Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25


ن والقلم وما یسطرون (القلم) خالق کائنات نے اپنی آخری آسمانی کتاب قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ قسم ہے قلم کی اور اس کی جو وہ لکھتے ہیں، گویا یہ کلام الٰہی قلم اور کتابت کی عظمت کا آئینہ دار ہے۔ فن خطاطی کو تہذیب و تاریخ اسلامی میں اہم مقام حاصل ہے۔ یہ فن تقریبا 14 صدیوں کی شاندار روایات کا امین ہے۔
حدیث مبارکہ ہے کہ رسول اﷲؐ نے ارشاد فرمایا کہ بسم اﷲ کی خطاطی (ایمان و یقین کے ساتھ) کرنے والا جنت میں جائے گا۔ حضور نبی کریمؐ نے غزوہ بدر کے جنگی قیدیوں کی رہائی اس شرط پر رکھی کہ وہ دس دس مسلمانوں کو خطاطی سکھائیں تو انہیں رہا کردیاجائے گا۔
حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ کا معروف قول ہے ”الخًط ہندسۃ الروحانیۃ” خطاطی روحانیت کی جیومیٹری ہے ۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں ”الخط مفاتیح الرزق” خطاطی رزق کی چابی ہے۔
ہر دور میں فن خطاطی اپنے ارتقائی مراحل سے گزرتا رہا ہے۔ قرآن پاک بیت المقدس ، خانہ کعبہ، مسجد نبوی اور اسلامی مراکز کی تزئین و آرائش فن خطاطی سے ہوتی رہی ہے۔ عالم اسلام کی طرح فن خطاطی کی عظیم روایت برصغیر پاک و ہند میں بھی بڑی مستحکم رہی ہی۔ یہاں کے مسلم خطاطین نے نت نئے نوادر سے اس فن کو جلا بخشی۔ ایسی ہی ایک مثال پاکستان کے نامور خطاط و آرٹسٹ نثار احمد کی ہے۔ نثار احمد فیصل آباد کے محلہ منصور آباد میں 1964ء میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم فیصل آباد اور کراچی میں حاصل کی۔ زمانہ طالب علمی سے ہی فنون لطیفہ سے گہراؤ لگاؤ تھا۔اسکول میں ہر ماہ تعلیمی سرگرمیوں پر روشنی ڈالنے کے لئے ایک اخبار اسکول میں نمایاں جگہ پر آویزاں کیا جاتا جس کی تحریر خوشخط لکھنے والے طالب علموں سے کروائی جاتی۔ وہ اس اخبار کو بڑے شوق سے پڑھتے اور خوشخطی سے کافی متاثر ہوتے۔ اسکول میں جب فنون لطیفہ پر مقابلوں کا اعلان ہوا تو نثار احمد نے حسن قرأت ، نعت خوانی اور خوشخطی میں حصہ لیا اور خوشخطی مین اول آنے پر میئر کراچی سے ایوارڈ حاصل کیا۔
اسلامی فنون لطیفہ کے قدیم عظیم رکن خطاطی سے بے لگاؤ نے انہیں پاکستان کے بین الاقوامی شہرت و ایوارڈ یافتہ خطاط محترم استاد حافظ انجم محمود علیہ الرحمہ تک پہنچا دیا۔
فیصل آباد آرٹ کونسل کے ہردلعزیز ریزیڈنٹ ڈائریکٹر محترم چوہدری آصف پرویز صاحب نے ایک ملاقات میں استاد محترم کا سیل نمبر دیا اور یوں انہیں رابطہ کے بعد ملنے ان کے دفتر پہنچ گئے۔ نثار احمد ان کی شفیق و رئیس شخصیت سے بہت متاثر ہوئے اور جب ان کے فن پاروں پر نظر پڑی تو دل خوشی سے جھوم اٹھا۔ استاد محترم نے ملنے کی وجہ پوچھی تو نثار حمد نے خطاطی سے لگاؤ کے بارے میں عرض کیا۔ وہ اس وقت مصورانہ خطاطی میں کام کررہے تھے۔ خطاطی کے بارے میں لگاؤ پر استاد محترم نے خوشی کا اظہار کیا اور بتایا کہ بہت جلد ایک نمائش کا اہتمام کررہے ہیں۔ آپ اپنا کام دکھائیں۔ اگر نمائش کے قابل ہوا تو آپ کو اس میں شامل کیا جائے گا۔ چند دنوں بعد وہ اپنا کام لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے کام بہت پسند کیا اور ان کو پہلی بار نمائش میں پیش کرنے کا موقع ملا۔ اس نمائش میں ان کے کام کو بہت پسند کیا گیا جس کے بعد استاد محترم سے گزارش کی گئی کہ آپ ان کی سرپرستی فرمائیں ۔ جس پر کہا گیا کہ یہ بڑا مشکل کام ہے۔ آپ کو اجازت ہے۔ آپ میرے کام کو اپنے انداز میں پیش کرسکتے ہیں اور کچھ عطا کرتے ہوئے کہا کہ اس کی فوٹو کاپی کروالیں۔
وہ فورا پریس مارکیٹ سے ان کے کام کی فوٹو کاپیاں کروالائے اور اس پر مشق بھی شروع کردی۔ جس پر استاد محترم نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ آئندہ قلم، دوات اور پیپر کے ساتھ آئیں ، ان کی یہ بہت بڑی خوش بختی کہ انہیں باقاعدہ محترم حافظ انجم محمود جیسی عالمی شخصیت کی شاگردی کا اعزاز حاصل ہوا اور یوں نستعلیق میں مشق کا آغاز کیا۔ پھر کوفی، نسخ، رقاع، دیوانی ، جلی دیوانی بھی اس میں شامل ہوئے۔ استاد محترم نے چند ہی سالوں میں فن سے ایسا آراستہ کیا کہ ہر بڑی نمائش میں ہر خاص و عام نے ان کے فن کو بے حد سراہا۔ 2007ء میں ترکی میں ارمیکا کے زیر اہتمام ہونےو الے بین الاقوامی مقابلہ میں اپنے کام کے ساتھ ان کا کام بھی بھیجا۔ ترکی نے ان کا کام مقابلہ میں شامل کرتے ہوئے مبارکباد کا خط بھیجا جس پر استاد محترم بے حد خوش ہوئے۔
وہ ہر قومی و بین الاقوامی پروگرام میں ہمیشہ ان کی ساتھ رہے اور پھر چند ہی سالوں میں 18 بین الاقوامی مقابلوں اور نمائش میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز حاصل کیا جبکہ 40 مرتبہ قومی نمائشوں کا حصہ بنے اور کئی اعزاز اپنے نام کئے۔ استاد داؤد بکتاش سے فن پارہ پر داد عطا ہوئی جو بہت بڑا ایوارڈ ہے۔ سینئر آرٹسٹ ایوارڈ سمیت حکومت پاکستان نے بین
الاقوامی اور قومی سطح پر فروغ فن خطاطی کی خدمات پر قوممی ایوارڈ سے نوازا۔ جبکہ انگلینڈ کے ایک بڑے اخبار نے 2010ء میں فن پر اسٹوری بھی پرنٹ کی۔ نیویارک ٹائم سمیت ملکی اور عالمی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے کئی بار خبروں کی زینت بنایا۔ آسٹریلیا، ترکی، سعودی عرب، کویت، دبئی، اٹلی (روم میوزیم) کینیڈا (پارلیمنٹ)، لبان (بیروت) مراکو میں ان کے کام کو بہت پسند کیا گیا۔ جبکہ نجی اور قومی سطح پر کئی مرتبہ جیوری ممبر کے فرائض بھی انجام دیئے۔
نثار احمد کو اس فن میں ان کے دوسرے دادا استاد محترم استاد شفیق الزمان خان خطاط مسجد نبوی شریف کی بے پناہ محبت، شفقت اور پیار اور سب سے بڑھ کر ان کی سرپرستی بھی حاصل رہی۔
اسلامی تاریخ میں اسلامی طرز تعمیر، نقش و نگاری اور خطاطی کو بڑا عمل دخل ہے۔ 2007ء کی قومی نمائش خطاطی میں ماڈل گنبد خصراء کو خطاطی کے ساتھ نمائش کے لئے پیش کیا گیا جسے دیکھنے والوں نے خوب پسند کیا اور دل کھول کر داد سے نوازا۔
ان کی فنکارانہ صلاحیتوں کے پیش نظر رائلپور یوزیم فیصل آباد اور لائلپور ہیری ٹیج فاؤنڈیشن میں بطور کرپٹیو آرٹسٹ کام کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران چناب کلب فیصل آباد کے پچیس سے زائد کمروں کو فن سے آراستہ کیا۔ جبکہ فن پارے لائل پور میوزیم سمیت کئی اہم ملکی اور غیر ملکی سفارت خانوں میں آویزاں ہیں۔ انہوں نے اپنے فن میں ملٹی میڈیا کو شامل کیا جن میں خاص طور پر 24 کیرٹ گولڈ ورک امبوز کیلی گرافی شامل ہے۔ جبکہ اب تک پاکستان میں فلیٹ گولڈ ورک خطاطی پر ہی کام کیاگیا ہے۔ اس کے علاوہ آرٹ کرافٹ اور دیگر میوزیم بھی قابل ذکر ہیں۔
فیصل آباد میں فنون لطیفہ کے اس اہم اور عظیم فن کو فروغ دینے کیلئے (ادارہ فروغ فن خطاطی) سرگرم عمل ہے جس کی سرپرستی شہر کی معروف سماجی شخصیت شیخ اعجاز احمد کے سپرد ہے جو باحسن وخوبی تواتر سے فن خطاطی کی نمائشوں کے انعقاد سے آنے والی نسلوں میں اس فن کو زندہ رکھنے کی کاوشوں میں مصروف ہیں۔ نثار احمد اور ان کی دیگر ساتھی ان کی کاوشوں میں برابر کے شریک ہیں تاکہ یہ فن پھلتا پھولتا رہے۔


ن والقلم وما یسطرون (القلم) خالق کائنات نے اپنی آخری آسمانی کتاب قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ قسم ہے قلم کی اور اس کی جو وہ لکھتے ہیں، گویا یہ کلام الٰہی قلم اور کتابت کی عظمت کا آئینہ دار ہے۔ فن خطاطی کو تہذیب و تاریخ اسلامی میں اہم مقام حاصل ہے۔ یہ فن تقریبا 14 صدیوں کی شاندار روایات کا امین ہے۔
حدیث مبارکہ ہے کہ رسول اﷲؐ نے ارشاد فرمایا کہ بسم اﷲ کی خطاطی (ایمان و یقین کے ساتھ) کرنے والا جنت میں جائے گا۔ حضور نبی کریمؐ نے غزوہ بدر کے جنگی قیدیوں کی رہائی اس شرط پر رکھی کہ وہ دس دس مسلمانوں کو خطاطی سکھائیں تو انہیں رہا کردیاجائے گا۔
حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ کا معروف قول ہے ”الخًط ہندسۃ الروحانیۃ” خطاطی روحانیت کی جیومیٹری ہے ۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں ”الخط مفاتیح الرزق” خطاطی رزق کی چابی ہے۔
ہر دور میں فن خطاطی اپنے ارتقائی مراحل سے گزرتا رہا ہے۔ قرآن پاک بیت المقدس ، خانہ کعبہ، مسجد نبوی اور اسلامی مراکز کی تزئین و آرائش فن خطاطی سے ہوتی رہی ہے۔ عالم اسلام کی طرح فن خطاطی کی عظیم روایت برصغیر پاک و ہند میں بھی بڑی مستحکم رہی ہی۔ یہاں کے مسلم خطاطین نے نت نئے نوادر سے اس فن کو جلا بخشی۔ ایسی ہی ایک مثال پاکستان کے نامور خطاط و آرٹسٹ نثار احمد کی ہے۔ نثار احمد فیصل آباد کے محلہ منصور آباد میں 1964ء میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم فیصل آباد اور کراچی میں حاصل کی۔ زمانہ طالب علمی سے ہی فنون لطیفہ سے گہراؤ لگاؤ تھا۔اسکول میں ہر ماہ تعلیمی سرگرمیوں پر روشنی ڈالنے کے لئے ایک اخبار اسکول میں نمایاں جگہ پر آویزاں کیا جاتا جس کی تحریر خوشخط لکھنے والے طالب علموں سے کروائی جاتی۔ وہ اس اخبار کو بڑے شوق سے پڑھتے اور خوشخطی سے کافی متاثر ہوتے۔ اسکول میں جب فنون لطیفہ پر مقابلوں کا اعلان ہوا تو نثار احمد نے حسن قرأت ، نعت خوانی اور خوشخطی میں حصہ لیا اور خوشخطی مین اول آنے پر میئر کراچی سے ایوارڈ حاصل کیا۔
اسلامی فنون لطیفہ کے قدیم عظیم رکن خطاطی سے بے لگاؤ نے انہیں پاکستان کے بین الاقوامی شہرت و ایوارڈ یافتہ خطاط محترم استاد حافظ انجم محمود علیہ الرحمہ تک پہنچا دیا۔
فیصل آباد آرٹ کونسل کے ہردلعزیز ریزیڈنٹ ڈائریکٹر محترم چوہدری آصف پرویز صاحب نے ایک ملاقات میں استاد محترم کا سیل نمبر دیا اور یوں انہیں رابطہ کے بعد ملنے ان کے دفتر پہنچ گئے۔ نثار احمد ان کی شفیق و رئیس شخصیت سے بہت متاثر ہوئے اور جب ان کے فن پاروں پر نظر پڑی تو دل خوشی سے جھوم اٹھا۔ استاد محترم نے ملنے کی وجہ پوچھی تو نثار حمد نے خطاطی سے لگاؤ کے بارے میں عرض کیا۔ وہ اس وقت مصورانہ خطاطی میں کام کررہے تھے۔ خطاطی کے بارے میں لگاؤ پر استاد محترم نے خوشی کا اظہار کیا اور بتایا کہ بہت جلد ایک نمائش کا اہتمام کررہے ہیں۔ آپ اپنا کام دکھائیں۔ اگر نمائش کے قابل ہوا تو آپ کو اس میں شامل کیا جائے گا۔ چند دنوں بعد وہ اپنا کام لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے کام بہت پسند کیا اور ان کو پہلی بار نمائش میں پیش کرنے کا موقع ملا۔ اس نمائش میں ان کے کام کو بہت پسند کیا گیا جس کے بعد استاد محترم سے گزارش کی گئی کہ آپ ان کی سرپرستی فرمائیں ۔ جس پر کہا گیا کہ یہ بڑا مشکل کام ہے۔ آپ کو اجازت ہے۔ آپ میرے کام کو اپنے انداز میں پیش کرسکتے ہیں اور کچھ عطا کرتے ہوئے کہا کہ اس کی فوٹو کاپی کروالیں۔
وہ فورا پریس مارکیٹ سے ان کے کام کی فوٹو کاپیاں کروالائے اور اس پر مشق بھی شروع کردی۔ جس پر استاد محترم نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ آئندہ قلم، دوات اور پیپر کے ساتھ آئیں ، ان کی یہ بہت بڑی خوش بختی کہ انہیں باقاعدہ محترم حافظ انجم محمود جیسی عالمی شخصیت کی شاگردی کا اعزاز حاصل ہوا اور یوں نستعلیق میں مشق کا آغاز کیا۔ پھر کوفی، نسخ، رقاع، دیوانی ، جلی دیوانی بھی اس میں شامل ہوئے۔ استاد محترم نے چند ہی سالوں میں فن سے ایسا آراستہ کیا کہ ہر بڑی نمائش میں ہر خاص و عام نے ان کے فن کو بے حد سراہا۔ 2007ء میں ترکی میں ارمیکا کے زیر اہتمام ہونےو الے بین الاقوامی مقابلہ میں اپنے کام کے ساتھ ان کا کام بھی بھیجا۔ ترکی نے ان کا کام مقابلہ میں شامل کرتے ہوئے مبارکباد کا خط بھیجا جس پر استاد محترم بے حد خوش ہوئے۔
وہ ہر قومی و بین الاقوامی پروگرام میں ہمیشہ ان کی ساتھ رہے اور پھر چند ہی سالوں میں 18 بین الاقوامی مقابلوں اور نمائش میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز حاصل کیا جبکہ 40 مرتبہ قومی نمائشوں کا حصہ بنے اور کئی اعزاز اپنے نام کئے۔ استاد داؤد بکتاش سے فن پارہ پر داد عطا ہوئی جو بہت بڑا ایوارڈ ہے۔ سینئر آرٹسٹ ایوارڈ سمیت حکومت پاکستان نے بین
الاقوامی اور قومی سطح پر فروغ فن خطاطی کی خدمات پر قوممی ایوارڈ سے نوازا۔ جبکہ انگلینڈ کے ایک بڑے اخبار نے 2010ء میں فن پر اسٹوری بھی پرنٹ کی۔ نیویارک ٹائم سمیت ملکی اور عالمی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے کئی بار خبروں کی زینت بنایا۔ آسٹریلیا، ترکی، سعودی عرب، کویت، دبئی، اٹلی (روم میوزیم) کینیڈا (پارلیمنٹ)، لبان (بیروت) مراکو میں ان کے کام کو بہت پسند کیا گیا۔ جبکہ نجی اور قومی سطح پر کئی مرتبہ جیوری ممبر کے فرائض بھی انجام دیئے۔
نثار احمد کو اس فن میں ان کے دوسرے دادا استاد محترم استاد شفیق الزمان خان خطاط مسجد نبوی شریف کی بے پناہ محبت، شفقت اور پیار اور سب سے بڑھ کر ان کی سرپرستی بھی حاصل رہی۔
اسلامی تاریخ میں اسلامی طرز تعمیر، نقش و نگاری اور خطاطی کو بڑا عمل دخل ہے۔ 2007ء کی قومی نمائش خطاطی میں ماڈل گنبد خصراء کو خطاطی کے ساتھ نمائش کے لئے پیش کیا گیا جسے دیکھنے والوں نے خوب پسند کیا اور دل کھول کر داد سے نوازا۔
ان کی فنکارانہ صلاحیتوں کے پیش نظر رائلپور یوزیم فیصل آباد اور لائلپور ہیری ٹیج فاؤنڈیشن میں بطور کرپٹیو آرٹسٹ کام کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران چناب کلب فیصل آباد کے پچیس سے زائد کمروں کو فن سے آراستہ کیا۔ جبکہ فن پارے لائل پور میوزیم سمیت کئی اہم ملکی اور غیر ملکی سفارت خانوں میں آویزاں ہیں۔ انہوں نے اپنے فن میں ملٹی میڈیا کو شامل کیا جن میں خاص طور پر 24 کیرٹ گولڈ ورک امبوز کیلی گرافی شامل ہے۔ جبکہ اب تک پاکستان میں فلیٹ گولڈ ورک خطاطی پر ہی کام کیاگیا ہے۔ اس کے علاوہ آرٹ کرافٹ اور دیگر میوزیم بھی قابل ذکر ہیں۔
فیصل آباد میں فنون لطیفہ کے اس اہم اور عظیم فن کو فروغ دینے کیلئے (ادارہ فروغ فن خطاطی) سرگرم عمل ہے جس کی سرپرستی شہر کی معروف سماجی شخصیت شیخ اعجاز احمد کے سپرد ہے جو باحسن وخوبی تواتر سے فن خطاطی کی نمائشوں کے انعقاد سے آنے والی نسلوں میں اس فن کو زندہ رکھنے کی کاوشوں میں مصروف ہیں۔ نثار احمد اور ان کی دیگر ساتھی ان کی کاوشوں میں برابر کے شریک ہیں تاکہ یہ فن پھلتا پھولتا رہے۔


ن والقلم وما یسطرون (القلم) خالق کائنات نے اپنی آخری آسمانی کتاب قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ قسم ہے قلم کی اور اس کی جو وہ لکھتے ہیں، گویا یہ کلام الٰہی قلم اور کتابت کی عظمت کا آئینہ دار ہے۔ فن خطاطی کو تہذیب و تاریخ اسلامی میں اہم مقام حاصل ہے۔ یہ فن تقریبا 14 صدیوں کی شاندار روایات کا امین ہے۔
حدیث مبارکہ ہے کہ رسول اﷲؐ نے ارشاد فرمایا کہ بسم اﷲ کی خطاطی (ایمان و یقین کے ساتھ) کرنے والا جنت میں جائے گا۔ حضور نبی کریمؐ نے غزوہ بدر کے جنگی قیدیوں کی رہائی اس شرط پر رکھی کہ وہ دس دس مسلمانوں کو خطاطی سکھائیں تو انہیں رہا کردیاجائے گا۔
حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ کا معروف قول ہے ”الخًط ہندسۃ الروحانیۃ” خطاطی روحانیت کی جیومیٹری ہے ۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں ”الخط مفاتیح الرزق” خطاطی رزق کی چابی ہے۔
ہر دور میں فن خطاطی اپنے ارتقائی مراحل سے گزرتا رہا ہے۔ قرآن پاک بیت المقدس ، خانہ کعبہ، مسجد نبوی اور اسلامی مراکز کی تزئین و آرائش فن خطاطی سے ہوتی رہی ہے۔ عالم اسلام کی طرح فن خطاطی کی عظیم روایت برصغیر پاک و ہند میں بھی بڑی مستحکم رہی ہی۔ یہاں کے مسلم خطاطین نے نت نئے نوادر سے اس فن کو جلا بخشی۔ ایسی ہی ایک مثال پاکستان کے نامور خطاط و آرٹسٹ نثار احمد کی ہے۔ نثار احمد فیصل آباد کے محلہ منصور آباد میں 1964ء میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم فیصل آباد اور کراچی میں حاصل کی۔ زمانہ طالب علمی سے ہی فنون لطیفہ سے گہراؤ لگاؤ تھا۔اسکول میں ہر ماہ تعلیمی سرگرمیوں پر روشنی ڈالنے کے لئے ایک اخبار اسکول میں نمایاں جگہ پر آویزاں کیا جاتا جس کی تحریر خوشخط لکھنے والے طالب علموں سے کروائی جاتی۔ وہ اس اخبار کو بڑے شوق سے پڑھتے اور خوشخطی سے کافی متاثر ہوتے۔ اسکول میں جب فنون لطیفہ پر مقابلوں کا اعلان ہوا تو نثار احمد نے حسن قرأت ، نعت خوانی اور خوشخطی میں حصہ لیا اور خوشخطی مین اول آنے پر میئر کراچی سے ایوارڈ حاصل کیا۔
اسلامی فنون لطیفہ کے قدیم عظیم رکن خطاطی سے بے لگاؤ نے انہیں پاکستان کے بین الاقوامی شہرت و ایوارڈ یافتہ خطاط محترم استاد حافظ انجم محمود علیہ الرحمہ تک پہنچا دیا۔
فیصل آباد آرٹ کونسل کے ہردلعزیز ریزیڈنٹ ڈائریکٹر محترم چوہدری آصف پرویز صاحب نے ایک ملاقات میں استاد محترم کا سیل نمبر دیا اور یوں انہیں رابطہ کے بعد ملنے ان کے دفتر پہنچ گئے۔ نثار احمد ان کی شفیق و رئیس شخصیت سے بہت متاثر ہوئے اور جب ان کے فن پاروں پر نظر پڑی تو دل خوشی سے جھوم اٹھا۔ استاد محترم نے ملنے کی وجہ پوچھی تو نثار حمد نے خطاطی سے لگاؤ کے بارے میں عرض کیا۔ وہ اس وقت مصورانہ خطاطی میں کام کررہے تھے۔ خطاطی کے بارے میں لگاؤ پر استاد محترم نے خوشی کا اظہار کیا اور بتایا کہ بہت جلد ایک نمائش کا اہتمام کررہے ہیں۔ آپ اپنا کام دکھائیں۔ اگر نمائش کے قابل ہوا تو آپ کو اس میں شامل کیا جائے گا۔ چند دنوں بعد وہ اپنا کام لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے کام بہت پسند کیا اور ان کو پہلی بار نمائش میں پیش کرنے کا موقع ملا۔ اس نمائش میں ان کے کام کو بہت پسند کیا گیا جس کے بعد استاد محترم سے گزارش کی گئی کہ آپ ان کی سرپرستی فرمائیں ۔ جس پر کہا گیا کہ یہ بڑا مشکل کام ہے۔ آپ کو اجازت ہے۔ آپ میرے کام کو اپنے انداز میں پیش کرسکتے ہیں اور کچھ عطا کرتے ہوئے کہا کہ اس کی فوٹو کاپی کروالیں۔
وہ فورا پریس مارکیٹ سے ان کے کام کی فوٹو کاپیاں کروالائے اور اس پر مشق بھی شروع کردی۔ جس پر استاد محترم نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ آئندہ قلم، دوات اور پیپر کے ساتھ آئیں ، ان کی یہ بہت بڑی خوش بختی کہ انہیں باقاعدہ محترم حافظ انجم محمود جیسی عالمی شخصیت کی شاگردی کا اعزاز حاصل ہوا اور یوں نستعلیق میں مشق کا آغاز کیا۔ پھر کوفی، نسخ، رقاع، دیوانی ، جلی دیوانی بھی اس میں شامل ہوئے۔ استاد محترم نے چند ہی سالوں میں فن سے ایسا آراستہ کیا کہ ہر بڑی نمائش میں ہر خاص و عام نے ان کے فن کو بے حد سراہا۔ 2007ء میں ترکی میں ارمیکا کے زیر اہتمام ہونےو الے بین الاقوامی مقابلہ میں اپنے کام کے ساتھ ان کا کام بھی بھیجا۔ ترکی نے ان کا کام مقابلہ میں شامل کرتے ہوئے مبارکباد کا خط بھیجا جس پر استاد محترم بے حد خوش ہوئے۔
وہ ہر قومی و بین الاقوامی پروگرام میں ہمیشہ ان کی ساتھ رہے اور پھر چند ہی سالوں میں 18 بین الاقوامی مقابلوں اور نمائش میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز حاصل کیا جبکہ 40 مرتبہ قومی نمائشوں کا حصہ بنے اور کئی اعزاز اپنے نام کئے۔ استاد داؤد بکتاش سے فن پارہ پر داد عطا ہوئی جو بہت بڑا ایوارڈ ہے۔ سینئر آرٹسٹ ایوارڈ سمیت حکومت پاکستان نے بین
الاقوامی اور قومی سطح پر فروغ فن خطاطی کی خدمات پر قوممی ایوارڈ سے نوازا۔ جبکہ انگلینڈ کے ایک بڑے اخبار نے 2010ء میں فن پر اسٹوری بھی پرنٹ کی۔ نیویارک ٹائم سمیت ملکی اور عالمی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے کئی بار خبروں کی زینت بنایا۔ آسٹریلیا، ترکی، سعودی عرب، کویت، دبئی، اٹلی (روم میوزیم) کینیڈا (پارلیمنٹ)، لبان (بیروت) مراکو میں ان کے کام کو بہت پسند کیا گیا۔ جبکہ نجی اور قومی سطح پر کئی مرتبہ جیوری ممبر کے فرائض بھی انجام دیئے۔
نثار احمد کو اس فن میں ان کے دوسرے دادا استاد محترم استاد شفیق الزمان خان خطاط مسجد نبوی شریف کی بے پناہ محبت، شفقت اور پیار اور سب سے بڑھ کر ان کی سرپرستی بھی حاصل رہی۔
اسلامی تاریخ میں اسلامی طرز تعمیر، نقش و نگاری اور خطاطی کو بڑا عمل دخل ہے۔ 2007ء کی قومی نمائش خطاطی میں ماڈل گنبد خصراء کو خطاطی کے ساتھ نمائش کے لئے پیش کیا گیا جسے دیکھنے والوں نے خوب پسند کیا اور دل کھول کر داد سے نوازا۔
ان کی فنکارانہ صلاحیتوں کے پیش نظر رائلپور یوزیم فیصل آباد اور لائلپور ہیری ٹیج فاؤنڈیشن میں بطور کرپٹیو آرٹسٹ کام کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران چناب کلب فیصل آباد کے پچیس سے زائد کمروں کو فن سے آراستہ کیا۔ جبکہ فن پارے لائل پور میوزیم سمیت کئی اہم ملکی اور غیر ملکی سفارت خانوں میں آویزاں ہیں۔ انہوں نے اپنے فن میں ملٹی میڈیا کو شامل کیا جن میں خاص طور پر 24 کیرٹ گولڈ ورک امبوز کیلی گرافی شامل ہے۔ جبکہ اب تک پاکستان میں فلیٹ گولڈ ورک خطاطی پر ہی کام کیاگیا ہے۔ اس کے علاوہ آرٹ کرافٹ اور دیگر میوزیم بھی قابل ذکر ہیں۔
فیصل آباد میں فنون لطیفہ کے اس اہم اور عظیم فن کو فروغ دینے کیلئے (ادارہ فروغ فن خطاطی) سرگرم عمل ہے جس کی سرپرستی شہر کی معروف سماجی شخصیت شیخ اعجاز احمد کے سپرد ہے جو باحسن وخوبی تواتر سے فن خطاطی کی نمائشوں کے انعقاد سے آنے والی نسلوں میں اس فن کو زندہ رکھنے کی کاوشوں میں مصروف ہیں۔ نثار احمد اور ان کی دیگر ساتھی ان کی کاوشوں میں برابر کے شریک ہیں تاکہ یہ فن پھلتا پھولتا رہے۔


ن والقلم وما یسطرون (القلم) خالق کائنات نے اپنی آخری آسمانی کتاب قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ قسم ہے قلم کی اور اس کی جو وہ لکھتے ہیں، گویا یہ کلام الٰہی قلم اور کتابت کی عظمت کا آئینہ دار ہے۔ فن خطاطی کو تہذیب و تاریخ اسلامی میں اہم مقام حاصل ہے۔ یہ فن تقریبا 14 صدیوں کی شاندار روایات کا امین ہے۔
حدیث مبارکہ ہے کہ رسول اﷲؐ نے ارشاد فرمایا کہ بسم اﷲ کی خطاطی (ایمان و یقین کے ساتھ) کرنے والا جنت میں جائے گا۔ حضور نبی کریمؐ نے غزوہ بدر کے جنگی قیدیوں کی رہائی اس شرط پر رکھی کہ وہ دس دس مسلمانوں کو خطاطی سکھائیں تو انہیں رہا کردیاجائے گا۔
حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ کا معروف قول ہے ”الخًط ہندسۃ الروحانیۃ” خطاطی روحانیت کی جیومیٹری ہے ۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں ”الخط مفاتیح الرزق” خطاطی رزق کی چابی ہے۔
ہر دور میں فن خطاطی اپنے ارتقائی مراحل سے گزرتا رہا ہے۔ قرآن پاک بیت المقدس ، خانہ کعبہ، مسجد نبوی اور اسلامی مراکز کی تزئین و آرائش فن خطاطی سے ہوتی رہی ہے۔ عالم اسلام کی طرح فن خطاطی کی عظیم روایت برصغیر پاک و ہند میں بھی بڑی مستحکم رہی ہی۔ یہاں کے مسلم خطاطین نے نت نئے نوادر سے اس فن کو جلا بخشی۔ ایسی ہی ایک مثال پاکستان کے نامور خطاط و آرٹسٹ نثار احمد کی ہے۔ نثار احمد فیصل آباد کے محلہ منصور آباد میں 1964ء میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم فیصل آباد اور کراچی میں حاصل کی۔ زمانہ طالب علمی سے ہی فنون لطیفہ سے گہراؤ لگاؤ تھا۔اسکول میں ہر ماہ تعلیمی سرگرمیوں پر روشنی ڈالنے کے لئے ایک اخبار اسکول میں نمایاں جگہ پر آویزاں کیا جاتا جس کی تحریر خوشخط لکھنے والے طالب علموں سے کروائی جاتی۔ وہ اس اخبار کو بڑے شوق سے پڑھتے اور خوشخطی سے کافی متاثر ہوتے۔ اسکول میں جب فنون لطیفہ پر مقابلوں کا اعلان ہوا تو نثار احمد نے حسن قرأت ، نعت خوانی اور خوشخطی میں حصہ لیا اور خوشخطی مین اول آنے پر میئر کراچی سے ایوارڈ حاصل کیا۔
اسلامی فنون لطیفہ کے قدیم عظیم رکن خطاطی سے بے لگاؤ نے انہیں پاکستان کے بین الاقوامی شہرت و ایوارڈ یافتہ خطاط محترم استاد حافظ انجم محمود علیہ الرحمہ تک پہنچا دیا۔
فیصل آباد آرٹ کونسل کے ہردلعزیز ریزیڈنٹ ڈائریکٹر محترم چوہدری آصف پرویز صاحب نے ایک ملاقات میں استاد محترم کا سیل نمبر دیا اور یوں انہیں رابطہ کے بعد ملنے ان کے دفتر پہنچ گئے۔ نثار احمد ان کی شفیق و رئیس شخصیت سے بہت متاثر ہوئے اور جب ان کے فن پاروں پر نظر پڑی تو دل خوشی سے جھوم اٹھا۔ استاد محترم نے ملنے کی وجہ پوچھی تو نثار حمد نے خطاطی سے لگاؤ کے بارے میں عرض کیا۔ وہ اس وقت مصورانہ خطاطی میں کام کررہے تھے۔ خطاطی کے بارے میں لگاؤ پر استاد محترم نے خوشی کا اظہار کیا اور بتایا کہ بہت جلد ایک نمائش کا اہتمام کررہے ہیں۔ آپ اپنا کام دکھائیں۔ اگر نمائش کے قابل ہوا تو آپ کو اس میں شامل کیا جائے گا۔ چند دنوں بعد وہ اپنا کام لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے کام بہت پسند کیا اور ان کو پہلی بار نمائش میں پیش کرنے کا موقع ملا۔ اس نمائش میں ان کے کام کو بہت پسند کیا گیا جس کے بعد استاد محترم سے گزارش کی گئی کہ آپ ان کی سرپرستی فرمائیں ۔ جس پر کہا گیا کہ یہ بڑا مشکل کام ہے۔ آپ کو اجازت ہے۔ آپ میرے کام کو اپنے انداز میں پیش کرسکتے ہیں اور کچھ عطا کرتے ہوئے کہا کہ اس کی فوٹو کاپی کروالیں۔
وہ فورا پریس مارکیٹ سے ان کے کام کی فوٹو کاپیاں کروالائے اور اس پر مشق بھی شروع کردی۔ جس پر استاد محترم نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ آئندہ قلم، دوات اور پیپر کے ساتھ آئیں ، ان کی یہ بہت بڑی خوش بختی کہ انہیں باقاعدہ محترم حافظ انجم محمود جیسی عالمی شخصیت کی شاگردی کا اعزاز حاصل ہوا اور یوں نستعلیق میں مشق کا آغاز کیا۔ پھر کوفی، نسخ، رقاع، دیوانی ، جلی دیوانی بھی اس میں شامل ہوئے۔ استاد محترم نے چند ہی سالوں میں فن سے ایسا آراستہ کیا کہ ہر بڑی نمائش میں ہر خاص و عام نے ان کے فن کو بے حد سراہا۔ 2007ء میں ترکی میں ارمیکا کے زیر اہتمام ہونےو الے بین الاقوامی مقابلہ میں اپنے کام کے ساتھ ان کا کام بھی بھیجا۔ ترکی نے ان کا کام مقابلہ میں شامل کرتے ہوئے مبارکباد کا خط بھیجا جس پر استاد محترم بے حد خوش ہوئے۔
وہ ہر قومی و بین الاقوامی پروگرام میں ہمیشہ ان کی ساتھ رہے اور پھر چند ہی سالوں میں 18 بین الاقوامی مقابلوں اور نمائش میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز حاصل کیا جبکہ 40 مرتبہ قومی نمائشوں کا حصہ بنے اور کئی اعزاز اپنے نام کئے۔ استاد داؤد بکتاش سے فن پارہ پر داد عطا ہوئی جو بہت بڑا ایوارڈ ہے۔ سینئر آرٹسٹ ایوارڈ سمیت حکومت پاکستان نے بین
الاقوامی اور قومی سطح پر فروغ فن خطاطی کی خدمات پر قوممی ایوارڈ سے نوازا۔ جبکہ انگلینڈ کے ایک بڑے اخبار نے 2010ء میں فن پر اسٹوری بھی پرنٹ کی۔ نیویارک ٹائم سمیت ملکی اور عالمی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے کئی بار خبروں کی زینت بنایا۔ آسٹریلیا، ترکی، سعودی عرب، کویت، دبئی، اٹلی (روم میوزیم) کینیڈا (پارلیمنٹ)، لبان (بیروت) مراکو میں ان کے کام کو بہت پسند کیا گیا۔ جبکہ نجی اور قومی سطح پر کئی مرتبہ جیوری ممبر کے فرائض بھی انجام دیئے۔
نثار احمد کو اس فن میں ان کے دوسرے دادا استاد محترم استاد شفیق الزمان خان خطاط مسجد نبوی شریف کی بے پناہ محبت، شفقت اور پیار اور سب سے بڑھ کر ان کی سرپرستی بھی حاصل رہی۔
اسلامی تاریخ میں اسلامی طرز تعمیر، نقش و نگاری اور خطاطی کو بڑا عمل دخل ہے۔ 2007ء کی قومی نمائش خطاطی میں ماڈل گنبد خصراء کو خطاطی کے ساتھ نمائش کے لئے پیش کیا گیا جسے دیکھنے والوں نے خوب پسند کیا اور دل کھول کر داد سے نوازا۔
ان کی فنکارانہ صلاحیتوں کے پیش نظر رائلپور یوزیم فیصل آباد اور لائلپور ہیری ٹیج فاؤنڈیشن میں بطور کرپٹیو آرٹسٹ کام کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران چناب کلب فیصل آباد کے پچیس سے زائد کمروں کو فن سے آراستہ کیا۔ جبکہ فن پارے لائل پور میوزیم سمیت کئی اہم ملکی اور غیر ملکی سفارت خانوں میں آویزاں ہیں۔ انہوں نے اپنے فن میں ملٹی میڈیا کو شامل کیا جن میں خاص طور پر 24 کیرٹ گولڈ ورک امبوز کیلی گرافی شامل ہے۔ جبکہ اب تک پاکستان میں فلیٹ گولڈ ورک خطاطی پر ہی کام کیاگیا ہے۔ اس کے علاوہ آرٹ کرافٹ اور دیگر میوزیم بھی قابل ذکر ہیں۔
فیصل آباد میں فنون لطیفہ کے اس اہم اور عظیم فن کو فروغ دینے کیلئے (ادارہ فروغ فن خطاطی) سرگرم عمل ہے جس کی سرپرستی شہر کی معروف سماجی شخصیت شیخ اعجاز احمد کے سپرد ہے جو باحسن وخوبی تواتر سے فن خطاطی کی نمائشوں کے انعقاد سے آنے والی نسلوں میں اس فن کو زندہ رکھنے کی کاوشوں میں مصروف ہیں۔ نثار احمد اور ان کی دیگر ساتھی ان کی کاوشوں میں برابر کے شریک ہیں تاکہ یہ فن پھلتا پھولتا رہے۔