ADVERTISEMENT
شاکر علی تنہائی کے حجرے میں ساری عمر خود ساختہ طور پر مقید رہے وہ کم گو ضرور تھے مگر چشم بینا رکھتے تھے سو باطنی وارداتوں سمیت ظاہر کی آنکھ سے بھی انہوں نے جو کچھ دیکھا وہ سب اپنے اندر جذب کرتے رہے اور تصویریں بنا کر اس کا اظہار کیا رنگ اگرچہ شوخ استعمال کرتے مگر ازلی تنہائی اداسی کے سایوں سمیت ان کی تصویروں کا ساری عمر لازمی جزو رہی وہ مصوری کی مغربی تحریکوں سے متاثر ضرور تھے مگر انہوں نے روایت اور جدت کے امتزاج سے مصوری میں الگ تحریک کی بنیاد ڈالی جدت کے باوصف روایت کو کو نبھانے والے غالباً شاکر علی واحد مصور ہیں وہ مغرب میں رہنے کے باوجو مشرق سے ناطہ نہ توڑ سکے بہزاد کے نام ان کا خط اس بات کا تحریری ثبوت ہے انہوں نے خطاطی میں بھی صدیوں کے مروجہ اصولوں کو بالا طاق رکھتے ہوۓ اپنے لۓ الگ راہ اختیار کی۔
جس روز پاکستان معرض وجود میں آیا شاکر علی جمہوریہ چیک میں تھے شاکر صاحب نے پاکستان بننے کی خبر سنتے ہی پاکستان کو اپنا مستقل مسکن بنانے کا فیصلہ کر لیا وہ یہاں میو سکول آف آرٹس سے وابستہ رہے اور بطور پرنسپل انہوں نے کئ برسوں کام کیا ملازمت سے فراغت کے بعد شاکر صاحب نے لاہور میں ایک گھر تعمیر کیا یہ گھر بھی شاکر صاحب کی تصویروں کی طرح سنگ و خشیت کی پر جمال عکاسی کرتا ہے شاکر صاحب کی وفات کے بعد یہ گھر کشور ناہید کے توسط سے حکومت پاکستان نے خرید کر میوزیم بنا دیا تھا جس میں شاکر صاحب کی ذاتی استعمال کی سب چیزیں محفوظ ہیں۔
اہل قلم سے شاکر علی کا رابطہ اب حیران کُن معلوم ہوتا ہے انتظار حسین،سبط حسن،عسکری صاحب اور مظفر علی سید جیسے لوگوں نے شاکر صاحب کا تذکرہ اپنی تحریروں میں کیا ہے جاوید شاہین اور کمال احمد رضوی نے بھی اپنی یاداشتوں میں شاکر صاحب کا تفصیل سے ذکر کیا ہے نیشنل کونسل آف آرٹس نے شاکر صاحب کے فن اور شخصیت پر کتاب کی اشاعت کا بندونبست کیا زاھد ڈار کا تو ایک زمانے میں ان کے ساتھ روز کا ملنا تھا کشور ناہید سے ان کے ذاتی مراسم تھے شاکر صاحب نے زندگی کے آخری لمحات بھی کشور آپا کے گھر بسر کیے ایک بار میں کشور آپا کو ملنے گیا تو والد صاحب بھی میرے ساتھ تھے ایک تصویر کی طرف ابو نے اشارہ کرتے ہوۓ پوچھا آپ تو شاکر علی کے ساتھ کھڑی ہیں یہ دوسرے صاحب کوئی ہالی وڈ کے ایکٹر ہیں کشور آپا نے بہت دھیمے لہجے میں کہا یہ یوسف کامران میرے شوہر تھے۔
ادب میں بھی شاکر جدیدیت کے قائل تو ضرور تھے رلکے ان کا پسندیدہ شاعر تھا مگر خیال کا 1857 نمبر جنگ آزادی کے سو سال بعد نکالنے میں انہوں نے ناصرکاظمی اور انتظار حسین کے ساتھ ہر لحاظ سے تعاون کیا کبھی وہ بیل،کبوتر اور ہنس راج بنا کر کینوس پر تنہائی کا اظہار کرتے اور کبھی تنہا چاند کا عکس تراش کر اپنی اداسی کو ظاہر کرتے انہوں نے کچھ مضامین اور افسانے بھی لکھے اُن کی تمام تحریروں کو شیما مجید نے جمع کر کے کتابی صورت میں شائع کیا۔
“نیا دور اور شاکر علی” نامی مختصر سی انگریزی کتاب سلیمہ ہاشمی نے فیض صاحب کی محبت میں مرتب کی درحقیقت یہ کتاب شاکر علی کے تذکرے پر مشتمل ہے مملکت خداداد کے ابتدائی برسوں میں جب ثقافتی جمود ہر سو طاری تھا شاکر علی نے چند نوجوان مصوروں کے ساتھ لاہور آرٹ سرکل کی بنیاد رکھی تاکہ ملک کی تشکیل کے ساتھ ہی مصوری کو بھی فروغ دیا جا سکے لاہور آرٹ سرکل کی تاریخ ہی کو اس کتاب میں بیان کیا گیا ہے کتاب کا ایک تہائی حصہ تو شاکر صاحب کے فن سے متعلقہ ہے دو مضامین احمد پرویز اور انور جلال شمزا کے فن کے بارے ہیں کتاب میں شامل احمد پرویز کی تصویر Eve after the fall دکھ کے تاثرات لۓ ہوۓ ہے ایک عورت تمام انسانیت کے کرب کے اظہار کی نمائندگی کر رہی ہے وہ آسمان سے زمین پر آ کر لذتِ وصال سے تو شناسا ہوئی مگر فراق کے دلگداز لمحوں سے بھی اُسے دو چار ہونا پڑا۔
کتاب سنگ میل والوں نے خبصورت انداز کے ساتھ آرٹ پیپر پر چھاپی ہے۔