ADVERTISEMENT
میں دسویں جماعت میں تھا ،فزکس کا ٹیسٹ ہو رہا تھا، یکدم زمین کانپ اٹھی، سارے ہم جماعت ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے، ساتھ ہی چیخیں بلند ہوئیں، کوئی کلمے پڑھنے لگا،کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کیا جائے، ایک منٹ نے ہمارے لیئے دنیا بدل کہ رکھ دی، سامنے کلاسوں سے باہر بھاگ کر آنے والے بچوں پر دیوار گر پڑی، اور کچھ بچے دیوار کے نیچے آگئے، برے وقت میں انسان سوچتا ہے کہ کاش خواب ہو لیکن خواب نہیں تھا،یہ اکتوبر 2005 کا زلزلہ تھا ـ گری ہوئی دیوار سے اندر دیکھا چھوٹے بچوں کی استانی (میڈم سمیه) بچوں کو باہر نکال رہیں تھیں اور خود بالکل دیوار کے پاس سب سے پیچھے کھڑی، ایک بچہ زخمی هو گیاـ گھر آنے پر پتہ چلا ہمارا گھر بھی گر چکا تھا ـ فطری بات ہے کہ انسان ایسے حالات میں اپنے ارگرد سے باخبر رہنا چاہتا ہے ـ جب میڈیا کو دیکھنا شروع کیا تو وہ ٹی پر دکھائی جانے والی خبروں میں ملبے سے نکلنے والی لاشیں، ان کی تعداد،آفٹر شاکس کا خوف اور زلزلے سے ہونے والی تباہ کاریوں اور لوگوں کی آپ بیتیوں کو اس انداز میں بیان کر رہے تھے کہ جیسے آدھا ملک تباہ ہو گیا ہے اور باقی آ فٹر شاکس سے تباہ ہوجائے گاـ خبریں دیکھنے کے بعد ذہن میں خوف بیٹھ گیا – مجھے وہ راتیں اچھی طرح یاد ہیں جب میں پوری رات جاگتا اور دن کو ایسی جگہ سوتا جہاں کھلی فضاء ہوتی اور نزدیک دیوار یا چھت نہ ہوتی، لیکن پھر بھی نیند نہ آتی، وجہ افٹر شاکس کا خوف اور ان لوگوں کی باتیں ہوتیں جو زلزلے کی وجہ سے بے گھر ہوئے تھے یا اپنے پیاروں کو کھو بیٹھے تھے ـ اس خوف میرا پیچھا اس وقت چھوڑا جب میں ماموں کے گاؤں چلا گیا اور کچھ عرصے تک میڈیا سے دور رہا ـ لیکن ساری زندگی اس بات کا دکھ رہے گا کہ میں نے اپنی کلاس میں پوزیشن لی تھی اور اس تقریب میں شرکت نہ کر سکاـ میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے ـ اس بات کو ساری دنیا تسلیم کر رہی ہے کہ اب جنگیں فوجوں اور اسلحے سے کم اور میڈیا سے زیادہ لڑی جا رہی ہیں ـ ترقی یافتہ ممالک کے میڈیا کی مثال ہمارے سامنے ہےـ وہاں میڈیا اپنی حکومتوں پر مثبت تنقید کرتا ہے، غلطیوں کی نشاندہی کرتا ہے اور حکومت اور عوام بھی اس کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن اگر ملکی مفاد پنہاں ہو تو وہاں بڑی غلطیوں پہ پردہ ڈال دیتا ہے ـ جیسا عراق اور افغانستان کی جنگوں میں نیٹو افواج کے ہاتھوں فاسفورس ڈرون او ڈیزی کٹر بموں سے جلنے والوں انسانوں کی اموات کو نظر انداز کرکے مغربی میڈیا اپنے ممالک کے جرائم پر پردہ ڈالتا ہے لیکن اس تنظیم نیٹو کے رکن ملک آسٹریلیا کے جلتے جنگلات میں پھنسے جانوروں کے ساتھ مقامی لوگوں کی ہمدردی اور امدادی کاروائیوں والی تصویریں اور ویڈیوز دکھا کر انہیں مہذب انسان کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ـ اور تعجب یہ ہے کہ لوگ ان کی بات کو مان بھی لیتے ہیں ـ لیکن پاکستانی کا میڈیا بھی عجیب ہےـ یہاں حکومتی سنسر شپ کا تو گلہ کیا جاتا ہے لیکن بڑے معاشی اداروں کے جرائم کی پردہ پوشی کرکے خود ساختہ سنسر شپ کا کوئی ذکر نہیں کرتاـ ابھی تک میڈیا اپنے “ڈو” اور ڈو ناٹ” کے حدود و قیود کا تعین نہیں کرسکاـ ایک خبر کو اگر ایک میڈیا گروپ نقصان دہ سمجھ کر نظر انداز کر دیتا ہے وہی خبر بهرپور طریقے سے دوسرا چینل نشر کرتا ہےـ سرخی لگتی ہے ” صدر وفات پا گئے” لنک کھولنے پر پتہ چلتا ہے کہ تاجروں کی کسی تنظیم کے صدر کو دل کا دوره پڑا ہے اور وفات پا گیا ہے دوسری سرخی ” طیاره گر گیا ہلاکتوں کا خدشہ” جب حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ برازیل میں تربیتی طیاره گرا ہوتا ہے اور پائلٹ کے بچنے یا مرنے کے متعلق متضاد خبریں ہوتی ہیں ـ سوشل میڈیا چاہے جتنا بھی قوی ہو جائے لوگ یقین الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا پر کرتے ہیں ـ اور ان سب ٹی وی چینلز او اخباروں کے سوشل میڈیا پر اکاؤنٹ بنے ہوتے ہیں ـ لوگ ٹی وی کے سامنے بیٹھنے یا اخبار خریدنے کے بجائے انہیں اکاؤنٹس کے ذریعے اپنے آپ کو باخبر رکھتے ہیں ـ ابھی کرونا کی وبا پھوٹتے ہی خبریں اس انداز میں بیان کی رہی ہیں کہ لوگ احتیاط او اس بیماری کا مقابلہ کرنے کے بجائے خود کو کرونا کا اگلا ممکنہ مریض سمجھ رہے ہیں ـ قدرتی آفات، او وبائیں کوئی نئی بات نہیں، لوگ ایسے حالات کا مقابلہ کرکے اس صورتحال سے نکل آتے ہیں ـ اگر آج کوئی تنقیدی نظر سے میڈیا کی خبروں کو مانیٹر کرے تو کرونا وائرس سے مرنے والے مریض کی خبر کو اتنے سنسنی خیز انداز میں پیش کیا جاتا ہے جیسا ہم زمانہ قدیم میں رہ رہے ہوں اور پہیہ ایجاد ہوا ہوـ لوگ بھی ایسی خبروں کے متمنی ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو سنبھالنے کے بجائے ذہنی مریض بن جاتے ہیں ـ کاش میڈیا کرونا وائرس کی وباء کے دوران ریٹنگ کے چکر سے نکل آئے سنسنی پھیلانے کے بجائے مثبت کردار ادا کرے ـ لوگوں کو ڈرانے کے بجائے انہیں حوصلہ دے ،انہیں مرنے والوں کی خبریں دینے کہ ساتھ ساتھ یہ بھی بتائے کہ اس مرض میں مبتلا لوگوں میں صحت یاب ہونے والوں کی تعداد مرنے والوں سے کہیں زیاده ہے(سکائے نیوز کے مطابق 79000 صحت یاب ہوئے ہیں جبکہ 7000 مرے ہیں)، لوگوں کو احتیاطی تدابیر او دستیاب وسائل سے فائده اٹھانے کے طریقے بتائے اور انہیں مشکل حالات میں ایک ذہنی طور پر ایک مضبوط انسان بنائے، تاکہ لوگوں کے میڈیا سے جو گلے شکوے ہیں وہ اگر ختم نہ ہوں تو کم ضرور ہو جائیں ـ