جناب اقبال اے رحمن کی نئی آنے والی کتاب ” اس دشت میں اک شہر تھا” سے ایک اقتباس
کراچی کی بہار کالونی 1946 میں بہار میں ہونے والے فسادات کی وجہ سے قائم ہوئی۔ بہار میں ہونے والے ان فسادات کی نوعیت چونکہ بہت شدید تھی لہزا قائداعظم نے معاملے کو سنجیدگی سے لیا اور صورتحال کو جانچنے کے لیے مسلم لیگ کی جانب سے بہار ریلیف کمیٹی تشکیل دی جس میں مولانا عبدالقدوس بہاری اور دیگر اکابرین بھی شامل تھے، جنہوں نے متاثرہ علاقے کا دورہ کر کے یہ رائے دی کہ متاثرہ بہاری بھائیوں کو کسی مسلم اکثریتی صوبے میں بسانا چاہیئے۔ ان سفارشات کی قائد اعظم نے تائید کی جس کی روشنی میں سندھ کے وزیر اعلی سر غلام حسین ہدایت اللہ کی درخواست پر معروف رہنماء پیر الہی بخش نے قائداعظم کو یہ پیشکش کی کہ بہار کے متاثرہ مہاجرین کو کراچی میں بسایا جائے۔ یوں ایک پر خلوص اور انسان دوست رہنما کی دعوت پر بہاری برادری 1946 میں ایک منظم ہجرت کر کے کراچی آئی اور انہی رہنماؤں کی کوششوں سے انہیں لیاری میں بسایا گیااور 15 اکتوبر 1946 میں کراچی کی پہلی مہاجر بستی بہار کالونی میں وجود میں آئی۔ 3 مئی 1947 کو سندھ اسمبلی میں پیش کی گئی قرارداد کی منظوری کے ذریعے اسے قانونی شکل دے دی گئی۔
سوسائٹی کی طرز پر رجسٹرڈ کرائی گئی اس آبادی کا نام کتابوں میں بہارستان ھاؤسنگ سوسائٹی یا بہار ھاؤسنگ سوسائٹی تھا جو عرف عام میں اب بہار کالونی کہلاتی ہے ۔اس کالونی کے مکین تعلیم و تہزیب کے سبب بہت سی خوبیوں کے حامل تھے شہری آداب یا شہریت کے اعتبار سے لیاری اور اس کے تمام علاقوں کا معیار اتنا اچھا نہیں تھا بلکہ کئی علاقوں کے طرز حیات سے پسماندگی جھلکتی تھی مگر بہار کالونی شہری آداب کے اعتبار سے روشن ستارے کی مانند تھی۔ یہاں تعلیمی کلچر رائج تھا اور بچوں کو سکھلائی گئی تمیز اور آداب زندگانی بہار کالونی کے ماحول سے بھر پور عیاں تھے، جس کا بلواسطہ فائدہ آگے چل کر کالونی میں مقیم دیگر برادریوں کے بچوں کو بھی پہنچا۔