ممتاز دانشور و مفکر احمد جاوید نے کہا ہے کہ معاشروں میں سماجی انصاف و ترقی اور سائنسی و فکری مکالمے کی احیاء و تجدید کے لئے نئے پیراڈایم میں عمرانی ارتقاء و فکری تعبیر نو کی ضرورت ہے تاکہ مفید اور قابل فہم میکنزم تشکیل دینے میں سنجیدگی و دانش مندی کا رجحان فروغ دیا جاسکے ۔
لمحہ موجود میں حکمت قرآنی اور شعور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے علی الرغم مسلم معاشروں کی مجموعی بے سروپا تجزیے و تبصرے اور غیر معمولی جمود و تعطل نے آدمیت کا معیار بھی برقرار نہیں رکھ سکا اور جاہلانہ مردانہ بالادستی قائم کرنے کی آڑ میں خواتین کی عظمت و رفعت مسخ کردی گئی ہیں اور اب ہمیں مغربی مکارانہ فیمنزم کا سامنا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاکستان میں عمرانی شعور اور سماجی ضبط کے فروغ کے انتہائی اہمیت کے حامل معنی خیز موضوع پر اسلامی نظریاتی کونسل کے زیر اہتمام مجلس فکر و دانش ( علمی و فکری مکالمہ) کوئٹہ اور اقبالستان موومنٹ یو کے و پاکستان کے توجہ دہی و اشتراک سے فکری نشست و نیشنل ڈائلاگ میں کیا گیا جس کی صدارت 21 ویں صدی کے معروف مصنف و دانش ور پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان نے کی جبکہ موضوع پر خصوصی گفتگو و درپیش سوالات کے جوابات فراہم کرنے کے لئے ممتاز دانشور و مفکر جناب احمد جاوید نے خصوصی خطاب کیا اور تفصیلات شئیر فرمائی۔
افتتاحی گفتگو اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ آیاز نے رکھتے ہوئےکہا کہ معاشرے کی تشکیل و تعبیر نو کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کی مسلسل خدمات و فکری مکالمے کی کاوشیں جاری ہیں عمرانی ارتقاء و دانش مندی کے لئے تمام اداروں کو وسیع پیمانے پر علمی و تحقیقی انداز میں مکالمے و جرگے کے لئے سر جوڑ کر نئے زمانے کے بدلتے ہوئے رحجانات و ترجیحات کے مطابق زندگی کی حفاظت و تکریم پیش نظر رکھیں،
کونسل کے سیکرٹری و محقق ڈاکٹر حافظ اکرام الحق یسین نے کہا کہ معاشرے میں تحمل و بردباری اور قومی بقاء و سلامتی و استحکام کے لئے ہماری کوشیشیں رواں دواں ہیں، ماہر سماجیات و عمرانیات و مجلس فکر و دانش کے سربراہ عبدالمتین اخونزادہ اپنے مختصر خیالات کا اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ زندگی کے لئے حرکت و تغیر بنیادی تصورات اور زندہ تہذیبوں کا مرکز رہا ہے مسلم معاشروں میں اشرافیہ اور دانش مندی نے ایک دوسرے کے خلاف توانائی و فکری کوشش کرتے رہے جس کے باعث عوام الناس میں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا مجلس فکر و دانش نے علمی و فکری مکالمے کی احیاء کے لئے نئے پیراڈایم میں ترقیاتی اپروچ اور دانش و حکمت کے فروغ کے لئے جدید رجحانات اور زندہ سوالات کو ایڈریس کرنے کے لئے مکالمے کی راہ اختیار کیا گیا ہے جس کا ماخذ و منبع امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ، ماھر قرآنیات و اقبالیات ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرحوم،ممتاز دانشور و مصنف پروفیسر ڈاکٹر برہان احمد فاروقی اور ڈاکٹر محمود احمد غازی رح ہیں۔
21 ویں صدی میں زندہ سوالات کے جوابات فراہم کرنے کے لئے ممتاز دانشور و مصنف پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان،جناب احمد جاوید،جناب ڈاکٹر قبلہ آیاز کے مساعی و فکری کاوشیں مشعلِ راہ ہیں،، تقریب میں اسلام آباد اور قرب و جوار سے اسکالرز و دانش ور مرد و خواتین اور طلباء وطالبات کے ساتھ میڈیا و معاشرتی ترقی سے دلچسپی رکھنے والے اداروں نے بھرپور شرکت کی۔
تقریب سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے ممتاز محقق و دانش ور پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان نے کہا کہ معاہدہ عمرانی کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف ریاست ہوتی ہے اور دوسری طرف عوام _ آج کی جدید جمہوری ریاستوں میں عوام ہی ریاست کی نمائندہ جماعت کے طور پر دونوں طرف ہوتے ہیں باہمی احترام و اعتماد ریاست کی جمہوری قدروں کی پہچان ہے معاہدے میں شریک عوام کے جذبات کی بے حرمتی ناقابل معافی جرم شمار ہوتا ہے پاکستان کی تاریخ اس معاملے میں محض تلخ یا خوفناک ہے بلکہ,,یس اور نو،، کی کہانی ہے عوام اور ریاست کی قیمت کے چرچے ہیں_ ایسی تلخ صورت حال کے پیش نظر ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے اثرات و مضمرات اور لمحہ موجود کے زندہ سوالات کو ایڈریس کرنے کے لئے نئے پیراڈایم میں عمرانی ارتقاء و فکری مکالمے کے ساتھ ,,امکانی مستقبل،، کی بات ہی مناسب لگتی ہے_
,,امکانی مستقبل،، کو,, یقینی مستقبل،،میں بدلنے کا واحد راستہ,, دستور ریاست،، کی روح کے مطابق عمل ہے 1973ء کا آئین ہی متفقہ,, معاہدہ عمرانی،،کی دستاویز ہے وقت اور تجربات کی رو سے بہتری آتی رہی ہے دستور کا مکمل اطلاق نہیں ہوا، جزوی یا بددلی سے اقدامات نے تمام ریاستی اداروں کو کمزور کردیا اور تمام ادارے اپنی کمزوری پر پردہ ڈالنے کے لئے دوسرے اداروں میں مداخلت کے مرتکب ہوتے ہیں اس ضمن میں تمام اداروں کو باقاعدہ تربیت دینے کی ضرورت ہے کہ,, دستور،، محض قانونی شقوں کا نام نہیں ہوتا یہ عوامی معاہدہ ہوتا ہے ریاست کا عوام سے حلف ہوتا ہے یہ حقوق العباد کا قانون ہوتا ہے اور حقوق العباد کی ضمانت ہوتا ہے الہامی دستاویزات حقوق اللہ کی نشاندھی کے ساتھ حقوق العباد کی نشاندھی کرتی ہے ان کی عملی صورت کو معاہدہ عمرانی یا دستور سازی کے تحت ریاستی
قانونی ضمانت دی جاتی ہے دو فریقوں کا معاہدہ اور اس کا احترام ترقی کی ضمانت ہے_
ریاست کے طاقتور اداروں کے درمیان تعلقات کی نوعیت قانونی کم اور اخلاقی زیادہ ہے ان اداروں کو قانون کا پابند کرنے اور دوسروں سے قانونی روابط کے تحت میل جول ممکن بنانا ضروری ہے اس کے لئے تربیت کے نظام کار کو مزید بہتر بنانا ہوگا_ چند اداروں کی نشاندھی مقصود ہے تاکہ بحث و تمحیص مناسب دائرے میں افادیت و دانش مندی سے آگے بڑھ سکیں
حکومت، پارلیمان، سول انتظامیہ ،عسکری انتظامیہ ،پولیس انتظامیہ عدلیہ و میڈیا، چار اکائیاں ( صوبے) ووفاق ، اسلامی نظریاتی کونسل و مشترکہ مفادات کونسل ،قومی اقتصادی کونسل و قومی مالیاتی کمیشن الیکشن کمیشن ،مذہبی طبقات، مسالک و جماعتیں، نمایاں اور الجھاؤ کے شکار ہیں ایسے حالات میں بطور نسخہ شفاء کاملہ تھینک ٹینک اقبال پارلمینٹ، بطور نیا ادارہ شامل کیا جاسکتا ہے