Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
جناب نعمان یاور صوفی ملک کے ممتاز صحافی اور اہل قلم ہیں۔ وہ زندگی کو ایک مختلف انداز میں دیکھنے اور اس کی غیر روایتی تعبیر کرنے کے عادی ہیں۔ زمانہ طالب علمی میں طلبہ سیاست میں متحرک کردار ادا کیا، اس زمانے کی محبتیں اور نفرتیں شدید ہوتی ہیں، نعمان بھی اپنے مؤقف اور انداز فکر میں ہمیشہ پختہ رہے لیکن اس کے باوجود مختلف نظریات اور خیالات رکھنے والے دوستوں مکاتب فکر کے ساتھ ان کا مکالمہ اور تبادلہ خیال جاری رہتا ہے۔ طالب علمی کا دور مکمل ہوا تو صحافت کے شعبے میں آگئے۔ اپنی صلح کل طبیعت اور لوگوں کے دل میں گھر کرلینے کی خدا داد صلاحیت نے انھیں یہاں بھی کامیابیاں عطا کیں اور وہ لاہور پریس کلب جیسے انتہائی اہم اور شان دار قومی ادارے کے صدر منتخب ہو گئے۔ ان دنوں وہ ایک روحانی تجربے سے گزر رہے ہیں ، ان کی یہ تحریر نہ صرف ان کے اس تجربے کو ظاہر کرتی ہے بلکہ کورونا سے پیدا ہونے والے عالم گیر مسئلے سے نمٹنے کے لیے رہنمائی بھی فراہم کرتی ہے
********
پریشانی اور خوف میں کوئی یاد آتا ہے۔ اسے پوچھیں آخر سبب کیا ہے۔ جواب نہ ملے توں آنکھیں بند کرکے کسی ایسی ذات کو ذہن میں لائیں جو سب کچھ کرسکتی ہے۔ اس سے دریافت کریں ہم سے کہاں غلطی ہوئی۔ کیا ہم ٹھیک جارہے ہیں۔ اگر جواب مثبت آئے تو سمجھ لیں یہ مصیبت بھی ٹل جائے گی۔ نہیں تو آزمائش کے لیے تیار رہیں۔ کوئی بات نہیں ہم بہت نڈر ہیں خوفزدہ ہونے والے نہیں یہ مصیبت کوئی معنی نہیں رکھتی۔
ایک بات ہے ہم دوسروں کو معاف نہیں کرتے۔ شاید اس لئے کسی بھی خراب صورتحال میں پریشان ہوجاتے ہیں۔ کاش اس حکمت کو جان لیں اور مسئلے کو احسن طریقے سے حل کرلیں۔
ہمیں شاید دوسری حالت میں رہنے کا مزہ لگ گیا ہے۔ کچھ کنفیوژن کا بھی اپنا نشہ ہوتا ہے۔ کسی بحث کو منطقی انجام تک پہنچانا ہمارا مطمع نظر نہیں ہوتا یہی وجہ ہے لاحاصل گفت وشنید کچھ دیئے بغیر ختم ہوجاتی ہے۔
کرونا کہاں سے کیسے کس کی وجہ سے آیا اس پر دماغ استعمال کرنا ہے یا اس سے بچنے کی تدابیر اور احتیاط لوگوں تک پہنچانی ہے۔
ایک بار کسی کی مان کر دیکھ لیں۔ شاید ہم بچ بھی جائیں اور ایک بھی ہوجائیں۔
جناب نعمان یاور صوفی ملک کے ممتاز صحافی اور اہل قلم ہیں۔ وہ زندگی کو ایک مختلف انداز میں دیکھنے اور اس کی غیر روایتی تعبیر کرنے کے عادی ہیں۔ زمانہ طالب علمی میں طلبہ سیاست میں متحرک کردار ادا کیا، اس زمانے کی محبتیں اور نفرتیں شدید ہوتی ہیں، نعمان بھی اپنے مؤقف اور انداز فکر میں ہمیشہ پختہ رہے لیکن اس کے باوجود مختلف نظریات اور خیالات رکھنے والے دوستوں مکاتب فکر کے ساتھ ان کا مکالمہ اور تبادلہ خیال جاری رہتا ہے۔ طالب علمی کا دور مکمل ہوا تو صحافت کے شعبے میں آگئے۔ اپنی صلح کل طبیعت اور لوگوں کے دل میں گھر کرلینے کی خدا داد صلاحیت نے انھیں یہاں بھی کامیابیاں عطا کیں اور وہ لاہور پریس کلب جیسے انتہائی اہم اور شان دار قومی ادارے کے صدر منتخب ہو گئے۔ ان دنوں وہ ایک روحانی تجربے سے گزر رہے ہیں ، ان کی یہ تحریر نہ صرف ان کے اس تجربے کو ظاہر کرتی ہے بلکہ کورونا سے پیدا ہونے والے عالم گیر مسئلے سے نمٹنے کے لیے رہنمائی بھی فراہم کرتی ہے
********
پریشانی اور خوف میں کوئی یاد آتا ہے۔ اسے پوچھیں آخر سبب کیا ہے۔ جواب نہ ملے توں آنکھیں بند کرکے کسی ایسی ذات کو ذہن میں لائیں جو سب کچھ کرسکتی ہے۔ اس سے دریافت کریں ہم سے کہاں غلطی ہوئی۔ کیا ہم ٹھیک جارہے ہیں۔ اگر جواب مثبت آئے تو سمجھ لیں یہ مصیبت بھی ٹل جائے گی۔ نہیں تو آزمائش کے لیے تیار رہیں۔ کوئی بات نہیں ہم بہت نڈر ہیں خوفزدہ ہونے والے نہیں یہ مصیبت کوئی معنی نہیں رکھتی۔
ایک بات ہے ہم دوسروں کو معاف نہیں کرتے۔ شاید اس لئے کسی بھی خراب صورتحال میں پریشان ہوجاتے ہیں۔ کاش اس حکمت کو جان لیں اور مسئلے کو احسن طریقے سے حل کرلیں۔
ہمیں شاید دوسری حالت میں رہنے کا مزہ لگ گیا ہے۔ کچھ کنفیوژن کا بھی اپنا نشہ ہوتا ہے۔ کسی بحث کو منطقی انجام تک پہنچانا ہمارا مطمع نظر نہیں ہوتا یہی وجہ ہے لاحاصل گفت وشنید کچھ دیئے بغیر ختم ہوجاتی ہے۔
کرونا کہاں سے کیسے کس کی وجہ سے آیا اس پر دماغ استعمال کرنا ہے یا اس سے بچنے کی تدابیر اور احتیاط لوگوں تک پہنچانی ہے۔
ایک بار کسی کی مان کر دیکھ لیں۔ شاید ہم بچ بھی جائیں اور ایک بھی ہوجائیں۔
جناب نعمان یاور صوفی ملک کے ممتاز صحافی اور اہل قلم ہیں۔ وہ زندگی کو ایک مختلف انداز میں دیکھنے اور اس کی غیر روایتی تعبیر کرنے کے عادی ہیں۔ زمانہ طالب علمی میں طلبہ سیاست میں متحرک کردار ادا کیا، اس زمانے کی محبتیں اور نفرتیں شدید ہوتی ہیں، نعمان بھی اپنے مؤقف اور انداز فکر میں ہمیشہ پختہ رہے لیکن اس کے باوجود مختلف نظریات اور خیالات رکھنے والے دوستوں مکاتب فکر کے ساتھ ان کا مکالمہ اور تبادلہ خیال جاری رہتا ہے۔ طالب علمی کا دور مکمل ہوا تو صحافت کے شعبے میں آگئے۔ اپنی صلح کل طبیعت اور لوگوں کے دل میں گھر کرلینے کی خدا داد صلاحیت نے انھیں یہاں بھی کامیابیاں عطا کیں اور وہ لاہور پریس کلب جیسے انتہائی اہم اور شان دار قومی ادارے کے صدر منتخب ہو گئے۔ ان دنوں وہ ایک روحانی تجربے سے گزر رہے ہیں ، ان کی یہ تحریر نہ صرف ان کے اس تجربے کو ظاہر کرتی ہے بلکہ کورونا سے پیدا ہونے والے عالم گیر مسئلے سے نمٹنے کے لیے رہنمائی بھی فراہم کرتی ہے
********
پریشانی اور خوف میں کوئی یاد آتا ہے۔ اسے پوچھیں آخر سبب کیا ہے۔ جواب نہ ملے توں آنکھیں بند کرکے کسی ایسی ذات کو ذہن میں لائیں جو سب کچھ کرسکتی ہے۔ اس سے دریافت کریں ہم سے کہاں غلطی ہوئی۔ کیا ہم ٹھیک جارہے ہیں۔ اگر جواب مثبت آئے تو سمجھ لیں یہ مصیبت بھی ٹل جائے گی۔ نہیں تو آزمائش کے لیے تیار رہیں۔ کوئی بات نہیں ہم بہت نڈر ہیں خوفزدہ ہونے والے نہیں یہ مصیبت کوئی معنی نہیں رکھتی۔
ایک بات ہے ہم دوسروں کو معاف نہیں کرتے۔ شاید اس لئے کسی بھی خراب صورتحال میں پریشان ہوجاتے ہیں۔ کاش اس حکمت کو جان لیں اور مسئلے کو احسن طریقے سے حل کرلیں۔
ہمیں شاید دوسری حالت میں رہنے کا مزہ لگ گیا ہے۔ کچھ کنفیوژن کا بھی اپنا نشہ ہوتا ہے۔ کسی بحث کو منطقی انجام تک پہنچانا ہمارا مطمع نظر نہیں ہوتا یہی وجہ ہے لاحاصل گفت وشنید کچھ دیئے بغیر ختم ہوجاتی ہے۔
کرونا کہاں سے کیسے کس کی وجہ سے آیا اس پر دماغ استعمال کرنا ہے یا اس سے بچنے کی تدابیر اور احتیاط لوگوں تک پہنچانی ہے۔
ایک بار کسی کی مان کر دیکھ لیں۔ شاید ہم بچ بھی جائیں اور ایک بھی ہوجائیں۔
جناب نعمان یاور صوفی ملک کے ممتاز صحافی اور اہل قلم ہیں۔ وہ زندگی کو ایک مختلف انداز میں دیکھنے اور اس کی غیر روایتی تعبیر کرنے کے عادی ہیں۔ زمانہ طالب علمی میں طلبہ سیاست میں متحرک کردار ادا کیا، اس زمانے کی محبتیں اور نفرتیں شدید ہوتی ہیں، نعمان بھی اپنے مؤقف اور انداز فکر میں ہمیشہ پختہ رہے لیکن اس کے باوجود مختلف نظریات اور خیالات رکھنے والے دوستوں مکاتب فکر کے ساتھ ان کا مکالمہ اور تبادلہ خیال جاری رہتا ہے۔ طالب علمی کا دور مکمل ہوا تو صحافت کے شعبے میں آگئے۔ اپنی صلح کل طبیعت اور لوگوں کے دل میں گھر کرلینے کی خدا داد صلاحیت نے انھیں یہاں بھی کامیابیاں عطا کیں اور وہ لاہور پریس کلب جیسے انتہائی اہم اور شان دار قومی ادارے کے صدر منتخب ہو گئے۔ ان دنوں وہ ایک روحانی تجربے سے گزر رہے ہیں ، ان کی یہ تحریر نہ صرف ان کے اس تجربے کو ظاہر کرتی ہے بلکہ کورونا سے پیدا ہونے والے عالم گیر مسئلے سے نمٹنے کے لیے رہنمائی بھی فراہم کرتی ہے
********
پریشانی اور خوف میں کوئی یاد آتا ہے۔ اسے پوچھیں آخر سبب کیا ہے۔ جواب نہ ملے توں آنکھیں بند کرکے کسی ایسی ذات کو ذہن میں لائیں جو سب کچھ کرسکتی ہے۔ اس سے دریافت کریں ہم سے کہاں غلطی ہوئی۔ کیا ہم ٹھیک جارہے ہیں۔ اگر جواب مثبت آئے تو سمجھ لیں یہ مصیبت بھی ٹل جائے گی۔ نہیں تو آزمائش کے لیے تیار رہیں۔ کوئی بات نہیں ہم بہت نڈر ہیں خوفزدہ ہونے والے نہیں یہ مصیبت کوئی معنی نہیں رکھتی۔
ایک بات ہے ہم دوسروں کو معاف نہیں کرتے۔ شاید اس لئے کسی بھی خراب صورتحال میں پریشان ہوجاتے ہیں۔ کاش اس حکمت کو جان لیں اور مسئلے کو احسن طریقے سے حل کرلیں۔
ہمیں شاید دوسری حالت میں رہنے کا مزہ لگ گیا ہے۔ کچھ کنفیوژن کا بھی اپنا نشہ ہوتا ہے۔ کسی بحث کو منطقی انجام تک پہنچانا ہمارا مطمع نظر نہیں ہوتا یہی وجہ ہے لاحاصل گفت وشنید کچھ دیئے بغیر ختم ہوجاتی ہے۔
کرونا کہاں سے کیسے کس کی وجہ سے آیا اس پر دماغ استعمال کرنا ہے یا اس سے بچنے کی تدابیر اور احتیاط لوگوں تک پہنچانی ہے۔
ایک بار کسی کی مان کر دیکھ لیں۔ شاید ہم بچ بھی جائیں اور ایک بھی ہوجائیں۔