سیاسی جماعتوں کے لئے انتخابات اصل پیمانہ ہوتے ہیں انتخابات اگر صاف ستھرے رہے۔ اگرچہ پاکستانی سیاسی و سماجی پس منظر میں صاف شفاف انتخابات اب ایک خواب ہی رہ گیا ہے۔ اس لئے پارٹیاں بادل ناخواستہ ہر طرح کے انتخابات میں مجبورا کشکول گدائی لے کر حصہ لیتی ہیں اور جماعت اسلامی تو انتخابات کے بائیکاٹ کی سب سے زیادہ قیمت چکا چکی ہے۔
8 فروری 2024 ء کے انتخابات جہاں ملک و ملت کے مقدر کے لئے بہتر ثابت نہیں ہوئے وہی پاکستان کے سب سے منظم جماعت ، جماعت اسلامی کے لئے بھی انتہائی نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں (اس پہلو سے تفصیلی تبادلہ خیال اور بحث و تمحیص درکار ہے)
البتہ بلوچستان میں جماعت اسلامی کی قیادت نے پیش رفت کرتے ہوئے دو صوبائی نشستوں پر کامیابی حاصل کی، جو ایک لحاظ سے مولانا عبد الحق بلوچ مرحوم کے بعد یعنی 1985ء کے بعد صوبائی اسمبلی میں مثبت و توانا انٹری قرار دیا جاسکتا ہے۔ جس پر گوادر و جعفر آباد کے عوام و کارکنان کے ساتھ ساتھ صوبائی قیادت و تنظیم مبارک باد کے مستحق ہے۔
اس کامیابی پر مبارکباد اور تجزیہ و تبصرہ بہت کچھ ہوتا رہا۔ البتہ اس کامیابی کے پس منظر میں معاملات سیاست و حکومت کے لئے ترجیحات کے تعین میں صوبائی جماعت اسلامی زیادہ بہتر طور پر کامیاب نہیں ہوسکی ہے جسکا ایک منفی اثر سینٹ انتخابات میں تمام تر مسائل و مباحث اور مغالطوں و مشکلات کے باوجود عوامی نیشنل پارٹی اور ڈاکٹر عبد المالک بلوچ صاحب کی نیشنل پارٹی کا سینٹ انتخابات میں پیپلز پارٹی کے وعدوں کی پاسداری کے نتیجے میں کامیابی حاصل کی گئی ہے لیکن جماعت اسلامی پہلے تو صحیح و بہتر طریقے سے مزاکرات نہ کرسکی اور نہ ہی ممکنہ نتیجہ حاصل کرسکی.
جماعت اسلامی پاکستان اپنے مزاج و طبیعت اور پس منظر کے باعث زیادہ عملی و زمینی حقائق پیش نظر نہیں رکھتی،جس کے نتیجے میں وہ پھیلنے اور ثمر بار ہونے کے بجائے سکڑ کر رہ گئی ہے. عملاً اس وقت عملی و انتخابی سیاست سے کنارہ کشی کے بعد فارغ ہو کر رہ گئی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
اولمپکس: یاسر سلطان اور کشمالہ طلعت کیا کارنامہ کرنے والے ہیں؟
سپریم جوڈیشل کونسل کیاایجنسیوں کامحاسبہ کرتی ہے؟عرفان صدیقی کاسوال
ظاہر ہے کہ 3 اپریل کو امیر جماعت اسلامی پاکستان کے انتخاب کے اعلان کے بعد ہی یہ بحث و مباحثہ زیادہ کھل کر مناسب ہوگی. سردست یہ تجزیہ ضروری ہے کہ جماعت اسلامی بلوچستان کی حکمت عملی و لائحہ عمل کیا ہو، جس میں وہ نقصان و کمزور ویکٹ پر کھیلنے کے بجائے عام آدمی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے آگے بڑھنے کا امکان پیدا کرسکے۔
اس سلسلے میں ہماری تجویز یہ ہے کہ سینٹ انتخابات میں حصہ نہ ملنے کا ازالہ صوبائی حکومت کے ذریعے پورا کیا جائے۔ صوبائی حکومت میں شامل رہ کر عام آدمی کی ضروریات کے لئے کھل کر مؤثر اور باوقار انداز میں حکمت عملی اختیار کی جائے۔
گوادر و جعفر آباد کے ممبران اسمبلی و عوام کے ساتھ مل کرکوئٹہ و مضافات کوفوکس کیا جائے۔ اس لئے کہ ترقیاتی اپروچ اور ہر سطح کے ماڈل کے لئے صوبائی دارلحکومت ہی پہلا زینہ قرار پاتا ہے۔ خواتین و بچیوں اور نوجوانوں و رضاکاروں کی آواز بننے کے لئے ضروری ہے کہ انسانی حقوق کی حفاظت اور انسانی نفسیات و ذہانت کے فروغ کے لئے صوبے کی فرسودہ روایات اور ناکارہ سیاست میں نئے زاویے و راستے متعارف کرایے جائیں۔
صوبائی حکومت و سیاست میں کم حصہ رکھنے کے باوجود توانا اور متحرک کردار و اقدامات اٹھانے کے لئے وسیع پیمانے پر مشاورت اور معاونت درکار ہے تاکہ ممکنہ طور پر اسیر ذہنوں و جمود زدہ روایات سے نکل کر نئے ترقیاتی منصوبوں اور انسانی عظمت و رفعت کی تمنا اختیار کی جا سکے۔