Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25

میں مرد ہوں لیکن میں زانی نہیں ہوں، تم جانتی ہو کہ تم جھوٹی ہو، تم جھوٹ بولتی ہو، تم جھوٹ بول رہی ہو، تمہارے لفظ گواھی دے رہے ہیں کہ تم جھوٹی ہو، تمہاری زبان وہ نہی کہہ رہی جو اس کو کہنا ہے، جو وہ کہنا چاہتی ہے، جو تمہارے دل میں ہے،
میں تم سے اپنا کوئی رشتہ نہی جتائوں گا، نہ تم سے مشرقی اخلاقیات کی بات کرنا چاھتا ہوں، مذہب چاہے کوئی بھی ہو وہ تمہارا مسئلہ نہی ہے اس لئے کہ دنیا کا ہر مذہب مرد عورت دونوں پر کچھ پابندیاں عائد کرتا ہے۔ اس لئے مذہب کے ذکر کو چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں۔تم سے کوئی بھاشن بازی بھی نہی ہوگی۔میں تم سے سیدھی سیدھی بات کرونگا۔مکمل straight forward کوئی hanky panky نہی کرونگا۔
میں تم کو کسی کا ایجنٹ نہی کہونگا، میں یہ بھی نہیں کہونگا کہ تم کسی اور کی زبان بول رہی ہو ، میں تم کو مذہب بیزار بھی نہی کہونگا، میں تمہیں دین سے دور بھی نہی کہونگا، اس لئیے کہ تم میں سے اکثریت دین کو ماننے اور اس پر عمل کی کوشش کرنے والی ہے۔میں تمہیں کسی NGO کا تنخواہ دار بھی نہی کہونگا۔ اس لئے کہ تم میں سے اکثر کو یہ معلوم ہی نہی کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں، وہ کیا کررہی ہیں ۔ میں تمہارے جسمانی خدوخال، نشیب و فراز، لباس، چال ڈھال پر بھی بات نہی کرونگا،اس لئے کہ تم ہر حال میں میرے لئے محترم ہو۔
لیکن میں تم کو بیٹی بھی نہیں کہونگا، بہن بھی نہیں کہونگا، ماں کہنے سے تم چڑ جائوگی اس لئے کہ تم Age Conscious بھی ہوتی ہو، گوکہ تم میں سے اکثر “میراجسم میری مرضی” کا نعرہ لگانے والی، بوڑھی گھوڑی لال لگام ہوتی ہو،
سب سے بڑی بات یہ کہ میں تمہیں بیوی بھی نہیں کہہ سکتا اس لئے کہ اگر یہ کہہ دیا تو میری “سگی بیوی” مجھے سرعام قتل کردیگی اور ساتھ ساتھ عورت مارچ میں شامل دو چار
عورتوں کو بہیمانہ انتقام کا نشانہ بنا کر ملائوں اور جماعت اسلامی والوں کی “ہیروئن “بن جائے گی۔
تم مجھے کوئی مولوی مت سمجھنا جو تم پر فتوی بازی کی مشق کررہا ہے، میں کوئی مفتی، مجتہد، ملاء یا صوفی نہی میں تو خالص دنیادار آدمی ہوں اکٹر تمہارے ساتھ بیٹھنے، باتیں کرنے والا، ،بسا اوقات تم کو پسند بھی کرتا ہوں لیکن ڈرتا ھوں اس لئے اظہار نہیں کرتا۔
مجھے تو خوف تمہارے نعروں سے آتا ہے کہ تم کو معلوم ہے ک تم کیا کہہ رہی ہو، تم میں سے اکثر کو یہ نہی معلوم کہ وہ کیا مانگ رہی ہیں، تمہارا جسم تمہاری مرضی، تم بستر گرم کرو، یا برانڈڈ “رومالی” کھول کر بیٹھنا چاہو، یہ چند محترمائوں کا تو مسئلہ ہوگا لیکن یہ تم سب کا مسئلہ نہیں ہے۔
کسی بھی مذہب سے قطع نظر تم ایک مرتبہ پھر غلط راستے پر جارہی ہو، 100 سال قبل یہی غلطی سرخ سویرا والوں نے کی تھی، برصغیر کے معاشرے میں تم جیسے ہی مذہب بیزار نعرے لگائوگی یاد رکھو ساری سوسائیٹی، ہر مذہب کے ماننے والوں کی اکٹریت تمہارے خلاف ہوجائے گی اس لئے کہ مذہب اس خطے کے خون میں شامل ہے۔ مذہب اور خاص طور پر اسلام کا تو عورت کے حقوق سے کوئی جھگڑا ہی نہیں ہے ۔
ںاپنے حقیقی مسائل کے لئے بات کرو، ان مسائل پر ساری سوسائیٹی کو ساتھ لیکر جلو،مرد اور عورت ایک دوسرے کے دشمن نہی دوست ہیں، مرد کا عورت سے مقابلہ یا موازنہ ایک فضول بات ہے، مقابلہ کرنے کے بجاۓ محبت کرنے کی باٹ کرو،تمہارے ساتھ جو ناانصافی ہے اس کے لئے بات کرو ,برابری کے بجائے انصاف کی بات کرو۔
وراثت میں آپنے حق کےلئے لڑو، اگر وراثت میں بیٹیوں کو حصہ ملنے لگے تو وہ معاشی طور پر خود کفیل ہوجائیں۔ جنسی ہراسمنٹ کے لئے لڑو، جنسی استحصال کے خلاف لڑو، تعلیم کے حق کےلئے لڑو، معاشی آزادی کے لئے لڑو، معاشی مفادات کا تحفظ، تمہاری معاشی خود مختاری ہی تمہاری آزادی کا ذریعہ ہے، ملازمتوں میں اپنے حق کی بات کرو، کام کرنے کی جگہوں پر شیر خوار بچوں کے لئے مناسب جگہ مانگو، سورہ، ونی اور کاروکاری جیسے مکروہ کاموں کو ختم کرنے کےلئے لڑو، باالجبر نکاح کے خلاف لڑو، قرآن سے نکاح کی ظالمانہ رسم کے خلاف لڑو۔ جہیز مانگے والے مردوں کے خلاف لڑو، بیویوں پر تشدد کرنے والے شوہروں کے خلاف لڑو، بچیوں اور بچوں کو جو لوگ اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں ان کے خلاف لڑو،
تمہاری اس جنگ میں میں تمہارے ساتھ ہوں تم سے آگے چل کر تمہارے ساتھ ہونے والی ہر ناانصافی کے خلاف لڑونگا لیکن یہ بات یاد رکھو جس طرح بحیثیت مرد، “میرا جسم میری مرضی” نہیں ہے اسی طرح تمہارا جسم تمہاری مرضی بھی نہیں ہے۔

میں مرد ہوں لیکن میں زانی نہیں ہوں، تم جانتی ہو کہ تم جھوٹی ہو، تم جھوٹ بولتی ہو، تم جھوٹ بول رہی ہو، تمہارے لفظ گواھی دے رہے ہیں کہ تم جھوٹی ہو، تمہاری زبان وہ نہی کہہ رہی جو اس کو کہنا ہے، جو وہ کہنا چاہتی ہے، جو تمہارے دل میں ہے،
میں تم سے اپنا کوئی رشتہ نہی جتائوں گا، نہ تم سے مشرقی اخلاقیات کی بات کرنا چاھتا ہوں، مذہب چاہے کوئی بھی ہو وہ تمہارا مسئلہ نہی ہے اس لئے کہ دنیا کا ہر مذہب مرد عورت دونوں پر کچھ پابندیاں عائد کرتا ہے۔ اس لئے مذہب کے ذکر کو چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں۔تم سے کوئی بھاشن بازی بھی نہی ہوگی۔میں تم سے سیدھی سیدھی بات کرونگا۔مکمل straight forward کوئی hanky panky نہی کرونگا۔
میں تم کو کسی کا ایجنٹ نہی کہونگا، میں یہ بھی نہیں کہونگا کہ تم کسی اور کی زبان بول رہی ہو ، میں تم کو مذہب بیزار بھی نہی کہونگا، میں تمہیں دین سے دور بھی نہی کہونگا، اس لئیے کہ تم میں سے اکثریت دین کو ماننے اور اس پر عمل کی کوشش کرنے والی ہے۔میں تمہیں کسی NGO کا تنخواہ دار بھی نہی کہونگا۔ اس لئے کہ تم میں سے اکثر کو یہ معلوم ہی نہی کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں، وہ کیا کررہی ہیں ۔ میں تمہارے جسمانی خدوخال، نشیب و فراز، لباس، چال ڈھال پر بھی بات نہی کرونگا،اس لئے کہ تم ہر حال میں میرے لئے محترم ہو۔
لیکن میں تم کو بیٹی بھی نہیں کہونگا، بہن بھی نہیں کہونگا، ماں کہنے سے تم چڑ جائوگی اس لئے کہ تم Age Conscious بھی ہوتی ہو، گوکہ تم میں سے اکثر “میراجسم میری مرضی” کا نعرہ لگانے والی، بوڑھی گھوڑی لال لگام ہوتی ہو،
سب سے بڑی بات یہ کہ میں تمہیں بیوی بھی نہیں کہہ سکتا اس لئے کہ اگر یہ کہہ دیا تو میری “سگی بیوی” مجھے سرعام قتل کردیگی اور ساتھ ساتھ عورت مارچ میں شامل دو چار
عورتوں کو بہیمانہ انتقام کا نشانہ بنا کر ملائوں اور جماعت اسلامی والوں کی “ہیروئن “بن جائے گی۔
تم مجھے کوئی مولوی مت سمجھنا جو تم پر فتوی بازی کی مشق کررہا ہے، میں کوئی مفتی، مجتہد، ملاء یا صوفی نہی میں تو خالص دنیادار آدمی ہوں اکٹر تمہارے ساتھ بیٹھنے، باتیں کرنے والا، ،بسا اوقات تم کو پسند بھی کرتا ہوں لیکن ڈرتا ھوں اس لئے اظہار نہیں کرتا۔
مجھے تو خوف تمہارے نعروں سے آتا ہے کہ تم کو معلوم ہے ک تم کیا کہہ رہی ہو، تم میں سے اکثر کو یہ نہی معلوم کہ وہ کیا مانگ رہی ہیں، تمہارا جسم تمہاری مرضی، تم بستر گرم کرو، یا برانڈڈ “رومالی” کھول کر بیٹھنا چاہو، یہ چند محترمائوں کا تو مسئلہ ہوگا لیکن یہ تم سب کا مسئلہ نہیں ہے۔
کسی بھی مذہب سے قطع نظر تم ایک مرتبہ پھر غلط راستے پر جارہی ہو، 100 سال قبل یہی غلطی سرخ سویرا والوں نے کی تھی، برصغیر کے معاشرے میں تم جیسے ہی مذہب بیزار نعرے لگائوگی یاد رکھو ساری سوسائیٹی، ہر مذہب کے ماننے والوں کی اکٹریت تمہارے خلاف ہوجائے گی اس لئے کہ مذہب اس خطے کے خون میں شامل ہے۔ مذہب اور خاص طور پر اسلام کا تو عورت کے حقوق سے کوئی جھگڑا ہی نہیں ہے ۔
ںاپنے حقیقی مسائل کے لئے بات کرو، ان مسائل پر ساری سوسائیٹی کو ساتھ لیکر جلو،مرد اور عورت ایک دوسرے کے دشمن نہی دوست ہیں، مرد کا عورت سے مقابلہ یا موازنہ ایک فضول بات ہے، مقابلہ کرنے کے بجاۓ محبت کرنے کی باٹ کرو،تمہارے ساتھ جو ناانصافی ہے اس کے لئے بات کرو ,برابری کے بجائے انصاف کی بات کرو۔
وراثت میں آپنے حق کےلئے لڑو، اگر وراثت میں بیٹیوں کو حصہ ملنے لگے تو وہ معاشی طور پر خود کفیل ہوجائیں۔ جنسی ہراسمنٹ کے لئے لڑو، جنسی استحصال کے خلاف لڑو، تعلیم کے حق کےلئے لڑو، معاشی آزادی کے لئے لڑو، معاشی مفادات کا تحفظ، تمہاری معاشی خود مختاری ہی تمہاری آزادی کا ذریعہ ہے، ملازمتوں میں اپنے حق کی بات کرو، کام کرنے کی جگہوں پر شیر خوار بچوں کے لئے مناسب جگہ مانگو، سورہ، ونی اور کاروکاری جیسے مکروہ کاموں کو ختم کرنے کےلئے لڑو، باالجبر نکاح کے خلاف لڑو، قرآن سے نکاح کی ظالمانہ رسم کے خلاف لڑو۔ جہیز مانگے والے مردوں کے خلاف لڑو، بیویوں پر تشدد کرنے والے شوہروں کے خلاف لڑو، بچیوں اور بچوں کو جو لوگ اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں ان کے خلاف لڑو،
تمہاری اس جنگ میں میں تمہارے ساتھ ہوں تم سے آگے چل کر تمہارے ساتھ ہونے والی ہر ناانصافی کے خلاف لڑونگا لیکن یہ بات یاد رکھو جس طرح بحیثیت مرد، “میرا جسم میری مرضی” نہیں ہے اسی طرح تمہارا جسم تمہاری مرضی بھی نہیں ہے۔

میں مرد ہوں لیکن میں زانی نہیں ہوں، تم جانتی ہو کہ تم جھوٹی ہو، تم جھوٹ بولتی ہو، تم جھوٹ بول رہی ہو، تمہارے لفظ گواھی دے رہے ہیں کہ تم جھوٹی ہو، تمہاری زبان وہ نہی کہہ رہی جو اس کو کہنا ہے، جو وہ کہنا چاہتی ہے، جو تمہارے دل میں ہے،
میں تم سے اپنا کوئی رشتہ نہی جتائوں گا، نہ تم سے مشرقی اخلاقیات کی بات کرنا چاھتا ہوں، مذہب چاہے کوئی بھی ہو وہ تمہارا مسئلہ نہی ہے اس لئے کہ دنیا کا ہر مذہب مرد عورت دونوں پر کچھ پابندیاں عائد کرتا ہے۔ اس لئے مذہب کے ذکر کو چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں۔تم سے کوئی بھاشن بازی بھی نہی ہوگی۔میں تم سے سیدھی سیدھی بات کرونگا۔مکمل straight forward کوئی hanky panky نہی کرونگا۔
میں تم کو کسی کا ایجنٹ نہی کہونگا، میں یہ بھی نہیں کہونگا کہ تم کسی اور کی زبان بول رہی ہو ، میں تم کو مذہب بیزار بھی نہی کہونگا، میں تمہیں دین سے دور بھی نہی کہونگا، اس لئیے کہ تم میں سے اکثریت دین کو ماننے اور اس پر عمل کی کوشش کرنے والی ہے۔میں تمہیں کسی NGO کا تنخواہ دار بھی نہی کہونگا۔ اس لئے کہ تم میں سے اکثر کو یہ معلوم ہی نہی کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں، وہ کیا کررہی ہیں ۔ میں تمہارے جسمانی خدوخال، نشیب و فراز، لباس، چال ڈھال پر بھی بات نہی کرونگا،اس لئے کہ تم ہر حال میں میرے لئے محترم ہو۔
لیکن میں تم کو بیٹی بھی نہیں کہونگا، بہن بھی نہیں کہونگا، ماں کہنے سے تم چڑ جائوگی اس لئے کہ تم Age Conscious بھی ہوتی ہو، گوکہ تم میں سے اکثر “میراجسم میری مرضی” کا نعرہ لگانے والی، بوڑھی گھوڑی لال لگام ہوتی ہو،
سب سے بڑی بات یہ کہ میں تمہیں بیوی بھی نہیں کہہ سکتا اس لئے کہ اگر یہ کہہ دیا تو میری “سگی بیوی” مجھے سرعام قتل کردیگی اور ساتھ ساتھ عورت مارچ میں شامل دو چار
عورتوں کو بہیمانہ انتقام کا نشانہ بنا کر ملائوں اور جماعت اسلامی والوں کی “ہیروئن “بن جائے گی۔
تم مجھے کوئی مولوی مت سمجھنا جو تم پر فتوی بازی کی مشق کررہا ہے، میں کوئی مفتی، مجتہد، ملاء یا صوفی نہی میں تو خالص دنیادار آدمی ہوں اکٹر تمہارے ساتھ بیٹھنے، باتیں کرنے والا، ،بسا اوقات تم کو پسند بھی کرتا ہوں لیکن ڈرتا ھوں اس لئے اظہار نہیں کرتا۔
مجھے تو خوف تمہارے نعروں سے آتا ہے کہ تم کو معلوم ہے ک تم کیا کہہ رہی ہو، تم میں سے اکثر کو یہ نہی معلوم کہ وہ کیا مانگ رہی ہیں، تمہارا جسم تمہاری مرضی، تم بستر گرم کرو، یا برانڈڈ “رومالی” کھول کر بیٹھنا چاہو، یہ چند محترمائوں کا تو مسئلہ ہوگا لیکن یہ تم سب کا مسئلہ نہیں ہے۔
کسی بھی مذہب سے قطع نظر تم ایک مرتبہ پھر غلط راستے پر جارہی ہو، 100 سال قبل یہی غلطی سرخ سویرا والوں نے کی تھی، برصغیر کے معاشرے میں تم جیسے ہی مذہب بیزار نعرے لگائوگی یاد رکھو ساری سوسائیٹی، ہر مذہب کے ماننے والوں کی اکٹریت تمہارے خلاف ہوجائے گی اس لئے کہ مذہب اس خطے کے خون میں شامل ہے۔ مذہب اور خاص طور پر اسلام کا تو عورت کے حقوق سے کوئی جھگڑا ہی نہیں ہے ۔
ںاپنے حقیقی مسائل کے لئے بات کرو، ان مسائل پر ساری سوسائیٹی کو ساتھ لیکر جلو،مرد اور عورت ایک دوسرے کے دشمن نہی دوست ہیں، مرد کا عورت سے مقابلہ یا موازنہ ایک فضول بات ہے، مقابلہ کرنے کے بجاۓ محبت کرنے کی باٹ کرو،تمہارے ساتھ جو ناانصافی ہے اس کے لئے بات کرو ,برابری کے بجائے انصاف کی بات کرو۔
وراثت میں آپنے حق کےلئے لڑو، اگر وراثت میں بیٹیوں کو حصہ ملنے لگے تو وہ معاشی طور پر خود کفیل ہوجائیں۔ جنسی ہراسمنٹ کے لئے لڑو، جنسی استحصال کے خلاف لڑو، تعلیم کے حق کےلئے لڑو، معاشی آزادی کے لئے لڑو، معاشی مفادات کا تحفظ، تمہاری معاشی خود مختاری ہی تمہاری آزادی کا ذریعہ ہے، ملازمتوں میں اپنے حق کی بات کرو، کام کرنے کی جگہوں پر شیر خوار بچوں کے لئے مناسب جگہ مانگو، سورہ، ونی اور کاروکاری جیسے مکروہ کاموں کو ختم کرنے کےلئے لڑو، باالجبر نکاح کے خلاف لڑو، قرآن سے نکاح کی ظالمانہ رسم کے خلاف لڑو۔ جہیز مانگے والے مردوں کے خلاف لڑو، بیویوں پر تشدد کرنے والے شوہروں کے خلاف لڑو، بچیوں اور بچوں کو جو لوگ اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں ان کے خلاف لڑو،
تمہاری اس جنگ میں میں تمہارے ساتھ ہوں تم سے آگے چل کر تمہارے ساتھ ہونے والی ہر ناانصافی کے خلاف لڑونگا لیکن یہ بات یاد رکھو جس طرح بحیثیت مرد، “میرا جسم میری مرضی” نہیں ہے اسی طرح تمہارا جسم تمہاری مرضی بھی نہیں ہے۔

میں مرد ہوں لیکن میں زانی نہیں ہوں، تم جانتی ہو کہ تم جھوٹی ہو، تم جھوٹ بولتی ہو، تم جھوٹ بول رہی ہو، تمہارے لفظ گواھی دے رہے ہیں کہ تم جھوٹی ہو، تمہاری زبان وہ نہی کہہ رہی جو اس کو کہنا ہے، جو وہ کہنا چاہتی ہے، جو تمہارے دل میں ہے،
میں تم سے اپنا کوئی رشتہ نہی جتائوں گا، نہ تم سے مشرقی اخلاقیات کی بات کرنا چاھتا ہوں، مذہب چاہے کوئی بھی ہو وہ تمہارا مسئلہ نہی ہے اس لئے کہ دنیا کا ہر مذہب مرد عورت دونوں پر کچھ پابندیاں عائد کرتا ہے۔ اس لئے مذہب کے ذکر کو چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں۔تم سے کوئی بھاشن بازی بھی نہی ہوگی۔میں تم سے سیدھی سیدھی بات کرونگا۔مکمل straight forward کوئی hanky panky نہی کرونگا۔
میں تم کو کسی کا ایجنٹ نہی کہونگا، میں یہ بھی نہیں کہونگا کہ تم کسی اور کی زبان بول رہی ہو ، میں تم کو مذہب بیزار بھی نہی کہونگا، میں تمہیں دین سے دور بھی نہی کہونگا، اس لئیے کہ تم میں سے اکثریت دین کو ماننے اور اس پر عمل کی کوشش کرنے والی ہے۔میں تمہیں کسی NGO کا تنخواہ دار بھی نہی کہونگا۔ اس لئے کہ تم میں سے اکثر کو یہ معلوم ہی نہی کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں، وہ کیا کررہی ہیں ۔ میں تمہارے جسمانی خدوخال، نشیب و فراز، لباس، چال ڈھال پر بھی بات نہی کرونگا،اس لئے کہ تم ہر حال میں میرے لئے محترم ہو۔
لیکن میں تم کو بیٹی بھی نہیں کہونگا، بہن بھی نہیں کہونگا، ماں کہنے سے تم چڑ جائوگی اس لئے کہ تم Age Conscious بھی ہوتی ہو، گوکہ تم میں سے اکثر “میراجسم میری مرضی” کا نعرہ لگانے والی، بوڑھی گھوڑی لال لگام ہوتی ہو،
سب سے بڑی بات یہ کہ میں تمہیں بیوی بھی نہیں کہہ سکتا اس لئے کہ اگر یہ کہہ دیا تو میری “سگی بیوی” مجھے سرعام قتل کردیگی اور ساتھ ساتھ عورت مارچ میں شامل دو چار
عورتوں کو بہیمانہ انتقام کا نشانہ بنا کر ملائوں اور جماعت اسلامی والوں کی “ہیروئن “بن جائے گی۔
تم مجھے کوئی مولوی مت سمجھنا جو تم پر فتوی بازی کی مشق کررہا ہے، میں کوئی مفتی، مجتہد، ملاء یا صوفی نہی میں تو خالص دنیادار آدمی ہوں اکٹر تمہارے ساتھ بیٹھنے، باتیں کرنے والا، ،بسا اوقات تم کو پسند بھی کرتا ہوں لیکن ڈرتا ھوں اس لئے اظہار نہیں کرتا۔
مجھے تو خوف تمہارے نعروں سے آتا ہے کہ تم کو معلوم ہے ک تم کیا کہہ رہی ہو، تم میں سے اکثر کو یہ نہی معلوم کہ وہ کیا مانگ رہی ہیں، تمہارا جسم تمہاری مرضی، تم بستر گرم کرو، یا برانڈڈ “رومالی” کھول کر بیٹھنا چاہو، یہ چند محترمائوں کا تو مسئلہ ہوگا لیکن یہ تم سب کا مسئلہ نہیں ہے۔
کسی بھی مذہب سے قطع نظر تم ایک مرتبہ پھر غلط راستے پر جارہی ہو، 100 سال قبل یہی غلطی سرخ سویرا والوں نے کی تھی، برصغیر کے معاشرے میں تم جیسے ہی مذہب بیزار نعرے لگائوگی یاد رکھو ساری سوسائیٹی، ہر مذہب کے ماننے والوں کی اکٹریت تمہارے خلاف ہوجائے گی اس لئے کہ مذہب اس خطے کے خون میں شامل ہے۔ مذہب اور خاص طور پر اسلام کا تو عورت کے حقوق سے کوئی جھگڑا ہی نہیں ہے ۔
ںاپنے حقیقی مسائل کے لئے بات کرو، ان مسائل پر ساری سوسائیٹی کو ساتھ لیکر جلو،مرد اور عورت ایک دوسرے کے دشمن نہی دوست ہیں، مرد کا عورت سے مقابلہ یا موازنہ ایک فضول بات ہے، مقابلہ کرنے کے بجاۓ محبت کرنے کی باٹ کرو،تمہارے ساتھ جو ناانصافی ہے اس کے لئے بات کرو ,برابری کے بجائے انصاف کی بات کرو۔
وراثت میں آپنے حق کےلئے لڑو، اگر وراثت میں بیٹیوں کو حصہ ملنے لگے تو وہ معاشی طور پر خود کفیل ہوجائیں۔ جنسی ہراسمنٹ کے لئے لڑو، جنسی استحصال کے خلاف لڑو، تعلیم کے حق کےلئے لڑو، معاشی آزادی کے لئے لڑو، معاشی مفادات کا تحفظ، تمہاری معاشی خود مختاری ہی تمہاری آزادی کا ذریعہ ہے، ملازمتوں میں اپنے حق کی بات کرو، کام کرنے کی جگہوں پر شیر خوار بچوں کے لئے مناسب جگہ مانگو، سورہ، ونی اور کاروکاری جیسے مکروہ کاموں کو ختم کرنے کےلئے لڑو، باالجبر نکاح کے خلاف لڑو، قرآن سے نکاح کی ظالمانہ رسم کے خلاف لڑو۔ جہیز مانگے والے مردوں کے خلاف لڑو، بیویوں پر تشدد کرنے والے شوہروں کے خلاف لڑو، بچیوں اور بچوں کو جو لوگ اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں ان کے خلاف لڑو،
تمہاری اس جنگ میں میں تمہارے ساتھ ہوں تم سے آگے چل کر تمہارے ساتھ ہونے والی ہر ناانصافی کے خلاف لڑونگا لیکن یہ بات یاد رکھو جس طرح بحیثیت مرد، “میرا جسم میری مرضی” نہیں ہے اسی طرح تمہارا جسم تمہاری مرضی بھی نہیں ہے۔