گذشتہ کئی ہفتوں سے کرونا وائرس کا خوف لوگوں اُن کے گھروں میں ہی نہیں بلکہ ان کو ذہنی اور نفسیاتی طور پر بھی اُن کی ذات میں قید کئے ہوئے ہے۔جو لوگ جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور ہیں وہ اس وائرس کے براہ راست نشانے پر ہیں ۔ ایک خبر کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں بچوں و عورتوں کے ساتھ زیادتی اور گھریلو تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ ایک طرف زیادہ تر مرد حضرات اپنی مالی حالت کی وجہ سے فکر مند ہیں تو دوسری جانب خواتین بھی مستقل گھروں میں اضافی ذمہ داریاں سنبھال کر تنگ آچکی ہیں۔اس وقت رشتوں میں احترام اور لحاظ کی کھینچا تانی اور مالی مسائل کی کشمش نے خاندان کے کمزور طبقے کو اس غصے اورنفسیاتی دباؤ سے نکلنے کا تختہ ء مشق بنا رکھا ہے ۔ اس ذہنی تناؤ اور فکر کے نتیجے میں انسانی معاشرے کی اکائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا شروع ہوگئی ہے۔ اس صورتحال کا سامنا اس وقت دنیا کے مختلف ممالک کو تقریباً یکساں طور پرہے۔
کروناوائرس سے متاثرین کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف ممالک میں شعبہ ہائے زندگی میں نقصان اور تباہی کا ذمہ دار بھی بن چکا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک سے لے کر ترقی پزیر اور غریب ممالک کسی معجزے یا کرشمے کے منتظر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کوشش میں بھی دن رات لگے ہوئے ہیں کہ اس وبا کو مذید پھیلنے سے کیسے روکا جائے اور وہ کیا تدابیر کی جائیں کہ انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی کو فعال رکھنے والے عوامل کو متاثر ہونے سے روکا جائے یا ختم کیا جائے۔ اس کرہ ارض کی تاریخ میں ان دیکھے دشمن کے خلاف یہ پہلی ایک ایسی عالمی جنگ ہےجس کے اثرات دنیا کی انتہا پسند سوچ اور غیر فطری لائحہ عمل کے نظام کو بریک لگانے کے لیے بھی جاری ہے۔ اس جنگ کے ایندھن میں انسانی صحت، تعلیم ، اقتصادیات، معیشت، ثقافت اور کسی حد تک اعتقاد و ایمان بھی جھونکے گئے ہیں اور یہ تمام شعبہ ہائے زندگی اس حد تک متاثر ہوئے ہیں کہ یہ کہنا ہر گز بے جا نہ ہوگا کہ اس وباء کے دنوں کے بعد ساری دنیا ایک نئے منظر نامے اور سوچ کے ساتھ اپنا حال و مستقبل سنوارنے پر مجبور ہوجائے گی۔ جہاں اس بحران نے دنیا بھر کے سیاستدانوں ، حکمرانوں ،دینی و مذہبی علماء ، اور ہر طبقہ فکر اور شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں کو جھنجھوڑا ہے وہیں کچھ کمزور اعصاب اہم عہدوں پہ فائز حکمرانوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جرمنی میں گذشتہ ہفتے ایک وزیر کی خود کشی اس عالمی وبائی بحران کا ایک ایسا دل خراش واقعہ ہے جس کا نقش یہاں کےعوام کے دلوں میں ثبت ہوگیا ہے اور جس کی وجہ سے جرمنی کی سیاسی فضا مذید سوگوار و فکر مند ہے۔
تھوماس شیفر جرمنی کی ریاست ہیسے کے وزیر مالیات تھے جنہوں نے گذشتہ دنوں جرمنی کے شہر فرینکفرٹ اور مائنز کے درمیانی علاقے ہوخ ہائیم میں تیز رفتار ریل گاڑیوں کی آمد و رفت کی پٹری پر لیٹ کر خود کشی کر لی۔
جرمن حکام کے ظاہر کردہ امکانی بیان کے مطابق ریاست ہیسے کے وزیر مالیات تھوماس شیفر نے کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے بحران کی وجہ سے اپنی جان لی ہے۔ اسی ریاست کے وزیر اعلی فولکر بوفیے کا کہنا ہے کہ شیفر اس بحران کی وجہ سے بہت زیادہ مایوس تھے اور پریشانی کا شکار تھے۔ ریاست کےوزیر اعلی فولکر بوفیے نے اتوار کے روز ایک ویڈیو کانفرنس میں کہا،” شیفر کورونا وائرس کے بحران کی وجہ سے بہت فکر مند تھے کہ آیا عوام کی ان بڑی توقعات پر پورا اترنا ممکن بھی ہو گا، خاص طور پر مالی مددکے حوالے سے۔‘‘ فولکر بوفیے کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے خیال میں شاید ان پریشانیوں نے تھوماس شیفر کو اتنا آن گھیرا کہ،”وہ اس مایوسی میں ہی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔‘‘
جرمن میڈیا کے مطابق چوون سالہ شیفر ان دنوں پابندی سے برقی ابلاغ عامہ میں کرونا وائرس سے متعلق معاشی بحران پر گفتگو کرتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ جن میں وہ علاقے کے عوام کو کورونا وائرس کے اس بحران کے دوران حکومت کی جانب سے متعارف کرائے جانے والے امدادی پیکج کی تفصیلات سے بھی آگاہ کر رہے تھے۔ تھوماس شیفر چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین تعلق رکھتے تھےاور وہ گزشتہ بیس اکیس سال سے ریاستی سطح پر کی جانے والی سیاست میں نمایاں طور پر متحرک تھے۔ ساتھ ہی وہ تقریباً دس سال سے صوبائی وزیر مالیات کے فرائض بہ احسن و خوبی نبھا رہے تھے۔
اس جرمن ریاست میں جرمنی کا اقتصادی مرکز فرینکفرٹ بھی واقع ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اگر وزیر اعلی فولکر بوفیے نے 2023ء کے ریاستی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا تو وہ ہیسے کے نئے وزیر اعلی ہو سکتے تھے۔ تھوماس شیفر نے پسماندگان میں اہلیہ اور دو بچوں کو چھوڑا ہے۔
تھوماس شیفر جیسے قابل وزیر کی خودکشی نے جرمنی میں عوام و سرکاری طبقے اس مشکل وقت میں ایک جانب فکر مند تو کر دیا ہے لیکن دوسری جانب حکومت اور سیاسی جماعتوں کو ذہنی طور پر مذیدمستحکم ہونے کی ترغیب بھی ملی ہے اور یہ احساس بیدار ہوا ہے کہ عوام اور سرکار اس وقت ایک دوسرے کا سہارا ہیں اور وہ متحدہ طور پر ایک دوسرے کی مدد کے لئے تیار ہیں ۔جہاں عوام اس وقت رضا کارانہ طور پر حکومت اور اداروں کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں وہیں حکومت نے بھی اس وقت عوام اور اداروں کو یہ یقین دلایا ہے کہ اس مشکل وقت میں حکومت عوام پر معاشی اورفکری بوجھ نہیں ڈالے گی بلکہ انہیں اس تردد سے باہر نکالنے کی کوشش کرئے گی۔ جرمن چانسلر انجیلا میر کل نے عوام سے خطاب میں درخواست کی ہے وہ صبر کا دامن کچھ ہفتے اور تھام کر رہیں حکومت اُن کی فی الحال مالی مشکلات ختم کرنے کے لیے متحرک ہوچکی ہے ۔ جرمن عوام کو حکومت کی جانب سے دئیے جانے والے ریلیف نے یقینی طور پر سماج میں پھیلی اس بے چینی کو کم کرنا شروع کردیا ہے اور لوگ مالی پریشانی کی فکر سے آزاد ہورہے ہیں جو کہ سماجی استحکام کے لیے نہایت اہم ہے۔
اس وقت دنیا کے اکثریت باشندوں کی طرح جرمن عوام بھی امید کر رہے ہیں کہ یہ عالمی وبائی بحران کچھ ہفتوں میں شاید دنیا کے قابو میں آجائے لیکن اس کے نتیجے میں جانے والی ہزاروں زندگیوں میں تھوماس شیفر کو شاید جرمنی کی تاریخ نہ بھلا جاسکے جس کی موت نے اس نازک دور میں جرمن حکام اور عوام کو ذہنی طور پر مستحکم رہنے کا سبق دیا ہے۔
حکومت اُن کی فی الحال مالی مشکلات ختم کرنے کے لیے متحرک ہوچکی ہے ۔ جرمن عوام کو حکومت کی جانب سے دئیے جانے والے ریلیف نے یقینی طور پر سماج میں پھیلی اس بے چینی کو کم کرنا شروع کردیا ہے اور لوگ مالی پریشانی کی فکر سے آزاد ہورہے ہیں جو کہ سماجی استحکام کے لیے نہایت اہم ہے۔
اس وقت دنیا کے اکثریت باشندوں کی طرح جرمن عوام بھی امید کر رہے ہیں کہ یہ عالمی وبائی بحران کچھ ہفتوں میں شاید دنیا کے قابو میں آجائے لیکن اس کے نتیجے میں جانے والی ہزاروں زندگیوں میں تھوماس شیفر کو شاید جرمنی کی تاریخ نہ بھلا جاسکے جس کی موت نے اس نازک دور میں جرمن حکام اور عوام کو ذہنی طور پر مستحکم رہنے کا سبق دیا ہے۔