Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
!دوستو
لاہور جیسے شہرِ بے مثال کے بارے میری گواہی کی حثیت ہی کیا ہے۔.
مگر آسمانوں پر چاند ٹانکنے والے اُردو ادب کے بے مثال لکھاری شمس الرحمنٰ فاروقی نے اس کتاب کے حوالے سے مصنف کے بارے کچھ یوں راۓ دی ہے کہ ہم سب کو محمود الحسن کا شکر گزار ہونا چاہیے اور صاحبو ہم محمود کے شکر گزار کیوں نہ ہوں جس نے لاہور شہر کے تین با کمال شہریوں کرشن چندر،راجند سنگھ بیدی اور کہنیا لال کپور کی اس شہرِ لازوال سے وابستہ منتشر یادوں کی بازگشت کو ماضی سے حال میں بدلتے ہوۓ اس ثقافتی شہر کا تہذیبی نوحہ بھی ساتھ ہی لکھ ڈالا ہے۔
شہر اپنے مکینوں کو نجانے کس ادا سے یاد کرتے ہیں مجنوں کے مرنے سے تو جنگل سا ویرانہ بھی اُداس ہو گیا تھا مگر نقل مکانی اختیار والے چھوڑے ہوۓ شہروں کو برسوں بعد بھی چشم تصور سے دیکھ کر شاد ہونے کی بجاۓ صرف آہیں بھرتے ہیں زندگی کی شام میں جب سایوں کے گھٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو بچھڑے ہوۓ دیار دامنِ دل کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔
کرشن چندر نے ہجرت کے برسوں بعد لاہور شہر کے بارے لکھا تھا وہ میرا سدا جگمگاتا ہوا فانوس بدن شہر اپنی لافانی جوانی کے لۓ مشہور ہے ۔۔۔زندگی کی اس شام میں میری یہ بڑی آرزو ہے کہ میں لاہور جاؤں۔
داتا کی نگری نے جب بمبئ میں برسوں رہنے کے باوجود کرشن چندر کے خوابوں خیالوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور دور بہت دور سمندر پار سے لوہاری گیٹ کے اندر متی چوک کے کوچہ شیرازی کی ایک گلی نے جب کرشن جی کو پکارا تو “دو فرلانگ لمبی سڑک” اور “لاہور کی گلیاں” یادوں سے افسانے کا روپ لیتی ہیں یہ پریم نگر بھی بہت بے وفا ہوتے ہیں جن کوچوں میں انسان عمر گزارنا چاہتا ہو وہ آپ کو اپنی دید سے بھی محروم رکھتے ہیں ایک شخص پورے شہر کی تہذیب کا بوجھ تو اٹھا سکتا ہے مگر کوئی بھی شہر صرف ایک شخص کی نمائندگی نہیں کرتا۔
احمد راہی کی پنجابی شاعری کی کتاب ترنجن جب کرشن چندر کو موصول ہوئی تو انہوں نے پنجابی میں ایک خط راہی صاحب کو لکھا جس میں ترنجن کے ذریعے انہوں دیس پنجاب اور لاہور شہر کے دوستوں کا ذکر کیا ہے کرشن چندر نے شاہد اپنی پوری زندگی میں صرف یہی ایک خط پنجابی میں لکھا ہو گا مگر محمود نے اس پنجابی خط کے علاوہ کرشن جی کا آخری خط بھی ڈھونڈ نکالا ہے جس میں تخاطب شہر لاہور سے ہے اور لکھا احمد ندیم قاسمی کے نام گیا ہے۔
کرشن چندر نے لاہور سے وابستہ اپنی منتشر یادوں میں لفظوں سے جو زندہ تصویریں کھینچیں محمود الحسن نے انہی تصویروں کو جوڑ کر شہرِ پرُ کمال کے نام سے ایک متحرک فلم بنادی ہے اور کرشن چندر کے حوالے سے لاہور شہر کے باسیوں سے گلہ بھی کیا ہے کہ دو فرلانگ لمبی سڑک جیسے لازوال افسانے میں کرشن چندر نے لاہور کی جس سڑک کو موضوع بنایا ہے اس کو اب تک کرشن چندر کے نام سے ہم نے منسوب نہیں کیا مگر احباب با اختیار کیا جانے کہ جب شہر لاہور گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ تھا تو اس وقت اسی دو فرلانگ لمبی سڑک سے ذرا آگے پریت لڑی اور سنگم پبلشرز کا دفتر تھا سنگم کے کرتا دھرتا کوئی اور نہیں بلکہ اُردو کے انمول کہانی کار راجندر سنگھ بیدی تھے بیدی کو ہر حالت میں زندگی کے ساتھ نبھاہ کرنے کا سلیقہ آتا تھا وہ دس سال تک لاہور کے ڈاکخانے میں بیٹھ کر لفافوں پر مہریں لگاتے ہوۓ شکم کی آگ بجھاتے رہے زندگی نے آخری سانس تک اُن سے بےاعتنائی کا رویہ اختیار رکھا زندگی کے سب موسم دیکھنے اور نشیب و فراز سے گزرنے کے باوجود بیدی نے کہا عشق کے لۓ لاہور سے بہتر دنیا میں کوئی اور جگہ نہیں لاہور شہر سے بیدی کی جذباتی وابستگی ان کی کئ کہانیوں میں در آئی ہے بیدی نے جن کہانیوں میں لاہور کو موضوع سخن بنایا ہے محمود نے اُن کی نشاندہی بھی کتاب میں کر دی ہے۔
شہر لاہور کو خود اپنے ایک شہری پر ہمیشہ ناز رہے گا اور وہ شہری درویش صفت ڈاکٹر نذیر کے سوا بھلا اور کون ہو سکتا ہے ڈاکٹر نذیر کا شمار بیدی کے انتہائی قریبی دوستوں میں ہوتا تھا تقسیم کے بعد ڍاکٹر نذیر بیدی سے ملنے اکثر بمبئ جاتے رہتے اور لاہور کی تلے والی جوتی ہمیشہ بیدی کے لۓ بطور تحفہ ساتھ لے جاتے لاہور کی محبت میں بیدی اس سوغات کو مہابھارت کے ایک کردار دروپدی کے نام سے یاد کرتے بقول شاعر
پاپوش میں لگا دی کرن آفتاب کی
کرشن چندر کی دو فرلانگ لمبی سڑک پر موجود گورنمنٹ کالج لاہور کا ٹاور کئ داستانوں کا نہ صرف امین ہے بلکہ وہ کہی اور ان کہی کہانیوں کا راوی بھی ہے گورنمنٹ کالج کی راہداریوں میں انگریزی کے ہردلعزیز پروفیسر اور اردو کے بےمثال لکھاری کنھیا لال کپور کے قہقہوں کی بازگشت چشم تصور اب بھی سنی جا سکتی ہے مگر تقسیم کی صورت دیس نکالے پر مجبور ہونے کے بعد انہوں نے لاہور کو یاد کرتے ہوۓ لکھا تھا لاہور کا تصور کرتے ہی دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے اور بے اختیار زبان پر ناسخ کا یہ شعر آ جاتا ہے
وہ نہیں بھولتا ، جہاں جاؤں
ہاۓ میں کیا کیا کروں، کہاں جاؤں
محمود الحسن کی کتاب میں شامل کنھیا لال کپور کے بارے مضمون پڑھتے ہوۓ مجھے مئ 1998 میں انڈیا ٹوڈے میں چھپنے والی یہ خبر یاد آئی
Pakistan may not have a nuclear weapon, but they do have Ahmad Faraz. And India can’t produce one, no matter how hard it tries
کنھیا لال کپور نے لاہور جیسے تہذیبی و ثقافتی مرکز سے نکلنے کے بعد ساری عمر موگا نامی نیم قصباتی شہر میں رہنے کی توجیح انڈیا ٹوڈے میں چھپنے والی اس خبر سے مدتوں پہلے پیش کرتے ہوۓ کہا تھا کہ جب تک ہندونستان لاہور کا ثانی پیدا نہیں کرتا میرے لۓ ہندونستان کے تمام شہر اور قصبے برابر ہیں نہ ہندونستان لاہور جیسا شہر پیدا کر سکا اور نہ ہی کنھیا لال موگا کو خیر باد کہہ سکے۔
خدا کرے کہ اس شہرِ پرُ کمال کی رونقیں دائم آباد رہیں بقول عصمت چغتائی کہ لاہور آج بھی ویس ہی شاداب،قہقے لگاتے ہوا بانہیں پھیلا کر آنے والوں کو سمیٹ لینے والا ٹوٹ کر چاہنے والے بے تکلف زندہ دلوں کا شہر۔۔۔لاہور کتنا سلونا لفظ ہے۔۔۔لاہور کی ہوا میں نور گھلا ہے۔
!دوستو
لاہور جیسے شہرِ بے مثال کے بارے میری گواہی کی حثیت ہی کیا ہے۔.
مگر آسمانوں پر چاند ٹانکنے والے اُردو ادب کے بے مثال لکھاری شمس الرحمنٰ فاروقی نے اس کتاب کے حوالے سے مصنف کے بارے کچھ یوں راۓ دی ہے کہ ہم سب کو محمود الحسن کا شکر گزار ہونا چاہیے اور صاحبو ہم محمود کے شکر گزار کیوں نہ ہوں جس نے لاہور شہر کے تین با کمال شہریوں کرشن چندر،راجند سنگھ بیدی اور کہنیا لال کپور کی اس شہرِ لازوال سے وابستہ منتشر یادوں کی بازگشت کو ماضی سے حال میں بدلتے ہوۓ اس ثقافتی شہر کا تہذیبی نوحہ بھی ساتھ ہی لکھ ڈالا ہے۔
شہر اپنے مکینوں کو نجانے کس ادا سے یاد کرتے ہیں مجنوں کے مرنے سے تو جنگل سا ویرانہ بھی اُداس ہو گیا تھا مگر نقل مکانی اختیار والے چھوڑے ہوۓ شہروں کو برسوں بعد بھی چشم تصور سے دیکھ کر شاد ہونے کی بجاۓ صرف آہیں بھرتے ہیں زندگی کی شام میں جب سایوں کے گھٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو بچھڑے ہوۓ دیار دامنِ دل کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔
کرشن چندر نے ہجرت کے برسوں بعد لاہور شہر کے بارے لکھا تھا وہ میرا سدا جگمگاتا ہوا فانوس بدن شہر اپنی لافانی جوانی کے لۓ مشہور ہے ۔۔۔زندگی کی اس شام میں میری یہ بڑی آرزو ہے کہ میں لاہور جاؤں۔
داتا کی نگری نے جب بمبئ میں برسوں رہنے کے باوجود کرشن چندر کے خوابوں خیالوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور دور بہت دور سمندر پار سے لوہاری گیٹ کے اندر متی چوک کے کوچہ شیرازی کی ایک گلی نے جب کرشن جی کو پکارا تو “دو فرلانگ لمبی سڑک” اور “لاہور کی گلیاں” یادوں سے افسانے کا روپ لیتی ہیں یہ پریم نگر بھی بہت بے وفا ہوتے ہیں جن کوچوں میں انسان عمر گزارنا چاہتا ہو وہ آپ کو اپنی دید سے بھی محروم رکھتے ہیں ایک شخص پورے شہر کی تہذیب کا بوجھ تو اٹھا سکتا ہے مگر کوئی بھی شہر صرف ایک شخص کی نمائندگی نہیں کرتا۔
احمد راہی کی پنجابی شاعری کی کتاب ترنجن جب کرشن چندر کو موصول ہوئی تو انہوں نے پنجابی میں ایک خط راہی صاحب کو لکھا جس میں ترنجن کے ذریعے انہوں دیس پنجاب اور لاہور شہر کے دوستوں کا ذکر کیا ہے کرشن چندر نے شاہد اپنی پوری زندگی میں صرف یہی ایک خط پنجابی میں لکھا ہو گا مگر محمود نے اس پنجابی خط کے علاوہ کرشن جی کا آخری خط بھی ڈھونڈ نکالا ہے جس میں تخاطب شہر لاہور سے ہے اور لکھا احمد ندیم قاسمی کے نام گیا ہے۔
کرشن چندر نے لاہور سے وابستہ اپنی منتشر یادوں میں لفظوں سے جو زندہ تصویریں کھینچیں محمود الحسن نے انہی تصویروں کو جوڑ کر شہرِ پرُ کمال کے نام سے ایک متحرک فلم بنادی ہے اور کرشن چندر کے حوالے سے لاہور شہر کے باسیوں سے گلہ بھی کیا ہے کہ دو فرلانگ لمبی سڑک جیسے لازوال افسانے میں کرشن چندر نے لاہور کی جس سڑک کو موضوع بنایا ہے اس کو اب تک کرشن چندر کے نام سے ہم نے منسوب نہیں کیا مگر احباب با اختیار کیا جانے کہ جب شہر لاہور گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ تھا تو اس وقت اسی دو فرلانگ لمبی سڑک سے ذرا آگے پریت لڑی اور سنگم پبلشرز کا دفتر تھا سنگم کے کرتا دھرتا کوئی اور نہیں بلکہ اُردو کے انمول کہانی کار راجندر سنگھ بیدی تھے بیدی کو ہر حالت میں زندگی کے ساتھ نبھاہ کرنے کا سلیقہ آتا تھا وہ دس سال تک لاہور کے ڈاکخانے میں بیٹھ کر لفافوں پر مہریں لگاتے ہوۓ شکم کی آگ بجھاتے رہے زندگی نے آخری سانس تک اُن سے بےاعتنائی کا رویہ اختیار رکھا زندگی کے سب موسم دیکھنے اور نشیب و فراز سے گزرنے کے باوجود بیدی نے کہا عشق کے لۓ لاہور سے بہتر دنیا میں کوئی اور جگہ نہیں لاہور شہر سے بیدی کی جذباتی وابستگی ان کی کئ کہانیوں میں در آئی ہے بیدی نے جن کہانیوں میں لاہور کو موضوع سخن بنایا ہے محمود نے اُن کی نشاندہی بھی کتاب میں کر دی ہے۔
شہر لاہور کو خود اپنے ایک شہری پر ہمیشہ ناز رہے گا اور وہ شہری درویش صفت ڈاکٹر نذیر کے سوا بھلا اور کون ہو سکتا ہے ڈاکٹر نذیر کا شمار بیدی کے انتہائی قریبی دوستوں میں ہوتا تھا تقسیم کے بعد ڍاکٹر نذیر بیدی سے ملنے اکثر بمبئ جاتے رہتے اور لاہور کی تلے والی جوتی ہمیشہ بیدی کے لۓ بطور تحفہ ساتھ لے جاتے لاہور کی محبت میں بیدی اس سوغات کو مہابھارت کے ایک کردار دروپدی کے نام سے یاد کرتے بقول شاعر
پاپوش میں لگا دی کرن آفتاب کی
کرشن چندر کی دو فرلانگ لمبی سڑک پر موجود گورنمنٹ کالج لاہور کا ٹاور کئ داستانوں کا نہ صرف امین ہے بلکہ وہ کہی اور ان کہی کہانیوں کا راوی بھی ہے گورنمنٹ کالج کی راہداریوں میں انگریزی کے ہردلعزیز پروفیسر اور اردو کے بےمثال لکھاری کنھیا لال کپور کے قہقہوں کی بازگشت چشم تصور اب بھی سنی جا سکتی ہے مگر تقسیم کی صورت دیس نکالے پر مجبور ہونے کے بعد انہوں نے لاہور کو یاد کرتے ہوۓ لکھا تھا لاہور کا تصور کرتے ہی دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے اور بے اختیار زبان پر ناسخ کا یہ شعر آ جاتا ہے
وہ نہیں بھولتا ، جہاں جاؤں
ہاۓ میں کیا کیا کروں، کہاں جاؤں
محمود الحسن کی کتاب میں شامل کنھیا لال کپور کے بارے مضمون پڑھتے ہوۓ مجھے مئ 1998 میں انڈیا ٹوڈے میں چھپنے والی یہ خبر یاد آئی
Pakistan may not have a nuclear weapon, but they do have Ahmad Faraz. And India can’t produce one, no matter how hard it tries
کنھیا لال کپور نے لاہور جیسے تہذیبی و ثقافتی مرکز سے نکلنے کے بعد ساری عمر موگا نامی نیم قصباتی شہر میں رہنے کی توجیح انڈیا ٹوڈے میں چھپنے والی اس خبر سے مدتوں پہلے پیش کرتے ہوۓ کہا تھا کہ جب تک ہندونستان لاہور کا ثانی پیدا نہیں کرتا میرے لۓ ہندونستان کے تمام شہر اور قصبے برابر ہیں نہ ہندونستان لاہور جیسا شہر پیدا کر سکا اور نہ ہی کنھیا لال موگا کو خیر باد کہہ سکے۔
خدا کرے کہ اس شہرِ پرُ کمال کی رونقیں دائم آباد رہیں بقول عصمت چغتائی کہ لاہور آج بھی ویس ہی شاداب،قہقے لگاتے ہوا بانہیں پھیلا کر آنے والوں کو سمیٹ لینے والا ٹوٹ کر چاہنے والے بے تکلف زندہ دلوں کا شہر۔۔۔لاہور کتنا سلونا لفظ ہے۔۔۔لاہور کی ہوا میں نور گھلا ہے۔
!دوستو
لاہور جیسے شہرِ بے مثال کے بارے میری گواہی کی حثیت ہی کیا ہے۔.
مگر آسمانوں پر چاند ٹانکنے والے اُردو ادب کے بے مثال لکھاری شمس الرحمنٰ فاروقی نے اس کتاب کے حوالے سے مصنف کے بارے کچھ یوں راۓ دی ہے کہ ہم سب کو محمود الحسن کا شکر گزار ہونا چاہیے اور صاحبو ہم محمود کے شکر گزار کیوں نہ ہوں جس نے لاہور شہر کے تین با کمال شہریوں کرشن چندر،راجند سنگھ بیدی اور کہنیا لال کپور کی اس شہرِ لازوال سے وابستہ منتشر یادوں کی بازگشت کو ماضی سے حال میں بدلتے ہوۓ اس ثقافتی شہر کا تہذیبی نوحہ بھی ساتھ ہی لکھ ڈالا ہے۔
شہر اپنے مکینوں کو نجانے کس ادا سے یاد کرتے ہیں مجنوں کے مرنے سے تو جنگل سا ویرانہ بھی اُداس ہو گیا تھا مگر نقل مکانی اختیار والے چھوڑے ہوۓ شہروں کو برسوں بعد بھی چشم تصور سے دیکھ کر شاد ہونے کی بجاۓ صرف آہیں بھرتے ہیں زندگی کی شام میں جب سایوں کے گھٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو بچھڑے ہوۓ دیار دامنِ دل کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔
کرشن چندر نے ہجرت کے برسوں بعد لاہور شہر کے بارے لکھا تھا وہ میرا سدا جگمگاتا ہوا فانوس بدن شہر اپنی لافانی جوانی کے لۓ مشہور ہے ۔۔۔زندگی کی اس شام میں میری یہ بڑی آرزو ہے کہ میں لاہور جاؤں۔
داتا کی نگری نے جب بمبئ میں برسوں رہنے کے باوجود کرشن چندر کے خوابوں خیالوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور دور بہت دور سمندر پار سے لوہاری گیٹ کے اندر متی چوک کے کوچہ شیرازی کی ایک گلی نے جب کرشن جی کو پکارا تو “دو فرلانگ لمبی سڑک” اور “لاہور کی گلیاں” یادوں سے افسانے کا روپ لیتی ہیں یہ پریم نگر بھی بہت بے وفا ہوتے ہیں جن کوچوں میں انسان عمر گزارنا چاہتا ہو وہ آپ کو اپنی دید سے بھی محروم رکھتے ہیں ایک شخص پورے شہر کی تہذیب کا بوجھ تو اٹھا سکتا ہے مگر کوئی بھی شہر صرف ایک شخص کی نمائندگی نہیں کرتا۔
احمد راہی کی پنجابی شاعری کی کتاب ترنجن جب کرشن چندر کو موصول ہوئی تو انہوں نے پنجابی میں ایک خط راہی صاحب کو لکھا جس میں ترنجن کے ذریعے انہوں دیس پنجاب اور لاہور شہر کے دوستوں کا ذکر کیا ہے کرشن چندر نے شاہد اپنی پوری زندگی میں صرف یہی ایک خط پنجابی میں لکھا ہو گا مگر محمود نے اس پنجابی خط کے علاوہ کرشن جی کا آخری خط بھی ڈھونڈ نکالا ہے جس میں تخاطب شہر لاہور سے ہے اور لکھا احمد ندیم قاسمی کے نام گیا ہے۔
کرشن چندر نے لاہور سے وابستہ اپنی منتشر یادوں میں لفظوں سے جو زندہ تصویریں کھینچیں محمود الحسن نے انہی تصویروں کو جوڑ کر شہرِ پرُ کمال کے نام سے ایک متحرک فلم بنادی ہے اور کرشن چندر کے حوالے سے لاہور شہر کے باسیوں سے گلہ بھی کیا ہے کہ دو فرلانگ لمبی سڑک جیسے لازوال افسانے میں کرشن چندر نے لاہور کی جس سڑک کو موضوع بنایا ہے اس کو اب تک کرشن چندر کے نام سے ہم نے منسوب نہیں کیا مگر احباب با اختیار کیا جانے کہ جب شہر لاہور گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ تھا تو اس وقت اسی دو فرلانگ لمبی سڑک سے ذرا آگے پریت لڑی اور سنگم پبلشرز کا دفتر تھا سنگم کے کرتا دھرتا کوئی اور نہیں بلکہ اُردو کے انمول کہانی کار راجندر سنگھ بیدی تھے بیدی کو ہر حالت میں زندگی کے ساتھ نبھاہ کرنے کا سلیقہ آتا تھا وہ دس سال تک لاہور کے ڈاکخانے میں بیٹھ کر لفافوں پر مہریں لگاتے ہوۓ شکم کی آگ بجھاتے رہے زندگی نے آخری سانس تک اُن سے بےاعتنائی کا رویہ اختیار رکھا زندگی کے سب موسم دیکھنے اور نشیب و فراز سے گزرنے کے باوجود بیدی نے کہا عشق کے لۓ لاہور سے بہتر دنیا میں کوئی اور جگہ نہیں لاہور شہر سے بیدی کی جذباتی وابستگی ان کی کئ کہانیوں میں در آئی ہے بیدی نے جن کہانیوں میں لاہور کو موضوع سخن بنایا ہے محمود نے اُن کی نشاندہی بھی کتاب میں کر دی ہے۔
شہر لاہور کو خود اپنے ایک شہری پر ہمیشہ ناز رہے گا اور وہ شہری درویش صفت ڈاکٹر نذیر کے سوا بھلا اور کون ہو سکتا ہے ڈاکٹر نذیر کا شمار بیدی کے انتہائی قریبی دوستوں میں ہوتا تھا تقسیم کے بعد ڍاکٹر نذیر بیدی سے ملنے اکثر بمبئ جاتے رہتے اور لاہور کی تلے والی جوتی ہمیشہ بیدی کے لۓ بطور تحفہ ساتھ لے جاتے لاہور کی محبت میں بیدی اس سوغات کو مہابھارت کے ایک کردار دروپدی کے نام سے یاد کرتے بقول شاعر
پاپوش میں لگا دی کرن آفتاب کی
کرشن چندر کی دو فرلانگ لمبی سڑک پر موجود گورنمنٹ کالج لاہور کا ٹاور کئ داستانوں کا نہ صرف امین ہے بلکہ وہ کہی اور ان کہی کہانیوں کا راوی بھی ہے گورنمنٹ کالج کی راہداریوں میں انگریزی کے ہردلعزیز پروفیسر اور اردو کے بےمثال لکھاری کنھیا لال کپور کے قہقہوں کی بازگشت چشم تصور اب بھی سنی جا سکتی ہے مگر تقسیم کی صورت دیس نکالے پر مجبور ہونے کے بعد انہوں نے لاہور کو یاد کرتے ہوۓ لکھا تھا لاہور کا تصور کرتے ہی دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے اور بے اختیار زبان پر ناسخ کا یہ شعر آ جاتا ہے
وہ نہیں بھولتا ، جہاں جاؤں
ہاۓ میں کیا کیا کروں، کہاں جاؤں
محمود الحسن کی کتاب میں شامل کنھیا لال کپور کے بارے مضمون پڑھتے ہوۓ مجھے مئ 1998 میں انڈیا ٹوڈے میں چھپنے والی یہ خبر یاد آئی
Pakistan may not have a nuclear weapon, but they do have Ahmad Faraz. And India can’t produce one, no matter how hard it tries
کنھیا لال کپور نے لاہور جیسے تہذیبی و ثقافتی مرکز سے نکلنے کے بعد ساری عمر موگا نامی نیم قصباتی شہر میں رہنے کی توجیح انڈیا ٹوڈے میں چھپنے والی اس خبر سے مدتوں پہلے پیش کرتے ہوۓ کہا تھا کہ جب تک ہندونستان لاہور کا ثانی پیدا نہیں کرتا میرے لۓ ہندونستان کے تمام شہر اور قصبے برابر ہیں نہ ہندونستان لاہور جیسا شہر پیدا کر سکا اور نہ ہی کنھیا لال موگا کو خیر باد کہہ سکے۔
خدا کرے کہ اس شہرِ پرُ کمال کی رونقیں دائم آباد رہیں بقول عصمت چغتائی کہ لاہور آج بھی ویس ہی شاداب،قہقے لگاتے ہوا بانہیں پھیلا کر آنے والوں کو سمیٹ لینے والا ٹوٹ کر چاہنے والے بے تکلف زندہ دلوں کا شہر۔۔۔لاہور کتنا سلونا لفظ ہے۔۔۔لاہور کی ہوا میں نور گھلا ہے۔
!دوستو
لاہور جیسے شہرِ بے مثال کے بارے میری گواہی کی حثیت ہی کیا ہے۔.
مگر آسمانوں پر چاند ٹانکنے والے اُردو ادب کے بے مثال لکھاری شمس الرحمنٰ فاروقی نے اس کتاب کے حوالے سے مصنف کے بارے کچھ یوں راۓ دی ہے کہ ہم سب کو محمود الحسن کا شکر گزار ہونا چاہیے اور صاحبو ہم محمود کے شکر گزار کیوں نہ ہوں جس نے لاہور شہر کے تین با کمال شہریوں کرشن چندر،راجند سنگھ بیدی اور کہنیا لال کپور کی اس شہرِ لازوال سے وابستہ منتشر یادوں کی بازگشت کو ماضی سے حال میں بدلتے ہوۓ اس ثقافتی شہر کا تہذیبی نوحہ بھی ساتھ ہی لکھ ڈالا ہے۔
شہر اپنے مکینوں کو نجانے کس ادا سے یاد کرتے ہیں مجنوں کے مرنے سے تو جنگل سا ویرانہ بھی اُداس ہو گیا تھا مگر نقل مکانی اختیار والے چھوڑے ہوۓ شہروں کو برسوں بعد بھی چشم تصور سے دیکھ کر شاد ہونے کی بجاۓ صرف آہیں بھرتے ہیں زندگی کی شام میں جب سایوں کے گھٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو بچھڑے ہوۓ دیار دامنِ دل کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔
کرشن چندر نے ہجرت کے برسوں بعد لاہور شہر کے بارے لکھا تھا وہ میرا سدا جگمگاتا ہوا فانوس بدن شہر اپنی لافانی جوانی کے لۓ مشہور ہے ۔۔۔زندگی کی اس شام میں میری یہ بڑی آرزو ہے کہ میں لاہور جاؤں۔
داتا کی نگری نے جب بمبئ میں برسوں رہنے کے باوجود کرشن چندر کے خوابوں خیالوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور دور بہت دور سمندر پار سے لوہاری گیٹ کے اندر متی چوک کے کوچہ شیرازی کی ایک گلی نے جب کرشن جی کو پکارا تو “دو فرلانگ لمبی سڑک” اور “لاہور کی گلیاں” یادوں سے افسانے کا روپ لیتی ہیں یہ پریم نگر بھی بہت بے وفا ہوتے ہیں جن کوچوں میں انسان عمر گزارنا چاہتا ہو وہ آپ کو اپنی دید سے بھی محروم رکھتے ہیں ایک شخص پورے شہر کی تہذیب کا بوجھ تو اٹھا سکتا ہے مگر کوئی بھی شہر صرف ایک شخص کی نمائندگی نہیں کرتا۔
احمد راہی کی پنجابی شاعری کی کتاب ترنجن جب کرشن چندر کو موصول ہوئی تو انہوں نے پنجابی میں ایک خط راہی صاحب کو لکھا جس میں ترنجن کے ذریعے انہوں دیس پنجاب اور لاہور شہر کے دوستوں کا ذکر کیا ہے کرشن چندر نے شاہد اپنی پوری زندگی میں صرف یہی ایک خط پنجابی میں لکھا ہو گا مگر محمود نے اس پنجابی خط کے علاوہ کرشن جی کا آخری خط بھی ڈھونڈ نکالا ہے جس میں تخاطب شہر لاہور سے ہے اور لکھا احمد ندیم قاسمی کے نام گیا ہے۔
کرشن چندر نے لاہور سے وابستہ اپنی منتشر یادوں میں لفظوں سے جو زندہ تصویریں کھینچیں محمود الحسن نے انہی تصویروں کو جوڑ کر شہرِ پرُ کمال کے نام سے ایک متحرک فلم بنادی ہے اور کرشن چندر کے حوالے سے لاہور شہر کے باسیوں سے گلہ بھی کیا ہے کہ دو فرلانگ لمبی سڑک جیسے لازوال افسانے میں کرشن چندر نے لاہور کی جس سڑک کو موضوع بنایا ہے اس کو اب تک کرشن چندر کے نام سے ہم نے منسوب نہیں کیا مگر احباب با اختیار کیا جانے کہ جب شہر لاہور گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ تھا تو اس وقت اسی دو فرلانگ لمبی سڑک سے ذرا آگے پریت لڑی اور سنگم پبلشرز کا دفتر تھا سنگم کے کرتا دھرتا کوئی اور نہیں بلکہ اُردو کے انمول کہانی کار راجندر سنگھ بیدی تھے بیدی کو ہر حالت میں زندگی کے ساتھ نبھاہ کرنے کا سلیقہ آتا تھا وہ دس سال تک لاہور کے ڈاکخانے میں بیٹھ کر لفافوں پر مہریں لگاتے ہوۓ شکم کی آگ بجھاتے رہے زندگی نے آخری سانس تک اُن سے بےاعتنائی کا رویہ اختیار رکھا زندگی کے سب موسم دیکھنے اور نشیب و فراز سے گزرنے کے باوجود بیدی نے کہا عشق کے لۓ لاہور سے بہتر دنیا میں کوئی اور جگہ نہیں لاہور شہر سے بیدی کی جذباتی وابستگی ان کی کئ کہانیوں میں در آئی ہے بیدی نے جن کہانیوں میں لاہور کو موضوع سخن بنایا ہے محمود نے اُن کی نشاندہی بھی کتاب میں کر دی ہے۔
شہر لاہور کو خود اپنے ایک شہری پر ہمیشہ ناز رہے گا اور وہ شہری درویش صفت ڈاکٹر نذیر کے سوا بھلا اور کون ہو سکتا ہے ڈاکٹر نذیر کا شمار بیدی کے انتہائی قریبی دوستوں میں ہوتا تھا تقسیم کے بعد ڍاکٹر نذیر بیدی سے ملنے اکثر بمبئ جاتے رہتے اور لاہور کی تلے والی جوتی ہمیشہ بیدی کے لۓ بطور تحفہ ساتھ لے جاتے لاہور کی محبت میں بیدی اس سوغات کو مہابھارت کے ایک کردار دروپدی کے نام سے یاد کرتے بقول شاعر
پاپوش میں لگا دی کرن آفتاب کی
کرشن چندر کی دو فرلانگ لمبی سڑک پر موجود گورنمنٹ کالج لاہور کا ٹاور کئ داستانوں کا نہ صرف امین ہے بلکہ وہ کہی اور ان کہی کہانیوں کا راوی بھی ہے گورنمنٹ کالج کی راہداریوں میں انگریزی کے ہردلعزیز پروفیسر اور اردو کے بےمثال لکھاری کنھیا لال کپور کے قہقہوں کی بازگشت چشم تصور اب بھی سنی جا سکتی ہے مگر تقسیم کی صورت دیس نکالے پر مجبور ہونے کے بعد انہوں نے لاہور کو یاد کرتے ہوۓ لکھا تھا لاہور کا تصور کرتے ہی دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے اور بے اختیار زبان پر ناسخ کا یہ شعر آ جاتا ہے
وہ نہیں بھولتا ، جہاں جاؤں
ہاۓ میں کیا کیا کروں، کہاں جاؤں
محمود الحسن کی کتاب میں شامل کنھیا لال کپور کے بارے مضمون پڑھتے ہوۓ مجھے مئ 1998 میں انڈیا ٹوڈے میں چھپنے والی یہ خبر یاد آئی
Pakistan may not have a nuclear weapon, but they do have Ahmad Faraz. And India can’t produce one, no matter how hard it tries
کنھیا لال کپور نے لاہور جیسے تہذیبی و ثقافتی مرکز سے نکلنے کے بعد ساری عمر موگا نامی نیم قصباتی شہر میں رہنے کی توجیح انڈیا ٹوڈے میں چھپنے والی اس خبر سے مدتوں پہلے پیش کرتے ہوۓ کہا تھا کہ جب تک ہندونستان لاہور کا ثانی پیدا نہیں کرتا میرے لۓ ہندونستان کے تمام شہر اور قصبے برابر ہیں نہ ہندونستان لاہور جیسا شہر پیدا کر سکا اور نہ ہی کنھیا لال موگا کو خیر باد کہہ سکے۔
خدا کرے کہ اس شہرِ پرُ کمال کی رونقیں دائم آباد رہیں بقول عصمت چغتائی کہ لاہور آج بھی ویس ہی شاداب،قہقے لگاتے ہوا بانہیں پھیلا کر آنے والوں کو سمیٹ لینے والا ٹوٹ کر چاہنے والے بے تکلف زندہ دلوں کا شہر۔۔۔لاہور کتنا سلونا لفظ ہے۔۔۔لاہور کی ہوا میں نور گھلا ہے۔