چوروں سے ڈاکوؤں سے تو ڈرتے ہیں یار لوگ
پر چاہتے ہیں دل پہ کوئی واردات ہو
گزشتہ دنوں ڈاکٹر بدر منیر کا فکاہیہ مجموعہ کلام “خندہ نواز” موصول ہوا۔ یاسیت زدہ اس کرونائی دور میں مسکراہٹیں بکھیرنے کا جو بیڑہ آپ نے اٹھایا بلاشبہ اسے کمال مہارت سے پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے۔ خالد عرفان صاحب، ڈاکٹر اشفاق احمد ورک اور دیگر “صاحبانِ سخن” کی آراء سے سجا مجموعہ کلام عام قارئین کے ساتھ ساتھ ادبی حلقوں کی جانب سے بھی پسندیدگی کی مہر ثبت کرتا ہے۔ خوبصورت اور دیدہ زیب سرورق سے سجی زیرِ تبصرہ کتاب کا پہلا اور غالب حصہ غزلوں پر جب کہ دوسرا اور تیسرا حصہ بالترتیب قطعات/غزلیات اور نظموں پر مشتمل ہے۔ غزلوں میں منفرد ردیف اور قافیہ کے استعمال کے ساتھ عصری مسائل پر لطیف پیرائے میں تنقید فکاہیہ شاعری کے میدان میں آپ کی مہارت کا عملی ثبوت ہے۔
دو چار بار اس میں گرے ہیں تو پھر کھلا
ہے روڈ اس گلی میں کہاں اور گٹر کہاں
کہنے لگا غریب سے سائل کو ایک پیر
کھیسے میں کچھ نہ ہو تو دعا میں اثر کہاں
ڈاکٹر بدر منیر کی سادہ اسلوب کا پیراہن اوڑھی ہوئی ظریفانہ شاعری اداس اور بھٹکے ہوئے لوگوں کا ہاتھ تھام کر ان کو شگفتگی کی شاہراہ پر لا کھڑی کرتی ہے جہاں سے قاری کے لیے آگے کا راستہ طے کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ اس طرح ڈاکٹر بدر منیر اپنے نام کی نسبت سے زمانے کے سرد و گرم سے اکتائے ہوئے لوگوں اور ان کی یاسیت میں ڈوبی ہوئی بیمار روحوں کا علاج کرتے ہیں، ان کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں، زخموں پر مرہم لگاتے ہیں اور طبیعت بحال کرنے کے لیے ایسا طاقتور ٹانک دیتے ہیں جس کا اثر وقتی نہیں بلکہ دیرپا رہتا ہے۔
تلے گی تجھ کو، پکوڑے وہ تلنے والی نہیں
دلِ شکستہ تری دال گلنے والی نہیں
سہیلیوں کو تو حسرت بھری نظر سے نہ دیکھ
کہ اس طرح تری دلہن بدلنے والی نہیں
ڈاکٹر صاحب کے ترکش میں طنز و مزاح میں بُجھے تمام تیر منفرد ہیں۔ کسی ماہر شکاری کی طرح وہ سماجی برائیوں کی طرف رخ کر کے نشانہ باندھتے ہیں اور کمال یہ ہے کہ ان کا نشانہ چوکتا نہیں۔ لطیف پیرائے میں بیان کردہ متنوع موضوعات قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لیتے ہیں۔ ان کا مقصد کسی کی بھی تضحیک یا تذلیل کرنا نہیں بلکہ نہایت سلیقے سے اور شگفتہ انداز میں معاشرے میں پنپتی ہوئی برائیوں کو بے نقاب کرنا ہے۔ اس طرح وہ ببانگِ دہل حق کا ساتھ دیتے ہوئے مظلوم دلوں کے ترجمان بن جاتے ہیں۔
“مہر بہ لب”
کیا طویل رفاقت نے مجھ کو مہر بہ لب
میں اعتراض بھلا کیسے برملا کرتی
مجھے پتا ہیں سیاہ و سفید شوہر کے
شریکِ عمر نہ ہوتی تو لب کشا کرتی
اپنے پورے مجموعہ کلام میں ڈاکٹر بدر منیر کہیں بھی معیار پر سمجھوتہ کرتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ ان کا کلام شائستگی اور شعری چاشنی کے ساتھ ادبی معیار پر کھرا اترتا ہے اور قاری کو کہیں بھی ہلکا پن اور جھول نظر نہیں آتا۔
شکنجہ سخت ہے قانون کا، کچھ لوگ کہتےہیں
بڑے مجرم نکل جاتے ہیں لیکن کس صفائی سے
بزرگوں کو غلط فہمی ہے جگ تسخیر کر لے گا
کہ دن کے دو بجے جس نے نکالا منہ رضائی سے
کتاب میں شامل نظمیں بھی موضوعاتی اعتبار سے کمال ہیں۔ خصوصاً طویل نظم ” کیا سین چل رہا ہے” میں ڈاکٹر بدر منیر نے بڑے ہی نڈر اور بے باک لہجے سے پاکستانی سیاست اور سیاستدانوں کی ناقص کارکردگی اور ایوانِ بالا میں پہنچنے والے منتخب عوامی نمائندوں کی کارگزاری کا پردہ چاک کیا ہے۔ بلاشبہ یہ ایک مکمل اور شاہکار نظم ہے۔
” کیا سین چل رہا ہے”
طوفان بدتمیزی، جگتیں ہیں، گالیاں ہیں
وہ ڈیسک بج رہے ہیں، نعرے ہیں، تالیاں ہیں
تھوک اڑ رہی ہے منہ سے، چہروں پر لالیاں ہیں
دیکھو فضاؤں میں وہ جوتا اچھل رہا ہے
کیا سین چل رہا ہے
ڈاکٹر بدر منیر قہقہے نہیں بانٹتے بلکہ ان کے پاس اپنے قارئین کو گُدگُدانے کا پورا سامان موجود ہے جس کے نتیجے میں قارئین کے لبوں پر بے ساختہ نرم گرم اور دبی دبی سی مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ ان کے پاس تضمین، تحریف اور تلفیظ جیسے ہتھیار بڑی ہی کمال مہارت سے استعمال ہوتے نظر آتے ہیں۔ قاری ان تراکیب کے ایسے برجستہ و بے ساختہ استعمال اور ان کے منفرد اور شرارتی انداز پر بے اختیار مسکرا اٹھتا ہے اور یہی اصل کامیابی ہے۔
طرح طرح کے تحائف، لباس اور سیل فون
” نہ پوچھ کیسے ترے دل میں گھر کیا ہم نے”
بدر منیر صاحب کی عقابی و زیرک نگاہوں سے معاشرے کا کوئی بھی فرد اور طبقہ نہ بچ سکا۔ آپ کا مشاہداتی کینوس نہایت وسیع ہے اس لیے آپ کی ظریفانہ شاعری معاشرتی زندگی کے جملہ نشیب و فراز کا بھرپور احاطہ کرتی ہے۔ اس غزل کی وسعت ملاحظہ فرمائیں جس میں محبوبہ کی بے وفائی کے خدشات، مہنگائی کا شکوہ، سیاسی مستقبل سے مایوسی، رشتوں کی رنگینی و سنگینی اور ادبی دنیا کی شوخی اور طنز جیسی پھلجھڑیاں اتنے دلکش انداز میں پھوٹ رہی ہیں کہ قاری کے لیے تادیر اس منظر کے سحر سے نکلنا آسان نہیں ہو پاتا۔
اس شوخ نے منہ پھیر لیا، حسبِ توقع
خدشات نے دل گھیر لیا، حسبِ توقع
کہا جانیے ملتے ہیں ٹماٹر کہاں سستے
دو سو میں فقط سیر لیا، حسبِ توقع
اس بار الیکشن کے نتیجے میں صد افسوس
کوڑے کا فقط ڈھیر لیا، حسبِ توقع
اس شوخ کے ابا نے لیا جائزہ میرا
اور جائزہ تادیر لیا، حسبِ توقع
سوچا تھا نکل جاؤں گا میں آنکھ چرا کر
شاعر نے مگر گھیر لیا، حسبِ توقع
بدر منیر کی طنز و مزاح کی شیرینی میں ڈوبی ہوئی شاعری حکمرانوں اور سیاستدانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کو چیلنج کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔
وہ سیاست کرے دھڑلے سے
جس کو کوئی ہنر نہیں آتا
قریۂ اقتدار سے کوئی
لے کے اچھی خبر نہیں آتا
لالچی کتے کا قصہ صرف بچے کیوں پڑھیں
لیڈروں کے واسطے بھی یہ سبق آموز ہو
قوم کےحق میں جو بھی تجاویز تھیں، التوا میں رہیں
جن میں ذاتی مفادات تھے، ان پہ فوراً عمل ہو گیا۔
ان کی شاعری میں ازدواجی چٹکلے جا بجا بکھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جو اس مجموعہ کلام کا فطری حسن ہیں مگر اس کے ساتھ بھی انہوں نے عصرِ حاضر کے تقریباً ہر مسئلے کو نہایت شگفتگی کے ساتھ دلچسپ پیرائے میں بخوبی بیان کیا ہے- ہماری زندگیوں پر ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے اثرات، سوشل میڈیا کی عوامی مقبولیت، اس پر ہونے والے تماشوں اور قوم کے کارناموں کو انہوں نے نہایت خوبصورتی سے سمیٹ کر سمندر کو جیسے اک کوزے میں بند کر دیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔
پاس بیٹھے ہوئے لوگوں میں ہے دوری حائل
فیس بُک تیری خرافات پہ رونا آیا
پیسے جو رکھ کے بھول گیا تھا دراز میں
یاد آ گئے ہیں آج اچانک نماز میں
یہ بھی تو کارنامہ ہے عہدِ جدید کا
نغمہ گلے میں کم ہے زیادہ ہے ساز میں
ڈاکٹر بدر منیر بنیادی طور پر سنجیدہ لہجے کے شاعر ہیں لیکن ظریفانہ شاعری کے میدان میں بھی وہ پوری شان و شوکت کے ساتھ اترے ہیں۔ ان کا پہلا ظریفانہ مجموعہ “انار دانے” اور پھر اس کے بعد “خندہ بازار” قارئین سے پہلے ہی پسندیدگی کی سند وصول کر چکا ہے اور اب “خندہ نواز” نے تو جیسے میدان میں فتح کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں۔ ڈاکٹر بدر منیر قادرالکلام شاعر ہیں۔ ظریفانہ کلام میں عصری مسائل جس چابکدستی و مہارت سے بیان کیے ہیں وہ درحقیقت قابلِ تعریف ہے۔ خندہ نواز کے مطالعے کے بعد ادبی ذوق کے حامل قارئین کا یہی مطالبہ سامنے آیا ہے کہ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ طنز و مزاح بھی سنجیدگی سے لکھا جانا چاہیے۔
کٹ رہی ہے اسی یقین کے ساتھ
عقد ہو گا کسی حسین کے ساتھ
اس سے کچھ سیکھنا نہیں ہم کو
اپنی بس دوستی ہے چین کے ساتھ
اگر پڑھانی ہے پھر بھی ٹیوشن تو کس لیے دوں میں فیس بھاری
سکول والو! تمہارے نرغے سے مجھ کو بچہ نکالنا ہے
جتنا ہے دسترس میں اسے تو سنبھالیے
پونی صدی گزر گئی کشمیر کے بغیر
محکمے تو موجود ہیں لیکن
فرض شناسی غیب ہے چندہ
درس و تدریس جیسے معزز پیشے سے وابستہ ہونے کے باعث ڈاکٹر بدر منیر کی سنجیدہ شاعری کی طرح فکاہیہ شاعری میں بھی قوم کی تربیت سازی کی جھلک نمایاں ہے۔ مگر یہاں مزاج استادانہ نہیں بلکہ دوستانہ ہے۔ سب سے پہلے وہ خود اپنے آپ پر طنز و مزاح کی قینچی چلاتے ہیں اور پھر دوسروں پر۔ اس طرح مزاح کے شگوفے بکھیرتے ہوئے بھی ڈاکٹر بدر منیر اپنے قاری کی تربیت کا فریضہ شعوری و لاشعوری طور پر بخوبی سر انجام دے رہے ہیں۔
جو اہلیہ سے مجھے بحث میں شکست ہوئی
تو میں گلی میں بڑی شان سے نکل آیا
لڑکی نہیں ساتھ میں دیں لعل و گہر بھی
درکار ہیں ایسے مجھے ساس اور سسر بھی
ایک بزرگِ محترم ہیں گھر کے کونے میں پڑے
کوئی بھی لیتا نہیں ان کی طرف جانے کا نام
فاصلے اور نفرتیں بڑھنے لگیں لوگوں کے بیچ
کیسے گل پاشی رکھیں ہم آگ برسانے کا نام
ڈاکٹر بدر منیر کی شاعری بے مقصدیت کا غیر ضروری بوجھ نہیں گھسیٹتی۔ ان کا کمال یہ ہے کہ عام قاری کی سمجھ اور مزاج کو سمجھتے ہوئے شاعری کو عوامی فریم پر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ مزاح مزاح میں ہی قوم کی اصلاح کا عنصر بھی غالب رہے۔
میں نے وہ درد سہہ کے بہت کچھ کما لیا
بھولی نہیں ہے آج بھی استاد کی سٹک
مدت سے حویلی میں محبت کا چلن تھا
نفرت نے دیا بیچ میں دیوار کا تحفہ
لگتے ہیں اسے ہیچ زمانے کے خزانے
جس شخص کو مل جاتا ہے کردار کا تحفہ
مزاح نگاری آسان کام نہیں اور اس میں ذرا سی لغزش بھی قابلِ معافی نہیں ہے کیونکہ باذوق قاری اس کو لمحہ بھر میں مسترد کر دیتا ہے- ڈاکٹر بدر منیر نے اپنی شاعری میں اس پہلو کا خصوصی خیال رکھا ہے لہٰذا آپ کے کلام میں ہر شعر پھکڑ پن سے کوسوں دور اور پر مزاح ہونے کے باوجود با معنی اور با مقصد نظر آتا ہے-
کہا تھا جو حضرت اقبال نے بہت پہلے
ذرا سا اسکو بدل دوں تو آئے بات میں رنگ
وجودِ زن کا حسیں فلسفہ بجا لیکن
سکوتِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
طنز اور ظرافت ادب کا سب سے خطرناک اور مہلک ہتھیار مانا جاتا ہے۔ اس ہتھیار کو اپنے مشاہدات و تجربات کی روشنی میں مہارت سے استعمال کرتے ہوئے انہوں نے معاشرے کے تاریک پہلوؤں پر بہت کاری ضرب لگائی ہے۔ اردگرد کے حالات و واقعات، رویوں اور تضادات کا گہری نظر سے جائزہ لینے کے بعد متنوع موضوعات کے ساتھ وہ اپنے قارئین کو ورطہءِ حیرت میں مبتلا کر دیتے ہیں- مگر اس مرحلے پر وہ اپنے قارئین کو تنہا نہیں چھوڑتے بلکہ انہیں مسائل پر غور کرنے کی دعوتِ فکر بھی دیتے ہیں اور ساتھ ہی ان مسائل کا حل بھی پیش کرتے ہیں۔
چینلوں پر گفتگو کے نام پر جاری ہے جو
جامۂ الفاظ میں لپٹا ہوا بارود ہے
ہو رہے ہیں سب وسائل خرچ سنگ و خشت پر
اور ذہنوں کی جو ہے تعمیر وہ مفقود ہے
ایک اور اہم چیز جس کے استعمال نے “خندہ نواز” میں ہم عصر مزاح نگاروں کے برعکس ایک نئی جدت اور انفرادیت پیدا کی ہے وہ انگریزی الفاظ کا متواتر اور نہایت عمدگی کے ساتھ استعمال ہے۔ کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیے۔
میں چودھویں میں اور وہ ٹونٹی گریڈ میں
لاؤں گا کس طرح اسے دل کی ٹریڈ میں
اپر کلاس میں جو نظر آئیں جانِ من
وہ خوبیاں نہ ڈھونڈ کسی سیلف میڈ میں
کر گئی ہیں دو ہی خوراکیں مجھے چنگا بھلا
دید تیری جیسے اینٹی بائیوٹک کی ڈوز ہو
مولا مری دعا کو اتنا تو ویٹ دے دے
گر وہ نہیں تو اس کی فوٹو اسٹیٹ دے دے
“خندہ نواز” میں عام قارئین کی دلچسپی کے لیے بہت کچھ ہے- یہ مجموعہ کلام اتنا دلچسپ اور مکمّل ہے کہ اس تحریر میں اپنے قارئین کے لیے کچھ اشعار کا انتخاب کرنا ایسا ہی ہے جیسے سردیوں کے موسم میں ہمالیہ کی چوٹی کو سر کرنا۔
یہ شوق مجھے چوک پہ لے آتا ہے اکثر
کیا جانے کہ وہ شوخ برآمد ہو کدھر سے
پھر ہیچ نظر آتی ہے مردانگی اپنی
بیگم مری چھپ جاتی ہے جب چوہے کے ڈر سے
تیسرے ظریفانہ مجموعہ کلام کے ساتھ ڈاکٹر بدر منیر کا ظریفانہ شاعری کی شاہراہ پر سفر پوری شان و شوکت مگر نہایت سکون اور مکمّل اطمینان کے ساتھ جاری ہے۔ وہ نئی جہتوں کی کھوج میں سبک خرامی سے رواں دواں ہیں کیوں کہ ڈاکٹر بدر منیر کا شمار ان مسافروں میں ہوتا ہے جو منزلِ مقصود پر پہنچنے کی جلدی نہیں کرتے بلکہ پرانے راستوں سے نئے راستے نکالتے ہیں اور اپنے پیچھے آنے والے قافلوں کو نئی منزلوں کا سراغ دیتے ہیں۔