گاوں بابے والا…فیصل آباد اور چنیوٹ کے درمیان آباد محض ایک روایتی گاوں کا نام نہیں بلکہ تاریخ کا گمشدہ باب ہے..
یہاں کے آبائی قبرستان میں پرنانا بابا عبدالحق کے علاوہ نانا مرحوم محمد ادریس..نانی مرحومہ اور نانی کی دونوں بہنیں المعروف خالہ گلزار..خالہ نفیرہ ….میرے تینوں سگے ماموں مرحوم محمد شعیب, محمد بشیر…محمد سلطان کے علاوہ خاندان کے دیگر افراد.امی کے ماموں شفیع..ماموں متین..ماموں ذوالفقار..امی کے کزنز ماموں سرفراز ..ماموں اصغر . نشاط ماموں اور دیگر قریبی رشتے دار آسودہ خاک ہیں۔
گاوں بابے والا..نانا مرحوم بابا عبدالحق کی وجہ سے مشہور ہے….یہ تقسیم ہند کے وقت امرتسر اور حسین پور سے ہجرت کرکے آنے والوں کا بھی مسکن رہا ہے ..
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پہلے گورنر زاہد حسین.. ان کے بیٹے سابق چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد . معروف اسکالر ڈاکٹر اسرار احمد ..اردو ڈائجسٹ کے بانی اور مدیر جناب الطاف حسین قریشی..ڈاکٹر اعجاز حسین قریشی اور پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی بھی اسی گاوں سے براہ راست یا حسین پور ایسوسی ایشن سے نسبت رکھتے ہیں…
بلاشبہ حسین پور ایسوسی ایشن ملک کی نامور شخصیات کا گلدستہ ہے..
والدہ مرحومہ اور دیگر بزرگوں کی زبانی ہماری نسل تک یہ بات پہنچی ہے کہ بابا عبدالحق ..راہ حق کے مسافر اور ولی اللہ تھے….
انگریزوں کے دور میں جب اس خطے میں نہری نظام کی بنیاد ڈالی حارہی تھی تو بڑے بڑے ماہر انگریز آرکیٹیکٹ اس گاوں سے نہر نکالنے کی ڈرائنگ بنانے میں ناکام ہوگئے تھے….انہیں پتا چلا کہ عبدالحق نام کا ایک شخص اپنے تقوی اور پرہیز گاری کے باعث مشہور ہے اور بہترین سرویئر بھی ہے..سرویئر بھی ایسا کہ انگلیوں سے زمین پر نقشے بنانے کا ماہر…
قدردان انگریزوں کی ٹیم نے اس وجہ شہرت پر ہمارے پرنانا عبدالحق سے رابطہ کیا اور کہا کہ نہر کا راستہ نہیں نکل رہا…کہیں قدرتی اونچائی ہے اور کہیں بڑی رکاوٹ….
کہتے ہیں کہ بابا عبدالحق نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی اور اللہ کے حکم سے منٹوں میں ایسی ڈرائنگ بنادی جو ماہرین کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی….نہر کا راستہ نکل آیا..انگریز آرکیٹیکٹ ڈرائنگ لے کر جب رکاوٹ والی جگہ پہنچا تو اللہ کے حکم سے رکاوٹ کے باوجود راستہ نکلنے والی ڈرائنگ قابل عمل منصوبے کا حصہ بن چکی تھی….
انگریزوں نے مشکل کام آسانی سے ہونے پر معاوضہ یا تحفہ دینا چاہا تو بابا عبدالحق نے یہ کہہ کر معاوضہ لینے سے انکار کردیا کہ یہاں کے لوگ قیامت تک پانی پیئں گے. فصل اگائیں گے..رزق پیدا ہوگا, بس یہی معاوضہ کافی اور تحفے سے بڑھ کر ہے..کہتے ہیں کہ انگریز احسان کا بدلہ ضرور چکاتے تھے اس لیے انہیں ایک گھوڑا دیا گیا اور کہا کہ جہاں تک دوڑا سکتے ہیں دوڑالیں…ساری زمین آپ کی ملکیت میں دے دی جائے گی…
لیکن بابا عبدالحق نے یہ پرکشش پیشکش بھی ٹھکرادی . اس طرح ہماری موجودہ نسل بڑے بڑے “جاگیردار” اور “الیکٹیو “بننے سے بچ گئی تاہم انگریز ماہرین کی سفارش پر زبردستی معاوضے کے طور پر زمین کا کچھ ٹکڑا (چند مربے) ان سے موسوم کردیے گئے تاکہ پھل کھانے والی نسل اپنے محسن کو یاد رکھ سکے..
اس طرح یہ علاقہ گاوں بابے والا کے طور پر مشہور ہوگیا…
آج بھی فیصل آباد سے چنیوٹ جانے والی بس کا کنڈکٹر بابے والا .بابے والا کی آواز لگاتا ہے ..بابے والا کے مکین نہر کنارے پلیہ پر اترتے ہیں …گھروں کو شادمان لوٹتے ہیں.گاؤں میں داخل ہوتے ہی ایک مسجد آتی ہے ..ماموں انور مرحوم مرتے دم اس مسجد کی دیکھ بھال میں مصروف رہے..
.اللہ نے اس زمین کو بڑی برکتیں دی ہیں …وہاں رہنے والی نسل خواہ اس کا تعلق بابا عبدالحق کی نسل سے ہو یا نہ ہو…پیار محبت کے ساتھ رہ رہی ہے.
گوکہ بزرگوں کی اس دنیا سے رخصتی کے بعد اب اس گاوں کا وہ رکھ رکھاو تو نہیں رہا لیکن اب بھی سرشام وہاں ماموں نواز(امی حضور کے کزن) کی بیٹھک باہر چارپائیوں پر سجتی ہے..حقوں میں چلم بھری جاتی ہے..گاؤں کے مکین ..کسان..مزدور چلتے پھرتے حقے کا کش لیتے ہیں..ایک دوسرے کی خیریت پوچھتے ہیں…
کئی سال بعد جب بھی ہم تینوں بھائیوں شاہد بھائی..حامد بھائی..یا میرا جانا ہوتا ہے تو رشتے داروں میں شور سا مچ جاتا ہے..ایک دوسرے کو بتایا جاتا ہے…کراچی سے آپا وحیدہ کا بیٹا آیا ہے..پرانی باتیں نکلتی ہیں…وہ خواتین جب امی حضور کی باتیں کرتی ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ امی کہیں قریب بیٹھی یہ باتیں سن رہی ہیں اور خوش ہورہی ہیں…
میرے والد احمد حسین (مرحوم) ڈاکٹر تھے…1970 سے 1980 کے دوران وہ جب گاوں جاتے تو کافی مقدار میں دوائیں لے جاتے تھے..خاندان کے افراد کے علاوہ پورے گاوں سے لوگ اپنے دکھ درد سنانے پہنچ جاتے…سرشام ماموں نواز کی بیٹھک سج جاتی اور مفت علاج کا سلسلہ شروع ہوجاتا…مغرب تک بیٹھک کا اختتام شفا یاب مریضوں کی ڈھیروں دعاوں کے ساتھ ہوتا..یہ دعائیں الحمدوللہ آج تک ہمارے ساتھ ہیں…
ان شاءاللہ اس سال بابے والا جانے کا ارادہ ہے.. بزرگوں کو آداب کرنا ہے….
مرحومین کے لیے فاتحہ خوانی کرنی ہے…کچھ عیادتیں..کچھ مبارک بادیں ادھار ہیں…
اس نہر کو بھی دیکھنا …جسے انگریز نے بھرے پانی سے جاری کیا تھا لیکن سنا ہے اب اکثر خشک یا صرف تر رہتی ہے….
سوچتا ہوں اگر ماموں نشاط زندہ ہوتے تو اس نہر میں کیسے غوطہ لگاتے…؟