نوول وائرس ایک نیا وائرس ہے جو سب سے پہلے چین کے شہر ووہان میں نمودار ہوا۔ بہت سارے لوگ تو یہ نہیں جانتے ہونگے کہ وائرس کو کرونا وائرس کیوں کہا جا رہا ہے۔ وائرس کرونا نام سے اس لیے مشہور ہوا کیونکہ اٹلی کے ایک گاوں کا نام ہے کرونا۔ اس وائرس کے بارے میں مختلف رائے قائم کی گئی ہیں کہ یہ کس طرح آیا‘ کیا ہے اور کیسے کسی میں آتا ہے۔ البتہ زیادہ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ وائرس جانوروں سے انسانوں تک پہنچا۔ اور اب انسانوں سے انسانوں میں منتقل ہو رہا ہے۔
اس کی علامات جو بتائی جاتی ہیں اُس میں بخار‘ کھانسی اور سانس لینے میں دشواری وغیرہ شامل ہے۔ اس وائرس نے تقریبا ہر ملک کو اپنی لپٹ میں لے لیا ہے۔ ہر طرف خوف پھیلا ہوا ہے۔ درپیش مسلۂ یہ ہے کہ اس کی کوئی ویکسین بھی ابھی تک تیار نہیں کی جا سکی۔ بہرحال کچھ احتیاطی تدابیریں بتائی گئیں ہیں جس میں کھانستے وقت منہ کوڈھانپیں‘ اپنا الگ تولیہ استعمال کریں‘ ماسک پہنیں‘ ہاتھوں کو صابن سے اچھی طرح دھوئیں اور ہجوم سے دور رہیں۔ کہا جاتا یہ وائرس نیا نہیں بلکہ اپنی الگ ہیئت میں پہلے بھی کئی بار حملہ کر چکا ہے۔ اب تک نا جانے کتنے لوگ پوری دنیا میں اس سے متاثر ہوئے ہیں اورکتنے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ابھی تعداد کچھ ہے لیکن‘ جب آپ میرا یہ کالم پڑھ رہیں ہوں گے تب تعداد مختلف ہوگی۔
کیا یہ ایک قدرتی وبا ہے یا پھر کوئی کیمیائی جنگ؟ کہا جا رہا ہے کہ یہ ایک کیمیائی جنگ ہے جو امریکہ کی اپنے دشمنوں کیساتھ ہے۔ اس وقت سب ملک اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح اس کی ویکسین تیار کر کے تاریخ رقم کر لی جائے۔ دیکھتے ہیں کون ہوتا کامیاب۔ اس بارویکسین تیار کرنے والوں میں پاکستان کا نام بھی سرِفہرست ہے۔ نیوز میں اب تک یہ خبر بھی آگئی ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے سائنسدانوں کا ڈاکٹر ادریس کی سربراہی میں کرونا کی تشخیصی کِٹ تیار کرلی گئی جس کی مالیت صرف پانچ ڈالر ہے۔ اس کِٹ سے پتا چل جائے گا کہ کوئی کرونا سے متاثر ہے یا نہیں۔ کیا یہ کِٹ اپنا کام دکھا پائے گی؟ کیا یہ کِٹ صیح تشخیص کر پائے گی؟۔ دوسری جانب چین کی اکیڈمی آف ملٹری میڈیکل سائنسز کا کرونا کی ویکسین تیار کرنے کا دعوی۔
اگر پاکستان کرونا وائرس ویکسین تیار کرنے میں کامیاب ہو گیا تو کیا یہ اندرونِ ملک اور بیرونِ ممالک میں پوری کی جا سکے گی؟ کیا امریکہ اور اسرائیل اس کو خریدے گا؟ کیا وہ پاکستان کو تاریخ رقم کرنے دے گا؟
ایک امریکی خاتون لکھاری ”سیلویا براوٗنی“ جو خود کو نفسیاتی ماہر مانتی ہے‘ نے تقریبا چالیس کتابیں لکھیں ہیں۔ اس خاتون نے ایک کتاب لکھی‘ جسکا نام ہے ”اینڈ آف دی ڈیز“ جو کہ پیش گوئیوں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں 2020ء میں ہونے والی وبا کا ذکر ملتا ہے۔ نمونیا جیسی وبا کا ذکر ملتا ہے لیکن ایک بات اور جو درج ہے وہ یہ ہے کہ یہ خود آئے گئی اور خود جائے گی۔ اس پر کوئی دوائی اثر نہیں کرے گی۔
لیکن اگر دوائی نا بنا پائے تو کیا ہو گا؟ اور دوائی بنانے میں ہمیں دیر ہوگئی تو؟
اسی طرح2011 ء کی تھرلر فلم ”کونٹیجن“ کو اچانک شہرت ملنے کی وجہ”کرونا“بتایا گیا۔ اس سے بھی پہلے کی بات کروں تو 1983 ء میں ڈین کوٹز کی کتاب ”دی ائیر آف ڈارکنیس“ میں بھی دنیا میں وبا پھیلنے کو پیش گوئی کی گئی تھی۔ (روزنامہ ایکسپریس لاہور‘ ص 14)۔
اس وقت پوری دنیا کرونا سے متاثر ہے۔ اگر ہم ویکسین نا بنا سکے تو؟ یا ہم نے ویکسین بناے میں دیر کر دی تو ہمیں کتنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا؟ اگر ویکسین کوئی اور ملک بنا لیتا ہے لیکن پاکستان کو مہیا کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا تب کیا ہو گا؟
اس وقت ہمیں حکومت کیساتھ کھڑا ہونا چاہیے‘ حکومت کی طرف سے جو کہا جا رہا ہے اس پر عمل پیرا ہو کر ایک اچھا پاکستانی ہونے کا ثبوت دینے کا وقت ہے۔ اللہ عزوجل کے خضور دعا کریں کہ جلد پوری دنیا سے اس وبا کا ہمیشہ کیلیے خاتمہ ہو۔ اللہ میرا اور آپکا خامی ہو۔ ہم کو کرونا سے محفوظ رکھے۔