی ، دیکھنا شروع کی اور پڑھتا چلا گیا – بہت عمدہ کتاب ہے – اہل علم کو ضرور اسے پڑھنا چاہئیے ، لیکن خرید کے ۔
سات ابواب پر مشتمل اس کتاب میں موضوع کے ساتھ ساتھ اس دور کی عرب تاریخ بھی سفر کرتی ہے ۔ ایام جاہلیت میں موالی کے حالات کے ضمن میں اس دور کے عربوں کی معاشرت بہت جامع انداز میں بیان کی گئی ہے ۔یوں جانیے کہ ایک کوزہ ہے اور جس دریا کے پار جانا تھا اسے اس کوزے میں بند کر دیا گیا ہے ۔۔۔اس طرح کی جامعیت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بہت سی معلومات جو دماغ کے کسی نہاں خانے میں ہوتی ہیں دوبارہ تازہ ہو جاتی ہیں ۔۔۔
ایام جاہلیت میں موالی کے بعد اگلے باب میں اسلامی معاشرے میں غلامی کے تصور اور ان کی حیثیت پر بحث کی گئی ہے ۔۔ کم از کم میری نظر میں یہ باب کتاب کی جان ہے ۔۔۔ اس باب کی تیسری فصل کہ جس میں عہد رسالت ﷺ میں ان غلاموں کی سماجی حیثیت بارے گفتگو کی گئی ہے وہ بہت اہم ہے ۔کہا جا سکتا ہے یہ اس دور نے ان غلاموں کی آئندہ کی حیثیت کا تعین کر دیا ۔اور یہ میں محض بطور مسلمان اسلامی معاشرے کی بات نہیں کر رہا بلکہ اس دور بابرکت نے ان غلاموں کو ہمیشہ کے لیے غلامی سے نکالنے کی ٹھوس بنیاد رکھ دی ۔۔۔
اسلام نے غلاموں کو جو عزت دے آج پسے ہوئے طبقات ، بھلے آج کے آزاد طبقات بھی ، اس کا تصور تک نہیں کر سکتے ۔۔۔
دیکھئے نا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ آپ کے معاشرے میں کوئی سالم ہو اور یوں معزز ہو جائے کہ سیدنا عمر جیسا جہاندیدہ بستر مرگ پر آرزو مند ہو اٹھے کہ کاش آج سالم زندہ ہوتے تو میں انہیں امیر بنا دیتا ؟؟
۔اور پھر سیدنا بلال کی تکریم کو کون نہیں جانتا کہ سرمحفل امیر المؤمنین سیدنا عمر انہیں سیدی کہہ کے مخاطب کرتے ۔۔۔۔یہی وہ انسانی تکریم کی ٹھوس بنیادیں تھیں جنہوں نے اس پسے ہوے مظلوم طبقے کو اپنے ہی آقاؤں کے برابر لا کھڑا کیا ۔۔ اور پھر عالم اسلام نے کتنے ہی غلاموں کو اپنا حکمران بنتے دیکھا ۔۔۔
کتاب کے چوتھے باب میں خلافت راشدہ کے عہد میں موالی کی حیثیت و حالات کا تذکرہ ہے ، جو ظاہر ہے دور نبوی ﷺ کا ہی تسلسل ہے ۔۔
باب پنجم موالی کی تاریخ کے حوالے سے خاصا دلچسپ ہے ۔ عنوان بھی خوب باندھا گیا ہے ” موالی ، معاشرے کا جارح عنصر ” ۔۔۔اس سے اندازہ ہوتا ہے پہلی صدی ہجری کے نصف میں ہی موالی اتنی طاقت پکڑ چکے تھے کہ اب وہ اک جارح عنصر کے طور پر خود کو پیش کر سکیں ۔۔۔اس باب میں تاریخ کے ایک دل چسپ اور متنازع کردار مختار ثقفی کا تفصیلی اور خاصا معلوماتی تذکرہ ہے ۔یہ عموما شیعان علی کی ہمدردی کے اور واقعہ کربلا کے انتقام کے حوالے سے معروف ہے لیکن کبھی اقتدار کی طلب میں مشکل دنوں میں سیدنا حسن کو بطور قیدی سیدنا معاویہ کے حوالے کرنے کا خواہش مند ره چکا تھا ۔۔۔۔بہرحال سیاست کی کچھ قدریں ازل سے ابد تک یکساں ہی رہتی ہیں ۔۔۔۔
اس جارحیت کے دور کے بعد موالی کا زوال اور حکومتی ردعمل کا تذکرہ ہے ۔۔
۔آخری باب بھی بہت اہم ہے جس میں ان موالی کی علمی خدمات کا تذکرہ ہے ۔۔۔لیکن وہ آپ کتاب خرید کے ہی پڑھیے گا ۔ ۔ کیونکہ موبائل پر لکھتے لکھتے میں تو تھک ہارا ۔۔۔۔