اقوام متحدہ کے جانب سے مادری زبان کی اہمیت تسلیم کئے جانے کے بعد ساری دنیا میں ہر سال یہ دن منائے جانے کے بعد اس موضوع پر یہ بات کرنا شجرممنوع نہیں رہا کہ بنگالیوں کو “مادری زبان یعنی قومی بولی” کا حق نہ دینا ایک فاش سیاسی غلطی تھی. بنگالی جب بنگلہ زبان کو اپنی قومی بولی بنانا چاہتے تھے تو کسی کو اعتراض کرنا نہیں چاہیے تھا.
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی جانب سے 1999ع میں پوری دنیا میں 21 فروری کو “عالمی مادری زبانوں کا دن” کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیاتھا، جسے بعد میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2002ع میں قرارداد نمبر 56/262 کے تحت پاس کیا. اب پاکستان سمیت پوری دنیا میں یہ دن منایا جاتا ہے. یہ بات بھی ہم سب جانتے ہیں کہ اس تاریخ کو یہ دن اس لئے منایا جاتا ہے کہ 21 فروری 1952ع کو ڈھاکا یونیورسٹی کے باہر “بنگلہ بھاشا تحریک” کےلئے احتجاج کرنے والے طلباء پر فوج نے تشدد اور فائرنگ کی تھی جس میں کافی سٹوڈنٹس شہیداور زخمی ہوگئے تھے۔
ہمارے بزرگ گواہ ہیں کہ ایسا بالکل نہیں تھا کہ اس وقت پاکستان میں مادری زبانوں کے حق میں احتجاج صرف بنگال میں ہو رہا تھا بلکہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں بھی جاری تھا مگر پنجاب میں ییہ آواز بہت کم تھی ، اتنی کم کہ سنائی بھی نہیں دے رہی تھی، پنجاب میں اکثریت کی خاموشی ،باقی قومیتیوں کے مطالبےمیں وزن ڈالنے کے بجائے مخالفت کا باعث بنی. دوسری طرف بنگالی زبان صدیوں سے ترقی یافتہ ، اردو کے مقابلے میں زرخیز، دلفریب اور بنگالی قوم کےخمیر میں شامل ہوچکی تھی.
سوال یہ ہے کہ اس وقت جب کہ بنگال اپنی زبان کے لئے اتنا سنجیدہ تھا کہ اپنے بچے تک قربان کر رہا تھا تب پنجاب اردو کے عشق میں اپنی ماں بولی پنجابی زبان تک کو قربان کیوں کر رہا تھا؟
اس سوال کا جواب، پنجاب کے نوجوانوں پر نصف صدی کے بعد یآشکار ہوا کہ “وہ جو خاموش تھا وہ پنجاب تھا مگر جو مخالف تھا وہ پنجاب نہیں تھا، پنجابی نہیں تھا، دھرتی زاد نہیں تھا، کوئی اور تھا”.
پنجابی قوم پرست دانشور شہزاد ناصر کا کہنا ہے کہ “پاکستان میں سرکاری موقف کو پنجابی موقف سمجھنے کی غلطی ہمیشہ کی گئی ہے، سچ تو یہ کہ پنجابی زبان کی طرح پنجابی عوام کو بھی شروع سے گونگا رکھا گیا، پنجابی تو خود اپنی ماں بولی کو ترس رہے تھے اور آج بھی ترس رہے ہیں. پنجاب کے عوام اس بات کا دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ “پنجاب ، بنگالی عوام کے بنیادی حق یعنی بنگالی زبان کے حق خاموش تو ضرور تھا مگر مخالف نہیں تھا. اصل مخالف پنجاب میں آباد اردو اسپیکنگ / اترپردیش سے آیا حکمران اور افسر شاہی طبقہ تھا، جو اپنے موقف کو پاکستان اور خاص طور پر پنجاب کا موقف بتا کر پیش کر رہے تھے. کم علمی، رابطے کے ذرائع نہ ہونے اور سرکار ی اداروں سے دوری کے باعث پنجابوں کا درست موقف سامنے نہیں آسکاتھا-“
شہزاد ناصر کا کہنا ہے کہ” اس وقت پنجاب میں پنجابی زبان کو دوبارہ زندہ کرنے کی تحریک چل رہی ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجابی زبان کے لئے کام کرنے والے تمام پنجابی ، سندھی، بلوچی اور پشتون زبانوں کا حق بھی ساتھ ہی مانگ رہے ہیں. نہ صرف یہاں تک بلکہ اس سے بھی آگے سوچ رہے ہیں. سندھی اور پنجابی زبان اور ثقافت کے لئے کام کرنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ برصغیر کی تقسیم سے پہلے اگر سندھیوں اور پنجابیوں کوعلم ہوتا کہ لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں بھارتی لوگ مہاجر بنا کر ان کی دھرتی پر آباد کردئیے جائیں گے ، ہمارے اقتدار پر بھی قابض ہو جائیں، اور ہماری تاریخی زبانوں کو ختم کرکے اپنی زبان راج کریں گے، یہاں کی ہزاروں سالوں کی تہذیب کو گنوار قرار دینگے تو پہلے ہم اس بات کی گارنٹی لے لیتے، کہ جس آزادی کا وعدہ کیا گیا ہے کیا ہمیں وہ آزادی اور خودمختاری دی.” بھی جائے گی؟
پنجابی زبان کے ایک سیوک ندیم احمد اس سلسلے میں اور بھی زیادہ سخت موقف رکھتے ہیں.. ان کا کہنا ہے کہ “سندھیوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ پنجاب میں سندھ سے زیادہ اردو بولنے والے مہاجر رہتے ہیں جبکہ سندھی یہ کہتے رہتے ہیں کہ پاکستان کے قیام کے بعد پنجابیوں نے اردو بولنے والے مہاجروں کو سندھ بھیج دیاکرتے تھے ،پنجاب آنے والے اردو بولنے والے مہاجروں کو پنجابی کہا کرتے تھے کہ “تم سندھ جاؤ۔ پاکستان اگے وے” ۔
قیام پاکستان کے بعد اترپردیش کے اردو بولنے والے ہندوستانی سندھ بھی گئے اور پنجاب بھی آئے۔ سندھ کے دیہی علاقوں میں زیادہ تر راجستھان اور گجرات سے آنے والے مہاجر آباد ھیں۔ اترپردیش کے اردو بولنے والے کم ہیں۔ اس لیے دیہی سندھ میں رھنے والے مہاجر سازشی ہیں اور نہ زیادہ شرارتی ، لیکن سندھیوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے رہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ “سندھ کے شہر کراچی میں 51 لاکھ مہاجروں کے مقابلے میں پنجاب میں 53 لاکھ مہاجر آباد ہیں اور وہ بھی زیادہ تر اترپردیش کے اردو بولنے والے مہاجر ھیں۔ جبکہ راجستھان اور گجرات سے آنے والے مہاجر بہت کم ھیں۔ اس لیے اترپردیش کے اردو بولنے والے مہاجروں کی طرف سے کراچی کے مقابلے میں پنجاب میں سازشیں اور شرارتیں زیادہ عروج پر رہی ہیں۔”
ندیم احمد کا خیال ہے” کہ جس طبقے کا علاقے کے بڑے شہر پر راج ھو۔ وہ طبقہ اس علاقے کے لوگوں پر راج کرتا ہے۔ پنجاب میں ہوا یہ کہ پاکستان کا قیام ہوتے ہی مولانا مودودی نے لاہور میں ڈیرے ڈال کر پنجابیوں کو پنجابی کے بجائے مسلمان بنانے کا کام شروع کردیا۔ یہ کام کرنے کے لیے مودودیت کے فلسفے کی پیروی کرنے کو مسلمان ہونے کے لیے بنیاد بنادیا گیا۔ جبکہ پنجابی صوفیا کرام کے پیروکار تھے۔” دوسری طرف سرسید احمد خان کے پیروکار ‘ علی گڑھ کے تعلیم یافتہ اردو بولنے والے مہاجروں نے لاہور پر قبضہ کرکے پنجابیوں سے پنجابی شناخت چھیننے کا کام شروع کردیا۔ یہ کام کرنے کے لیے اردو کو پاکستانیوں کی زبان ہونے کو بنیاد بنادیا گیا۔ جبکہ پنجابیوں کی زبان پنجابی تھی۔”
ان کا کہنا ہے کہ “لاہور والے مولانا مودودی کے پیروکاروں سے جان چھڑائیں گے تو ہی پنجابی بن سکیں گے۔ لاہور والے سرسید کے پیروکاروں سے جان چھڑوائیں گے تو ہی پنجابی بولنا شروع کریں گے۔ لاہوریوں کو سیدھی سیدھی بات کرنی چاھیے کہ لاھور اب مولانا مودودی کے پیروکاروں اور سرسید کے پیروکاروں سے جان چھڑوانا چاہتا ھے۔ لاہوریے خود ہی پنجابی بننے اور بولنے لگیں گے۔”
اس پون صدی کی تاریخ میں کچھ پنجاب اور پنجابی زبان کے عاشق پھر بھی اپنی ماں بولی کی ترقی اور ترویج کی کوشش کرتے رہے ہیں. استاد دامن، صوفی غلام مصطفیٰ تبسم، بابا نجمی اور راول راٹھ جیسے شعراء نے یہ دیا جلانے کی کوشش کرتے رہے ہیں. اس وقت پنجاب میں پھر سے پنجابی بولی کی ترویج کی کوششیں جاری ہیں. دلچسپ بات یہ ہے کہ سرکاری عدم دلچسپی کے باوجود اس وقت پنجاب میں لکھے جانے والے ادب خاص طور پر شاعری میں پنجابی قومیت کو نئے انداز سے پیش کیا جارہا ہے. اب تو لاہور میں پنجابی ادبی بیٹھکیں بھی ہفتہ وار اور ماہوار ہو رہی ہیں. جو لوگ پنجابی سنگت پاکستان کی ہفتہ وار بیٹھک میں شریک ہوتے ہیں ان کو پتا ہوگا کہ اب یہ بیٹھک ایک ڈیڑھ گھنٹے سے بڑھ کر تین سے چار گھنٹے تک جاری رہنا شروع ہوگئی ہے. سنگت کے جنرل سیکرٹری یوسف پنجابی کا کہنا ہے کہ “پہلے ہمیں صرف مشاعرے پر اکتفا کرنا پڑتا تھا، اب ہر ہفتے مشہور پنجابی ڈرامے، کہانی اور کتاب پر تفصیلی بیٹھک ہوتی ہے، ساتھ میں نئی کہانی ہے تنقید کے پیش کی جاتی ہے، اور آخر میں مشاعرہ بھی ہوتا ہے، ہمارے لئے خوش آئند یہ بات ہے کہ اب لکھنے والا صرف بلبل، کاکل، شبنم، پھول، گلستان یا پھر ہجر و فراق کی باتیں نہیں کرتا اب بھوک، افلاس، عام آدمی کا درد، دھرتی کے مسائل، پنجابی بولی کا حق اور پنجابی ثقافت کو جیدان دینے کی بات ہوتی ہے. پنجاب کے سیاسی وایومنڈل کے ساتھ ساتھ پنجاب کا ادب بھی تبدیل ہو رہا ہے. اب زیادہ تر حقائق کی بات ہوتی ہے، پنجابی شاعر اس یوٹوپیا سے نکل رہا ہے جس میں آدھی صدی سے قید تھا.” نوجوان.
پنجابی شاعر” عرفان کھوکھر” کا کلام کچھ اس طرح سے ہے :
اُٹھ پنجابی شیرا اُٹھ
کُتیاں پایا گھیرا اُٹھ
واجاں مارے دھرتی ماں
مننا حق اے تیرا اُٹھ
کھا جا کالیاں راتاں نوں
لے کے نور سویرا اُٹھ
دُلّا کھرل تے بھگت ایں تُوں
حاکم بن جا زیرا اُٹھ
پاء اج تینوں للکر دائے
شاوا اُٹھ اوئے سیرا اُٹھ
اُٹھ وارث دیا وارثا
پا جھنڈیالے پھیرا اُٹھ
تڑکے رب نوں سجدہ کر
چُن لے رحمت کیرا اُٹھ
ونڈاں پاون والے نوں
پہلا تھپڑ میرا اُٹھ
دوسرے شاعر اکرم رانا کا بھی کلام ہوجائے:
ہر تھاں تے ہر حال پنجابی بولاں گے
میں تے میرے لال پنجابی بولاں گے
جگ توں وکھری تے انمُلی ماں بولی
قسمیں دل دے نال پنجابی بولاں گے
ایہ بولی اے، لجاں شرماں انْکھاں دی
ہاں انکھی! لج پال پنجابی بولاں گے
آؤ رل کے وعدہ کرئیے سارے جی
اپنے بالاں نال پنجابی بولاں گے
جِناں ٹِل دےنال توں سانوں روکیں گا
اوناں ٹِل دے نال پنجابی بولاں گے
ہر اک پریہا اندر ویکھیں اکرم شاد
کرکے بھال سنبھال پنجابی بولاں گے
یہ سب کچھ کیا ہے؟ کیوں ہے؟ اور آخر کیا ہوگا؟
اس سوال کا جواب سندھ کی ایک نجی آرٹس اینڈ کلچر یونیورسٹی کے چانسلر ڈاکٹر فتاح دائودپوتہ یوں دیتے ہیں کہ “گذشتہ پون صدی سے پنجاب کے عوام کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ پاکستان بننے کے اصل بینیفشری آپ ہیں، ریاست اور سرکار صرف وہ ہی اقدامات اٹھائے گی جس سے آپ کا فائدہ ہو. پنجاب کے عوام کے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ وہ کیپیسٹی بلڈنگ کے بجائے” بلڈنگ” دیکھنے اور اس پر ایمان لانے والے لوگ ہیں، اب جب پنجاب میں پنجابی بولنے والوں کی تیسری نسل ملک سے باہر نکل کر دنیا دیکھ چکی ہے اس لئے اب وہ کنویں کے مینڈک نہیں رہے. اس نظریاتی تبدیل میں سب سے بڑا کردار سندھ میں پیدا ہونے اور وہاں کے اسکولز، کالیجز اور یونیورسٹیز میں پڑہنے والے ان نوجوان پنجابیوں کا ہے، جن کے بزرگوں کو ون یونٹ کے دور میں سندھ میں زمیں عطا ہوئیں. یاد رہے کہ پنجابی قومیت کی بنیاد پر سب سے پہلی شاگرد تنظیمیں، سیاسی جماعتیں، ادبی تحاریک اور فلاحی ادارے پنجاب کے بجائے سندھ میں بنیں. پنجاب میں تو جماعت اسلامی اور اس کی ذیلی اسلامی جمعیت طلبہ کسی اور طلبہ پنیری کو پنپنے ہی نہیں دے رہی تھی. اس اثنا میں نوجوان لیفٹ کی سیاست سے تو وابستہ ہوسکتے تھے پنجابی قومی سیاست سے نہیں.”
اب پنجاب کی سیاسی صورتحال آہستہ آہستہ یوں تبدیل ہورہی ہے کہ پنجاب میں کئی سالوں کے بعد ایسے روایتی دن منائے جا رہے ہیں جو صرف اور صرف پنجاب کی علامت ہیں. پنجاب میں پہلی بار پنجاب کے تاریخی عظیم ہیرو راجا پورس کا دن منایا گیا، پنجاب کے پندرہ سے زیادہ شہروں میں “لوہڑی” کا تہوار منایا گیا اور اب بسنت منانے کی بھی تیاری ہو رہی ہے. صرف لاہور میں لوہڑی کا تہوار تین دن تک منایا گیا جس میں نہ صرف سینکڑوں فیملیز نے شرکت کی مگر آئے ہوئے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نے بھی بھرپور شرکت کی اور آگ کے الائو پر دیر تک رقص بھی کرتے رہے. پنجاب سرکار بھی اس سلسلے میں کچھ فراخ دل ثابت ہوئی اور اس سال سندھ میں منایا جانے والے “سندھی ثقافتی دن” کے موقع پر لاہور آرٹس کائونسل نے سندھ کے مشہور فوک نغمے “ہوجمالو” کو نیا انداز دیا، اور اس نغمے کو سندھی کے ساتھ ساتھ پنجابی، بلوچی، پشتو اور شینا میں بھی ترجمہ کرکے پیش کیا گیا. پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر اشوک کمار کے لکھے گئے اس نغمے کو سندھ کے مشہور فوک گلوکار شوکت فقیر کے آواز میں رکارڈ کیا گیا، جس کو لاہور میں فلمایا بھی گیا. دلچسپ بات یہ ہوئی کہ اس نغمے کا پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بوزدار نے 6 دسمبر کو وزیر اعلیٰ ہائوس میں اجرک پہن کر افتتاح کیا، اور کہا کہ “یہ نغمہ پنجاب سرکار اور عوام کی جانب سے سندھ کے عوام کے لئے” سندھی ثقافتی دن” کے موقع پر تحفہ ہے.”
تاریخ گواہ ہے کہ لاہور میں آنے والی تبدیلیوں کو ہی پاکستان میں آنے والی تبدیلیاں مانا جاتا ہے، سو لاہور تبدیل ہو رہا ہے.
اب کے بار 21 فروری 2021ع کو جب دنیا بھر میں” مادری زبانوں کا عالمی دن” منایا جارہا ہے تب پنجاب میں پہلی بار “مان بولی دہاڑ” بہت بڑے پیمانے پر منائے جانے کا بندوبست کیا جارہا ہے. پنجابی زبان، ثقافت اور ادب کے لئے کام کرنے والی بیسیوں جماعتیں مل کر یہ دن منانے کا اعلان کرچکی ہیں. اس سلسلے میں سب سے بڑا جلسہ پنجاب اسمبلی کے سامنے چیئرنگ کراس چوک پر کیا جائے گا. اس پروگرام کو کامیاب کرنے کے لئے روزانہ کہ بنیاد پر میٹنگز ہو رہی ہیں، سوشل میڈیا پر سینکڑوں نوجوان ایک مہم چلا رہے ہیں. نئے نئے ہیش ٹیگ بنا رہے ہیں، واٹس ایپ پر بنے کئی گروپس میں بیسیوں آرگنائزر اور سینکڑوں رضاکار شامل ہیں، جو اپنے جیب خرچ سے چندہ کرکے کام چلا رہے ہیں. اس وقت میں پنجابی بولی میں لکھنے والے دانشور کمال چابکدستی سے نوجوانوں کی رہنمائی کر رہے ہیں. یہ ساری صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، سندھ کا ادیب اور قومی کارکن پنجاب کے نوجوانوں کے اس عمل کو حوصلہ افزا عمل سمجھ رہا ہے. ان خبروں کو سندھی پریس میں مناسب جگھ بھی مل رہی ہے. لاہور میں مقیم سینیئر سندھی صحافی دوست محمد چنا کا خیال ہے کہ پنجاب میں تبدیلی سندھ سے متاثر لگتی ہے، مگر اس تبدیلی کے عملی صورت میں آنے کی وجھ مشرقی پنجاب میں آنے والی سیاسی تبدیلی بھی ہے، بھارتی پنجاب کا نوجوان اپنی زبان اور ثقافت کے لئے کافی سرگرم ہورہا ہے، جس کی کا اثر لاہور تک محسوس کیا جاسکتا ہے. پاکستانی پنجاب کے لوگ یہاں جب کوئی سیاسی تحریک نہیں چلا سکتے تو دہلی میں چلنے والی کسان تحریک میں اپنا حصہ جاندار طریقے سے ڈال رہے ہیں. پاکستان شاعر اور گلوکار بھارتی پنجاب کے لوگوں کا مورال بلند کرنے کے لئے نئے نئے نغمے اور ترانے تخلیق کر رہے ہیں.”
جو لوگ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں “پنجاب جاگے تو پاکستان جاگے گا” وہ یہ سمجھتے ہیں پنجاب میں پنجابی قومیت کے تصور کا پھر سے ابھرنا جہاں اجتماعی طور پر ملک اور جمہوریت کے لئے نہایت فائديمند ثابت ہوگا، وہاں انفرادی طور پر پنجاب کے لئے اور بھی زیادہ فائدہ ہوگا، کہ چھوٹے صوبوں میں پنجاب کے حوالے سے جو آدہی صدی سے غلط فہمیاں موجود ہیں ان کو حل یا تحلیل کرنے میں خاطر خواہ مدد ملے گے.
پاکستان میں اگر شروع سے ہی تمام قومیتیوں کو تسلیم کیا جاتا اور اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی، پنجابی، بلوچی، سندھی اور پشتو کو بھی قومی زبان قرار دیا جاتا تو صورتحال یکسر مختلف ہوتی.
ہم بھلے نہیں جانتے مگر دنیا جانتی ہے کہ بھارت میں “ایک انڈیا” کو نعرہ لگانے کے باوجود ایک دو نہیں بلکہ 23 زبانوں کو قومی زبانوں کو درجہ دیا گیا ہے، جن آسامی، بنگالی، پنجابی، سندھی، کشمیری، اردو، بودو، ڈوگری، انگریزی، گجراتی، ہندی، کناڈا، کونکانی، متھیلی، ملیالم، مراٹھی، مئیٹی، نیپالی، اوڑیائی، سنسکرت، سنتالی، تامل اور تیلگو کو قومی زبانوں کو درجہ دیا گیا ہے، جبکہ ان کے سوا اور بھی 22 زبانوں کو نہ صرف تسلیم کیا گیا ہے بلکہ ان زبان بولنے والوں کو اپنی ماں بولی میں تعلیم حاصل کرنے کا بنیادی حق دینے کے ساتھ ساتھ ان ریاستوں میں دوسری یا متبادل سرکاری زبان کا بھی درجہ ملا ہوا ہے. یہ اس ملک میں ہو رہا ہے جہاں ایک نہیں چار سے زیادہ مذاہب کے ماننے والے علحدہ علحدہ کروڑوں کی تعداد میں بستے ہیں، ہر دین اور دھرم میں مسلکی اور سماجی اونچ نیچ کا یہ عالم ہے ایک دوسرے کے سائے سے نفرت کرتے ہیں.
بھارت میں اس وقت سیاسی صورتحال کچھ اچھی بھی نہیں، وہاں بھی وشوا ہندو پریشد اور شو سنہا سے متاثر بھارتیا جنتا پارٹی جیسی مذہبی شدت پسند سیاسی طاقتیں حکومت میں آنے کے بعد ریاست کو ہندوتوا جیسا مذہبی رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہیں. مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اس صورتحال میں بھی عوام سےمادری زبانوں کا حق نہیں چھینا جا رہا.
کتنی عجیب اور دلچسپ بات ہے کہ مذہبی سخت گیر اور ہندوتوا کے حامی شدت پسند بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک میں لوگوں سے مادری بولی چھیننے تمام مادری زبانوں کو ڈیجیٹلائزڈ کرنے کا حکم دیا ہوا ہے. ان کے “ڈیجیٹل انڈیا اقدام” کے ایک حصے کے طور پر ، ملک کی 23 قومی زبانوں کو مک ڈیجیٹلائزڈ کیا جائیگا، اور پورے ملک کا پورا مواد ایک وقت میں تمام زبانوں میں م جود ہوگا، اور اس عمل. کو ہندوستان کی دیگر 234 تسلیم شدہ زبانوں تک بڑھایا جائے گا۔ اس ڈیجیٹلائزیشن پراجیکٹ کا آغاز 2016ع میں ٹیپو سلطان کے شہر. میسور سے کیا گیا تھا. اب تک بھارت کی 60 زبانوں کو ڈیجیٹلائزڈ کیا گیا ہے.اور یہ کام وفاقی ادارہ “سینٹرل انسٹیٹیوٹ آف انڈین لینگویجز” کر رہا ہے.
پاکستان سرکار کو بھی چاہیے کہ اپنی دھرتی پر ہزاروں سالوں موجود تہذیب اور تمدن کو عزت بخشے، یہاں کی زبانوں کو بھی قومی زبانوں کو درجہ عطا کرے، بچوں کو پرائمری سے ہاء اسکول تک اپنی ماں بولی میں پڑھنے کا بندوبست کرے. نصاب میں دھرتی، رہتل اور تہذیب سے جڑے کرداروں کو شامل کرے اس سے ہمارے نوجوان کی اپنی دھرتی اور تہذیب سے انسیت میں اضافہ ہوگا. باقی زبردستی کی مہندی تو نہیں لگ سکتی، گذشتہ پون صدی اس بات کی گواہ ہے، اور 21 فروری کا دن تو چشم دید گواہ۔