Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
اللہ تعالٰی نے کسی بھی انسان پر کبھی بھی وہ بوجھ نہیں ڈالا جسے وہ اُٹھا نہ سکے پر پاکستان کے پرا ئیوٹ اداروں کا یہ عالم ہے کہ اپنے ورکز پر ایسا بوجھ ضرور ڈالتے ہیں جیسے وہ اُٹھا تو لے پر چل نہ سکے اور اگر ایک دفعہ چل لیا تو پھر کسی اور کام کے قابل رہ نہ سکے۔ایسے ورکرز کے لینے چلنا پھرتا دفت مشورہ ہے کہ کوئی بھی کام اتنی خوش اسلوبی سے مت کیجئے کے بعد میں وہ آپکی ڈیوٹی بن جائے۔ ایسے جہاں دیدہ ورکرز کیپوری زندگی پر اگر ایک تحقیقی نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ اپنی زندگی میں وہ مختلف مشروبات کے دلدارہ رہے جو عمر کے ساتھ ساتھ بدلتے رہے۔ مثلا کنڈر گارٹن میں وہ دودھ،پرائمری میں جوس،ہائی سکول میں پیپسی،کالج میں ریڈبل،یونیورسٹی میں سٹار بکسں،دوران سروس چائے اور ریٹائرمنٹ کے بعد دم کیا ہوا پانی کے دلدارہ ہوتے۔
پرائیوٹ اداروں کے مالک کا سلف کنٹرول بہت ہی اعلی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اُنھیں جتنی مرضی شوگر highہو مگر مجال ہے زبان پر زرا سی بھی مٹھاس آنے دیتے ہوں۔ ایسے اداروں کے ورکرز اکثر ایسے حساب کتاب لگاتے نظر ااتے ہیں کہ کراچی سے لاہور کا سفر 1295 کلو میٹر بنتا ہے اور لاہور سے کراچی کا سفر بھی 1295۔ اگر گراوُنڈ فلور سے پندریں ویں فلور پر جایا جائے تو 15منزلیں بنتی اور اگر 15ویں سے گراؤنڈ فلور پر آجائے تو بھی 15، مگر پریشانی اپنی انتہائی ھدو کو پہنچ جاتی جب وہ ثوموار سے اتوار تک دن گنتے تو 6بنتے اور اتوار سے ثوموار تک گنتے تو ایک دن بنتا۔
یہ ایک چھٹی کا دن غالبا ہر دفعہ جنت کا بلاوا ہی ہے۔ کیونکہ اس کے علاوہ اگر آپ چھٹی لینے چلے جائیں تو کچھ باس اس طرح پیش اتے ہیں۔ گفتگو ملاحظہ ہو۔ تو تمھیں چھٹی چاہیے باس نے ورکر کو گھورتے ہوئے پوچھا۔تمھاری چھٹی پر فیصلہ کر نے سے پہلے تم مجھے یہ بتاؤ کہ چاہ کیا رہے۔سال میں کام کے لیے 365دن ہوتے ہیں جس میں 52ہفتے ہوتے ہیں اور ہر ہفتے میں 2چھٹیاں ملتی ہیں۔یوں کام کے لیے261دن بچتے ہیں۔چونکہ تم روزانہ گھنٹے کام کرتے ہو اور 16گھنٹے نہیں کرتے اسں طرح مزید 170دن ضائع ہوجاتے ہیں اور صرف91دن بچتے ہیں۔روزانہ ایک گھنٹا لنچ اور30منٹ کافی بریک کا حساب لگایا جائے تو بالترتیب 46اور 23 مزید سالانہ ضائع ہوجاتے اور اس طرح کل 22دنوں میں 2دن تم بیماری کے باعث غیر حاضر ہوتے ہو 5ہماری آفیس کی تعطیلات جبکہ ہم ورکر کو 14دن سالانہ چھٹیاں دیتے ہیں کل ملا کر یہ 21دن بن جاتے ہیں۔اور کام کے لیے ایک دن بچتا ہے اب اس ایک دن کی بھی تمھیں چھٹی چاہیے۔۔؟؟
اس کے برعکس سرکاری اہلکار کی درخواست برائے چھٹی اور باس کا رویہ ملاحظہ کریں۔
جناب سیکشن آفیسر۔۔۔۔۔۔۔۔ڈیپارٹمنٹ لاہور
جناب عالی
گزارش ہے کہ بندہ مورخہ 12/7/16کو جب 6بجے آفس کے لیے نکلاتو رستے میں بارش آگئی جبکہ بندہ کی بیوی گھر پے تھی تو اس نے مجھے فون کیا کہ آپ مہربانی فرماکر گھر واپس آجائیں اور ساتھ یہ کہا کہ “تیری دو ٹکے دی نوکری میرا لاکھوں کا ساون جائے”یہ سن کر بندہ رہ نہ پایا اور گھر واپس بیو ی کے پاس چلا گیا جس کی وجہ سے بندہ مورخہ 12/7/16کو دفتر میں حاضر نہیں ہو سکا لہذا مہربانی فرماکر بندہ کو 12/7/16کی چھٹی عنایت کی جائے۔
سیکشن آفیسر کے ریمارکس کا تذکرہ یہاں پر نہ کرنا زیاتی ہوگی انھوں نے درخواست پر ہر بارش کے دن کی ایک چھٹی کا مزہاٹھانے کی اجازت عنایت کر دی۔۔
****
حسن نصیر سندھو یونیورسٹی آف گجرات سے ایم فل کرنے کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ سماجی مسائل کو اچھوتے انداز میں اپنی تحریروں میں بیان کرنا ان کا خاصاہے۔
اللہ تعالٰی نے کسی بھی انسان پر کبھی بھی وہ بوجھ نہیں ڈالا جسے وہ اُٹھا نہ سکے پر پاکستان کے پرا ئیوٹ اداروں کا یہ عالم ہے کہ اپنے ورکز پر ایسا بوجھ ضرور ڈالتے ہیں جیسے وہ اُٹھا تو لے پر چل نہ سکے اور اگر ایک دفعہ چل لیا تو پھر کسی اور کام کے قابل رہ نہ سکے۔ایسے ورکرز کے لینے چلنا پھرتا دفت مشورہ ہے کہ کوئی بھی کام اتنی خوش اسلوبی سے مت کیجئے کے بعد میں وہ آپکی ڈیوٹی بن جائے۔ ایسے جہاں دیدہ ورکرز کیپوری زندگی پر اگر ایک تحقیقی نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ اپنی زندگی میں وہ مختلف مشروبات کے دلدارہ رہے جو عمر کے ساتھ ساتھ بدلتے رہے۔ مثلا کنڈر گارٹن میں وہ دودھ،پرائمری میں جوس،ہائی سکول میں پیپسی،کالج میں ریڈبل،یونیورسٹی میں سٹار بکسں،دوران سروس چائے اور ریٹائرمنٹ کے بعد دم کیا ہوا پانی کے دلدارہ ہوتے۔
پرائیوٹ اداروں کے مالک کا سلف کنٹرول بہت ہی اعلی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اُنھیں جتنی مرضی شوگر highہو مگر مجال ہے زبان پر زرا سی بھی مٹھاس آنے دیتے ہوں۔ ایسے اداروں کے ورکرز اکثر ایسے حساب کتاب لگاتے نظر ااتے ہیں کہ کراچی سے لاہور کا سفر 1295 کلو میٹر بنتا ہے اور لاہور سے کراچی کا سفر بھی 1295۔ اگر گراوُنڈ فلور سے پندریں ویں فلور پر جایا جائے تو 15منزلیں بنتی اور اگر 15ویں سے گراؤنڈ فلور پر آجائے تو بھی 15، مگر پریشانی اپنی انتہائی ھدو کو پہنچ جاتی جب وہ ثوموار سے اتوار تک دن گنتے تو 6بنتے اور اتوار سے ثوموار تک گنتے تو ایک دن بنتا۔
یہ ایک چھٹی کا دن غالبا ہر دفعہ جنت کا بلاوا ہی ہے۔ کیونکہ اس کے علاوہ اگر آپ چھٹی لینے چلے جائیں تو کچھ باس اس طرح پیش اتے ہیں۔ گفتگو ملاحظہ ہو۔ تو تمھیں چھٹی چاہیے باس نے ورکر کو گھورتے ہوئے پوچھا۔تمھاری چھٹی پر فیصلہ کر نے سے پہلے تم مجھے یہ بتاؤ کہ چاہ کیا رہے۔سال میں کام کے لیے 365دن ہوتے ہیں جس میں 52ہفتے ہوتے ہیں اور ہر ہفتے میں 2چھٹیاں ملتی ہیں۔یوں کام کے لیے261دن بچتے ہیں۔چونکہ تم روزانہ گھنٹے کام کرتے ہو اور 16گھنٹے نہیں کرتے اسں طرح مزید 170دن ضائع ہوجاتے ہیں اور صرف91دن بچتے ہیں۔روزانہ ایک گھنٹا لنچ اور30منٹ کافی بریک کا حساب لگایا جائے تو بالترتیب 46اور 23 مزید سالانہ ضائع ہوجاتے اور اس طرح کل 22دنوں میں 2دن تم بیماری کے باعث غیر حاضر ہوتے ہو 5ہماری آفیس کی تعطیلات جبکہ ہم ورکر کو 14دن سالانہ چھٹیاں دیتے ہیں کل ملا کر یہ 21دن بن جاتے ہیں۔اور کام کے لیے ایک دن بچتا ہے اب اس ایک دن کی بھی تمھیں چھٹی چاہیے۔۔؟؟
اس کے برعکس سرکاری اہلکار کی درخواست برائے چھٹی اور باس کا رویہ ملاحظہ کریں۔
جناب سیکشن آفیسر۔۔۔۔۔۔۔۔ڈیپارٹمنٹ لاہور
جناب عالی
گزارش ہے کہ بندہ مورخہ 12/7/16کو جب 6بجے آفس کے لیے نکلاتو رستے میں بارش آگئی جبکہ بندہ کی بیوی گھر پے تھی تو اس نے مجھے فون کیا کہ آپ مہربانی فرماکر گھر واپس آجائیں اور ساتھ یہ کہا کہ “تیری دو ٹکے دی نوکری میرا لاکھوں کا ساون جائے”یہ سن کر بندہ رہ نہ پایا اور گھر واپس بیو ی کے پاس چلا گیا جس کی وجہ سے بندہ مورخہ 12/7/16کو دفتر میں حاضر نہیں ہو سکا لہذا مہربانی فرماکر بندہ کو 12/7/16کی چھٹی عنایت کی جائے۔
سیکشن آفیسر کے ریمارکس کا تذکرہ یہاں پر نہ کرنا زیاتی ہوگی انھوں نے درخواست پر ہر بارش کے دن کی ایک چھٹی کا مزہاٹھانے کی اجازت عنایت کر دی۔۔
****
حسن نصیر سندھو یونیورسٹی آف گجرات سے ایم فل کرنے کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ سماجی مسائل کو اچھوتے انداز میں اپنی تحریروں میں بیان کرنا ان کا خاصاہے۔
اللہ تعالٰی نے کسی بھی انسان پر کبھی بھی وہ بوجھ نہیں ڈالا جسے وہ اُٹھا نہ سکے پر پاکستان کے پرا ئیوٹ اداروں کا یہ عالم ہے کہ اپنے ورکز پر ایسا بوجھ ضرور ڈالتے ہیں جیسے وہ اُٹھا تو لے پر چل نہ سکے اور اگر ایک دفعہ چل لیا تو پھر کسی اور کام کے قابل رہ نہ سکے۔ایسے ورکرز کے لینے چلنا پھرتا دفت مشورہ ہے کہ کوئی بھی کام اتنی خوش اسلوبی سے مت کیجئے کے بعد میں وہ آپکی ڈیوٹی بن جائے۔ ایسے جہاں دیدہ ورکرز کیپوری زندگی پر اگر ایک تحقیقی نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ اپنی زندگی میں وہ مختلف مشروبات کے دلدارہ رہے جو عمر کے ساتھ ساتھ بدلتے رہے۔ مثلا کنڈر گارٹن میں وہ دودھ،پرائمری میں جوس،ہائی سکول میں پیپسی،کالج میں ریڈبل،یونیورسٹی میں سٹار بکسں،دوران سروس چائے اور ریٹائرمنٹ کے بعد دم کیا ہوا پانی کے دلدارہ ہوتے۔
پرائیوٹ اداروں کے مالک کا سلف کنٹرول بہت ہی اعلی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اُنھیں جتنی مرضی شوگر highہو مگر مجال ہے زبان پر زرا سی بھی مٹھاس آنے دیتے ہوں۔ ایسے اداروں کے ورکرز اکثر ایسے حساب کتاب لگاتے نظر ااتے ہیں کہ کراچی سے لاہور کا سفر 1295 کلو میٹر بنتا ہے اور لاہور سے کراچی کا سفر بھی 1295۔ اگر گراوُنڈ فلور سے پندریں ویں فلور پر جایا جائے تو 15منزلیں بنتی اور اگر 15ویں سے گراؤنڈ فلور پر آجائے تو بھی 15، مگر پریشانی اپنی انتہائی ھدو کو پہنچ جاتی جب وہ ثوموار سے اتوار تک دن گنتے تو 6بنتے اور اتوار سے ثوموار تک گنتے تو ایک دن بنتا۔
یہ ایک چھٹی کا دن غالبا ہر دفعہ جنت کا بلاوا ہی ہے۔ کیونکہ اس کے علاوہ اگر آپ چھٹی لینے چلے جائیں تو کچھ باس اس طرح پیش اتے ہیں۔ گفتگو ملاحظہ ہو۔ تو تمھیں چھٹی چاہیے باس نے ورکر کو گھورتے ہوئے پوچھا۔تمھاری چھٹی پر فیصلہ کر نے سے پہلے تم مجھے یہ بتاؤ کہ چاہ کیا رہے۔سال میں کام کے لیے 365دن ہوتے ہیں جس میں 52ہفتے ہوتے ہیں اور ہر ہفتے میں 2چھٹیاں ملتی ہیں۔یوں کام کے لیے261دن بچتے ہیں۔چونکہ تم روزانہ گھنٹے کام کرتے ہو اور 16گھنٹے نہیں کرتے اسں طرح مزید 170دن ضائع ہوجاتے ہیں اور صرف91دن بچتے ہیں۔روزانہ ایک گھنٹا لنچ اور30منٹ کافی بریک کا حساب لگایا جائے تو بالترتیب 46اور 23 مزید سالانہ ضائع ہوجاتے اور اس طرح کل 22دنوں میں 2دن تم بیماری کے باعث غیر حاضر ہوتے ہو 5ہماری آفیس کی تعطیلات جبکہ ہم ورکر کو 14دن سالانہ چھٹیاں دیتے ہیں کل ملا کر یہ 21دن بن جاتے ہیں۔اور کام کے لیے ایک دن بچتا ہے اب اس ایک دن کی بھی تمھیں چھٹی چاہیے۔۔؟؟
اس کے برعکس سرکاری اہلکار کی درخواست برائے چھٹی اور باس کا رویہ ملاحظہ کریں۔
جناب سیکشن آفیسر۔۔۔۔۔۔۔۔ڈیپارٹمنٹ لاہور
جناب عالی
گزارش ہے کہ بندہ مورخہ 12/7/16کو جب 6بجے آفس کے لیے نکلاتو رستے میں بارش آگئی جبکہ بندہ کی بیوی گھر پے تھی تو اس نے مجھے فون کیا کہ آپ مہربانی فرماکر گھر واپس آجائیں اور ساتھ یہ کہا کہ “تیری دو ٹکے دی نوکری میرا لاکھوں کا ساون جائے”یہ سن کر بندہ رہ نہ پایا اور گھر واپس بیو ی کے پاس چلا گیا جس کی وجہ سے بندہ مورخہ 12/7/16کو دفتر میں حاضر نہیں ہو سکا لہذا مہربانی فرماکر بندہ کو 12/7/16کی چھٹی عنایت کی جائے۔
سیکشن آفیسر کے ریمارکس کا تذکرہ یہاں پر نہ کرنا زیاتی ہوگی انھوں نے درخواست پر ہر بارش کے دن کی ایک چھٹی کا مزہاٹھانے کی اجازت عنایت کر دی۔۔
****
حسن نصیر سندھو یونیورسٹی آف گجرات سے ایم فل کرنے کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ سماجی مسائل کو اچھوتے انداز میں اپنی تحریروں میں بیان کرنا ان کا خاصاہے۔
اللہ تعالٰی نے کسی بھی انسان پر کبھی بھی وہ بوجھ نہیں ڈالا جسے وہ اُٹھا نہ سکے پر پاکستان کے پرا ئیوٹ اداروں کا یہ عالم ہے کہ اپنے ورکز پر ایسا بوجھ ضرور ڈالتے ہیں جیسے وہ اُٹھا تو لے پر چل نہ سکے اور اگر ایک دفعہ چل لیا تو پھر کسی اور کام کے قابل رہ نہ سکے۔ایسے ورکرز کے لینے چلنا پھرتا دفت مشورہ ہے کہ کوئی بھی کام اتنی خوش اسلوبی سے مت کیجئے کے بعد میں وہ آپکی ڈیوٹی بن جائے۔ ایسے جہاں دیدہ ورکرز کیپوری زندگی پر اگر ایک تحقیقی نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ اپنی زندگی میں وہ مختلف مشروبات کے دلدارہ رہے جو عمر کے ساتھ ساتھ بدلتے رہے۔ مثلا کنڈر گارٹن میں وہ دودھ،پرائمری میں جوس،ہائی سکول میں پیپسی،کالج میں ریڈبل،یونیورسٹی میں سٹار بکسں،دوران سروس چائے اور ریٹائرمنٹ کے بعد دم کیا ہوا پانی کے دلدارہ ہوتے۔
پرائیوٹ اداروں کے مالک کا سلف کنٹرول بہت ہی اعلی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اُنھیں جتنی مرضی شوگر highہو مگر مجال ہے زبان پر زرا سی بھی مٹھاس آنے دیتے ہوں۔ ایسے اداروں کے ورکرز اکثر ایسے حساب کتاب لگاتے نظر ااتے ہیں کہ کراچی سے لاہور کا سفر 1295 کلو میٹر بنتا ہے اور لاہور سے کراچی کا سفر بھی 1295۔ اگر گراوُنڈ فلور سے پندریں ویں فلور پر جایا جائے تو 15منزلیں بنتی اور اگر 15ویں سے گراؤنڈ فلور پر آجائے تو بھی 15، مگر پریشانی اپنی انتہائی ھدو کو پہنچ جاتی جب وہ ثوموار سے اتوار تک دن گنتے تو 6بنتے اور اتوار سے ثوموار تک گنتے تو ایک دن بنتا۔
یہ ایک چھٹی کا دن غالبا ہر دفعہ جنت کا بلاوا ہی ہے۔ کیونکہ اس کے علاوہ اگر آپ چھٹی لینے چلے جائیں تو کچھ باس اس طرح پیش اتے ہیں۔ گفتگو ملاحظہ ہو۔ تو تمھیں چھٹی چاہیے باس نے ورکر کو گھورتے ہوئے پوچھا۔تمھاری چھٹی پر فیصلہ کر نے سے پہلے تم مجھے یہ بتاؤ کہ چاہ کیا رہے۔سال میں کام کے لیے 365دن ہوتے ہیں جس میں 52ہفتے ہوتے ہیں اور ہر ہفتے میں 2چھٹیاں ملتی ہیں۔یوں کام کے لیے261دن بچتے ہیں۔چونکہ تم روزانہ گھنٹے کام کرتے ہو اور 16گھنٹے نہیں کرتے اسں طرح مزید 170دن ضائع ہوجاتے ہیں اور صرف91دن بچتے ہیں۔روزانہ ایک گھنٹا لنچ اور30منٹ کافی بریک کا حساب لگایا جائے تو بالترتیب 46اور 23 مزید سالانہ ضائع ہوجاتے اور اس طرح کل 22دنوں میں 2دن تم بیماری کے باعث غیر حاضر ہوتے ہو 5ہماری آفیس کی تعطیلات جبکہ ہم ورکر کو 14دن سالانہ چھٹیاں دیتے ہیں کل ملا کر یہ 21دن بن جاتے ہیں۔اور کام کے لیے ایک دن بچتا ہے اب اس ایک دن کی بھی تمھیں چھٹی چاہیے۔۔؟؟
اس کے برعکس سرکاری اہلکار کی درخواست برائے چھٹی اور باس کا رویہ ملاحظہ کریں۔
جناب سیکشن آفیسر۔۔۔۔۔۔۔۔ڈیپارٹمنٹ لاہور
جناب عالی
گزارش ہے کہ بندہ مورخہ 12/7/16کو جب 6بجے آفس کے لیے نکلاتو رستے میں بارش آگئی جبکہ بندہ کی بیوی گھر پے تھی تو اس نے مجھے فون کیا کہ آپ مہربانی فرماکر گھر واپس آجائیں اور ساتھ یہ کہا کہ “تیری دو ٹکے دی نوکری میرا لاکھوں کا ساون جائے”یہ سن کر بندہ رہ نہ پایا اور گھر واپس بیو ی کے پاس چلا گیا جس کی وجہ سے بندہ مورخہ 12/7/16کو دفتر میں حاضر نہیں ہو سکا لہذا مہربانی فرماکر بندہ کو 12/7/16کی چھٹی عنایت کی جائے۔
سیکشن آفیسر کے ریمارکس کا تذکرہ یہاں پر نہ کرنا زیاتی ہوگی انھوں نے درخواست پر ہر بارش کے دن کی ایک چھٹی کا مزہاٹھانے کی اجازت عنایت کر دی۔۔
****
حسن نصیر سندھو یونیورسٹی آف گجرات سے ایم فل کرنے کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ سماجی مسائل کو اچھوتے انداز میں اپنی تحریروں میں بیان کرنا ان کا خاصاہے۔