جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں،میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں ،
بات سچ کہیے مگر یوں کہ حقیقت نہ لگے ،جھوٹ والے کہیں سے کہیں بڑھ گئے،
میں جوہے،جیسے ہے، جہاں ہے،اسے بیان کرتاہوں، اسی لئے سچ کہلاتا ہوں،
زندگی میں سچ اورجھوٹ کا جواز اور منطق موجود رہتی ہے، دوسرے تک حقیقت بیان کرنا اور درست واقعہ بیان کرنا،ابلاغ کی ذمہ داری ہے،سوال یہ ہے کہ جھوٹ اور سچ کی نفسیاتی جہت میں بنیادی فرق کیا ہے؟
سچ :جھوٹ ایک پیچیدہ اور پراگندہ ذہنی صورت حال کاعکاس ہوتاہے۔اس کےبرعکس میں واضع اور صاف ذہنی کیفیات کا مظہرہوں۔
سچ :انسان کو ایک جھوٹ بول کر ہزار جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔یعنی انسانی ذہن تہ در تہ الجھنون کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے۔
جھوٹ:مجھے ایک جواز فراہم کرنے کےلیے دوسرا جھوٹ گھڑنا ہوتا ہے۔ دوسرے کو ثابت کرنےکےلیے تیسراجھوٹ ایجاد کرنا پڑتا ہے اس سفر میں ہر قدم پر انجام ہی انجام ہے آغاز کہیں نہیں۔
سچ :جھوٹ بولنے کادوسرا سبب ذمہ داری سےبچناہے۔یہ رجحان بھی پست اخلاقی حالت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
کتابوں میں مصنف اپنی دلیل میں ایک تلخ مثال دیتے لکھتے ہیں پاکستان دوٹکڑے ہو گیا کوئی اس کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں اس کے ذمہ دار بھٹو صاحب ہیں،
بھٹو صاحب کہتے ہیں کہ وہ نہیں۔ اس کی ذمہ دار عوامی لیگ ہے،
عوامی لیگ کو مغربی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے سے مسلسل شکایتیں تھیں۔ کوئی ذمہ داری قبول نہیں کرتا۔
اس صورتحال پرسخت الفاظ میں تبصرہ کرتےہوئے راوی لکھتے ہیں جب قوم کےبااثر اورحکمران طبقہ جھوٹ بولنے لگے تو قومیں بڑے بڑے سانحات سےدوچار ہوتی ہیں مگر عظیم سانحے بھی حکمرانوں کو سچ بولنے پر مجبور نہیں کرسکتے حکمرانوں کو اتنا تاسف بھی نہیں ہے بقول مصنف قوم جھوٹی ہے اور اس کےحکمران جھوٹوں کےسردار۔۔۔۔
مذہبی تناظر میں کہتے ہیں ہمارے معاشرے میں کوئی حقیقی مذہبی صورت حال موجود نہیں ہے۔ نعرے بازی اور حماقت کی حدود کو چھوتی ہوئی سادہ لوحی کی بات اور ہے۔ ورنہ درحقیقت ہمارا معاشرہ مذہب سے بے نیاز دکھائی دیتا ہے۔
جو دوسروں کےبلند سماجی مرتبے دیکھ کر اپنا مرتبہ بلند کرنے کے لیے کمر ہمت کس کے میدان عمل میں کودتے ہیں۔ مگرلوگ کسی متقی پرہیزگار آدمی کو دیکھ کر اپنے روحانی مرتبے کی بلندی کے لیے کوشاں نہیں ہوتے۔ دوسروں کی بہتر معاشی حالت اور بلند سماجی مرتبے انسانوں کو ان کے ناکافی ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ مگر کسی روحانی ترقی کو دیکھ کر انہیں ایک لمحے کےلیے بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ اس میدان میں کتنے پیچھے ہیں اور انہیں اس شخص کی طرح اس میدان میں آگے بڑھنا چاہیے۔
بزرگوں کا کہنا کہ ہمارے کہنے کایہ مطلب نہیں کہ معاشرے میں سچے مذہبی لوگ نہیں ہیں۔ میرا یقین ہے کہ ایسےلوگ موجود ہیں اور یہ معاشرہ انہی کے اعمال کی برکتوں سےابھی تک سالم اور قائم ہے۔ مگر یہ لوگ تعداد میں اتنے ہیں کہ اگر کسی بہت بڑے دروغ گو یا جھوٹے شخص سےبھی دروغ گوئی کی جائے تو وہ اس پر شدید برہمی کااظہار کرے گا اور مطالبہ کرے گا کہ اس سےسچ بولا جائے۔ بڑوں کاکہناہے انسان جب تک دوسروں سے جھوٹ بولتاہےمگر خودسے جھوٹ نہیں بولتا تو معاملہ ایک حد میں رہتاہے۔مگر انسان اپنے آپ سےبھی جھوٹ بولنے لگے تو اس کےمعنی ہوتے ہیں کہ انسان اپنے ضمیر کے پست ترین درجے سے بھی محروم ہو گیاہے۔