دھوپ چھاؤں میں ڈھل چکی ہے
گئے دنوں کی رفاقتوں کا ہے بوجھ سر پر
مگر میں اب تک تھکا نہیں ہوں
میں چل رہا ہوں
اندھیری راہیں ہیں میرے آگے
میرے عقب میں
سلگتے قدموں کی روشنی تھی
ہزارآنکھیں تھیں
زرد لمحوں کی کہکشاں تھی
میں چل رہا ہوں
نئے تناسب کے عکس میرے شعور میں ہیں
شعور سورج ہے زندگی کا …جو زینہ زینہ اتر رہا ہے
کرن کرن میں ہزار زینے، ہر ایک زینہ سفر میں شاید
نیا قدم ہے
میں چل رہا ہوں
وہ بانجھ آنکھیں
کہ جن میں میری رفاقتوں کے کھنڈر چھپے تھے
وہ سرخ مٹی کہ جس میں اشکوں کی سرد شبنم چمک رہی تھی
اداس فصلوں کے زرد چہرے
شناختوں کے نئے فسانے سنا رہے تھے
میں چل رہا ہوں
کہ جب رفاقت کی دھوپ چھائوں میں ڈھل چکی ہے
کہ ناتواں جسم ریزہ ریزہ ہوا کی بارش سے مر چکے ہیں
کہ جب سفر کی کھلی جبیں پر دکھوں کے نوحے لکھے ہوئے تھے
میں چل رہا ہوں
میں نیست کی اک چٹان پر رک گیا تھا شاید
کسی *نے مجھ سے طواف ہستی میں یہ کہا تھا
کہ حجرا سود کا نور دل کی سیاہیوں کا نیا افق ہے
مگر یہ پتھر کہ
جس پہ بوسوں کی بارشیں ہیں
حقیقتوں کی تمازتیں ہیں
لرزتے ہاتھوں کا لمس ہونٹوں کی خوشبوئیں ہیں
یہ زندگی بھی تو اِک حجر ہے …
میں جس کے آگے کھڑا ہوا ہوں
میں چل رہا ہوں
میرے قدم لڑکھڑا رہے ہیں
مرا جواں جسم بوڑھی صدیوں میں جی رہا ہے
میں بانجھ آنکھوں سے بے خبر تھا مگر یہاں تو
گداز ندی چھپی ہوئی ہے
جواز مجھ کو اُداس لمحوں کا مل گیا ہے
تمازتوں میں جو برف کی تہہ جمی ہوئی تھی
وہ آرزوئوں کا اک کفن تھی
کفن میری آرزونہیں ہے
میں آرزوئوں کا ترجمان ہوں
میں زندگی کی تمازتوں پر رواں دواں ہوں
میں چل رہا ہوں
مگر میں اب تک تھکا نہیں ہوں