Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
مجھ کمبخت نے کب سوچا تھا کہ تمھارا تعزیت نامہ میں لکھوں گا ہمیشہ کے لۓ بچھڑ جانے والوں کے ساتھ رفاقتوں کو ماہ و سال کے پیمانے سے ناپنا کس قدر اذیت ناک ہوتا ہے برسوں کی صحبتیں لمحوں میں سمٹ کر جان لیوا ثابت ہوتی ہیں یادوں کے سلسلے تکلم کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور آنکھوں سے نمی جاتی ہی نہیں میں بھیگی آنکھوں کو پونجھتے ہوۓ تمھارے قہقوں کی کھنک اب بھی سن رہا ہوں تم خاک کا پیوند کیا ہوۓ کہ تمھاری یادیں اور باتیں اب بوند بوند میری روح پر برس کر میری آنکھوں سے آنسوؤں کا خراج مانگتی ہیں۔
ابرار یہ اکتوبر 2000 کی ایک سنہری دوپہر تھی جب تم نے اپنے نکلتے ہوۓ ماتھے سے بال ہٹاتے ہوۓ مجھے نیو ہاسٹل کے اندر پڑے اخبار اسٹینڈ کے پاس روکتے ہوۓ کہا تھا ایک چاۓ اکٹھی پیتے ہیں اور جب بلو بھائی کے کارندے نے چاۓ کی پیالیاں ہمارے سامنے رکھیں تو اس وقت تک ہم رسمی تعارف کے خشک سمندر کو طے کر دوستی کی دلدل میں اُتر چکے تھے لیکن نہیں اب تو یوں گمان ہوتا ہے کہ بیس سال سے اسی چاۓ کی پیالی کو تھامے ہوۓ میں دوستی کے لۓ تمھارے سامنے دست سوال پھیلاۓ کھڑا ہوں کیونکہ بیس سالہ رفاقتوں کے دھاگے پر تم نے شکوک کی وہ گرہیں لگائی ہیں جو مجھ سے تو ساری عمر نہ کھل سکیں گی میں بیس سال کے بعد تمھارے حوالے سے سوالوں کی زد میں ہوں۔
تم نے ایسا کیوں کیا؟
نوکری سے تمھاری دلچسپی براۓ نام کیوں تھی؟
تم میں افسروں جیسا طنطنہ اور رعب کیوں نہ تھا؟
اگر تم یہ نہ کرتے تو پھر کیا کرتے؟
زمانہ طالب علمی میں تم قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ انٹرنیشنل ریلیشنز کے ماہنامہ گزٹ کے مدیر تھے ایک پرچے پر تم میرے لۓ یہ جملہ لکھتے وقت زیر لب مسکرا رہے تھے “پیارے عاصم کلیار کے لۓ محبتوں کے ساتھ جو نفرت کرنا بھی جانتا ہے”
میں تم کو کب پیارا تھا جھوٹے کوئی پیاروں کے ساتھ ایسا کرتا جو تم نے ہمارے ساتھ کیا۔
ایک اور پرچہ میرے سامنے کھلا پڑا ہے جس پر تم نے لکھا تھا”عاصم محمد کلیار کے لۓ جس سے میں نے دنیاداری کے چند گُر سیکھے”
اگر تم دنیادار ہوتے تو اس کمینی دنیا سے دل لگانا کونسا مشکل کام تھا تم مکروہات دنیاوی سے یوں بیزار ہوۓ کہ عین جوانی میں منوں مٹی تلے جا چھپے تم اس رسالے کا اداریہ سن گن کے عنوان سے لکھتے تھے تمھارے جانے کے بعد تمھاری موت کے بارے افواہوں کی سن گن تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہم سب دوست تمھیں بھولنے کے لۓ مرے جاتے ہیں مگر تمھاری موت کا تذکرہ ہمیں چین سے بیٹھنے ہی نہیں دیتا میں جلتی ہوئی پوروں کے ساتھ 13 جنوری 2020 کی شام کی ٹوٹی ہوئی مگر لامتناہی کہانی کی تفصیل لکھ کر اُسے ہمیشہ کے لۓ فراموش کر دینا چاہتا ہوں شام چھ کے قریب عمران ٹاوری کا مجھے فون آیا ابرار نے خود کشی کر لی ہے تصیق کے لۓ اس کی بیوی کو فون کرو اور مجھے فوراً بتاؤ میں نے تمھاری بیوی کو فون کیا وہ فون اٹھا نہیں رہی تھی پھر میں نے کانپتے ہاتھوں سے ابرار تمھارا نمبر ملایا وہ مصروف تھا تمھاری موت کے بارے شک کی گرفت ڈھیلی پڑتی جارہی تھی اور یقین کرنے کے لۓ مجھ میں حوصلہ نہ تھا میں فون کو power off کر دینا چاہتا تھا مگر اس سے پہلے ارسلان تارڑ کا فون آ گیا میں نے ڈرتے ہوۓ فون اٹھایا وہ دھاڑیں مار کر رو رہا تھا ملک عباس سے بات ہوئی تو وہ مجھ سے تمھارا شکوہ کرنے لگا فیصل مانگٹ کا فون مسلسل مصروف تھا مدثر نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا کہ کلیار یہ کیا ہوا شاھد نصیر بنی گالہ سے تمھارے گھر کی طرف روانہ ہو چکا تھا توٹتی ہوئی کہانی کی سب کڑیاں موت اور مرنے جیسے منحوس الفاظ پر ختم ہوتیں تھیں۔
اور اب کہانی کا دوسرا حصہ جو شائد کبھی ختم نہ ہو جسے قیاس کا سورج آنسوؤں کے سیلاب کے باوجود ہمیشہ جلتا رکھے گا تم نے شام تین بج کر چالیس منٹ پر اپنے دوست حسن کرتار کو یہ میسج بھیجا “انسان خود کشی اس لۓ کرتا ہے جب وہ بیزار ہو جاتا ہے اور اس کو تخلیق کی سمجھ آ جاتی ہے جب ایک سمجھدار بندہ اپنی جان لیتا ہے تو اس کی موت پر رونا نہیں کرتے اس کے فیصلے کااحترام کرتے ہوتے ہیں” تمھارے اس فیصلے کا احترام کوئی بھی نہ کر سکا اور سب دھاڑیں مارتے ہوۓ رو رہے تھے حسن شاہ کو یہ میسج کرنے کے بعد تم track suit پہن کر بہترین خوشبو لگا کر گھر سے دفتر چلے گۓ گھومنے والی کرسی پر بیٹھ کر تم نے آنکھیں بند کر کے کچھ دیر کے لۓ سوچا ہو گا ماں اور بچوں کے چہرے تمھارے سامنے گھومنے لگے ہوں گے تم نے آنکھیں کھول کر اُن کے چہروں کو سوچ کے پردے سے جھٹک دیا ہو گا سامنے لگے بورڈ پر تمھارا نام سب سے نیچے درج ہو گا بطور افسر اس دفتر میں تمھارے آنے کی تاریخ 19 جنوری 2019 اس بورڈ درج ہو گی مگر تبادلے سے پہلے ہی جانے کی تاریخ کو تم اپنے ہی ہاتھوں اپنے ہی خون سے لکھ گۓ تم نے سامنے رکھے کاغذ کے ٹکڑے پر ماں سے معافی کی درخواست کی اور بیوی بچوں کا خیال رکھنے کے لۓ لکھا کچھ دوست بھی اس وقت تمھارے پردہ خیال پر نمودار ہوۓ ہوں گے تم نے قہقہ لگا کر سب کو فراموش کرنے کی کوشش ہو گی درآز سے پستول نکال کر میز پر رکھا ہو گا تم نے یہ گانا بھی سننا چاہا ہو گا۔
اور کوئی حل نہیں
چین اک پل نہیں
روات پولیس ٹریننگ سینٹر کی پرنسپل کی کرسی پر کندھے جھکاۓ ابرار حسین نیکوکارہ کی پیشانی پر سوچ کی لکیروں کے خطوط ابھرنے لگے ہوں گے سوچ کے سب راستے تم نے تخلیق کے ساتھ موت سے وابستہ کر لۓ تھے اور اس وقت شام کے ساۓ رات کی چادر میں چھپ رہے تھے گھڑی کی سوئی مسلسل دوڑ رہی تھی تم نے پستول کو کنپٹی پر رکھا اور پھر ۔۔۔۔۔۔ ٹی۔وی پر فیتہ چلنے لگا ایک اور افسر نے موت کو گلے سے لگا لیا ایس۔پی ابرار حسین نیکوکارہ نے گھریلو تنازعات کی وجہ سے خود کشی کر لی۔
موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروت
لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خودکشی کے بارے میں
اب گمان ہوتا ہے کہ اس کشش نے تو کئ بار تمھارے دامن دل کو کھینچا اس سے بچنے کے لۓ کبھی تم نے پھولوں اور درختوں میں پناہ لی کبھی رنگوں سے جی کو بہلایا اور کبھی موسیقی کی دھنوں میں تم نے اپنے آپ کو سمیٹنے کی کوشش کی مگر اب کی بار تم یوں بکھرے کہ تم کو سمیٹنے کے لۓ ہمیں تابوت کا سہارا لینا پڑا تمھاری زندگی ہمارے لۓ اہم تھی وہ اس طرح سے رائیگاں جاۓ گی یہ تو ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا تم نے اپنی ملازمت کے دوران میرے تو کئ کام out of the way جا کر کیۓ۔
حسابِ دوستاں در دل
نیو ہاسٹل کے میگزین پطرس کے لۓ مجھے مدیر منتخب کیا گیا میں نے نائب مدیر کے لۓ شاھد نصیر کو تم پر ترجیح دی نہ تم اس چوٹ کو بھولے اور نہ شاھد نے مجھے چین سے بیٹھنا دیا مگر تم نے بدلہ بھی لیا تو کیسے خوف کے نام سے افسانہ لکھ کر پرچے کی اشاعت کو ہی التوا میں ڈال دیا افسانے کا ہیرو افروز حاملہ ہو جاتا ہے اور وہ خود کشی کے بارے سوچنے لگتا ہے۔۔۔۔۔ خود کشی۔
میں تمھاری آخری فرمائش بھی پوری نہ کر سکا کچھ روز قبل میں نے نجیب محفوظ کے ناول کا فہمیدہ ریاض کے کیے ہوۓ ترجمے پر ریویو لکھا تھا اس کے پڑھنے کے بعد تم نے کتاب کی فرمائش کی وہ کتاب میں نے خرید کر رکھ لی تھی کہ جب اسلام أباد جاؤں گا تم تک پہنچ جاۓ گی مجھے کیا خبر تھی کہ ہمارا ابن کسی اور منزل کا راہی ہونے والا ہے اب وہ کتاب ساری عمر میرے سینے پر اک داغ کی صورت میری لائبریری میں محفوظ رہے گی اب تمھاری یاد کے داغ بھی مجھے عزیز لگ رہے ہیں سینکڑوں بار تم میرے گھر ٹھہرے میرے گھر سے وابستہ ہر شے سے تمھاری یاد جڑی ہے مجھے اب گھر میں بھی چین نہ آۓ تو میں کدھر جاؤں۔
چمکتے تاروں تلے ہم مدھر سروں کو سنتے ہوۓ گاہے گاہے گلاسوں کو آتشِ سیال سے بھر لیتے پھر تم خوب بولتے اور ہم تمھارے نت نۓ فلسفوں کو سن کر کبھی بور بھی ہو جاتے مدھر سروں کی جگہ جب مشرق و مغرب کے شوخ گانے بجنے لگتے تو ہم نیم مدھم روشنیوں میں گھنٹوں محوِ رقص رہتے ایک بار ہم دونوں نیو ہاسٹل سے نکل کر کانپتی ٹانگوں سمیت جب بادشاہی مسجد کے ساتھ تنگ زینے طے کر کے اوپر پہنچے تو سواۓ مایوسی کے اور وہاں کچھ نہ تھا اس گلی کا راستہ ہمیں چاچا نذیر نے بتایا تھا۔
اک چند روزہ سفر یاد کی دیوار پر یوں چسپاں ہے جیسے اب میری نم آنکھوں میں تمھارا عکس ہے ہند تا سند ہمارے پیروں تلے تھا کالیداس کو اسی سفر میں تم نے زبردستی پینے پر مجبور کیا تھا کالیداس کو تم نے ہی زندگی میں پہلی بار کتاب خریدنے پر بھی مجبور کیا تھا ککو رام جی جیسے دلچسپ آدمی سے ملاقات بھی اسی سفر میں ہوئی تھی بطور خاص میرے لئے تم فضیلت والی چاۓ بنواتے جو ہم باتوں کے دوران چسکی چسکی پیتے رہتے مگر ایک آدھ سال سے تمھاری خوش گفتاری بھی ماند پڑ گئ تھی ملاقات ہونے پر خاموشی کے وقفے طویل ہونے لگتے tomorrow land کا سفر تو تم نے میرے اور تارڑ کے ساتھ اب کرنا تھا مگر اس سے پہلے ہی تو نے ابدی سفر اختیار کر لیا اس سفر میں تمھارا ہمنوا تنہائی کے سوا کوئی بھی نہیں تنہائی کے سپرد بھی تو میں تم کو نہیں کر سکتا تم اب وہاں سب سے پہلے مہاتما بدھ سے ملنے کی تمنا کرو گے تم روح کی منتقلی پر یقینِ کامل رکھتے تھے تمھاری روح کی مجھے کوئی جستجو نہیں میں عمومی رویوں والے اس ابرار کا طلبگار ہوں جو آج سے بیس سال پہلے مجھے ملا تھا تم 2002 میں اسلام آباد کیا گۓ کہ تم اپنی الگ شناخت کی تمنا میں روز خود کشی کی جانب ایک قدم بڑھنے لگے ابرار تم جہاں بھی ہو واپس آ جاؤ تمھیں کچھ نہیں کہا جاۓ گا۔
تم نے سات سال پہلے9 جنوری 2013 کو اپنی Facebook پر یہ تحریر لکھی تھی ابدی سفر کا سب احوال تو تم نے چار دن پہلے اس تحریر کی صورت ہم بتا دیا تھا
♥ ✶*¨*. ¸ .✫*¨*.¸¸.✶*♥✶*¨*. ¸ .✫*¨*.¸¸.✶♥
Dreams are like stars, you may never touch them, But If you follow them they Will lead you to your destiny….
♥ ✶*¨*. ¸ .✫*¨*.¸¸.✶*♥✶*¨*. ¸ .✫*¨*.¸¸.✶♥
اس تحریر کو تم نے بچھڑنے سے صرف چار دن پہلے 9 جنوری 2020 کو دوبارہ Facebook کی wall پر لگایا تم خواب نگر کے مسافر تھے کھلی آنکھوں سے اُفق پار کے منظر دیکھتے تم کسی دور بہت دور کے چمکتے ستارے پر بیٹھ کر تماشاۓ اہل دنیا دیکھنے چاہتے تھے سو ستاروں کے تعاقب میں تم نے موت کو گلے سے لگایا کاش تم نے ہم کو کچھ بتایا ہوتا اب بیٹھ کر مسکراؤ اور دیکھو کہ ہم سب تمھارے لۓ ہی کہہ رہے ہیں کہ
اک تارا نہ جانے کہاں کھو گیا۔
الوداع اے دوست الوداع۔
نہیں میں تم کو الوداع نہیں کہہ سکتا آؤ پتھر آنکھوں کو ساکت کیۓ مجھے پھر سے اولیں خیر مقدمی بوسہ دو اے دوست ہمیشہ کی طرح بانہوں کو کھولے قہقہ لگاتے ہوۓ میرا سواگت کرو تم مجھے یاد آتے ہو۔
یہ بھی کیسا مضحکہ خیز خیال ہے کہ تمھارے جانے کے بعد زندگی جیسی بے ثبات شے سے اعتبار اٹھ گیا ہے میں اب بھی بلو بھائی کی کینٹین پر بیٹھا بیس سالہ رفاقت کی روح کے دھاگوں کی گرہیں کھولنے کی ناکام کوشش کر رہا ہوں مگر ایک بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ خودکشی نام کی کوئی گرہ مجھے ڈھونڈے سے بھی نہیں مل رہی۔
کاوش کا دل کرۓ ہے تقاضا کہ ہے ہنوز
ناخن پہ قرض گرہِ نیم باز کا
*
مجھ کمبخت نے کب سوچا تھا کہ تمھارا تعزیت نامہ میں لکھوں گا ہمیشہ کے لۓ بچھڑ جانے والوں کے ساتھ رفاقتوں کو ماہ و سال کے پیمانے سے ناپنا کس قدر اذیت ناک ہوتا ہے برسوں کی صحبتیں لمحوں میں سمٹ کر جان لیوا ثابت ہوتی ہیں یادوں کے سلسلے تکلم کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور آنکھوں سے نمی جاتی ہی نہیں میں بھیگی آنکھوں کو پونجھتے ہوۓ تمھارے قہقوں کی کھنک اب بھی سن رہا ہوں تم خاک کا پیوند کیا ہوۓ کہ تمھاری یادیں اور باتیں اب بوند بوند میری روح پر برس کر میری آنکھوں سے آنسوؤں کا خراج مانگتی ہیں۔
ابرار یہ اکتوبر 2000 کی ایک سنہری دوپہر تھی جب تم نے اپنے نکلتے ہوۓ ماتھے سے بال ہٹاتے ہوۓ مجھے نیو ہاسٹل کے اندر پڑے اخبار اسٹینڈ کے پاس روکتے ہوۓ کہا تھا ایک چاۓ اکٹھی پیتے ہیں اور جب بلو بھائی کے کارندے نے چاۓ کی پیالیاں ہمارے سامنے رکھیں تو اس وقت تک ہم رسمی تعارف کے خشک سمندر کو طے کر دوستی کی دلدل میں اُتر چکے تھے لیکن نہیں اب تو یوں گمان ہوتا ہے کہ بیس سال سے اسی چاۓ کی پیالی کو تھامے ہوۓ میں دوستی کے لۓ تمھارے سامنے دست سوال پھیلاۓ کھڑا ہوں کیونکہ بیس سالہ رفاقتوں کے دھاگے پر تم نے شکوک کی وہ گرہیں لگائی ہیں جو مجھ سے تو ساری عمر نہ کھل سکیں گی میں بیس سال کے بعد تمھارے حوالے سے سوالوں کی زد میں ہوں۔
تم نے ایسا کیوں کیا؟
نوکری سے تمھاری دلچسپی براۓ نام کیوں تھی؟
تم میں افسروں جیسا طنطنہ اور رعب کیوں نہ تھا؟
اگر تم یہ نہ کرتے تو پھر کیا کرتے؟
زمانہ طالب علمی میں تم قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ انٹرنیشنل ریلیشنز کے ماہنامہ گزٹ کے مدیر تھے ایک پرچے پر تم میرے لۓ یہ جملہ لکھتے وقت زیر لب مسکرا رہے تھے “پیارے عاصم کلیار کے لۓ محبتوں کے ساتھ جو نفرت کرنا بھی جانتا ہے”
میں تم کو کب پیارا تھا جھوٹے کوئی پیاروں کے ساتھ ایسا کرتا جو تم نے ہمارے ساتھ کیا۔
ایک اور پرچہ میرے سامنے کھلا پڑا ہے جس پر تم نے لکھا تھا”عاصم محمد کلیار کے لۓ جس سے میں نے دنیاداری کے چند گُر سیکھے”
اگر تم دنیادار ہوتے تو اس کمینی دنیا سے دل لگانا کونسا مشکل کام تھا تم مکروہات دنیاوی سے یوں بیزار ہوۓ کہ عین جوانی میں منوں مٹی تلے جا چھپے تم اس رسالے کا اداریہ سن گن کے عنوان سے لکھتے تھے تمھارے جانے کے بعد تمھاری موت کے بارے افواہوں کی سن گن تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہم سب دوست تمھیں بھولنے کے لۓ مرے جاتے ہیں مگر تمھاری موت کا تذکرہ ہمیں چین سے بیٹھنے ہی نہیں دیتا میں جلتی ہوئی پوروں کے ساتھ 13 جنوری 2020 کی شام کی ٹوٹی ہوئی مگر لامتناہی کہانی کی تفصیل لکھ کر اُسے ہمیشہ کے لۓ فراموش کر دینا چاہتا ہوں شام چھ کے قریب عمران ٹاوری کا مجھے فون آیا ابرار نے خود کشی کر لی ہے تصیق کے لۓ اس کی بیوی کو فون کرو اور مجھے فوراً بتاؤ میں نے تمھاری بیوی کو فون کیا وہ فون اٹھا نہیں رہی تھی پھر میں نے کانپتے ہاتھوں سے ابرار تمھارا نمبر ملایا وہ مصروف تھا تمھاری موت کے بارے شک کی گرفت ڈھیلی پڑتی جارہی تھی اور یقین کرنے کے لۓ مجھ میں حوصلہ نہ تھا میں فون کو power off کر دینا چاہتا تھا مگر اس سے پہلے ارسلان تارڑ کا فون آ گیا میں نے ڈرتے ہوۓ فون اٹھایا وہ دھاڑیں مار کر رو رہا تھا ملک عباس سے بات ہوئی تو وہ مجھ سے تمھارا شکوہ کرنے لگا فیصل مانگٹ کا فون مسلسل مصروف تھا مدثر نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا کہ کلیار یہ کیا ہوا شاھد نصیر بنی گالہ سے تمھارے گھر کی طرف روانہ ہو چکا تھا توٹتی ہوئی کہانی کی سب کڑیاں موت اور مرنے جیسے منحوس الفاظ پر ختم ہوتیں تھیں۔
اور اب کہانی کا دوسرا حصہ جو شائد کبھی ختم نہ ہو جسے قیاس کا سورج آنسوؤں کے سیلاب کے باوجود ہمیشہ جلتا رکھے گا تم نے شام تین بج کر چالیس منٹ پر اپنے دوست حسن کرتار کو یہ میسج بھیجا “انسان خود کشی اس لۓ کرتا ہے جب وہ بیزار ہو جاتا ہے اور اس کو تخلیق کی سمجھ آ جاتی ہے جب ایک سمجھدار بندہ اپنی جان لیتا ہے تو اس کی موت پر رونا نہیں کرتے اس کے فیصلے کااحترام کرتے ہوتے ہیں” تمھارے اس فیصلے کا احترام کوئی بھی نہ کر سکا اور سب دھاڑیں مارتے ہوۓ رو رہے تھے حسن شاہ کو یہ میسج کرنے کے بعد تم track suit پہن کر بہترین خوشبو لگا کر گھر سے دفتر چلے گۓ گھومنے والی کرسی پر بیٹھ کر تم نے آنکھیں بند کر کے کچھ دیر کے لۓ سوچا ہو گا ماں اور بچوں کے چہرے تمھارے سامنے گھومنے لگے ہوں گے تم نے آنکھیں کھول کر اُن کے چہروں کو سوچ کے پردے سے جھٹک دیا ہو گا سامنے لگے بورڈ پر تمھارا نام سب سے نیچے درج ہو گا بطور افسر اس دفتر میں تمھارے آنے کی تاریخ 19 جنوری 2019 اس بورڈ درج ہو گی مگر تبادلے سے پہلے ہی جانے کی تاریخ کو تم اپنے ہی ہاتھوں اپنے ہی خون سے لکھ گۓ تم نے سامنے رکھے کاغذ کے ٹکڑے پر ماں سے معافی کی درخواست کی اور بیوی بچوں کا خیال رکھنے کے لۓ لکھا کچھ دوست بھی اس وقت تمھارے پردہ خیال پر نمودار ہوۓ ہوں گے تم نے قہقہ لگا کر سب کو فراموش کرنے کی کوشش ہو گی درآز سے پستول نکال کر میز پر رکھا ہو گا تم نے یہ گانا بھی سننا چاہا ہو گا۔
اور کوئی حل نہیں
چین اک پل نہیں
روات پولیس ٹریننگ سینٹر کی پرنسپل کی کرسی پر کندھے جھکاۓ ابرار حسین نیکوکارہ کی پیشانی پر سوچ کی لکیروں کے خطوط ابھرنے لگے ہوں گے سوچ کے سب راستے تم نے تخلیق کے ساتھ موت سے وابستہ کر لۓ تھے اور اس وقت شام کے ساۓ رات کی چادر میں چھپ رہے تھے گھڑی کی سوئی مسلسل دوڑ رہی تھی تم نے پستول کو کنپٹی پر رکھا اور پھر ۔۔۔۔۔۔ ٹی۔وی پر فیتہ چلنے لگا ایک اور افسر نے موت کو گلے سے لگا لیا ایس۔پی ابرار حسین نیکوکارہ نے گھریلو تنازعات کی وجہ سے خود کشی کر لی۔
موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروت
لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خودکشی کے بارے میں
اب گمان ہوتا ہے کہ اس کشش نے تو کئ بار تمھارے دامن دل کو کھینچا اس سے بچنے کے لۓ کبھی تم نے پھولوں اور درختوں میں پناہ لی کبھی رنگوں سے جی کو بہلایا اور کبھی موسیقی کی دھنوں میں تم نے اپنے آپ کو سمیٹنے کی کوشش کی مگر اب کی بار تم یوں بکھرے کہ تم کو سمیٹنے کے لۓ ہمیں تابوت کا سہارا لینا پڑا تمھاری زندگی ہمارے لۓ اہم تھی وہ اس طرح سے رائیگاں جاۓ گی یہ تو ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا تم نے اپنی ملازمت کے دوران میرے تو کئ کام out of the way جا کر کیۓ۔
حسابِ دوستاں در دل
نیو ہاسٹل کے میگزین پطرس کے لۓ مجھے مدیر منتخب کیا گیا میں نے نائب مدیر کے لۓ شاھد نصیر کو تم پر ترجیح دی نہ تم اس چوٹ کو بھولے اور نہ شاھد نے مجھے چین سے بیٹھنا دیا مگر تم نے بدلہ بھی لیا تو کیسے خوف کے نام سے افسانہ لکھ کر پرچے کی اشاعت کو ہی التوا میں ڈال دیا افسانے کا ہیرو افروز حاملہ ہو جاتا ہے اور وہ خود کشی کے بارے سوچنے لگتا ہے۔۔۔۔۔ خود کشی۔
میں تمھاری آخری فرمائش بھی پوری نہ کر سکا کچھ روز قبل میں نے نجیب محفوظ کے ناول کا فہمیدہ ریاض کے کیے ہوۓ ترجمے پر ریویو لکھا تھا اس کے پڑھنے کے بعد تم نے کتاب کی فرمائش کی وہ کتاب میں نے خرید کر رکھ لی تھی کہ جب اسلام أباد جاؤں گا تم تک پہنچ جاۓ گی مجھے کیا خبر تھی کہ ہمارا ابن کسی اور منزل کا راہی ہونے والا ہے اب وہ کتاب ساری عمر میرے سینے پر اک داغ کی صورت میری لائبریری میں محفوظ رہے گی اب تمھاری یاد کے داغ بھی مجھے عزیز لگ رہے ہیں سینکڑوں بار تم میرے گھر ٹھہرے میرے گھر سے وابستہ ہر شے سے تمھاری یاد جڑی ہے مجھے اب گھر میں بھی چین نہ آۓ تو میں کدھر جاؤں۔
چمکتے تاروں تلے ہم مدھر سروں کو سنتے ہوۓ گاہے گاہے گلاسوں کو آتشِ سیال سے بھر لیتے پھر تم خوب بولتے اور ہم تمھارے نت نۓ فلسفوں کو سن کر کبھی بور بھی ہو جاتے مدھر سروں کی جگہ جب مشرق و مغرب کے شوخ گانے بجنے لگتے تو ہم نیم مدھم روشنیوں میں گھنٹوں محوِ رقص رہتے ایک بار ہم دونوں نیو ہاسٹل سے نکل کر کانپتی ٹانگوں سمیت جب بادشاہی مسجد کے ساتھ تنگ زینے طے کر کے اوپر پہنچے تو سواۓ مایوسی کے اور وہاں کچھ نہ تھا اس گلی کا راستہ ہمیں چاچا نذیر نے بتایا تھا۔
اک چند روزہ سفر یاد کی دیوار پر یوں چسپاں ہے جیسے اب میری نم آنکھوں میں تمھارا عکس ہے ہند تا سند ہمارے پیروں تلے تھا کالیداس کو اسی سفر میں تم نے زبردستی پینے پر مجبور کیا تھا کالیداس کو تم نے ہی زندگی میں پہلی بار کتاب خریدنے پر بھی مجبور کیا تھا ککو رام جی جیسے دلچسپ آدمی سے ملاقات بھی اسی سفر میں ہوئی تھی بطور خاص میرے لئے تم فضیلت والی چاۓ بنواتے جو ہم باتوں کے دوران چسکی چسکی پیتے رہتے مگر ایک آدھ سال سے تمھاری خوش گفتاری بھی ماند پڑ گئ تھی ملاقات ہونے پر خاموشی کے وقفے طویل ہونے لگتے tomorrow land کا سفر تو تم نے میرے اور تارڑ کے ساتھ اب کرنا تھا مگر اس سے پہلے ہی تو نے ابدی سفر اختیار کر لیا اس سفر میں تمھارا ہمنوا تنہائی کے سوا کوئی بھی نہیں تنہائی کے سپرد بھی تو میں تم کو نہیں کر سکتا تم اب وہاں سب سے پہلے مہاتما بدھ سے ملنے کی تمنا کرو گے تم روح کی منتقلی پر یقینِ کامل رکھتے تھے تمھاری روح کی مجھے کوئی جستجو نہیں میں عمومی رویوں والے اس ابرار کا طلبگار ہوں جو آج سے بیس سال پہلے مجھے ملا تھا تم 2002 میں اسلام آباد کیا گۓ کہ تم اپنی الگ شناخت کی تمنا میں روز خود کشی کی جانب ایک قدم بڑھنے لگے ابرار تم جہاں بھی ہو واپس آ جاؤ تمھیں کچھ نہیں کہا جاۓ گا۔
تم نے سات سال پہلے9 جنوری 2013 کو اپنی Facebook پر یہ تحریر لکھی تھی ابدی سفر کا سب احوال تو تم نے چار دن پہلے اس تحریر کی صورت ہم بتا دیا تھا
♥ ✶*¨*. ¸ .✫*¨*.¸¸.✶*♥✶*¨*. ¸ .✫*¨*.¸¸.✶♥
Dreams are like stars, you may never touch them, But If you follow them they Will lead you to your destiny….
♥ ✶*¨*. ¸ .✫*¨*.¸¸.✶*♥✶*¨*. ¸ .✫*¨*.¸¸.✶♥
اس تحریر کو تم نے بچھڑنے سے صرف چار دن پہلے 9 جنوری 2020 کو دوبارہ Facebook کی wall پر لگایا تم خواب نگر کے مسافر تھے کھلی آنکھوں سے اُفق پار کے منظر دیکھتے تم کسی دور بہت دور کے چمکتے ستارے پر بیٹھ کر تماشاۓ اہل دنیا دیکھنے چاہتے تھے سو ستاروں کے تعاقب میں تم نے موت کو گلے سے لگایا کاش تم نے ہم کو کچھ بتایا ہوتا اب بیٹھ کر مسکراؤ اور دیکھو کہ ہم سب تمھارے لۓ ہی کہہ رہے ہیں کہ
اک تارا نہ جانے کہاں کھو گیا۔
الوداع اے دوست الوداع۔
نہیں میں تم کو الوداع نہیں کہہ سکتا آؤ پتھر آنکھوں کو ساکت کیۓ مجھے پھر سے اولیں خیر مقدمی بوسہ دو اے دوست ہمیشہ کی طرح بانہوں کو کھولے قہقہ لگاتے ہوۓ میرا سواگت کرو تم مجھے یاد آتے ہو۔
یہ بھی کیسا مضحکہ خیز خیال ہے کہ تمھارے جانے کے بعد زندگی جیسی بے ثبات شے سے اعتبار اٹھ گیا ہے میں اب بھی بلو بھائی کی کینٹین پر بیٹھا بیس سالہ رفاقت کی روح کے دھاگوں کی گرہیں کھولنے کی ناکام کوشش کر رہا ہوں مگر ایک بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ خودکشی نام کی کوئی گرہ مجھے ڈھونڈے سے بھی نہیں مل رہی۔
کاوش کا دل کرۓ ہے تقاضا کہ ہے ہنوز
ناخن پہ قرض گرہِ نیم باز کا
*
مجھ کمبخت نے کب سوچا تھا کہ تمھارا تعزیت نامہ میں لکھوں گا ہمیشہ کے لۓ بچھڑ جانے والوں کے ساتھ رفاقتوں کو ماہ و سال کے پیمانے سے ناپنا کس قدر اذیت ناک ہوتا ہے برسوں کی صحبتیں لمحوں میں سمٹ کر جان لیوا ثابت ہوتی ہیں یادوں کے سلسلے تکلم کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور آنکھوں سے نمی جاتی ہی نہیں میں بھیگی آنکھوں کو پونجھتے ہوۓ تمھارے قہقوں کی کھنک اب بھی سن رہا ہوں تم خاک کا پیوند کیا ہوۓ کہ تمھاری یادیں اور باتیں اب بوند بوند میری روح پر برس کر میری آنکھوں سے آنسوؤں کا خراج مانگتی ہیں۔
ابرار یہ اکتوبر 2000 کی ایک سنہری دوپہر تھی جب تم نے اپنے نکلتے ہوۓ ماتھے سے بال ہٹاتے ہوۓ مجھے نیو ہاسٹل کے اندر پڑے اخبار اسٹینڈ کے پاس روکتے ہوۓ کہا تھا ایک چاۓ اکٹھی پیتے ہیں اور جب بلو بھائی کے کارندے نے چاۓ کی پیالیاں ہمارے سامنے رکھیں تو اس وقت تک ہم رسمی تعارف کے خشک سمندر کو طے کر دوستی کی دلدل میں اُتر چکے تھے لیکن نہیں اب تو یوں گمان ہوتا ہے کہ بیس سال سے اسی چاۓ کی پیالی کو تھامے ہوۓ میں دوستی کے لۓ تمھارے سامنے دست سوال پھیلاۓ کھڑا ہوں کیونکہ بیس سالہ رفاقتوں کے دھاگے پر تم نے شکوک کی وہ گرہیں لگائی ہیں جو مجھ سے تو ساری عمر نہ کھل سکیں گی میں بیس سال کے بعد تمھارے حوالے سے سوالوں کی زد میں ہوں۔
تم نے ایسا کیوں کیا؟
نوکری سے تمھاری دلچسپی براۓ نام کیوں تھی؟
تم میں افسروں جیسا طنطنہ اور رعب کیوں نہ تھا؟
اگر تم یہ نہ کرتے تو پھر کیا کرتے؟
زمانہ طالب علمی میں تم قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ انٹرنیشنل ریلیشنز کے ماہنامہ گزٹ کے مدیر تھے ایک پرچے پر تم میرے لۓ یہ جملہ لکھتے وقت زیر لب مسکرا رہے تھے “پیارے عاصم کلیار کے لۓ محبتوں کے ساتھ جو نفرت کرنا بھی جانتا ہے”
میں تم کو کب پیارا تھا جھوٹے کوئی پیاروں کے ساتھ ایسا کرتا جو تم نے ہمارے ساتھ کیا۔
ایک اور پرچہ میرے سامنے کھلا پڑا ہے جس پر تم نے لکھا تھا”عاصم محمد کلیار کے لۓ جس سے میں نے دنیاداری کے چند گُر سیکھے”
اگر تم دنیادار ہوتے تو اس کمینی دنیا سے دل لگانا کونسا مشکل کام تھا تم مکروہات دنیاوی سے یوں بیزار ہوۓ کہ عین جوانی میں منوں مٹی تلے جا چھپے تم اس رسالے کا اداریہ سن گن کے عنوان سے لکھتے تھے تمھارے جانے کے بعد تمھاری موت کے بارے افواہوں کی سن گن تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہم سب دوست تمھیں بھولنے کے لۓ مرے جاتے ہیں مگر تمھاری موت کا تذکرہ ہمیں چین سے بیٹھنے ہی نہیں دیتا میں جلتی ہوئی پوروں کے ساتھ 13 جنوری 2020 کی شام کی ٹوٹی ہوئی مگر لامتناہی کہانی کی تفصیل لکھ کر اُسے ہمیشہ کے لۓ فراموش کر دینا چاہتا ہوں شام چھ کے قریب عمران ٹاوری کا مجھے فون آیا ابرار نے خود کشی کر لی ہے تصیق کے لۓ اس کی بیوی کو فون کرو اور مجھے فوراً بتاؤ میں نے تمھاری بیوی کو فون کیا وہ فون اٹھا نہیں رہی تھی پھر میں نے کانپتے ہاتھوں سے ابرار تمھارا نمبر ملایا وہ مصروف تھا تمھاری موت کے بارے شک کی گرفت ڈھیلی پڑتی جارہی تھی اور یقین کرنے کے لۓ مجھ میں حوصلہ نہ تھا میں فون کو power off کر دینا چاہتا تھا مگر اس سے پہلے ارسلان تارڑ کا فون آ گیا میں نے ڈرتے ہوۓ فون اٹھایا وہ دھاڑیں مار کر رو رہا تھا ملک عباس سے بات ہوئی تو وہ مجھ سے تمھارا شکوہ کرنے لگا فیصل مانگٹ کا فون مسلسل مصروف تھا مدثر نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا کہ کلیار یہ کیا ہوا شاھد نصیر بنی گالہ سے تمھارے گھر کی طرف روانہ ہو چکا تھا توٹتی ہوئی کہانی کی سب کڑیاں موت اور مرنے جیسے منحوس الفاظ پر ختم ہوتیں تھیں۔
اور اب کہانی کا دوسرا حصہ جو شائد کبھی ختم نہ ہو جسے قیاس کا سورج آنسوؤں کے سیلاب کے باوجود ہمیشہ جلتا رکھے گا تم نے شام تین بج کر چالیس منٹ پر اپنے دوست حسن کرتار کو یہ میسج بھیجا “انسان خود کشی اس لۓ کرتا ہے جب وہ بیزار ہو جاتا ہے اور اس کو تخلیق کی سمجھ آ جاتی ہے جب ایک سمجھدار بندہ اپنی جان لیتا ہے تو اس کی موت پر رونا نہیں کرتے اس کے فیصلے کااحترام کرتے ہوتے ہیں” تمھارے اس فیصلے کا احترام کوئی بھی نہ کر سکا اور سب دھاڑیں مارتے ہوۓ رو رہے تھے حسن شاہ کو یہ میسج کرنے کے بعد تم track suit پہن کر بہترین خوشبو لگا کر گھر سے دفتر چلے گۓ گھومنے والی کرسی پر بیٹھ کر تم نے آنکھیں بند کر کے کچھ دیر کے لۓ سوچا ہو گا ماں اور بچوں کے چہرے تمھارے سامنے گھومنے لگے ہوں گے تم نے آنکھیں کھول کر اُن کے چہروں کو سوچ کے پردے سے جھٹک دیا ہو گا سامنے لگے بورڈ پر تمھارا نام سب سے نیچے درج ہو گا بطور افسر اس دفتر میں تمھارے آنے کی تاریخ 19 جنوری 2019 اس بورڈ درج ہو گی مگر تبادلے سے پہلے ہی جانے کی تاریخ کو تم اپنے ہی ہاتھوں اپنے ہی خون سے لکھ گۓ تم نے سامنے رکھے کاغذ کے ٹکڑے پر ماں سے معافی کی درخواست کی اور بیوی بچوں کا خیال رکھنے کے لۓ لکھا کچھ دوست بھی اس وقت تمھارے پردہ خیال پر نمودار ہوۓ ہوں گے تم نے قہقہ لگا کر سب کو فراموش کرنے کی کوشش ہو گی درآز سے پستول نکال کر میز پر رکھا ہو گا تم نے یہ گانا بھی سننا چاہا ہو گا۔
اور کوئی حل نہیں
چین اک پل نہیں
روات پولیس ٹریننگ سینٹر کی پرنسپل کی کرسی پر کندھے جھکاۓ ابرار حسین نیکوکارہ کی پیشانی پر سوچ کی لکیروں کے خطوط ابھرنے لگے ہوں گے سوچ کے سب راستے تم نے تخلیق کے ساتھ موت سے وابستہ کر لۓ تھے اور اس وقت شام کے ساۓ رات کی چادر میں چھپ رہے تھے گھڑی کی سوئی مسلسل دوڑ رہی تھی تم نے پستول کو کنپٹی پر رکھا اور پھر ۔۔۔۔۔۔ ٹی۔وی پر فیتہ چلنے لگا ایک اور افسر نے موت کو گلے سے لگا لیا ایس۔پی ابرار حسین نیکوکارہ نے گھریلو تنازعات کی وجہ سے خود کشی کر لی۔
موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروت
لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خودکشی کے بارے میں
اب گمان ہوتا ہے کہ اس کشش نے تو کئ بار تمھارے دامن دل کو کھینچا اس سے بچنے کے لۓ کبھی تم نے پھولوں اور درختوں میں پناہ لی کبھی رنگوں سے جی کو بہلایا اور کبھی موسیقی کی دھنوں میں تم نے اپنے آپ کو سمیٹنے کی کوشش کی مگر اب کی بار تم یوں بکھرے کہ تم کو سمیٹنے کے لۓ ہمیں تابوت کا سہارا لینا پڑا تمھاری زندگی ہمارے لۓ اہم تھی وہ اس طرح سے رائیگاں جاۓ گی یہ تو ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا تم نے اپنی ملازمت کے دوران میرے تو کئ کام out of the way جا کر کیۓ۔
حسابِ دوستاں در دل
نیو ہاسٹل کے میگزین پطرس کے لۓ مجھے مدیر منتخب کیا گیا میں نے نائب مدیر کے لۓ شاھد نصیر کو تم پر ترجیح دی نہ تم اس چوٹ کو بھولے اور نہ شاھد نے مجھے چین سے بیٹھنا دیا مگر تم نے بدلہ بھی لیا تو کیسے خوف کے نام سے افسانہ لکھ کر پرچے کی اشاعت کو ہی التوا میں ڈال دیا افسانے کا ہیرو افروز حاملہ ہو جاتا ہے اور وہ خود کشی کے بارے سوچنے لگتا ہے۔۔۔۔۔ خود کشی۔
میں تمھاری آخری فرمائش بھی پوری نہ کر سکا کچھ روز قبل میں نے نجیب محفوظ کے ناول کا فہمیدہ ریاض کے کیے ہوۓ ترجمے پر ریویو لکھا تھا اس کے پڑھنے کے بعد تم نے کتاب کی فرمائش کی وہ کتاب میں نے خرید کر رکھ لی تھی کہ جب اسلام أباد جاؤں گا تم تک پہنچ جاۓ گی مجھے کیا خبر تھی کہ ہمارا ابن کسی اور منزل کا راہی ہونے والا ہے اب وہ کتاب ساری عمر میرے سینے پر اک داغ کی صورت میری لائبریری میں محفوظ رہے گی اب تمھاری یاد کے داغ بھی مجھے عزیز لگ رہے ہیں سینکڑوں بار تم میرے گھر ٹھہرے میرے گھر سے وابستہ ہر شے سے تمھاری یاد جڑی ہے مجھے اب گھر میں بھی چین نہ آۓ تو میں کدھر جاؤں۔
چمکتے تاروں تلے ہم مدھر سروں کو سنتے ہوۓ گاہے گاہے گلاسوں کو آتشِ سیال سے بھر لیتے پھر تم خوب بولتے اور ہم تمھارے نت نۓ فلسفوں کو سن کر کبھی بور بھی ہو جاتے مدھر سروں کی جگہ جب مشرق و مغرب کے شوخ گانے بجنے لگتے تو ہم نیم مدھم روشنیوں میں گھنٹوں محوِ رقص رہتے ایک بار ہم دونوں نیو ہاسٹل سے نکل کر کانپتی ٹانگوں سمیت جب بادشاہی مسجد کے ساتھ تنگ زینے طے کر کے اوپر پہنچے تو سواۓ مایوسی کے اور وہاں کچھ نہ تھا اس گلی کا راستہ ہمیں چاچا نذیر نے بتایا تھا۔
اک چند روزہ سفر یاد کی دیوار پر یوں چسپاں ہے جیسے اب میری نم آنکھوں میں تمھارا عکس ہے ہند تا سند ہمارے پیروں تلے تھا کالیداس کو اسی سفر میں تم نے زبردستی پینے پر مجبور کیا تھا کالیداس کو تم نے ہی زندگی میں پہلی بار کتاب خریدنے پر بھی مجبور کیا تھا ککو رام جی جیسے دلچسپ آدمی سے ملاقات بھی اسی سفر میں ہوئی تھی بطور خاص میرے لئے تم فضیلت والی چاۓ بنواتے جو ہم باتوں کے دوران چسکی چسکی پیتے رہتے مگر ایک آدھ سال سے تمھاری خوش گفتاری بھی ماند پڑ گئ تھی ملاقات ہونے پر خاموشی کے وقفے طویل ہونے لگتے tomorrow land کا سفر تو تم نے میرے اور تارڑ کے ساتھ اب کرنا تھا مگر اس سے پہلے ہی تو نے ابدی سفر اختیار کر لیا اس سفر میں تمھارا ہمنوا تنہائی کے سوا کوئی بھی نہیں تنہائی کے سپرد بھی تو میں تم کو نہیں کر سکتا تم اب وہاں سب سے پہلے مہاتما بدھ سے ملنے کی تمنا کرو گے تم روح کی منتقلی پر یقینِ کامل رکھتے تھے تمھاری روح کی مجھے کوئی جستجو نہیں میں عمومی رویوں والے اس ابرار کا طلبگار ہوں جو آج سے بیس سال پہلے مجھے ملا تھا تم 2002 میں اسلام آباد کیا گۓ کہ تم اپنی الگ شناخت کی تمنا میں روز خود کشی کی جانب ایک قدم بڑھنے لگے ابرار تم جہاں بھی ہو واپس آ جاؤ تمھیں کچھ نہیں کہا جاۓ گا۔
تم نے سات سال پہلے9 جنوری 2013 کو اپنی Facebook پر یہ تحریر لکھی تھی ابدی سفر کا سب احوال تو تم نے چار دن پہلے اس تحریر کی صورت ہم بتا دیا تھا
♥ ✶*¨*. ¸ .✫*¨*.¸¸.✶*♥✶*¨*. ¸ .✫*¨*.¸¸.✶♥
Dreams are like stars, you may never touch them, But If you follow them they Will lead you to your destiny….
♥ ✶*¨*. ¸ .✫*¨*.¸¸.✶*♥✶*¨*. ¸ .✫*¨*.¸¸.✶♥
اس تحریر کو تم نے بچھڑنے سے صرف چار دن پہلے 9 جنوری 2020 کو دوبارہ Facebook کی wall پر لگایا تم خواب نگر کے مسافر تھے کھلی آنکھوں سے اُفق پار کے منظر دیکھتے تم کسی دور بہت دور کے چمکتے ستارے پر بیٹھ کر تماشاۓ اہل دنیا دیکھنے چاہتے تھے سو ستاروں کے تعاقب میں تم نے موت کو گلے سے لگایا کاش تم نے ہم کو کچھ بتایا ہوتا اب بیٹھ کر مسکراؤ اور دیکھو کہ ہم سب تمھارے لۓ ہی کہہ رہے ہیں کہ
اک تارا نہ جانے کہاں کھو گیا۔
الوداع اے دوست الوداع۔
نہیں میں تم کو الوداع نہیں کہہ سکتا آؤ پتھر آنکھوں کو ساکت کیۓ مجھے پھر سے اولیں خیر مقدمی بوسہ دو اے دوست ہمیشہ کی طرح بانہوں کو کھولے قہقہ لگاتے ہوۓ میرا سواگت کرو تم مجھے یاد آتے ہو۔
یہ بھی کیسا مضحکہ خیز خیال ہے کہ تمھارے جانے کے بعد زندگی جیسی بے ثبات شے سے اعتبار اٹھ گیا ہے میں اب بھی بلو بھائی کی کینٹین پر بیٹھا بیس سالہ رفاقت کی روح کے دھاگوں کی گرہیں کھولنے کی ناکام کوشش کر رہا ہوں مگر ایک بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ خودکشی نام کی کوئی گرہ مجھے ڈھونڈے سے بھی نہیں مل رہی۔
کاوش کا دل کرۓ ہے تقاضا کہ ہے ہنوز
ناخن پہ قرض گرہِ نیم باز کا
*
مجھ کمبخت نے کب سوچا تھا کہ تمھارا تعزیت نامہ میں لکھوں گا ہمیشہ کے لۓ بچھڑ جانے والوں کے ساتھ رفاقتوں کو ماہ و سال کے پیمانے سے ناپنا کس قدر اذیت ناک ہوتا ہے برسوں کی صحبتیں لمحوں میں سمٹ کر جان لیوا ثابت ہوتی ہیں یادوں کے سلسلے تکلم کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور آنکھوں سے نمی جاتی ہی نہیں میں بھیگی آنکھوں کو پونجھتے ہوۓ تمھارے قہقوں کی کھنک اب بھی سن رہا ہوں تم خاک کا پیوند کیا ہوۓ کہ تمھاری یادیں اور باتیں اب بوند بوند میری روح پر برس کر میری آنکھوں سے آنسوؤں کا خراج مانگتی ہیں۔
ابرار یہ اکتوبر 2000 کی ایک سنہری دوپہر تھی جب تم نے اپنے نکلتے ہوۓ ماتھے سے بال ہٹاتے ہوۓ مجھے نیو ہاسٹل کے اندر پڑے اخبار اسٹینڈ کے پاس روکتے ہوۓ کہا تھا ایک چاۓ اکٹھی پیتے ہیں اور جب بلو بھائی کے کارندے نے چاۓ کی پیالیاں ہمارے سامنے رکھیں تو اس وقت تک ہم رسمی تعارف کے خشک سمندر کو طے کر دوستی کی دلدل میں اُتر چکے تھے لیکن نہیں اب تو یوں گمان ہوتا ہے کہ بیس سال سے اسی چاۓ کی پیالی کو تھامے ہوۓ میں دوستی کے لۓ تمھارے سامنے دست سوال پھیلاۓ کھڑا ہوں کیونکہ بیس سالہ رفاقتوں کے دھاگے پر تم نے شکوک کی وہ گرہیں لگائی ہیں جو مجھ سے تو ساری عمر نہ کھل سکیں گی میں بیس سال کے بعد تمھارے حوالے سے سوالوں کی زد میں ہوں۔
تم نے ایسا کیوں کیا؟
نوکری سے تمھاری دلچسپی براۓ نام کیوں تھی؟
تم میں افسروں جیسا طنطنہ اور رعب کیوں نہ تھا؟
اگر تم یہ نہ کرتے تو پھر کیا کرتے؟
زمانہ طالب علمی میں تم قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ انٹرنیشنل ریلیشنز کے ماہنامہ گزٹ کے مدیر تھے ایک پرچے پر تم میرے لۓ یہ جملہ لکھتے وقت زیر لب مسکرا رہے تھے “پیارے عاصم کلیار کے لۓ محبتوں کے ساتھ جو نفرت کرنا بھی جانتا ہے”
میں تم کو کب پیارا تھا جھوٹے کوئی پیاروں کے ساتھ ایسا کرتا جو تم نے ہمارے ساتھ کیا۔
ایک اور پرچہ میرے سامنے کھلا پڑا ہے جس پر تم نے لکھا تھا”عاصم محمد کلیار کے لۓ جس سے میں نے دنیاداری کے چند گُر سیکھے”
اگر تم دنیادار ہوتے تو اس کمینی دنیا سے دل لگانا کونسا مشکل کام تھا تم مکروہات دنیاوی سے یوں بیزار ہوۓ کہ عین جوانی میں منوں مٹی تلے جا چھپے تم اس رسالے کا اداریہ سن گن کے عنوان سے لکھتے تھے تمھارے جانے کے بعد تمھاری موت کے بارے افواہوں کی سن گن تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہم سب دوست تمھیں بھولنے کے لۓ مرے جاتے ہیں مگر تمھاری موت کا تذکرہ ہمیں چین سے بیٹھنے ہی نہیں دیتا میں جلتی ہوئی پوروں کے ساتھ 13 جنوری 2020 کی شام کی ٹوٹی ہوئی مگر لامتناہی کہانی کی تفصیل لکھ کر اُسے ہمیشہ کے لۓ فراموش کر دینا چاہتا ہوں شام چھ کے قریب عمران ٹاوری کا مجھے فون آیا ابرار نے خود کشی کر لی ہے تصیق کے لۓ اس کی بیوی کو فون کرو اور مجھے فوراً بتاؤ میں نے تمھاری بیوی کو فون کیا وہ فون اٹھا نہیں رہی تھی پھر میں نے کانپتے ہاتھوں سے ابرار تمھارا نمبر ملایا وہ مصروف تھا تمھاری موت کے بارے شک کی گرفت ڈھیلی پڑتی جارہی تھی اور یقین کرنے کے لۓ مجھ میں حوصلہ نہ تھا میں فون کو power off کر دینا چاہتا تھا مگر اس سے پہلے ارسلان تارڑ کا فون آ گیا میں نے ڈرتے ہوۓ فون اٹھایا وہ دھاڑیں مار کر رو رہا تھا ملک عباس سے بات ہوئی تو وہ مجھ سے تمھارا شکوہ کرنے لگا فیصل مانگٹ کا فون مسلسل مصروف تھا مدثر نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا کہ کلیار یہ کیا ہوا شاھد نصیر بنی گالہ سے تمھارے گھر کی طرف روانہ ہو چکا تھا توٹتی ہوئی کہانی کی سب کڑیاں موت اور مرنے جیسے منحوس الفاظ پر ختم ہوتیں تھیں۔
اور اب کہانی کا دوسرا حصہ جو شائد کبھی ختم نہ ہو جسے قیاس کا سورج آنسوؤں کے سیلاب کے باوجود ہمیشہ جلتا رکھے گا تم نے شام تین بج کر چالیس منٹ پر اپنے دوست حسن کرتار کو یہ میسج بھیجا “انسان خود کشی اس لۓ کرتا ہے جب وہ بیزار ہو جاتا ہے اور اس کو تخلیق کی سمجھ آ جاتی ہے جب ایک سمجھدار بندہ اپنی جان لیتا ہے تو اس کی موت پر رونا نہیں کرتے اس کے فیصلے کااحترام کرتے ہوتے ہیں” تمھارے اس فیصلے کا احترام کوئی بھی نہ کر سکا اور سب دھاڑیں مارتے ہوۓ رو رہے تھے حسن شاہ کو یہ میسج کرنے کے بعد تم track suit پہن کر بہترین خوشبو لگا کر گھر سے دفتر چلے گۓ گھومنے والی کرسی پر بیٹھ کر تم نے آنکھیں بند کر کے کچھ دیر کے لۓ سوچا ہو گا ماں اور بچوں کے چہرے تمھارے سامنے گھومنے لگے ہوں گے تم نے آنکھیں کھول کر اُن کے چہروں کو سوچ کے پردے سے جھٹک دیا ہو گا سامنے لگے بورڈ پر تمھارا نام سب سے نیچے درج ہو گا بطور افسر اس دفتر میں تمھارے آنے کی تاریخ 19 جنوری 2019 اس بورڈ درج ہو گی مگر تبادلے سے پہلے ہی جانے کی تاریخ کو تم اپنے ہی ہاتھوں اپنے ہی خون سے لکھ گۓ تم نے سامنے رکھے کاغذ کے ٹکڑے پر ماں سے معافی کی درخواست کی اور بیوی بچوں کا خیال رکھنے کے لۓ لکھا کچھ دوست بھی اس وقت تمھارے پردہ خیال پر نمودار ہوۓ ہوں گے تم نے قہقہ لگا کر سب کو فراموش کرنے کی کوشش ہو گی درآز سے پستول نکال کر میز پر رکھا ہو گا تم نے یہ گانا بھی سننا چاہا ہو گا۔
اور کوئی حل نہیں
چین اک پل نہیں
روات پولیس ٹریننگ سینٹر کی پرنسپل کی کرسی پر کندھے جھکاۓ ابرار حسین نیکوکارہ کی پیشانی پر سوچ کی لکیروں کے خطوط ابھرنے لگے ہوں گے سوچ کے سب راستے تم نے تخلیق کے ساتھ موت سے وابستہ کر لۓ تھے اور اس وقت شام کے ساۓ رات کی چادر میں چھپ رہے تھے گھڑی کی سوئی مسلسل دوڑ رہی تھی تم نے پستول کو کنپٹی پر رکھا اور پھر ۔۔۔۔۔۔ ٹی۔وی پر فیتہ چلنے لگا ایک اور افسر نے موت کو گلے سے لگا لیا ایس۔پی ابرار حسین نیکوکارہ نے گھریلو تنازعات کی وجہ سے خود کشی کر لی۔
موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروت
لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خودکشی کے بارے میں
اب گمان ہوتا ہے کہ اس کشش نے تو کئ بار تمھارے دامن دل کو کھینچا اس سے بچنے کے لۓ کبھی تم نے پھولوں اور درختوں میں پناہ لی کبھی رنگوں سے جی کو بہلایا اور کبھی موسیقی کی دھنوں میں تم نے اپنے آپ کو سمیٹنے کی کوشش کی مگر اب کی بار تم یوں بکھرے کہ تم کو سمیٹنے کے لۓ ہمیں تابوت کا سہارا لینا پڑا تمھاری زندگی ہمارے لۓ اہم تھی وہ اس طرح سے رائیگاں جاۓ گی یہ تو ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا تم نے اپنی ملازمت کے دوران میرے تو کئ کام out of the way جا کر کیۓ۔
حسابِ دوستاں در دل
نیو ہاسٹل کے میگزین پطرس کے لۓ مجھے مدیر منتخب کیا گیا میں نے نائب مدیر کے لۓ شاھد نصیر کو تم پر ترجیح دی نہ تم اس چوٹ کو بھولے اور نہ شاھد نے مجھے چین سے بیٹھنا دیا مگر تم نے بدلہ بھی لیا تو کیسے خوف کے نام سے افسانہ لکھ کر پرچے کی اشاعت کو ہی التوا میں ڈال دیا افسانے کا ہیرو افروز حاملہ ہو جاتا ہے اور وہ خود کشی کے بارے سوچنے لگتا ہے۔۔۔۔۔ خود کشی۔
میں تمھاری آخری فرمائش بھی پوری نہ کر سکا کچھ روز قبل میں نے نجیب محفوظ کے ناول کا فہمیدہ ریاض کے کیے ہوۓ ترجمے پر ریویو لکھا تھا اس کے پڑھنے کے بعد تم نے کتاب کی فرمائش کی وہ کتاب میں نے خرید کر رکھ لی تھی کہ جب اسلام أباد جاؤں گا تم تک پہنچ جاۓ گی مجھے کیا خبر تھی کہ ہمارا ابن کسی اور منزل کا راہی ہونے والا ہے اب وہ کتاب ساری عمر میرے سینے پر اک داغ کی صورت میری لائبریری میں محفوظ رہے گی اب تمھاری یاد کے داغ بھی مجھے عزیز لگ رہے ہیں سینکڑوں بار تم میرے گھر ٹھہرے میرے گھر سے وابستہ ہر شے سے تمھاری یاد جڑی ہے مجھے اب گھر میں بھی چین نہ آۓ تو میں کدھر جاؤں۔
چمکتے تاروں تلے ہم مدھر سروں کو سنتے ہوۓ گاہے گاہے گلاسوں کو آتشِ سیال سے بھر لیتے پھر تم خوب بولتے اور ہم تمھارے نت نۓ فلسفوں کو سن کر کبھی بور بھی ہو جاتے مدھر سروں کی جگہ جب مشرق و مغرب کے شوخ گانے بجنے لگتے تو ہم نیم مدھم روشنیوں میں گھنٹوں محوِ رقص رہتے ایک بار ہم دونوں نیو ہاسٹل سے نکل کر کانپتی ٹانگوں سمیت جب بادشاہی مسجد کے ساتھ تنگ زینے طے کر کے اوپر پہنچے تو سواۓ مایوسی کے اور وہاں کچھ نہ تھا اس گلی کا راستہ ہمیں چاچا نذیر نے بتایا تھا۔
اک چند روزہ سفر یاد کی دیوار پر یوں چسپاں ہے جیسے اب میری نم آنکھوں میں تمھارا عکس ہے ہند تا سند ہمارے پیروں تلے تھا کالیداس کو اسی سفر میں تم نے زبردستی پینے پر مجبور کیا تھا کالیداس کو تم نے ہی زندگی میں پہلی بار کتاب خریدنے پر بھی مجبور کیا تھا ککو رام جی جیسے دلچسپ آدمی سے ملاقات بھی اسی سفر میں ہوئی تھی بطور خاص میرے لئے تم فضیلت والی چاۓ بنواتے جو ہم باتوں کے دوران چسکی چسکی پیتے رہتے مگر ایک آدھ سال سے تمھاری خوش گفتاری بھی ماند پڑ گئ تھی ملاقات ہونے پر خاموشی کے وقفے طویل ہونے لگتے tomorrow land کا سفر تو تم نے میرے اور تارڑ کے ساتھ اب کرنا تھا مگر اس سے پہلے ہی تو نے ابدی سفر اختیار کر لیا اس سفر میں تمھارا ہمنوا تنہائی کے سوا کوئی بھی نہیں تنہائی کے سپرد بھی تو میں تم کو نہیں کر سکتا تم اب وہاں سب سے پہلے مہاتما بدھ سے ملنے کی تمنا کرو گے تم روح کی منتقلی پر یقینِ کامل رکھتے تھے تمھاری روح کی مجھے کوئی جستجو نہیں میں عمومی رویوں والے اس ابرار کا طلبگار ہوں جو آج سے بیس سال پہلے مجھے ملا تھا تم 2002 میں اسلام آباد کیا گۓ کہ تم اپنی الگ شناخت کی تمنا میں روز خود کشی کی جانب ایک قدم بڑھنے لگے ابرار تم جہاں بھی ہو واپس آ جاؤ تمھیں کچھ نہیں کہا جاۓ گا۔
تم نے سات سال پہلے9 جنوری 2013 کو اپنی Facebook پر یہ تحریر لکھی تھی ابدی سفر کا سب احوال تو تم نے چار دن پہلے اس تحریر کی صورت ہم بتا دیا تھا
♥ ✶*¨*. ¸ .✫*¨*.¸¸.✶*♥✶*¨*. ¸ .✫*¨*.¸¸.✶♥
Dreams are like stars, you may never touch them, But If you follow them they Will lead you to your destiny….
♥ ✶*¨*. ¸ .✫*¨*.¸¸.✶*♥✶*¨*. ¸ .✫*¨*.¸¸.✶♥
اس تحریر کو تم نے بچھڑنے سے صرف چار دن پہلے 9 جنوری 2020 کو دوبارہ Facebook کی wall پر لگایا تم خواب نگر کے مسافر تھے کھلی آنکھوں سے اُفق پار کے منظر دیکھتے تم کسی دور بہت دور کے چمکتے ستارے پر بیٹھ کر تماشاۓ اہل دنیا دیکھنے چاہتے تھے سو ستاروں کے تعاقب میں تم نے موت کو گلے سے لگایا کاش تم نے ہم کو کچھ بتایا ہوتا اب بیٹھ کر مسکراؤ اور دیکھو کہ ہم سب تمھارے لۓ ہی کہہ رہے ہیں کہ
اک تارا نہ جانے کہاں کھو گیا۔
الوداع اے دوست الوداع۔
نہیں میں تم کو الوداع نہیں کہہ سکتا آؤ پتھر آنکھوں کو ساکت کیۓ مجھے پھر سے اولیں خیر مقدمی بوسہ دو اے دوست ہمیشہ کی طرح بانہوں کو کھولے قہقہ لگاتے ہوۓ میرا سواگت کرو تم مجھے یاد آتے ہو۔
یہ بھی کیسا مضحکہ خیز خیال ہے کہ تمھارے جانے کے بعد زندگی جیسی بے ثبات شے سے اعتبار اٹھ گیا ہے میں اب بھی بلو بھائی کی کینٹین پر بیٹھا بیس سالہ رفاقت کی روح کے دھاگوں کی گرہیں کھولنے کی ناکام کوشش کر رہا ہوں مگر ایک بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ خودکشی نام کی کوئی گرہ مجھے ڈھونڈے سے بھی نہیں مل رہی۔
کاوش کا دل کرۓ ہے تقاضا کہ ہے ہنوز
ناخن پہ قرض گرہِ نیم باز کا
*