عورت کی شائستگی اور مقصدیت سورج کی روشنی و تپش کی طرح عیاں اور واضح تر ہے مگر مختلف ادوار میں انسانی زندگی میں سماجی و معاشرتی مسائل کے ادوار آتے رہے ہیں جس میں انسانی کنبہ و سوسائٹی میں سے سب سے زیادہ نقصان خواتین اور عورتوں کا ہی رہا ہیں جس کے اسباب و عوامل کی درست تجزیہ و تحقیقی انداز میں کھنگالنے کی ضرورت ہے لیکن زندگی کے بنیادی اصولوں و عقائد کی طرح خواتین کے مسائل اور بنیادی نوعیت کے تصورات ہر دور کی طرح آج 21 ویں صدی میں بھی نزاکتوں بھرا ایشو و موضوع ہے جس کا اندازہ گزشتہ دنوں خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران کوئٹہ میں منعقدہ تقریب و سیمنار انقلاب اسلامی،خواتین اور عظیم اسلامی تمدن کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے ہوا اگرچہ میں نے موضوع و ماحول کی مناسبت سے ذہنی وسعت اور گہرائی میں اس اہم ترین مقدمے و مکالمے کو پیش کرنے کے لئے کچھ نازک اور حساس معاملات کو چھیڑتے ہوئے کہا کہ نزول قرآن و اسلام کے وقت عورت و دانش دونوں جبر اور دباؤ کی گرفت میں تھی تب اسلامی وحی الہٰی اور شعور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے کردار اور پاکیزہ مقام کی تعبیر نو و تعمیر نو کے لئے بنیادی شعور و آگہی کے لئے علم و حکمت قرآنی کی توضیح و آبرو مندی کا ایمان افروز مقدمہ پیش فرمایا آج 21 ویں صدی میں عورت و دانش ایک بار پھر مغربی تہذیب وتمدن اور علم و ادب جبر و زبردستی کی گرفت میں ہیں خواتین کی عظمت و رفعت اسلامی دنیا میں قبائلی روایات و ذھنیت اور مردانہ عینک سے دیکھے جاتے ہیں اور مغربی علوم و فنون میں عورت کی شائستگی اور آداب و اخلاق کے تذلیل پر چڑھ دوڑے ہیں حالانکہ عورت اپنے ہر روپ میں انسانی احترام اور تکریم و تعظیم میں مردوں سے زیادہ قابل ترجیح و قابلِ احترام ہیں کہ وہ انسان سازی اور انسان شائستگی پیدا کرنے والے ادارے اور مشین کی حیثیت رکھتے ہیں مشرق نے اپنے افکار و دانش اور وحی الہٰی و شعور نبوت ورسالت کے نور سے عورت کی شائستگی مقصدیت اور نوری وجود کی ارتقاء علم و ادب اور تہذیب وتمدن کے قوتوں و اکائیوں میں بنیادی و جوہری تبدیلی کے باعث نئی جہتیں و تعمیر نو کرنی ہوگی جس میں مردانہ عینک اور قبائلی ذھنیت سے اوپر اٹھ کر 21 ویں صدی کے سماجی ومعاشی حالات اور انسانی ذہانت و شعور و آگاہی وحی الہٰی و نبوت اور رسالت کے ارتقاء پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے ترقی یافتہ ممالک کے صف میں شامل ہوسکیں ایران و ترکی اور ملائیشیا و قطر نے خواتین کی عظمت و ترقی میں نمایاں پیش رفت کی ہیں جبکہ پاکستان و ہندوستان اور افغانستان اب تک مضبوط روایتی اسلامی تشریح قید مذہبی اور سیاسی و قبائلی گرفت میں ہیں، ہمیں ہمت و جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے عورت و دانش کی ازسرنو تعبیر نو و تعمیر نو کی طرف توجہ دینا چاہیے چونکہ اس وقت مسلم معاشروں میں سب سے زیادہ خطرناک اور المناک کہانی یہ ہے کہ علم و عمل کے درمیان نہ پاٹنے والا فاصلے پیدا ہوچکے ہیں اسلام کے ابدی و خوبصورت ترین اقدار و اصولوں پر عمل کرنے میں کامیابی حاصل نہیں ہوپاتی ہیں جس کی بنیادی وجہ عوام اور اسکالرز کے درمیان مکالمہ اور مباحث میں سب سے بڑا مسلہ ذہنی وسعت اور بندشیں ہی ہیں اس کا اندازہ اور تازہ مثال اس سیمنار میں میرے گفتگو کے بعد کوئٹہ کے ہی تین نمائندہ علماء کرام اور اسکالرز کی بندشوں اور قید مذہبی پر مشتمل سخت گیر موقف اور تقاریر تھیں ضرورت اس امر کی ہے کہ عورت و دانش کو سنجیدگی اور لمحہ موجود کی ضروریات اور علمی و سائنسی اہمیت کے حامل طریقہ کار کے مطابق ایڈریس کیا جائے ،مجلس فکر و دانش اپنے علمی و فکری مکالمے کے تسلسل میں اقوام متحدہ کے دیرپا ترقیاتی مقاصد کے حصول(Uniteed Nations Sustainable development Goals) اور حکومت بلوچستان کے وومن ایمپاورمنٹ پلان 2020 تا 2024 کو مدنظر رکھتے ہوئے چیلنجوں اور ذہنی بندشوں خاص کر قید مذہبی،مردانہ بالادستی قائم رکھنے اور قبائلی ذہنیت کی اسیری و محدودیت کو علمی و فکری دائرے کے اندر ایڈریس کرتے ہوئے اپنے سوسائٹی اور اداروں کے لئے 21 ویں صدی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے جامع و قابل قبول ورکنگ جاری رکھیں گے۔