مرزا غالب کا کھلا خط کرونا وائرس کی صورت حال پر
!سنو میرن
اب کہ یہ کیا ماجرا ہوا کہ عوام کے منہ پر ہوائیاں اڑی جاویں ہیں ۔پہلے طاعون کے ہاتھوں بستیاں اجڑتے دیکھیں اب یہ دیکھو کیا عجب نام ہے، ہاں، کرونا وائرس۔ اس مرض سے تو پناہ بخدا دیس کے دیس ویران ہوئے جاویں ہیں ۔
میرن ! خدا لگتی کہتا ہوں، مجھے اس عارضے کی ذرا سمجھ نہ آوے ہے ۔ تمہیں کہو بلی ، کتے ، سؤر ، سانپ اور گدھے تو دیار چین والے کھاویں اور ہاتھ ہم رگڑ رگڑ کے دھوویں ۔۔۔یہ ناٹک ہماری سمجھ سے بالاتر جاوے ہے ۔
اور کہو ! سنا ہے تمام دیار کی سرکاروں نے یہ فرمان جاری فرمایا ہے کہ شہر پناہ کے تمام در بند کر دیے جاویں کہ نہ کوئی اندر آوے اور نہ باہر جاوے ۔۔۔۔تمہیں کہو یہ چھوت چھات کا عارضہ اس قدر بڑھ جاوے گا کچھ گماں نہ تھا۔
طبیبوں کا فرمان ہوا ہے کہ منہ پر غلاف ہر ساعت جما رہے ۔ اور شاہی فرمان بھی جاری ہوا ہے کہ چہار بندہ اگر ایک جگہ پر ایستادہ ہووے تو قانون کی گرفت میں آوے ۔
خدا لگتی کہوں تو غلاف پورے شہر میں ندارد ۔ مستزاد کہ آلہ تشخیص کرونا پورے دیار میں نا پید ہے ۔
عوام چہ می گوئیاں کریں ہیں کہ یہ فساد و شوخی سات سمندر پار والے دیار کے شاہ کا (کہ اس کا ہر فعل ابلیس کا سا ہے ) برپا کیا ہوا ہے ۔
دلی کا جو حال ہے کیا کہوں خانم کے چاکیواڑے تک سب کا سب کوچہ ویران پڑا ہے ۔ بازار سائیں سائیں کرے ہے جو کوئی دکان کھولے ہے روبکار دخل دیوے ہے ۔ میرن اس جنم بچ جاویں تو اگلے جنم کی کیا سوچیں ہیں ۔
سہ شنبہ
نجات کا طالب غالب
کوچہ بَلی ماران ، دلی