بانی پی ٹی آئی عمران خان کو پے درپے ملنے والی سزائیں قومی منظر نامے پر کیا اثرات مرتب کریں گی۔ یہ بات تو اپنی جگہ ہے کہ ان سزاؤں کے بعد عمران خان اور ان کی جماعت کی سیاست کا قریب قریب خاتمہ ہو گیا ہے۔ آنے والے دنوں میں کیا ہو گا؟ کیا پی ٹی آئی کے کھلاڑی اس صورت حال میں مایوس ہو کر گھروں میں بیٹھ جائیں گے یا 8 فروری کو اپنے ووٹ کی طاقت سے اس منظر کو بدلنے کی کوشش کریں گے جس کی تحریر دیوار پر لکھی نظر آتی ہے یعنی مسلم لیگ ن کا راستہ روکنے کی کوشش کریں گے اور سنگین بدعنوانی، قومی رازوں کے افشا اور خلاف شرح نکاح کے مقدمات کے فیصلوں کی وجہ سے اپنا سیاسی مستقبل تباہ کر بیٹھنے والے عمران خان کے لیے اطمینان کی کوئی صورت پیدا کر سکیں گے؟
یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ 2108ء میں جب نواز شریف کو سیاسی اور قانونی ہتھ کنڈوں کے ذریعے اقتدار سے نکالا گیا تو ان کی جماعت اور ووٹروں کا حوصلہ توڑنے کے لیے اوپر سے نیچے گرفتاریاں جی گئیں۔ اہم قائدین اور انتخابی امیدواروں کو سزائیں دے کر نا اہل کیا گیا ووٹروں کا حوصلہ توڑ کر انھیں گھر بٹھانے کی کوشش کی گئی۔ ان تمام جابرانہ ہتھ کنڈوں کے باوجود ن لیگ کے کارکن کا حوصلہ توڑنے کی کوئی ایک کوشش بھی کامیاب نہ ہو سکی۔
کیا پی ٹی آئی مسلم لیگ ن کی طرح مزاحمت کر سکے گی؟
اسی تجربے کی روشنی میں سوال کیا جاتا ہے کہ کیا پی ٹی آئی کا کارکن مسلم لیگ ن کے نقش قدم پر چل سکیں گے؟ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے محرومی کے بعد عمران خان نے عوام اور اپنے کھلاڑیوں کو سڑکوں پر نکالنے کی جو کوشش بھی کی، اس میں وہ ناکام رہے۔
یہ بھی پڑھئے:
کیا مسلم لیگ ن لیگ کا منشور قابل عمل ہے؟
جماعت اسلامی : سراج الحق کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا راز کیا ہے؟
مسلم لیگ(ن) کا منشور: ایک سنجیدہ عہد نامہ
یہاں تک کہ وزیر آباد میں جب ان پر حملے کا واقعہ رونما ہوا تو اس وقت بھی یہ جماعت کسی عوامی ردعمل کا اظہار کرنے میں ناکام رہی۔ اس کے بعد جنرل عاصم منیر کی چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے تقرری کو روکنے کے لیے انھوں نے لانگ مارچ کیا تو یہ مارچ بھی عوامی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔
کیا کھلاڑی مایوسی سے نکل کر دباؤ بڑھا سکیں گے؟
احتجاج کی کوششوں میں ان پے درپے ناکامیوں کے بعد ہی اس جماعت اور اس کے بانی کی مایوسی کا فتنہ اتنا بڑھ گیا کہ وہ ملک کے دفاعی اداروں پر چڑھ دوڑے، آج جس کے نتائج کا انھیں سامنا ہے۔ احتجاج اور ردعمل کے سلسلے میں غیر سیاسی طرز عمل اختیار کر والی پی ٹی آئی کے اس مزاج کو دیکھتے ہوئے اندازہ یہی کیا جا رہا ہے کہ یہ جماعت آئندہ بھی کوئی سیاسی حکمت عملی بنا سکے گی اور نہ اس کے وابستگان جوش عمل کا مظاہرہ کر سکیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے اپنے غیر سیاسی طرز عمل اور غیر دانش مندانہ رویے اختیار کر کے اپنے لیے جو مسائل پیدا کئے تھے، ان سے بچ نکلنا اب آسان نہیں رہا۔ پی ٹی آئی کا کارکن چوں کہ سیاسی جدوجہد سے نا آشنا ہے ، اس لیے یہ بھی ممکن نظر نہیں آتا کہ وہ کوئی ایسی صورت حال پیدا کر سکے جس سے اس کے مخالفین خود کو دباؤ میں محسوس کر سکیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پی ٹی آئی اسی تنخواہ پر کام کرتے کرتےاپ ے فطری انجام سے دوچار ہو جائے گی۔