دیوان غالب واقعی ایک طلسم کا سا درجہ رکھتا ہے جس نے زندگی مں ایک بار جی لگا کر دیوان غالب کو پڑھنے کی کوشش کی وہ اس اسرار سے نکل ہی نہ پایا ہر ایک شعر گنجینہ معنی کا حیرت کدہ ثابت ہوتا ہے غالب شناسوں کی ایک کہکشاں ہے لوگوں نے اس اسرار کو پانے کے لۓ ساری زندگی لگا دی جو کچھ وہ سمجھ پاۓ اس کا کچھ حصہ کتابوں کی صورت ہمارے سامنے آیا اشاریہ دیوان غالب پر مشتمل رشید حسن خان جیسے محقق کی کم و بیش 1400 صفحات پر مشتمل کتاب حال ہی میں مجلس ترقی ادب لاہور نے “گنجینہ معنی طلسم” کے نام سے شائع کی ہے ہے کتاب میں نے ایک ماہ قبل خرید لی تھی گاہے گاہے اس کی ورق گردانی کرتا رہا جو کام اداروں کے کرنے کا تھا وہ رشید صاحب صاحب نے بطور فردِ واحد کے سرانجام دیا رشید صاحب جیسے زیرک نظر اور محنتی لوگ اب ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے۔
انجمن ترقی اردو ہند علی گڑھ سے نسخہ عرشی 1958 میں پہلی بار شائع ہوا رشید صاحب نے اپنے اس بے مثال کام کے لۓ دیوان غالب نسخہ عرشی کے اسی اولین ایڈیشن کو بنیادی ماخذ کے طور پر منتخب کیا خوش قسمتی سے میری ذاتی لایبریری میں نسخہ عرشی کا یہ ایڈیشن بھی موجود ہے رشید صاحب کی اس کتاب کو پڑھتے ہوۓ بارہا مجھے نسخہ عرشی کی بھی ورق گردانی کرنی پڑی رشید حسن خان کی کتاب گنجینہ معنی کا طلسم اور نسخہ عرشی کی اولین اشاعت کو آپ لازم و ملزوم قرار دے سکتے ہیں۔
کتاب کے شروع میں مجلس ترقی ادب کے منتظم تحسین فراقی کا حرفے چند کے نام سے ایک بے رنگ دیباچہ بھی شامل ہے جو باتیں رشید صاحب نے حرف آغاز میں بیان کی ہیں انہی باتوں پر مشتمل چند سطور فراقی صاحب نے بھی لکھی ہیں اب کوئی فراقی صاحب کو سمجھاۓ کہ ادبی ادراروں کے سرابراہوں کے مختلف کتابوں پر لکھے ہوۓ دیباچوں کی حرفے چند کے نام سے جو کئ جلدوں پر مشتمل کتابیں ہیں وہ کوئی نہیں پڑھتا فراقی صاحب اگر اپنے دیباچے کی بجاۓ دو صفحات پر حروف تہجی کے مطابق اشاریہ الفاظ کی فہرست بنا دیتے تو پڑھنے والوں کے لۓ آسانی ہو جاتی اس کتاب میں شائد کوئی غلطی در آئی تھی کتاب چھپنے کے بعد مارکیٹ میں رکھی گئ پھر چند دنوں بعد مجلس ترقی ادب کے کارکنان اُٹھا کر لے گۓ تاکہ غلط نامہ تیار کر کے کتاب کے ساتھ لگایا جا سکے ایسے کام تو کتاب کو مارکیٹ میں پیش کرنے سے پہلے کیے جاتے ہیں۔