Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
ماہ فروری کے آغاز کے باوجود 08 فروری 2024 ء کو پاکستان میں منعقدہ عام انتخابات کے لئے کوئی فضاء اور خوشگوار ماحول نہیں تشکیل پارہا ہے بلکہ بدامنی کا راج بڑھ رہا ہے۔ نواز شریف کی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا منشور کتنا قابل عمل ہوگا اور عوام کے دکھوں و غموں کا مدوا کیسے ممکن بنائیں گے ۔اسٹیٹس کو کے حامل یہ دونوں پارٹیاں – جمہوری نظام حکومت و طرز حکمرانی میں مکمل اورہالنگ کئے بغیر ممکن نہیں ہے کہ یہ جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کی یہ دونوں پارٹیاں 90 کے عشرے سے سیاست و معیشت کو بدلنے کا کوئی کارنامہ انجام دیں سکیں۔ قیدی نمبر 804 اور جماعت اسلامی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ حالات و رحجانات کے نبض پر ہاتھ نہیں رکھتے ہیں۔
سابقہ وزیراعظم و بانی پی ٹی آئی کے اوپر پچھلے پچیس تیس سالوں کے قومی امنگوں کی ترجمانی و سماجی شعور کو تولنا چاہیے جو اب مایوسیوں اور انسانی نفسیات کے مطابق بامقصد و نتیجہ خیز جدوجھد و اعتماد ضائع ہونے کا دکھ جھیل رہے ہیں۔ 09 مئی کے بوجھ تلے دبنے کے بجائے کشیدگی و سماجی جبر و زبردستی کو مسترد کرتے ہوئے معیشت و معاشرت اور تمدن و احساس دردمندی کے احیاء کے لئے نواز شریف کی خصوصی توجہ و احساس دردمندی درکار ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
بانی پی ٹی آئی کو پے در پے سزاؤں کا ردعمل کیا ہو گا؟
مسلم لیگ(ن) کا منشور: ایک سنجیدہ عہد نامہ
جماعت اسلامی : سراج الحق کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا راز کیا ہے؟
اس لئے کہ بلاول بھٹو زرداری ابھی نوزائیدہ ہے اور مولانا فضل الرحمان محمود خان اچکزئی ،ڈاکٹر مالک بلوچ اور دوسرے لیڈرز کے اندر وہ اعتماد و بھروسہ نہیں ہیں جبکہ سراج الحق و اختر مینگل اور ایم کیو ایم وغیرہ ہر طرف وکٹ حاصل کرنے و کھیلنے کا شوق رکھتے ہیں۔ جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم کے جاندار کردار ادا کرنے کے بعد اب تک اپنی نرگسیت و رومانیت کے اندر پھنس گئی ہے۔ جس کے باعث معاشرتی اور سیاسی اقدار و معنویت کے درمیان راستے نہیں بنا سکتے ہیں۔ سراج الحق کی بطور لیڈر گراف بڑھا ہے مگر اس بہتری و توانائی کو جماعت اسلامی ووٹ حاصل کرنے کے اعزاز میں کیسے بدل پائیں گے یہ امتحان پاس کرنے کے لئے 08 فروری کے دن بہت قریب ہے۔
انتخابات کے لئے ملک بھر کی طرح بلوچستان میں ماحول اور جوش خروش بالکل نہیں ہے بلکہ کوئٹہ مچھ،سبی، حب، قلعہ عبداللہ خان بلیدہ تربت میں واقعات نے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا ہے۔ 2013 ء کی طرح 2024 ء کے انتخابات بھی بلوچستان کے ڈیڑھ کروڑ عوام اور پچاس لاکھ مرد و خواتین ووٹرز کو امن و سلامتی نہیں دے پائیں گے تو بارڈر ٹریڈ کی بندشوں اور ایران و افغانستان کے سرحدی علاقوں میں لاکھوں انسانوں کے مفادات و حقوق پر ضرب کاری لگانے والے اشرافیہ اور مافیاز و نااہل بیوروکریسی کے چالبازیوں میں ہی کامیابی حاصل ہوسکتی ہیں۔ عام آدمی کے لئے پارٹیوں کے پاس کیا ہے؟ بجلی و گیس دونوں مہنگی ترین اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اشیاء ضرورت اور خورد و نوش کی فراہمی ناممکن ہے۔ ستر فیصد عام آبادیوں کے لئے ایسے مایوسیوں اور تلخیوں کے ماحول میں ایڈجسٹ ہونے کے لئے بظاھر میاں نواز شریف کی خصوصی تدبر و تفکر ہی کارامد بنائیں گے۔ قومی موومنٹ کے طور پر ورنہ قیدی نمبر 804 کے ساتھ معاملات بگڑ گئے ہیں اور باقی لیڈر شپ میں دم خم نہیں ہیں۔
مولانا فضل الرحمان بلوچستان کے ضلع پشین سے قومی اسمبلی کے انتخابات لڑ رہے ہیں مگر اب تک خوف و خطر کے باعث ووٹرز ان کے دیدار مبارکہ سے محروم ہیں۔ قومی ترقی و خوشحالی اور مادی افادیت و احساس دردمندی پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ معاہدہ عمرانی پر عمل درآمد کے لئے نئے زاویے و راستے تلاش کرنے ہونگے لیکن فی الوقت تو 08 فروری کے انتخابات بخیر و عافیت مکمل ہو اور نتائج کی صورت میں رہی سہی قیادت سے ہی توقعات اور امیدیں وابستہ کرنے ہونگے پاکستان کے 25 کروڑ انسانوں کو _
ماہ فروری کے آغاز کے باوجود 08 فروری 2024 ء کو پاکستان میں منعقدہ عام انتخابات کے لئے کوئی فضاء اور خوشگوار ماحول نہیں تشکیل پارہا ہے بلکہ بدامنی کا راج بڑھ رہا ہے۔ نواز شریف کی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا منشور کتنا قابل عمل ہوگا اور عوام کے دکھوں و غموں کا مدوا کیسے ممکن بنائیں گے ۔اسٹیٹس کو کے حامل یہ دونوں پارٹیاں – جمہوری نظام حکومت و طرز حکمرانی میں مکمل اورہالنگ کئے بغیر ممکن نہیں ہے کہ یہ جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کی یہ دونوں پارٹیاں 90 کے عشرے سے سیاست و معیشت کو بدلنے کا کوئی کارنامہ انجام دیں سکیں۔ قیدی نمبر 804 اور جماعت اسلامی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ حالات و رحجانات کے نبض پر ہاتھ نہیں رکھتے ہیں۔
سابقہ وزیراعظم و بانی پی ٹی آئی کے اوپر پچھلے پچیس تیس سالوں کے قومی امنگوں کی ترجمانی و سماجی شعور کو تولنا چاہیے جو اب مایوسیوں اور انسانی نفسیات کے مطابق بامقصد و نتیجہ خیز جدوجھد و اعتماد ضائع ہونے کا دکھ جھیل رہے ہیں۔ 09 مئی کے بوجھ تلے دبنے کے بجائے کشیدگی و سماجی جبر و زبردستی کو مسترد کرتے ہوئے معیشت و معاشرت اور تمدن و احساس دردمندی کے احیاء کے لئے نواز شریف کی خصوصی توجہ و احساس دردمندی درکار ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
بانی پی ٹی آئی کو پے در پے سزاؤں کا ردعمل کیا ہو گا؟
مسلم لیگ(ن) کا منشور: ایک سنجیدہ عہد نامہ
جماعت اسلامی : سراج الحق کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا راز کیا ہے؟
اس لئے کہ بلاول بھٹو زرداری ابھی نوزائیدہ ہے اور مولانا فضل الرحمان محمود خان اچکزئی ،ڈاکٹر مالک بلوچ اور دوسرے لیڈرز کے اندر وہ اعتماد و بھروسہ نہیں ہیں جبکہ سراج الحق و اختر مینگل اور ایم کیو ایم وغیرہ ہر طرف وکٹ حاصل کرنے و کھیلنے کا شوق رکھتے ہیں۔ جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم کے جاندار کردار ادا کرنے کے بعد اب تک اپنی نرگسیت و رومانیت کے اندر پھنس گئی ہے۔ جس کے باعث معاشرتی اور سیاسی اقدار و معنویت کے درمیان راستے نہیں بنا سکتے ہیں۔ سراج الحق کی بطور لیڈر گراف بڑھا ہے مگر اس بہتری و توانائی کو جماعت اسلامی ووٹ حاصل کرنے کے اعزاز میں کیسے بدل پائیں گے یہ امتحان پاس کرنے کے لئے 08 فروری کے دن بہت قریب ہے۔
انتخابات کے لئے ملک بھر کی طرح بلوچستان میں ماحول اور جوش خروش بالکل نہیں ہے بلکہ کوئٹہ مچھ،سبی، حب، قلعہ عبداللہ خان بلیدہ تربت میں واقعات نے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا ہے۔ 2013 ء کی طرح 2024 ء کے انتخابات بھی بلوچستان کے ڈیڑھ کروڑ عوام اور پچاس لاکھ مرد و خواتین ووٹرز کو امن و سلامتی نہیں دے پائیں گے تو بارڈر ٹریڈ کی بندشوں اور ایران و افغانستان کے سرحدی علاقوں میں لاکھوں انسانوں کے مفادات و حقوق پر ضرب کاری لگانے والے اشرافیہ اور مافیاز و نااہل بیوروکریسی کے چالبازیوں میں ہی کامیابی حاصل ہوسکتی ہیں۔ عام آدمی کے لئے پارٹیوں کے پاس کیا ہے؟ بجلی و گیس دونوں مہنگی ترین اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اشیاء ضرورت اور خورد و نوش کی فراہمی ناممکن ہے۔ ستر فیصد عام آبادیوں کے لئے ایسے مایوسیوں اور تلخیوں کے ماحول میں ایڈجسٹ ہونے کے لئے بظاھر میاں نواز شریف کی خصوصی تدبر و تفکر ہی کارامد بنائیں گے۔ قومی موومنٹ کے طور پر ورنہ قیدی نمبر 804 کے ساتھ معاملات بگڑ گئے ہیں اور باقی لیڈر شپ میں دم خم نہیں ہیں۔
مولانا فضل الرحمان بلوچستان کے ضلع پشین سے قومی اسمبلی کے انتخابات لڑ رہے ہیں مگر اب تک خوف و خطر کے باعث ووٹرز ان کے دیدار مبارکہ سے محروم ہیں۔ قومی ترقی و خوشحالی اور مادی افادیت و احساس دردمندی پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ معاہدہ عمرانی پر عمل درآمد کے لئے نئے زاویے و راستے تلاش کرنے ہونگے لیکن فی الوقت تو 08 فروری کے انتخابات بخیر و عافیت مکمل ہو اور نتائج کی صورت میں رہی سہی قیادت سے ہی توقعات اور امیدیں وابستہ کرنے ہونگے پاکستان کے 25 کروڑ انسانوں کو _
ماہ فروری کے آغاز کے باوجود 08 فروری 2024 ء کو پاکستان میں منعقدہ عام انتخابات کے لئے کوئی فضاء اور خوشگوار ماحول نہیں تشکیل پارہا ہے بلکہ بدامنی کا راج بڑھ رہا ہے۔ نواز شریف کی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا منشور کتنا قابل عمل ہوگا اور عوام کے دکھوں و غموں کا مدوا کیسے ممکن بنائیں گے ۔اسٹیٹس کو کے حامل یہ دونوں پارٹیاں – جمہوری نظام حکومت و طرز حکمرانی میں مکمل اورہالنگ کئے بغیر ممکن نہیں ہے کہ یہ جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کی یہ دونوں پارٹیاں 90 کے عشرے سے سیاست و معیشت کو بدلنے کا کوئی کارنامہ انجام دیں سکیں۔ قیدی نمبر 804 اور جماعت اسلامی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ حالات و رحجانات کے نبض پر ہاتھ نہیں رکھتے ہیں۔
سابقہ وزیراعظم و بانی پی ٹی آئی کے اوپر پچھلے پچیس تیس سالوں کے قومی امنگوں کی ترجمانی و سماجی شعور کو تولنا چاہیے جو اب مایوسیوں اور انسانی نفسیات کے مطابق بامقصد و نتیجہ خیز جدوجھد و اعتماد ضائع ہونے کا دکھ جھیل رہے ہیں۔ 09 مئی کے بوجھ تلے دبنے کے بجائے کشیدگی و سماجی جبر و زبردستی کو مسترد کرتے ہوئے معیشت و معاشرت اور تمدن و احساس دردمندی کے احیاء کے لئے نواز شریف کی خصوصی توجہ و احساس دردمندی درکار ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
بانی پی ٹی آئی کو پے در پے سزاؤں کا ردعمل کیا ہو گا؟
مسلم لیگ(ن) کا منشور: ایک سنجیدہ عہد نامہ
جماعت اسلامی : سراج الحق کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا راز کیا ہے؟
اس لئے کہ بلاول بھٹو زرداری ابھی نوزائیدہ ہے اور مولانا فضل الرحمان محمود خان اچکزئی ،ڈاکٹر مالک بلوچ اور دوسرے لیڈرز کے اندر وہ اعتماد و بھروسہ نہیں ہیں جبکہ سراج الحق و اختر مینگل اور ایم کیو ایم وغیرہ ہر طرف وکٹ حاصل کرنے و کھیلنے کا شوق رکھتے ہیں۔ جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم کے جاندار کردار ادا کرنے کے بعد اب تک اپنی نرگسیت و رومانیت کے اندر پھنس گئی ہے۔ جس کے باعث معاشرتی اور سیاسی اقدار و معنویت کے درمیان راستے نہیں بنا سکتے ہیں۔ سراج الحق کی بطور لیڈر گراف بڑھا ہے مگر اس بہتری و توانائی کو جماعت اسلامی ووٹ حاصل کرنے کے اعزاز میں کیسے بدل پائیں گے یہ امتحان پاس کرنے کے لئے 08 فروری کے دن بہت قریب ہے۔
انتخابات کے لئے ملک بھر کی طرح بلوچستان میں ماحول اور جوش خروش بالکل نہیں ہے بلکہ کوئٹہ مچھ،سبی، حب، قلعہ عبداللہ خان بلیدہ تربت میں واقعات نے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا ہے۔ 2013 ء کی طرح 2024 ء کے انتخابات بھی بلوچستان کے ڈیڑھ کروڑ عوام اور پچاس لاکھ مرد و خواتین ووٹرز کو امن و سلامتی نہیں دے پائیں گے تو بارڈر ٹریڈ کی بندشوں اور ایران و افغانستان کے سرحدی علاقوں میں لاکھوں انسانوں کے مفادات و حقوق پر ضرب کاری لگانے والے اشرافیہ اور مافیاز و نااہل بیوروکریسی کے چالبازیوں میں ہی کامیابی حاصل ہوسکتی ہیں۔ عام آدمی کے لئے پارٹیوں کے پاس کیا ہے؟ بجلی و گیس دونوں مہنگی ترین اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اشیاء ضرورت اور خورد و نوش کی فراہمی ناممکن ہے۔ ستر فیصد عام آبادیوں کے لئے ایسے مایوسیوں اور تلخیوں کے ماحول میں ایڈجسٹ ہونے کے لئے بظاھر میاں نواز شریف کی خصوصی تدبر و تفکر ہی کارامد بنائیں گے۔ قومی موومنٹ کے طور پر ورنہ قیدی نمبر 804 کے ساتھ معاملات بگڑ گئے ہیں اور باقی لیڈر شپ میں دم خم نہیں ہیں۔
مولانا فضل الرحمان بلوچستان کے ضلع پشین سے قومی اسمبلی کے انتخابات لڑ رہے ہیں مگر اب تک خوف و خطر کے باعث ووٹرز ان کے دیدار مبارکہ سے محروم ہیں۔ قومی ترقی و خوشحالی اور مادی افادیت و احساس دردمندی پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ معاہدہ عمرانی پر عمل درآمد کے لئے نئے زاویے و راستے تلاش کرنے ہونگے لیکن فی الوقت تو 08 فروری کے انتخابات بخیر و عافیت مکمل ہو اور نتائج کی صورت میں رہی سہی قیادت سے ہی توقعات اور امیدیں وابستہ کرنے ہونگے پاکستان کے 25 کروڑ انسانوں کو _
ماہ فروری کے آغاز کے باوجود 08 فروری 2024 ء کو پاکستان میں منعقدہ عام انتخابات کے لئے کوئی فضاء اور خوشگوار ماحول نہیں تشکیل پارہا ہے بلکہ بدامنی کا راج بڑھ رہا ہے۔ نواز شریف کی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا منشور کتنا قابل عمل ہوگا اور عوام کے دکھوں و غموں کا مدوا کیسے ممکن بنائیں گے ۔اسٹیٹس کو کے حامل یہ دونوں پارٹیاں – جمہوری نظام حکومت و طرز حکمرانی میں مکمل اورہالنگ کئے بغیر ممکن نہیں ہے کہ یہ جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کی یہ دونوں پارٹیاں 90 کے عشرے سے سیاست و معیشت کو بدلنے کا کوئی کارنامہ انجام دیں سکیں۔ قیدی نمبر 804 اور جماعت اسلامی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ حالات و رحجانات کے نبض پر ہاتھ نہیں رکھتے ہیں۔
سابقہ وزیراعظم و بانی پی ٹی آئی کے اوپر پچھلے پچیس تیس سالوں کے قومی امنگوں کی ترجمانی و سماجی شعور کو تولنا چاہیے جو اب مایوسیوں اور انسانی نفسیات کے مطابق بامقصد و نتیجہ خیز جدوجھد و اعتماد ضائع ہونے کا دکھ جھیل رہے ہیں۔ 09 مئی کے بوجھ تلے دبنے کے بجائے کشیدگی و سماجی جبر و زبردستی کو مسترد کرتے ہوئے معیشت و معاشرت اور تمدن و احساس دردمندی کے احیاء کے لئے نواز شریف کی خصوصی توجہ و احساس دردمندی درکار ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
بانی پی ٹی آئی کو پے در پے سزاؤں کا ردعمل کیا ہو گا؟
مسلم لیگ(ن) کا منشور: ایک سنجیدہ عہد نامہ
جماعت اسلامی : سراج الحق کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا راز کیا ہے؟
اس لئے کہ بلاول بھٹو زرداری ابھی نوزائیدہ ہے اور مولانا فضل الرحمان محمود خان اچکزئی ،ڈاکٹر مالک بلوچ اور دوسرے لیڈرز کے اندر وہ اعتماد و بھروسہ نہیں ہیں جبکہ سراج الحق و اختر مینگل اور ایم کیو ایم وغیرہ ہر طرف وکٹ حاصل کرنے و کھیلنے کا شوق رکھتے ہیں۔ جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم کے جاندار کردار ادا کرنے کے بعد اب تک اپنی نرگسیت و رومانیت کے اندر پھنس گئی ہے۔ جس کے باعث معاشرتی اور سیاسی اقدار و معنویت کے درمیان راستے نہیں بنا سکتے ہیں۔ سراج الحق کی بطور لیڈر گراف بڑھا ہے مگر اس بہتری و توانائی کو جماعت اسلامی ووٹ حاصل کرنے کے اعزاز میں کیسے بدل پائیں گے یہ امتحان پاس کرنے کے لئے 08 فروری کے دن بہت قریب ہے۔
انتخابات کے لئے ملک بھر کی طرح بلوچستان میں ماحول اور جوش خروش بالکل نہیں ہے بلکہ کوئٹہ مچھ،سبی، حب، قلعہ عبداللہ خان بلیدہ تربت میں واقعات نے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا ہے۔ 2013 ء کی طرح 2024 ء کے انتخابات بھی بلوچستان کے ڈیڑھ کروڑ عوام اور پچاس لاکھ مرد و خواتین ووٹرز کو امن و سلامتی نہیں دے پائیں گے تو بارڈر ٹریڈ کی بندشوں اور ایران و افغانستان کے سرحدی علاقوں میں لاکھوں انسانوں کے مفادات و حقوق پر ضرب کاری لگانے والے اشرافیہ اور مافیاز و نااہل بیوروکریسی کے چالبازیوں میں ہی کامیابی حاصل ہوسکتی ہیں۔ عام آدمی کے لئے پارٹیوں کے پاس کیا ہے؟ بجلی و گیس دونوں مہنگی ترین اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اشیاء ضرورت اور خورد و نوش کی فراہمی ناممکن ہے۔ ستر فیصد عام آبادیوں کے لئے ایسے مایوسیوں اور تلخیوں کے ماحول میں ایڈجسٹ ہونے کے لئے بظاھر میاں نواز شریف کی خصوصی تدبر و تفکر ہی کارامد بنائیں گے۔ قومی موومنٹ کے طور پر ورنہ قیدی نمبر 804 کے ساتھ معاملات بگڑ گئے ہیں اور باقی لیڈر شپ میں دم خم نہیں ہیں۔
مولانا فضل الرحمان بلوچستان کے ضلع پشین سے قومی اسمبلی کے انتخابات لڑ رہے ہیں مگر اب تک خوف و خطر کے باعث ووٹرز ان کے دیدار مبارکہ سے محروم ہیں۔ قومی ترقی و خوشحالی اور مادی افادیت و احساس دردمندی پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ معاہدہ عمرانی پر عمل درآمد کے لئے نئے زاویے و راستے تلاش کرنے ہونگے لیکن فی الوقت تو 08 فروری کے انتخابات بخیر و عافیت مکمل ہو اور نتائج کی صورت میں رہی سہی قیادت سے ہی توقعات اور امیدیں وابستہ کرنے ہونگے پاکستان کے 25 کروڑ انسانوں کو _